پاکستان کی ریاست ، حکومت ، حزب اختلاف اور اہل علم و دانش کی مدد سے تیار کی جانے والی '' قومی سکیورٹی پالیسی '' کا دستاویز ایک اہم بڑی کوشش تھی ۔ اسی اہم قومی سکیورٹی پالیسی کے دستاویز پر قومی اتفاق رائے کو بھی ممکن بنایا گیا او ریہ عمل مختلف فریقین کے درمیان مشاورت کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا تھا ۔اس نیشنل سکیورٹی پالیسی میں ہمیں چار بڑے نکات ملتے ہیں ۔ اول جیو معیشت اور جیوتعلقات کو بنیادی فوقیت دی گئی جس میں علاقائی ممالک سے تنازعات کا خاتمہ اور بہتر تعلقات او راس تعلق میں ریاستی مفاد سمیت معیشت کو اہمیت دی گئی۔
پاکستان کو محض سیاسی بحران کا ہی سامنا نہیں بلکہ ریاست کے محاذ پر کئی طرح کے داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے ۔کیونکہ آج کی گلوبل دنیا میں قومی مسائل کو کسی بھی سطح پر سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھا جاسکتا او ران معاملات کو علاقائی او رعالمی سطح کے چیلنجز کے ساتھ جوڑ کر ہی ہم پرکھ سکتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ایک عمومی رائے یہ موجود ہے کہ داخلی ریاست کا استحکام ہی علاقائی او رعالمی سطح پر ہمیں اپنے فیصلوں میں ایک مضبوط ریاست کے طور پر کھڑا کرتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ سیاست سے جڑے ماہرین اسی نقطہ پر فوقیت دیتے ہیں کہ ہمیں اپنے داخلی سطح کے مسائل کے حل میں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اسی طرح ایک اور بنیادی نقطہ یہ دیا جاتا ہے کہ معیشت کی ترقی بھی سیاسی استحکام کو مضبوط بنا کر ہی ممکن بنائی جاسکتی ہے ۔کچھ لوگ قومی سکیورٹی کو محض ایک انتظامی مسئلہ سمجھتے ہیں جبکہ یہ مسئلہ محض انتظامی نہیں بلکہ مجموعی طور پر ایک بڑا سیاسی مسئلہ ہے ۔کیونکہ اسی سیاسی مسئلہ کی بنیاد پر ہمیں اپنی قومی ترجیحات کا تعین کرنا ہوتا ہے اور طے کرنا ہوتا ہے کہ کون سے فیصلے ہم کو ریاستی سطح پر مضبوط کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔
پاکستان کی ریاست ، حکومت ، حزب اختلاف اور اہل علم و دانش کی مدد سے تیار کی جانے والی '' قومی سکیورٹی پالیسی '' کا دستاویز ایک اہم بڑی کوشش تھی ۔ اسی اہم قومی سکیورٹی پالیسی کے دستاویز پر قومی اتفاق رائے کو بھی ممکن بنایا گیا او ریہ عمل مختلف فریقین کے درمیان مشاورت کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا تھا ۔اس نیشنل سکیورٹی پالیسی میں ہمیں چار بڑے نکات ملتے ہیں ۔ اول جیو معیشت اور جیوتعلقات کو بنیادی فوقیت دی گئی جس میں علاقائی ممالک سے تنازعات کا خاتمہ اور بہتر تعلقات او راس تعلق میں ریاستی مفاد سمیت معیشت کو اہمیت دی گئی۔ دوئم برملا یہ اعتراف کیا گیا کہ ہم مستقبل میں دنیا کے ساتھ نہ تو کسی تنازعات کا حصہ بنیں گے او رنہ ہی کسی کی جنگ میں حصہ دار بنیں گے۔ہمارا کردار ملکوں کے درمیان تنازعات کا خاتمہ اور دوطرفہ تعاون کی بنیاد سے جڑا ہوگا۔ سوئم داخلی گورننس کی بہتری میں فوقیت دی جائے گی اور قومی سکیورٹی پالیسی کو قومی ترقی اور عام آدمی کے مفادات کو عملی سطح پر فوقیت کے ساتھ جوڑ کر فیصلہ سازی کے عمل کو مضبوط بنایا جائے گا۔ چہارم ملک میں داخلی سطح کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہم قومی اداروں کو مستحکم کرنے ، قانون کی پاسداری کی بنیاد پر اصلاحاتی عمل کو فروغ دیں گے اور انتہا پسندی او ردہشت گردی سے نمٹ کر قومی ریاست کو عملی طور پر پرامن ریاست کے طو رپر پیش کریں گے ۔
