شہادتوں کے تناظر میں لیفٹیننٹ (ریٹائرڈ) نصیراحمدبھلی (پاکستان بحریہ) کی تحریرکردہ کہانی
ہمارے ساتھ ایک نیا لڑکا بھرتی ہو کر آیا تھا اسے نہ جانے کیوں اتنا شوق تھا فوج میں آنے کا، جنونی سا تھا پاگل ۔۔۔ اور خوبصورت اتنا تھا کہ لکھوں تو بھی نہیں لکھ سکتا، اس کی شوخ سی آنکھوں میں ایک عجیب سی دیوانگی ٹپکتی تھی اس کے سرخ گلابی ہونٹ، کیوٹ سی ناک، مسکرانے پہ ڈمپل اس کی خوبصورتی کی خوشبو تھے، رنگ زیادہ گورا نہیں تھا لیکن کشش اس قدر تھی کے جیسے کوئی جنت سے آیا فرشتہ ہے۔
پہلے دن اس کے ساتھ جان پہچان ہوئی، گپ شپ لگائی، چونکہ میں میجر تھا اور وہ کیپٹن ۔کیپٹن دانش نام تھا اس کا ۔
تو میں نے اسے کہا کیپٹن، کل سے آپ چارج سنبھال لیں گے۔ آپ ابھی آرام کر لیں سفر سے تھک گئے ہوں گے ۔
اس نے رعب دار آواز میں مجھے سلیوٹ کیا او۔کے ۔سر سلام کہا اور چلا گیا۔
اس کی آواز میں بھی کچھ عجیب سا تھا ۔
دوسرے دن پریڈ گراؤنڈ میں سب سے تعارف کروایا گیا اس کا اخلاق ایسا تھا جیسے کسی بے جان کو بھی سانسیں بخش سکتا تھا، کسی دشمن کو بھی سینے سے لگا سکتا تھا۔
چارج سنبھالتے ہی اسے کیمپ کی کچھ ذمہ داریاں سونپی گئیں۔وہ اپنی ڈیوٹی ذمہ داری سے نبھاتا۔ زندگی کے دن گزرتے گئے۔ میں اس کے اخلاق کی وجہ سے اسکے بہت قریب آتا گیا، مجھے اس کی عادت ہونے لگی۔ وہ اتنا اچھا تھا کہ اس کی یونٹ کے سپاہی بھی اسے پسند کرتے، دل سے اس کی عزت کرنے لگے۔
لیکن وہ کبھی کبھی بچوں جیسی شرارتیں بھی کردیا کرتا تھا جو مجھے بہت بھاتی تھیں۔ خیر وقت کے ساتھ ساتھ جان پہچان مزید بڑھی اور ہم ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست بن گئے ۔
ایک دن باتوں ہی باتوں میں اس سے پوچھا، بتائو بھائی فیملی میں کون کون ہے؟ کہنے لگا سر فیملی میں تو ماں ہے اور 3 بہنیں ہیں، بابا جان کا ایک سال پہلے انتقال ہو گیا تھا۔
میں نے کہا ،تمہیں یہ کیسے فوج میں آنے کا شوق پیدا ہو گیا ؟
تو کہنے لگا میری بہنوں کو شوق تھا کہ ان کا بھائی فوجی بنے، ورنہ میں اچھا بھلا ڈاکٹر بن رہا تھا ۔
وقت گزرتا گیا، ہماری دوستی اس قدر بڑھ گئی کہ ہم کبھی کبھی دوران چھٹی ایک دوسرے کے گھر پہ بھی جانے لگے۔
وہ اکثر گلوکارہ نور جہاں کا ملی نغمہ سنا کرتا تھا
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
کی لبھنی ایں وچ بازار کڑے
میں اسے کہتا تھا اتنا شوخ چنچل سا لڑکا اور یہ ملی نغمہ سنتا ہے کہتا تھا کبھی یہ نغمہ وقت آنے پہ آپ کو سمجھ آئے گا کبھی کبھی بہت عجیب عجیب باتیں بھی کیا کرتا تھا جو میری سمجھ میں بالکل بھی نہیں آتی تھی ۔
میری شادی تھی، اس کو دعوت دی، اس کی ماں بہنیں سب میری شادی پہ آئے بہت اپنائیت تھی، بہت انجوائے کیا ہم نے۔
میں نے اس کی ماں جی سے کہا، آنٹی جان اب کیپٹن صاحب کے لیے بھی کوئی لڑکی دیکھیں اور اس کی بھی شادی کروا دیں تو شادی کی بات پہ وہ شرما سا جاتا۔
