ایک طویل عرصے کے بعد پاکستانی عوام کو اچھی خبر سننے کو ملی۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)کے شکنجے سے نکلنے کی پاکستانی کوششیں بارآور ثابت ہوئی ہیں۔ پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا۔ حکومتی ذمہ داران اور عسکری اداروں کے سربراہان کی جانب سے مبارکباد دے دی گئیں۔وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس کامیابی پر قوم کو مبارکباد دی۔ اس بڑی کامیابی کا سہرا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام ہے جنہوں نے عالمی رسک بیسڈ اسٹریٹیجی کی پاسداری کی روایت برقرار رکھی۔ پاکستان نے فیٹف میں دیے گئے تمام اہداف وقت سے پہلے مکمل کیے۔ پاکستان نے تمام نکات پر عمل درآمد کر کے ذمہ دار ریاست کا ثبوت دیا۔اس عمل میں آرمی چیف نے کلیدی کردار ادا کیا اور اداروں کے ساتھ مل کر نکات پر عمل یقینی بنایا۔ بھارت کی کوشش تھی کہ پاکستان بلیک لسٹ ہو لیکن پاک فوج نے سازش کو ناکام بنایا۔ فیٹف کے تمام نکات پر عمل کرنے کے بعد پاکستان گرے سے وائٹ لسٹ کی طرف گامزن ہے۔ آرمی چیف کے حکم پر میجر جنرل کی سربراہی میں سپیشل سیل قائم کیا گیا تھا۔ سیل نے مختلف محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوآرڈی نیشن میکنزم بنایا جس کے تحت ہر پوائنٹ پر ایک مکمل ایکشن پلان بنایا گیا۔
سیل نے دن رات کام کر کے منی لانڈرنگ، ٹیرر فنانسنگ اور بھتہ خوری پر قابو پایا۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ضمن میں تمام پوائنٹس پر عمل ہو چکا ہے۔ منی لانڈرنگ کے سدباب کے لیے تمام 7 پوائنٹس پر عمل کیا گیا جو اہم پیشرفت تھی۔ پاکستان کو فیٹف کی جانب سے 2018 میں 27 نکاتی ایکشن پلان دیا گیا تھا۔ جون 2022 میں پاکستان کے تمام 27 ایکشن آئٹمز مکمل کیے گئے تھے۔ پاکستان کی جانب سے فیٹف کا آخری ایکشن پلان بھی جون 2022 میں مکمل کیا گیا۔
پاکستان کو جون 2021 میں فیٹف کی جانب سے ایک اور ایکشن پلان دیا گیا۔ پاکستان کے لیے فیٹف کے دونوں ایکشن پلانز 34 نکات پر مشتمل تھے۔ پاکستان نے 2021 کا ایکشن پلان مقرر ٹائم لائنز جنوری 2023 سے پہلے مکمل کیا۔ پاکستان نے فیٹف کے خدشات کو دور کرنے کے لیے جامع حکمت عملی اور روڈ میپ تیار کیا۔ فیٹف نے نامزد افراد کی فہرست میں پاکستان کی پیشرفت کو سراہا۔ماضی میں بد اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ جب پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کو بتایا کہ ہم نے نیشنل ٹاسک فورس تشکیل دی ہے تو انہوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ ہم اس مرتبہ بھی جھوٹ بول رہے ہیں ہم سے میٹنگ کے منٹس طلب کیے اور خود آکر جائزہ بھی لیا۔ان حالات میں پاکستان کے تمام ادارے یکجا ہوئے اس لیے میں تو یہ کہوں گا کہ یہ پوری پاکستانی قوم اور تمام حکومتی اداروں خصوصی طور پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہے۔تاہم کچھ اقدامات ایسے ہیں جن کی انجام دہی پاکستان کے عسکری اداروں کے عملی تعاون کے بغیر ممکن نہ تھی۔اس تعاون کی تفصیلات سے قبل یہ عرض کرنا بھی مناسب ہے پاکستان 2008 سے ایف اے ٹی ایف کی مانیٹرنگ لسٹ میں شامل تھا۔ کہ 2010 کے بعد بھی ایف اے ٹی ایف انتظامیہ کی جانب سے پاکستانی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جاتا رہا۔جنوری 2018 میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا گیا۔لیکن اس مرتبہ شکایات اور شرائط اتنی سخت تھیں جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔اس کی شاید وجہ یہ تھی کہ ایف اے ٹی ایف کی انتظامیہ میں بھارتی اثر و نفوذ میں اضافہ ہو چکا تھا اور غیر محسوس طریقے سے پاکستان کے گرد ایسا شکنجہ کس دیا گیا جس سے نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی متاثر ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات معدوم ہوکر رہ گئے۔2017 اور 2018 میں حکومتی سطح پر ان اقدامات پر سنجیدگی نہ دکھائی گئی۔2019 میں پاکستان کے عسکری اداروں نے اس سنگینی کو محسوس کیا اور حکومت کی درخواست پر عملی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔2019 میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی نگرانی میں جی ایچ کیو میں ایک خصوصی سیل قائم کیا گیا۔اس سیل نے جب کام شروع کیا تو اس وقت تک ایف اے ٹی ایف کے 27 نکات میں سے صرف 5 نکات پر عملدرآمد جاری تھا۔جی ایچ کیو میں قائم اس سیل نے 30 سے زائد محکموں، وزارتوں اور ایجنسیوں کے درمیان باہمی رابطے کا ایک نظام بنایا۔اس کو آرڈینیشن میکنزم کے تحت ہر پوائنٹ پر ایک مکمل ایکشن پلان ترتیب دیا۔اور پھر ان تمام محکموں وزارتوں اور ایجنسیوں سے اس پر عمل درآمد بھی کروایا۔پاک فوج کے قائم کردہ سیل نے دن رات کام کرتے ہوئے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ پر بھی ایک مؤثر لائحہ عمل ترتیب دیا۔اس منظم کام کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان نے اپنا مطلوبہ ہدف جو جنوری 2023میں مکمل ہونا تھا وہ 2022 کے وسط میں مکمل کرلیا۔افواج پاکستان کی زیرنگرانی قائم کیے گیے اس سیل نے اپنی قومی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے رسک اسسمنٹ پلان مرتب کیاجس کے بعد گزشتہ چاربرس میں پاکستان میں نہ صرف دہشت گردوں کی مالی معاونت میں کمی آئی بلکہ منی لانڈرنگ میں بھی نمایاں کمی دیکھی گئی۔اس دوران دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث 85 فیصد افراد اور اداروں کے اثاثے ضبط کیے گئے۔اس سیل کی جانب سے پاکستان کے تمام محکموں کو مکمل معاونت فراہم کی گئی۔ایف بی آر نے رئیل سٹیٹ کے کاروبار اور جیولرز کی طرف سے ادائیگیوں کو منظم کیااور انہیں ایک نیٹ ورک کا پابند کیا۔ڈی جی ایم او کی سربراہی میں قائم اس ادارے نے 1700 سے زائد مختلف غیر قانونی کاروباروں کی نگرانی کی۔سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے 146697 کیسز کا جائزہ لیا اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ان تکنیکی اقدامات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا منظم نیٹ ورک توڑنے کے لیے پاکستان کے عسکری اداروں نے اپنی مہارت کا ثبوت دیا۔ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے پاکستانی شہریوں کی جان، مال محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے۔ملک کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیتے ہوئے وہ تمام اقدامات کئے جو پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے ممد و معاون ثابت ہوسکتے تھے۔آج پاکستان دہشت گردوں کے لیے محفوظ جگہ نہیں رہا۔آج کا پاکستان دہشت گردوں کی مالیاتی معاونت میں ملوث نہیں۔آج کا پاکستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں۔آج کا پاکستان دہشت گردوں کے حملوں کا شکار نہیں۔پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا پراجیکٹ ایک غیر معمولی منصوبہ تھاجس کی تکمیل کے لیے ہر سطح کے افسران نے قربانیاں پیش کیں۔اپنی معمول کی تعطیلات کو قربان کیا۔اپنے خاندانوں سے دوری اختیار کی۔مادر وطن کے ان خاموش مجاہدین نے پاکستان کو ایک مضبوط ، مؤثر اور طاقتور ریاست کی شکل میں کھڑا کر دیا۔ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی کہانی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک پولیس کی کارکردگی کا ذکر نہ کیا جاے۔اس ادارے نے فرنٹ لائن پر کام کیا۔اسکے افسران اور سپاہیوں نے بہترین پیشہ ورانہ معیار کے مطابق خدمات سرانجام دیں۔ان اداروں نے ثابت کیا کہ اگر انہیں کام کرنے کا موقع فراہم کیا جاے تو وہ صلاحیت کے اظہار میں کسی محکمہ سے پیچھے نہیں۔وزارت خارجہ کا کردار بھی قابل تحسین رہا۔اس عالمی فورم پر پاکستان کی حمایت میں اضافے کے لیے دفتر خارجہ متحرک رہا۔مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن دکھائی دی ہے جس نے اہل وطن کو مسرور کردیا ہے۔پاک فوج نے ایک مرتبہ پھر اپنے عملی اقدامات سے اہلیان پاکستان کے دل جیت لیے۔ ||
مضمون نگار لاہور اور کراچی میں قائم جسٹس پیرمحمد کرم شاہ انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے بانی ڈائریکٹر ہیں۔
[email protected]
تبصرے