ہمیں ادارہ جاتی اصلاحات کے عمل کی طرف بڑھنا ہوگا او ریہ اصلاحات کی بنیاد روائتی اور فرسودہ طریقوں پر نہیں بلکہ عالمی دنیا میں ہونے والی جدیدت کی بنیاد پر اصلاحات کو فوقیت دینی ہوگی اور تمام طاقت کے مراکز یا حکمران طبقات یا ادارہ جاتی عمل کو جوابدہی کے عمل میں لانا ہوگا۔
پاکستان کی قومی سکیورٹی پالیسی کا بننا ، اس پر اتفاق رائے کا ہونا بہت اہمیت کا عمل ہے او رخاص طو رپر پہلی بار اس پالیسی میں گورننس اور جیو معیشت یا جیو تعلقات کو فوقیت دینا اہم پہلو ہے ۔لیکن بدقسمتی سے اس '' قومی سکیورٹی پالیسی '' کو فوقیت دینا اور اپنی سیاسی معاشی حکمت عملی کے ساتھ جوڑنے کے معاملات میں ہماری سیاسی ترجیحات میں کافی کمزوری کے پہلو نمایاں ہیں ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ قومی سیاست سے جڑے مسائل یا محاز آرائی یا ٹکراؤ کے کھیل میں قومی سکیورٹی پالیسی پر حکمت عملی یا عملدرآمد کا نظام پس پشت چلا گیا ہے اور محاذ آرائی یا ٹکراؤ کی پالیسی سے قومی ترجیحات کو غلط سمت دے دی گئی ہے ۔جو توجہ قومی سکیورٹی پالیسی سے جڑے معاملات پر دینی چاہیے تھی اس پر قومی سطح پر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا ہے ۔اس میں قصور کسی ایک سیاسی یا غیر سیاسی فریق کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر تمام فریقین کسی نہ کسی شکل میں اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں ۔بنیادی مسئلہ ترجیحات کے تعین کا ہے ۔کیونکہ ہم نے اپنی قومی ترجیحات میں سیاست او راقتدار کے کھیل کو اس حد تک فوقیت دے دی ہے کہ باقی معاملات پر نظر انداز کی پالیسی غالب ہے ۔اس وقت اگر ہم دنیا میں اور علاقائی ممالک میں بھی اپنی تصویر کو دیکھیں تو ایک عمومی تصویر یہ نمایاں ہوتی ہے کہ پاکستان میں ٹکراؤ کی پالیسی کا غلبہ ہے اور فریقین ایک دوسرے پر سیاسی برتری کی عملی جنگ لڑررہے ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ ان ہی قوتوں بالخصوص بھارت کو بھی ہورہا ہے جو ہماری داخلی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ہم پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو قائم کیے ہوئے ہے ۔
کوئی بھی ملک یا عالمی مالیاتی ادارے ایسے موقع میں سرمایہ کاری کرنے یا معاشی تعلقات کو بہتر بنانے سے گریز کرتے ہیں جہاں عملاً غیر یقینی صورتحال درپیش ہوتی ہو اور وہاں کل کا کچھ معلوم نہ ہو ۔اس لیے مسئلہ محض عالمی ممالک یا غیر ملکی اداروں کا نہیں بلکہ خود ہماری داخلی سطح کے چیلنجز کا بھی ہے جو ہمیں آگے بڑھنے میں روکتے ہیں ۔