تین سال ہو گئے تھے، ہم ساتھ ساتھ تھے، اس کی بہن کی شادی ہو گئی، نیا گھر لے لیا اس نے، چھوٹی ایک بہن کا میڈیکل میں داخلہ کروایا۔ وہ ایک مکمل ذمہ دار سلجھاہوا انسان تھا ۔
پھر وہ وقت بھی آگیا جس کا اس سے زیادہ مجھے انتظار تھا۔ جناب کی شادی کا، میں اسے بہت تنگ کرتا تھا، بہت مذاق کرتا اس سے،''جناب کیپٹن صاحب اب آپ کے اوپر ایک اور آفیسر آنے والی ہے'' شرمیلا سا تھا۔ گھر گیا، منگنی اور شادی کے دن طے ہوئے۔ اس کے بعد واپس آیا پوری یونٹ کو مٹھائی بانٹی، سب کے ساتھ اتنا گھل مل چکا تھا جیسے وہ ہمارے جسم ہی کا کوئی حصہ ہو۔
خیر جناب کی شادی کا وقت قریب آ پہنچا، چھٹی کی درخواست دی، چھٹی منظور ہوئی تو ان دنوں بارڈر پہ حالات کچھ ٹھیک نہیں تھے۔ میں تو بارڈر پہ تھا وہ مجھے ملنے آیا، سلیوٹ کیا اور کہنے لگا سر آج رات 9 بجے میں روانہ ہو رہا ہوں، آپ بھی پرسوں پہنچ جانا میری شادی پہ۔ میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور زور سے معانقہ کیا (جھپی لگائی) اور کہا جوان فکر نہ کرو میں پہنچ جاؤں گا۔ ابھی یہ باتیں ہی ہو رہی تھی ہم میں کہ اچانک مجھے وائرلیس پہ آواز آئی ۔
''سر کچھ دشمن فوجیوں نے اچانک حملہ کر دیا ہے اوور''
میں نے بھی پوزیشن سنبھالتے ہوئے دانش سے کہا دانش تم جا ئوجلدی سے۔ وہ رک گیا، سر چلا جاتا ہوں ابھی ایک گھنٹہ ہے میری ڈیوٹی آف ہونے میں۔ ذرا کچھ نیکی میں بھی کما لوں۔ میں نے اسے کہا دانش تم جائو ہم دیکھ لیں گے لیکن کہاں سننے والا تھا ۔
اس نے بندوق اٹھائی اور پوزیشن لے لی۔
اتنے میں ایک دوسرا میسج آیا'' تمام چھٹی جانے والوں کی چھٹی روک دی گئی ہے کیونکہ بارڈر پر حالات بہت سخت ہو گئے ہیں اوور ۔''
اتنے میں دھڑ دھڑ دھڑ گولیوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ دشمنوں نے حملہ کر دیا تھا۔ میں، دانش اور ساتھ چار سپاہی ہم پوزیشن لیے دو گھنٹے تک دشمن سے لڑتے رہے۔ گولیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں ۔ ہم سب کو کسی بھی طرح اس مورچے سے دوسرے مورچے تک جانا تھا کیوں کہ ہمارا اسلحہ دوسرے مورچے میں تھا ہمیں تین گھنٹے گزر گئے لڑتے ہوئے۔ میں نے وائرلیس پہ بولنا شروع کیا ''ہمارے پاس گولیاں ختم ہو رہی ہیں ہمیں بیک اپ دیا جائے اوور ۔''
دانش کہنے لگا تم لوگ ایسا کرو ایک ایک کر کے وہاں جائو اُس مورچے پہ، میں یہاں ان کا دھیان لگاتا ہوں۔ میںنے کہا نہیں دانش تم پاگل ہو گئے ہو کیا؟ میں یہاں دیکھتا ہوں، تم سب جائو لیکن اس نے کہا " نہیں" وہ کہاں ماننے والا تھا۔ خیر میں نے چاروں سپاہیوں سے کہا، میں اور دانش یہاں سنبھالتے ہیں تم لوگ وہاں مورچے پہ جائو۔ ہم پوزیشن سنبھالے ہوئے تھے۔ جیسے ہی سپاہی مورچے کی طرف جانے لگے، گولیوں کی بوچھاڑ نے ان کو چھلنی کر دیا جیسے دشمن کہیں بہت قریب آن پہنچا تھا۔ ''دانش ہمارے پاس اب گولیاں بھی کم ہیں اور وقت بھی۔'' میں چلّا کر بولا، اگر وہ لوگ ریڈ لائن کراس کر گئے تو پاس والے گائوں میں بڑی تباہی مچ جائے گی۔ ہمیں کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ میں لگاتار وائرلیس پہ بولتا رہا'' ہمیں بیک اَپ دیا جائے اوور'' لیکن ہماری ٹیم کو پہنچنے میں پندرہ منٹ لگنے تھے اور وقت ہمارے پاس صرف سات آٹھ منٹ تھا۔ دانش نے اچانک مجھے سینے سے لگایا اور کہنے لگا'' سر وقت آ گیا ہے اب اس وطن پہ قربان ہونے کا۔'' میں نے کہا دانش پاگل ہو، ہم ان کو روک سکتے ہیں، انتظار کرو۔ لیکن دانش بولا نہیں سر اگر نہ روک سکے تو گائوں میں آنے والی تباہی ہم کو کبھی معاف نہیں کرے گی ۔اس نے گرینیڈ اپنے جسم سے باندھا اور بولا میں شہید ہو جائوں تو مجھے دشمن کے حوالے نہ کرنا۔ میری میت کو ان سے واپس لے کے اچھے سے دفن کرنا ۔
میں اس کی باتوں پہ رو رہا تھا۔ میں کیا کرتا میرا دل چاہ رہا تھا میں ایسا کرتا لیکن فوج کے کچھ قانون تھے اور وہ بھی ضد پہ تھا۔ وقت بھی کم تھا، مجھے وصیت کر رہا تھا میری ماں کو سنبھالنا، میری بہن سے کہنا ڈاکٹر بن جائے تو میری قبر پہ ضرور آئے، میری ماں سے کہنا شادی کے ارمان جو تھے مجھے اس کے لیے معاف کر دے جنت میں حوروں کے ساتھ ماں کا انتظار کروں گا انشااللہ !
اپنا موبائل مجھے دے کر کہنے لگا ''میری ماں میرا انتظار کر رہی ہے، میں نے کہا تھا 10 بجے پہنچ جائوں گا، وہ 10 بجے نہ پہنچنے پہ کال کرے گی بات کر لینا۔ یہ کہہ کر وہ الوداع ہوا مجھے زور سے سینے سے لگایا اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صدا بلند کی اور دشمن کی طرف چل دیا۔ ہم فوجیوں کی زندگیاں چند لمحوں کی مہمان ہوتی ہیں، ہم کہاں کب دنیا چھوڑ جائیں، ایک لمحے کی خبر نہیں۔ وہ میری آنکھوں کے سامنے جا رہا تھا اور میں چیخ چیخ کر رو رہا تھا۔ پرسوں اس کی شادی تھی، بہنیں، ماں، دلہن سب انتظار میں تھے کہ کیپٹن دانش گھر آرہا ہے اور یہاں اللہ رب العزت کچھ اور ہی پلان کر چکا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کیپٹن دانش کے دشمن کے پاس پہنچنے پر زور دار دھماکہ ہوا اور وطن کے اس نڈر اور بہادر بیٹے نے دشمن کو جہنم واصل کر دیا اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ ادھر وہ شہید ہوا ادھر اس کی ماں کا فون آیا جس پر میڈم نور جہان کے گانے کی رنگ ٹون لگی ہوئی تھی
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
کی لبھنی ایں وچ بازار کڑے
اے دین اے میرے داتا دی
نا ایویں ٹکراں مار کڑے
میرا ضبط ٹوٹا، میں چیخ چیخ کر رونے لگا، ایک حسین فرشتہ ملک پہ قربان ہو گیا۔ میں نے سلیوٹ کیا۔ اتنے میں ہماری بیک اپ ٹیم بھی پہنچ چکی تھی۔ دشمن بھی کچھ بھاگ گیا تھا۔ ہمارا مشن کامیاب رہا۔
ہم فوجی پرائے ہوتے ہیں۔ ہم سے نفرت نہ کیا کرو، کیا پتہ کس گلی میں ہماری زندگی کی شام ہو جائے ۔
کیپٹن دانش جیسے نوجوان اپنی زندگی کی پرواہ کیے بنا موت کو چوم لیتے ہیں۔ خدا نصیب والوں کو یہ درجہ دیتا ہے۔
پاکستان زندہ باد ! ||
تبصرے