امید تھی کہ قومی سیاست سے جڑے فریقین میں سیاست او رمعیشت کے تناظرمیں کچھ بنیادی مفاہمت یا ایک ایسا روڈ میپ سامنے آسکے گا جو ہمیں مزید کسی محاز آرائی یا ٹکراؤ کی سیاست میں نہیں دکھیلے گا۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا اور قومی سیاست اس وقت بھی ٹکراؤ کے منظر میں ہے اور اس کا علاج کسی ایک فریق کو نہیں بلکہ سب کو ہی مل کر تلاش کرنا ہوگا۔سیاست او رجمہوریت کی خوبی مسائل کے حل کی تلاش ہوتی ہے اور خودکو مسائل سے دور رکھنا یا مسائل کے خاتمہ کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ مگر مسائل کے حل کی بجائے مسائل کو اور زیادہ گھمبیر بنارہے ہیں اور اس کا ممکنہ حل اسی صورت میں سامنے آئے گا جب ہم سب اپنی اپنی ذات یا انا پرستی سے باہر نکلیں اور معاملات کو ریاست یا معاشرے کے مفاد کی بنیاد پر دیکھنے کی پہل کریں ۔ایک ایسے موقع پر جب ملک کی معیشت سب سے زیادہ فکری مندی پیدا کرتی ہے اور جو معاشی ریٹنگ ہماری دنیا میں بن رہی ہے وہ خود ایک بڑا چیلنج ہے ۔
کوئی بھی ملک یا عالمی مالیاتی ادارے ایسے موقع میں سرمایہ کاری کرنے یا معاشی تعلقات کو بہتر بنانے سے گریز کرتے ہیں جہاں عملاً غیر یقینی صورتحال درپیش ہوتی ہو اور وہاں کل کا کچھ معلوم نہ ہو ۔اس لیے مسئلہ محض عالمی ممالک یا غیر ملکی اداروں کا نہیں بلکہ خود ہماری داخلی سطح کے چیلنجز کا بھی ہے جو ہمیں آگے بڑھنے میں روکتے ہیں ۔
ایک دوسرے کے لیے سیاسی برداشت یا سیاسی قبولیت بنیادی جز ہے اور حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں کی مضبوطی ہی سے ہمیں اپنا سیاسی استحکام مضبوط بنانا ہے ۔ دوئم سول ملٹری تعلقات میں اہم آہنگی کا پیدا ہونا اور سیاسی فریقین کی جانب سے بلاوجہ اداروں کی کردار کشی یا ان کو سیاسی معاملات میں الجھانا بھی قومی مفاد میں نہیں او راسی طرح سے اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اس تاثر کی نفی کریں جو ان پر سیاسی اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں ۔ حکومت او راسٹیبلشمنٹ کے درمیان مضبوط تعلقات کی بنیاد سے ہم محض داخلی ہی نہیں بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر درپیش قومی چیلنجز کا بہتر طور پر مقابلہ کرسکتے ہیں ۔ سوئم معیشت کی بحالی او راس کے لیے محض عالمی اداروں پر حد سے زیادہ بڑھتے ہوئے انحصار کو کم کرنا او راپنی داخلی معیشت سے جڑے معاملات پر بنیادی نوعیت کے انتظامی ڈھانچوں میں تبدیلیاں اور مضبوط ومربوط اصلاحات جو نہ صرف معاشی ترقی کے عمل کو آگے بڑھاسکے بلکہ شفافیت او رجوابدہی کے عمل کو بھی مضبوط بناسکے ۔ہمیں ادارہ جاتی اصلاحات کے عمل کی طرف بڑھنا ہوگا او ریہ اصلاحات کی بنیاد روائتی اور فرسودہ طریقوں پر نہیں بلکہ عالمی دنیا میں ہونے والی جدیدت کی بنیاد پر اصلاحات کو فوقیت دینی ہوگی اور تمام طاقت کے مراکز یا حکمران طبقات یا ادارہ جاتی عمل کو جوابدہی کے عمل میں لانا ہوگا۔چہارم اچھی حکمرانی اور عام آدمی کے مفادات سے جڑی سیاست اور عام لوگوں کا ریاست، حکومت او راداروں پر مؤثر اعتماد کی بحالی یا افراد او رریاست کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کے لیے ہمیں ایک مضبوط او رمربوط '' خود مختار مقامی حکومت '' کے ماڈل کو اختیار کرنا ہوگا او ران کو زیادہ سے زیادہ سیاسی ، انتظامی اورمالی خودمختاری دے کر ہی ہم عام لوگوں کے مفادات اور مقامی سطح پر ان کو مطمئن کرسکتے ہیں ۔ ہمیں مرکزیت پر مبنی سیاسی ، انتظامی او رمالی نظام نہیں بلکہ عدم مرکزیت پر مبنی نظام درکا رہے جہاں اختیارات کی منتقلی کا نظام شفافیت پر مبنی ہو۔پنجم وسائل کی منصفانہ تقسیم او ربالخصوص کمزور طبقات کی بنیاد پر اصلاحات، پالیسی سازی یا قانون سازی سمیت قومی اداروں کو عام آدمی کے مفادات سے جوڑنا جس میں اس کے بنیادی حقوق کی ضمانت ہو اور شہریوں کے درمیان حقوق و فرائض کی آگاہی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ اسی نقطہ میں ملکی سطح پر عام آدمی سے جڑے معاملات میں ریگولیٹری کے نظام کی شفافیت بھی شامل ہے ۔کیونکہ عدم ریگولیٹری نظام کے باعث عام آدمی کو مختلف سروسز یا سہولتوں میں بہت زیادہ استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اس کے لیے زیادہ مشکلات پیدا کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔
پاکستان نے اگر واقعی خود کو جدید ریاست اور دنیا میں ایک ذمہ دار ریاست سمیت ملکی سطح پر اپنی سیاسی ساکھ کو قائم کرنا ہے تو اسے اپنی ماضی اور حال کی غلطیوں کو تسلیم کرکے آگے بڑھنا ہے ۔ قومی سکیورٹی پالیسی کا دستاویز اہم مگر اس سے بھی زیادہ اہمیت اس پر شفافیت کے ساتھ عمل کرنا ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم قومی سطح پر تمام فریقین مل کر اپنے داخلی معاملات کا پوسٹ مارٹم بھی کریں اور بہت سے معاملات میں خود کو عملی طور پر Re- define, Re- structure and Re- visit کریں کیونکہ جس طریقے سے ہم ریاستی یا حکومتی نظام سمیت اپنا سیاسی اور معاشی نظام چلارہے ہیں وہ زیادہ فائدہ نہیں دے سکے گا۔ کیونکہ کوئی بھی نظا م اگر لوگوںمیں اپنا اعتماد کھودے تو سیاسی فریقین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاملات کو Out of Box جاکر دیکھیں او رایسے فیصلے کریں جو ہماری ریاست ، سیاست او رجمہوریت سمیت قومی اداروں کی ضرورت بنتے ہیں ۔کیونکہ اگر ہم نے بروقت اصلاحات نہ کیں یا اپنے پرانے فرسودہ حکمرانی کے انداز کو نہ چھوڑا تو کوئی بھی اعلی سطح کی بننے والی پالیسی محض کاغذوں تک تو اپنی سیاسی حیثیت تسلیم کرواسکے گی مگر عملی طو رپر اس کی کوئی ساکھ نہیں بن سکے گی ۔ اس لیے اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو اس کی گیند بھی خود پاکستان اور پاکستان میں موجود فیصلہ ساز افراد یا اداروں کی کورٹ میں ہے کہ وہ مشکل فیصلے بھی کریں اوران سخت فیصلوں کی بنیاد پر کوئی دس پندرہ برسوں کے روڈ میپ کو بھی حتمی شکل دیں تاکہ ہم آگے کی طرف بڑھ سکیں ۔ ہمیں اپنے قومی مسائل میں مسائل کے حل کے طور پر کردار ادا کرنا ہوگا وگرنہ مسائل کو قائم رکھنا او رمسائل کے خاتمہ کی بجائے نئے مسائل کو جنم دینے کی پالیسی ہمیں اور زیادہ سیاسی تنہائی میں دکھیلے گی ، اس کی ذمہ داری بھی ہم پر ہی عائد ہوگی ۔ ||
مضمون نگار معروف سیاسی و سماجی تجزیہ نگار ہیں ۔ قومی سیاست ، ریاست اور سکیورٹی امو رپر تواتر کے ساتھ قومی اخبارات میں لکھتے ہیں اور ٹاک شوز کا حصہ بنتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے