اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 21:13
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد یَومِ یکجہتی ٔکشمیر بھارتی انتخابات اور مسلم ووٹر پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان سے غیرقانونی مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ اور اس کا پس منظر پاکستان کی ترقی کا سفر اور افواجِ پاکستان جدوجہدِآزادیٔ فلسطین گنگا چوٹی  شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے مواقع اور مقامات  عالمی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ پاکستانی شہریوں کے قتل میں براہ راست ملوث بھارتی نیٹ ورک بے نقاب عز م و ہمت کی لا زوال داستا ن قائد اعظم  اور کشمیر  کائنات ۔۔۔۔ کشمیری تہذیب کا قتل ماں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور بھارتی سپریم کورٹ کی توثیق  مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ۔۔ایک وحشیانہ اقدام ثقافت ہماری پہچان (لوک ورثہ) ہوئے جو وطن پہ قرباں وطن میرا پہلا اور آخری عشق ہے آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی میں کانووکیشن کا انعقاد  اسسٹنٹ وزیر دفاع سعودی عرب کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات  پُرعزم پاکستان سوشل میڈیا اور پرو پیگنڈا وار فئیر عسکری سفارت کاری کی اہمیت پاک صاف پاکستان ہمارا ماحول اور معیشت کی کنجی زراعت: فوری توجہ طلب شعبہ صاف پانی کا بحران،عوامی آگہی اور حکومتی اقدامات الیکٹرانک کچرا۔۔۔ ایک بڑھتا خطرہ  بڑھتی آبادی کے چیلنجز ریاست پاکستان کا تصور ، قائد اور اقبال کے افکار کی روشنی میں قیام پاکستان سے استحکام ِ پاکستان تک قومی یکجہتی ۔ مضبوط پاکستان کی ضمانت نوجوان پاکستان کامستقبل  تحریکِ پاکستان کے سرکردہ رہنما مولانا ظفر علی خان کی خدمات  شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن ہو بہتی جن کے لہو میں وفا عزم و ہمت کا استعارہ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار کرگئے جو نام روشن قوم کا رمضان کے شام و سحر کی نورانیت اللہ جلَّ جَلالَہُ والد کا مقام  امریکہ میں پاکستا نی کیڈٹس کی ستائش1949 نگران وزیراعظم پاکستان، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر اور  چیف آف آرمی سٹاف کا دورۂ مظفرآباد چین کے نائب وزیر خارجہ کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات  ساتویں پاکستان آرمی ٹیم سپرٹ مشق 2024کی کھاریاں گیریژن میں شاندار اختتامی تقریب  پاک بحریہ کی میری ٹائم ایکسرسائز سی اسپارک 2024 ترک مسلح افواج کے جنرل سٹاف کے ڈپٹی چیف کا ایئر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ اوکاڑہ گیریژن میں ''اقبالیات'' پر لیکچر کا انعقاد صوبہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں مقامی آبادی کے لئے فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد  بلوچستان کے ضلع خاران میں معذور اور خصوصی بچوں کے لیے سپیشل چلڈرن سکول کاقیام سی ایم ایچ پشاور میں ڈیجٹلائیز سمارٹ سسٹم کا آغاز شمالی وزیرستان ، میران شاہ میں یوتھ کنونشن 2024 کا انعقاد کما نڈر پشاور کورکا ضلع شمالی و زیر ستان کا دورہ دو روزہ ایلم ونٹر فیسٹول اختتام پذیر بارودی سرنگوں سے متاثرین کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کمانڈر کراچی کور کاپنوں عاقل ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کوٹری فیلڈ فائرنگ رینج میں پری انڈکشن فزیکل ٹریننگ مقابلوں اور مشقوں کا انعقاد  چھور چھائونی میں کراچی کور انٹرڈویژ نل ایتھلیٹک چیمپئن شپ 2024  قائد ریزیڈنسی زیارت میں پروقار تقریب کا انعقاد   روڈ سیفٹی آگہی ہفتہ اورروڈ سیفٹی ورکشاپ  پی این فری میڈیکل کیمپس پاک فوج اور رائل سعودی لینڈ فورسز کی مظفر گڑھ فیلڈ فائرنگ رینجز میں مشترکہ فوجی مشقیں طلباء و طالبات کا ایک دن فوج کے ساتھ پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد حق خودرادیت ۔۔۔کشمیریوں کا بنیادی حق استصوابِ رائے۔۔مسئلہ کشمیر کا حتمی حل انتخابات کے بعد کشمیرکی موجودہ صورتحال سالِ رفتہ، جموں وکشمیر میں کیا بدلا یکجاں ہیں کشمیر بنے گا پاکستان آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ ایک شاندار فضائی حربی معرکہ حسینہ واجد کی اقتدار سے رُخصتی کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوطرفہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز شائننگ انڈیا یا  ہندوتوا دہشت گرد خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل امیدوں، چیلنجز اور کامیابیوں کے نئے دور کا آغاز کلام اقبال مدارس رجسٹریشن۔۔۔حقائق کے تناظر میں اُڑان پاکستان پاکستان میں اردو زبان کی ترویج وترقی امن کی اہمیت مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے میری وفا کا تقاضا کہ جاں نثارکروں ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن بڑھتی ہوئی آبادی، درپیش مسائل اور ان کا حل تھیلیسیمیا سے بچا ئوکیسے ممکن ہے ماحولیاتی آلودگی ایک بڑا چیلنج سانحہ مشرقی پاکستان مفروضے اور حقائق - ہلال پبلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع کردہ ایک موثر سعی لا حاصل کا قانون یہ زمانہ کیا ہے ترے سمند کی گرد ہے مولانا رومی کے افکار و خیالات کشمیر جنت شہید کی آخری پاکستان کا مستقل آئین۔1973 بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا کویت کا سرکاری دورہ بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف سے بنگلہ دیش کے پرنسپل اسٹاف آفیسر کی ملاقات بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ البرق ڈیژن اوکاڑہ کی طرف سے مسیحی برادری کے لیے فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد سیلرز پاسنگ آؤٹ پریڈ پاک بحریہ فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کمانڈر سدرن کمانڈ و ملتان کور کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے اساتذہ اور طلباء کے ساتھ خصوصی نشست نمل یونیورسٹی ملتان کیمپس اور یونیورسٹی آف لیہّ کے طلبہ و طا لبات اوراساتذہ کا مظفر گڑھ فیلڈ فائرنگ رینج کا دورہ اوکاڑہ گیریژن میں تقریبِ بزمِ اقبال کاانعقاد ملٹری کالج سوئی میں سالانہ یوم ِوالدین کی تقریب آل پاکستان ایف جی ای آئی ایکسیلنس ایوارڈ کی تقریب 2024ء اوکاڑہ گیریثر ن، النور اسپیشل چلڈرن سکول کے بچوں کے لیے یومِ پاکستان، عزم ِنو کا پیغام 40 ء کا پیمان، 47ء کا جذبہ 2025 کا وَلوَلہ حال و مقام قراردادِ پاکستان سے قیام ِپاکستان تک مینارِ پاکستان: فنِ تعمیر کا اعلیٰ نمونہ قبائلی علاقوں کی تعمیر نو میں پاک فوج کا کردار ڈیجیٹل حدبندی: انفرادی ذمہ داری سے قومی سا لمیت تک امن کے لیے متحد پاکستان نیوی کی کثیر الملکی مشق اور امن ڈائیلاگ ماہ رمضان اور محافظین پاکستان  نعت شریف سرمایۂ وطن لیفٹیننٹ ارسلان عالم ستی شہید (ستارہ بسالت) شمالی وزیرستان ۔پاک دھرتی کے چنداور سپوت امر ہوئے اے شہیدو تم وفاکی کائنات ہو سرحد کے پاسبان زیرو ویسٹ مینجمنٹ، وقت کی ایک ضرورت پاکستان کے سر کا تاج گلگت  بلتستان ماضی و مستقبل حجاب است ۔ پریشان اور غمگین ہونا چھوڑیے بلوچستان کے ماتھے کا جھو مر زیارت  مایہ ناز انٹرنیشنل ایتھلیٹ نیوٹن اور سائنس رومی اور اقبال کی فلسفیانہ بحث رشتوں کی اہمیت یومِ یکجہتی کشمیر اہل پاکستان کا فقید المثال دن قرار دادِ پاکستان چیف آف نیول سٹاف بنگلہ دیش کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے ملاقات  ریاستی سیکرٹری اور نائب وزیر دفاع ہنگری، کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے ملاقات  چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورہ سعودی عرب   چیف آف آرمی سٹاف کا دورۂ مظفرآباد  بنگلہ دیش کے چیف آف دی نیول سٹاف کی آرمی چیف سے ملاقات  چیف آف آرمی اسٹاف کا نوجوان طلبا کے ایک اجتماع سے خطاب چیف آف آرمی سٹاف کادورۂ بلوچستان  نویں کثیر الملکی
Advertisements

ہلال اردو

علامہ اقبال کبھی تلخی کے ساتھ پیش نہ آتے اور اولاد کی طرح برتائو کرتے

نومبر 2022

علامہ کی زندگی بے حد سادہ، زیادہ وقت پڑھائی اور عبادت میں گزرتا
علامہ بے حد نرم طبیعت اور جھوٹ سے نفرت کرتے تھے
 مفکر ِ پاکستان  حضرت  علامہ اقبال کے خادم ِخاص علی بخش مرحوم کی یادداشتوں کے حوالے سے مرتب کردہ کتاب سے اقتباسات


جب مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال کی روح پرواز کرنے لگی تو میں نے کیا دیکھا!
 ''صبح کے ٹھیک سوا پانچ بجے تھے۔ میرے سوا کوئی دوسرا وہاں موجود نہیں تھا ، اذان ہونے ہی والی تھی کہ اچانک میرے بے حد شفیق، مہربان آقا کے منہ سے لاالہ اللہ محمد رسول اللہ کی آواز نکلنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند ہو گئیں۔ میں بے قرار ہو کر ان سے لپٹ کر زور زور سے رونے لگا۔''

شاعر مشرق مفکر پاکستان حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال کی زندگی  اور ان کی خدمات کے حوالے سے بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ ان کی زندگی کے آخری ایام کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔اس سلسلے میں فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال نے بھی اپنی کتاب زندہ رود میں جو یاد داشیں تحریر کی ہیں، وہ بھی  بڑی مستندحیثیت رکھتی ہیں لیکن علامہ اقبال کے خادم خاص علی بخش کی یاد داشتوں کی بھی اہمیت کسی سے کم نہیں۔  جو  راز  اور حقیقتیں گھریلو ملازم  جانتے ہیں شایدبیوی اور اولاد بھی ان سے آشکار نہ ہو ۔ علی بخش نے تقریباً چالیس برس تک حضرت علامہ اقبال کی خدمت کی اور جس وقت آپ  کی روح پر واز کرنے لگی تو اس وقت صرف اکیلے علی بخش ہی علامہ صاحب کے پاس موجود تھے اور ان کے منہ سے آخری الفاظ بھی سننے کا اعزاز  انہیں ہی حاصل ہے۔
 مشرقی پنجاب  کے ضلع ہوشیار پور تحصیل ملکیریاں کے گائوں اٹل گڑھ کے غریب کسان حیات بخش عرف حیاتا قوم جٹ کے ہاں 1888ء میں پیدا ہونے والے علی بخش اپنے تین بھائیوں محمد بوٹا، مولا بخش اور مہر دین سے بڑے تھے اور جب ان کے والد محترم کو زرعی اراضی ساہو کار کے پاس گروی رکھنے کی وجہ سے گھر میں معاشی  پریشانیوں نے دبا لیا تو کوئلے لاد کر لاہور جانے والے ایک قافلے میں شامل ہو کرعازم لاہور ہوئے۔لاہور میں شفیع کی سرائے میں قیام کیا اور اپنے گائوں کے ایک شخص کے حوالے سے لاہور میں مقیم ہوشیار پور کے مولوی حاکم علی کے پاس چار روپے ماہوار پر نوکری حاصل کر لی۔ مولوی حاکم علی کی مہربانی سے ان کی حضرت علامہ اقبال سے ملاقات ہوئی جنہوں نے علی بخش کو اپنے ہاں ملازمت کی پیش کش کردی۔ یہ غالباً 1901 ء کی بات ہے۔علی بخش کو محکمہ بحالیات نے اس اراضی کے عوض جو ان کے آبائی گائوں میں ساہوکار کے پاس گروی تھی،  لائلپور (فیصل آباد) کے چک نمبر 188/RBنلے والا میں اراضی الاٹ کردی تھی۔اسی چک میںعلی بخش نے زندگی کے آخری ایام گزار ے ۔علی بخش 2  جنوری 1969ء کو اپنے  خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی زندگی کے دوران ان کے حقیقی بھتیجے غلام محمد عرف محمد اقبال نے علامہ صاحب کی زندگی کے بارے میںجو معلومات حاصل کیں، لیہ کے محمد انور بودلہ نے بڑی محنت اور جدوجہد سے ان معلومات کو حاصل کیا جنہیں بہاولنگر سے تعلق رکھنے والے ممتاز محقق اور مصنف میاں فضل فرید لالیکا نے نومبر 2016 ء  میں مرقع اقبال کے نام سے شائع کیا ۔  یہ پہلا موقع ہے  علی بخش کی یادداشتوں پر مبنی کوئی کتاب سامنے آئی ہے۔
 علی بخش ایک تاریخ ساز شخصیت تھے اور انہوں نے علامہ اقبال کے ساتھ دن رات جس ذمہ داری اور نیک نیتی سے گزارے اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی اس سے علی بخش کے مقام و مرتبے کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ علی بخش سے علامہ اقبال بڑے متاثر تھے اور ان کا بڑا دھیان رکھتے تھے اور علی بخش کو کسی بھی صورت اپنے سے جدا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ علی بخش بھی اپنے آپ کو انتہائی خوش قسمت انسان سمجھتے تھے اورہر وقت  علامہ اقبال کی خدمت کے لیے موجود رہتے تھے۔علی بخش کی یاداشتوں سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔


علی بخش کہتے ہیں کہ اپنا ذاتی حقہ بے دریغ دینے میں مطلق کوئی تکلف نہ کرتے کہ کوئی بناوٹ کی باتیں نہیں۔لوگ چاہے کچھ ہی سمجھیں مگر علامہ آقا اور ملازم کے بارے میں ہمیشہ بے حد سادہ رہے۔ انہوں نے کبھی سخت کلامی، سختی اور زور سے اپنے حکم کو نہیں دینا چاہاجو ان کی سب سے بڑی خوبی رہی۔ وہ مخاطب کرنے میں بڑی نرمی کے ساتھ پیش آتے۔اگر کوئی بات میری سمجھ میں نہ آتی تو مجھ سے خود فرماتے، دوبارہ پوچھ لیا کرو اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے۔


 علامہ صاحب کے ہاں میری ملازمت
علی بخش کا کہنا ہے کہ مجھے یا کسی کو کیا معلوم تھا کہ ایک وہ وقت آئے گا کہ جب شیخ محمد اقبال  صاحب  دنیا کی ایک بڑی شخصیت بنیں گے اور میں بھی ان کی خدمت کرتے کرتے دنیا کے سامنے ایک وہ شمع بن کر آجائوں گا کہ جہاں کہیں بھی حضرت علامہ اقبال کا نام آئے گا تو مجھے لوگ ان کے ساتھ پروانہ وار دیکھنے اور یاد کرنے پر مجبور ہو ں گے ورنہ میں خود بھلا کس قابل تھا اور آج بھی ہو ں۔ یہ سب کچھ مجھے ایک عاشق رسولۖ کی خدمت کرنے کے صلے میں حاصل ہوا ہے۔


             حضرت علامہ کی طبیعت بے حد نرم اور دوسرے پر جلد اعتبار کرنے والی واقع ہوئی تھی جس نے کبھی کسی کے خلاف ایک برا کلمہ تک استعمال نہیں کیا۔ البتہ جھوٹ بولنے والے سے سخت نفرت کرتے تھے۔ پھر میں نے ان کے لیے ہر ممکن کوشش کر کے وہ راہ اختیار کی جس کی بنا پر وہ مجھے کسی وقت بھی غیر نہ سمجھیں اور پوری طور پر مجھ پر اعتبار کر لیں۔


علامہ صاحب کے ساتھ میرے تعلقات کے عنوان سے علی بخش بتاتے ہیں کہ حالانکہ اس سے قبل جس قدر ملازم آئے شاید انہوں نے حضرت علامہ کے مزاج کو صحیح طور پر نہیں پہچانا بلکہ محض اپنے مطلب کے لیے ایک بہترین آقا کو فراموش کردیا۔پھر میں یہی کہہ سکتا ہو ں کہ قدرت کونہ جانے میری کونسی بات پسند آئی جس نے حضرت علامہ کو مجھے انتخاب کرنے میں بے دریغ خود کو آمادہ کرلیا۔حالانکہ میں تو ایک بالکل ہی جاہل قسم کا وہ دیہاتی تھا جو شہری زندگی سے کچھ بھی واقف نہ تھا۔پھر بھلا کیونکر ان کی خدمت بجالانے کے لیے ان کے مزاج کے مطابق پورا اتر سکتا تھا۔ وہ کبھی مجھ سے تلخی کے ساتھ پیش نہ آتے بلکہ اولاد کی طرح ہمیشہ برتائو کیاجو میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ بلکہ میں یہاں پر ایک خاص واقعہ تحریر کرنا چاہتا ہو جس سے کہ آپ علامہ صاحب کی شفقت کا اندازہ کر سکیں گے۔میں اس وقت کا سن ہجری بھول رہا ہوں لیکن شاید وہ زلزلہ جس میں کہ کانگڑہ شہر غرق ہوا جبکہ علامہ صاحب اندرون بھاٹی دروازہ میں میلہ رام کے مکان میں مقیم تھے ،چنانچہ وہ زلزلے کا وقت اس قدر وحشت ناک تھا کہ جیسے قیامت آگئی ہو بلکہ خود علامہ صاحب اپنے کمرے ہی میں تھے اور مجھے بار بار ہدایت کر رہے تھے کہ میں سیڑھیوں میں کھڑا ہو جائوں۔بھلا کیا شبہ ہو سکتا ہے کہ حضرت علامہ کی طبیعت بے حد نرم اور دوسرے پر جلد اعتبار کرنے والی واقع ہوئی تھی جس نے کبھی کسی کے خلاف ایک برا کلمہ تک استعمال نہیں کیا۔ البتہ جھوٹ بولنے والے سے سخت نفرت کرتے تھے۔ پھر میں نے ان کے لیے ہر ممکن کوشش کر کے وہ راہ اختیار کی جس کی بنا پر وہ مجھے کسی وقت بھی غیر نہ سمجھیں اور پوری طور پر مجھ پر اعتبار کر لیں۔خدا گواہ ہے کہ میں نے ان کی ایک ایک بات کا لحاظ رکھا۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز کی طرف بری نگاہ تک نہ ڈالی اور ان کو زیادہ سے زیادہ آرام پہنچانے کا ہر ذریعہ  اختیار کیا کیونکہ جب میں نے پورے طور سے دیکھ لیا تو میں نے نہ صرف ان کی خدمت کو اپنے لیے باعث فخر سمجھنے لگا بلکہ اپنے آپ کو بنانے اور سمجھانے کے لیے قدرت کی جانب سے ایک بہترین موقع سمجھا۔میں نہیں سمجھتا ہوں کہ شاید انہوں نے مجھے کبھی نوکر سمجھ کر کسی کام کے لیے حکم دیا ہو۔ وہ مجھے اپنا ایک قریب ترین رہنے والا انسان اور دکھ درد کے موقع پر ہمیشہ احساس کرنے والا سمجھتے تھے۔جس میں انہوں نے کبھی کنجوسی سے کام نہیں لیا۔جب کبھی وہ ناراض ہو جاتے تو انتہائی غصہ کے عالم میں ''تم بڑے جنگلی اور بے وقوف ہو'' کے کلمات کہنے سے زیادہ آگے نہ بڑھتے حالانکہ خود اس بات کا انتہائی لحاظ رکھتا کہ کوئی بات اور کوئی کام ان کی طبیعت کے خلاف نہ ہونے پائے۔
آقا اور ملازم کی حیثیت
علی بخش کہتے ہیں کہ اپنا ذاتی حقہ بے دریغ دینے میں مطلق کوئی تکلف نہ کرتے کہ کوئی بناوٹ کی باتیں نہیں۔لوگ چاہے کچھ ہی سمجھیں مگر علامہ آقا اور ملازم کے بارے میں ہمیشہ بے حد سادہ رہے۔ انہوں نے کبھی سخت کلامی، سختی اور زور سے اپنے حکم کو نہیں دینا چاہاجو ان کی سب سے بڑی خوبی رہی۔ وہ مخاطب کرنے میں بڑی نرمی کے ساتھ پیش آتے۔اگر کوئی بات میری سمجھ میں نہ آتی تو مجھ سے خود فرماتے، دوبارہ پوچھ لیا کرو اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے۔کچھ روز تو میں اس بات کو بالکل نہ سمجھ سکا مگر جب زیادہ غور کیا تو معلوم ہوا کہ واقعی کام کے لیے دوبارہ نہ پوچھنے سے بڑا نقصان ہو جایا کرتا ہے۔ میں یہ راز کہیں نہیں بھولوں گا کہ آقا کی نظر اگر صحیح کام انجام دے تو وہ تلوار سے کہیں زیادہ کام کرتی ہے۔زبان آقا کا ایک بڑا حکم ہے جو آقا اور ملازم کی حیثیت کو بر قرار رکھنے میں ہمیشہ کام آتی ہے۔
علامہ صاحب کی گھریلو زندگی
علی بخش کا کہنا ہے کہ سچ تو یہ کہ علامہ صاحب کی زندگی بے حد سادہ رہی اور ان کا زیادہ وقت پڑھائی اور عبادت میں گزرا کرتا۔البتہ یہ مجھے اچھی طرح یاد پڑتا ہے کہ ان کی راتوں کا زیادہ تر حصہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے کرتے زاروقطار رونے اور سجدوں میں گزرتا۔یقین جانیے کہ اس وقت مجھے یہ جرأت نہ ہو سکتی کہ میں ان کے نزدیک جائوں اور کچھ دریافت کرسکوں۔ میں نے ان کو جہاں تک دیکھا ہے و ہ بے حد سادہ نظر آئے۔ انہوں نے گھر میں اکثر ایک کھدر کے شلوکے اور دھوتی سے زیادہ لباس کو پہننا پسند نہیں کیا۔ہاں باہر جاتے تو انگریزی لباس پہن لیا کرتے مگر گھر آکر فوراً اتار دیتے تھے۔ وہ کبھی ظاہری نمائش اور بناوٹ کو پسند نہ کرتے بلکہ بے حد سادہ اور ہلکی غذا کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھتے۔ وہ عموماً ایک وقت کھانا کھاتے جس میں ہلکی دوچپاتیاں اور تھوڑے سے سالن کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ان کو حقہ بے حد مرغوب تھا ۔سگریٹ پسند نہ تھے لیکن چونکہ وہ کام میں حد سے زیادہ مشغول رہا کرتے تھے اس لیے حقہ پینے کی نوبت تو کم ہی آتی مگر جب کبھی خیال پیدا ہو جا تا تو خشک دیکھ کر دوبارہ تازہ کرنے کا حکم ضرور دیتے۔ چنانچہ حضرت علامہ کی گھریلو زندگی کی بابت  مجھے یہ ہی معلوم ہو ا ہے کہ شاید وہ کسی زمانے میں پہلوانی اور پتنگ بازی کے شوق سے کہیں زیادہ کبوتر دیکھنے اور پالنے کا خیال رکھتے تھے بلکہ کبوتروں کی بابت تو اس حد تک وہ چاہتے تھے کہ اگر ایک پورا جھنڈ کا جھنڈ ان کے گرد جمع ہو جائے تو وہ بڑی خوشی محسوس کریں۔لیکن میرے سامنے اس قسم کے مواقع کبھی کم ہی دیکھنے میں آئے لیکن اکثر وہ اپنے دوست سید تقی شاہ سے کبوتروں کا  ضرور ذکر کیا کرتے بلکہ میرے دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ حضرت علامہ ستار بجانے اور سننے کا شوق تھا۔کبھی کبھی پہلوانوں کی طرح گھر ہی میں ورزش کیا کرتے۔ ڈنڈ بیٹھکیں لگاتے۔ اسی وجہ سے ان کی دوستی لالو پہلوان سیالکوٹ والے کے ساتھ زیادہ تھی۔وہ اکثر لاہور آتا تو میرے آقا ہی کے پاس کئی روز تک رہتا۔ میں اس جگہ یہ بات بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ میرے علاوہ حضرت علامہ کی خدمت میں دوسرے نوکر بھی ہوتے تھے جن سے وہ بڑی محبت اور شفقت سے پیش آیا کرتے تھے۔بلکہ وہ اس حد تک خیال کرتے تھے کہ کبھی کبھی نوکروں کے حسب منشا کھانے تیار کرواتے جس کے بعد بیٹھ کر سب کو اپنے سامنے کھلاتے۔ یہ ان کی ایک عام عادت تھی۔یہاں میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں اپنے آقا کے واسطے اکثر آلو گوشت ہی پکایا کرتا تھا جس کے لیے ایک روز انہوں نے مجھ سے کہا علی بخش تم کو تو آلو گوشت ہی بہت پسند ہیں۔حالانکہ سچ بات تو یہ تھی مجھے اس سالن کے علاوہ کوئی دوسرا کھانا پکانا کم ہی آتا تھا۔ میں کیا کرتا! اتفاق بھی ہوجاتا تھا کہ جب کبھی وہ کام سے فارغ ہوتے تو پھرتے پھراتے باورچی خانے کی طرف بھی نکل آتے جہاں کے وہ پیڑھی لے کر بیٹھ جاتے اور مجھ سے میرے گھر کے حالات پوچھنے لگتے۔میں کھانا پکانے میں مشغول رہتا اور اپنے آقا کے شفقت بھرے سوالوں کا جواب دیتا جاتا۔ اس طرح باتوں باتوں میں کھانا تیار ہو جاتا۔ اس وقت میں عرض کرتا کہ جناب کھانا تیار ہے جس پر وہ جواب دیتے کہ لائو علی بخش میں آج چولہے کے پاس ہی بیٹھ کر کھانا کھا لوں گا۔ میرے آقا کو اروی گوشت اور ٹینڈے گوشت کھانے میں کم ہی پسند آئے، اسی طرح چائے پینا بھی زیادہ پسند نہ تھی۔لیکن ان کو ان کھانوں سے کبھی نفرت نہ تھی۔  پان بھی بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے یہاں تک کہ پاندان بھی بنوا رکھا تھا۔ پھلوں میں آم سب سے زیادہ پسند تھے۔پھر جب آم کا موسم آتا تو اکثر دوست ان کو آموں کے تحفے بھیجا کرتے۔ جس کے بعد وہ اپنے قریبی دوستوں کو بلوایا کرتے ،مل کر بڑے شوق سے کھاتے اور کھلاتے اور بہت خوش نظر آتے۔ علامہ صاحب فصل کے نئے نئے خربوزے اور سردے بے حد پسند کر تے۔ گرمیوں کے موسم میں کبھی کبھی مجھے یہ حکم دیتے،  علی بخش آج کسی اچھی سی دکان سے فالودہ لیتے آنا۔ وہ فالودہ شوق سے پیتے تھے۔اس جگہ میں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میری شادی کم عمری میں ہی ہو گئی تھی لیکن بدقسمتی سے ہمارے علاقے میں ایک وبائی مرض طاعون پھیلنے سے ہزاروں لوگ مر گئے۔اتفاق سے اسی بیماری سے میری بیوی کا بھی انتقال ہو گیا جس کے بعدنہ تو میرا ارادہ شادی کرانے کا ہو ا اور نہ  ہی کبھی گھر والوں کے کہنے پر خیال آیا۔بلکہ جب کبھی میں نے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کیا تو مجھے مایوس کر دیتے۔اس طرح کئی مرتبہ اتفاق ہوا لیکن مجھے شادی کی اجازت نہ مل سکی بلکہ مذاق کے طور پر کہہ دیا جاتا کہ ہم تمہاری شادی یہاں لاہور میں ہی کر دیں گے۔کبھی مجھ سے یہ مذاق کرتے میں ولایت جائوں گا تو وہاں سے تمہارے لیے کوئی اچھی سی میم لائوںگا۔ ایک مرتبہ جب میں اپنے گھریلو حالات سے متاثر ہو کر جانے پر آمادہ ہو گیا تومیں نے بڑے حوصلے سے اپنا بستر باندھ کر خدمت میں جاکر رکھ دیا اور عرض کی کہ جناب میری تلاشی لے لیں، میں گھر جارہا ہوں۔جس پر حضرت علامہ اپنی عینک اتار کر مجھ سے اس طرح مخاطب ہوئے میں دیکھتا ہو ں کہ تم کس طرح جائو گے میں ابھی پولیس بلوا کر اس کے حوالے کر دوں گا۔ میں نے اس  سے زیادہ سخت الفاظ کبھی بھی ان کی زبان سے نہیں سنے۔ میں ڈر کے مارے وہیں کھڑا کانپتا رہا اور رونے لگا جس کے بعد  وہ شفقت کے ساتھ کہنے لگے دیکھو ڈرو نہیں میں تم کو گھر جانے کے لیے اچھے اچھے کپڑے بنوا دوں گا اور تمہارے چھوٹے بھائیوں کے لیے مٹھائی بھی ساتھ دوں گا۔اس طرح کے کلمات سن کر چپ ہو گیا، بستر اٹھا کر اپنے کوارٹر میں لاکر کھول دیا۔


رخصت سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ اس وقت وہ بالکل اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔کچھ دیر خاموش رہنے کے  بعد فرمایا  علی بخش دیکھو میری زندگی کا اب کوئی بھروسہ نہیں ہے لیکن تم میرے اس گھر میں اسی طرح رہنا۔ یہ تمھارا اپنا گھر ہے اور بچوں کی خاص طور پر دیکھ بھال رکھنا۔ اگر تجھے یہاں سے چلے جانا ہی ہو تو جب تک جاوید جوان نہ ہو جائے کہیں نہ جانا۔


علامہ صاحب  کے طبیب اور بیماریاں
جب سے میں نے علامہ صاحب کی خدمت کرنا شروع کی تو وہ مجھے بڑے کام کرنے والے اور راتوں کو بے حد عبادت کرنے والے نظر آئے۔جس کی وجہ سے  میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ وہ اسی لیے اکثر بیمار رہتے تھے۔طبیعت تو شروع ہی سے نازک تھی۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ درد گردہ کی بیماری ان کو میرے آنے سے شاید پہلے ہی تھی۔پھر بد ہضمی الگ ہو گئی جو شاید زیادہ دیر بیٹھے رہنے اور زیادہ کام کرنے کی وجہ سے پیدا ہو گئی۔ ورنہ وہ کبھی زیادہ سوڈا نہ لیتے تھے۔ پھر راتوں کو اللہ اللہ کرنے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے کرتے بے حد رونے کی وجہ سے ان کی نظر بھی کمزور ہو گئی تھی۔بلکہ میں تو سمجھتا ہو ں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے آقا کی بیماریوں کی وجہ سے مجھے بھی خدمت کرنے کا موقع دے دیا۔ میں دردِ گردہ اٹھنے کے وقت میں ان کے قریب ہی رہتا بلکہ ایک مرتبہ عید کے موقع پر جب وہ شاہی مسجد سے نماز پڑھ کر گھر آئے تو دہی ڈال کر سویاں کھائیں جس کی وجہ سے ان کا گلا بیٹھ گیا۔ جو  بے انتہا علاج کروانے کے بعد بھی اچھا نہ ہو سکا۔ انہوں نے اپنی بیماریوں کے سلسلہ میں بہت سے حکیموں اور ڈاکٹروں سے علاج کروائے۔سچ بات تو یہ ہے کہ اس قدر بیمار رہنے کے باوجود ہمیشہ بڑے حوصلہ والے رہے۔
علامہ صاحب کا انتقال
جہاں تک میرا خیال ہے جاوید منزل میں آنے سے پہلے میرے آقا کو درد گردہ، نظر کی کمزوری اور گلے کی تکلیف کا زیادہ زور ہو گیا تھا۔جو بڑھتے بڑھتے بڑی خطرناک صورت بن گئی۔حالانکہ سچ پو چھئے تو والدہ جاوید کے انتقال کے بعد علامہ نے بہت غم محسوس کیا۔خاص کر جب عزیزی منیرہ کو دیکھتے تو پریشان ہو جایا کرتے اور سب کام چھوڑ کر ان کو پیار کرنے لگتے۔ پھر اک وہ وقت آگیا، میرے لیے وہ منحوس گھڑیاں آگئیں کہ اپریل کا مہینہ شروع ہو گیا۔اس مہینے کے اول روز ہی کچھ اچھی حالت نظر نہیں آرہی تھی۔میں عجیب طرح کے ڈراؤنے قسم کے خواب دیکھتا جن کے بعد راتوں کو میں اپنے آقا کو اٹھ کر دیکھنے جاتا کہ وہ کیسے سو رہے ہیں۔ مگر ڈر کے مارے کسی کو کچھ نہ بتلاتا۔رخصت سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ اس وقت وہ بالکل اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔کچھ دیر خاموش رہنے کے  بعد فرمایا  علی بخش دیکھو میری زندگی کا اب کوئی بھروسہ نہیں ہے لیکن تم میرے اس گھر میں اسی طرح رہنا۔ یہ تمھارا اپنا گھر ہے اور بچوں کی خاص طور پر دیکھ بھال رکھنا۔ اگر تجھے یہاں سے چلے جانا ہی ہو تو جب تک جاوید جوان نہ ہو جائے کہیں نہ جانا۔اس کے بعد ان کی آواز بھرا گئی۔میں یہ سب باتیں سن کر کوئی جواب نہ دے سکا بلکہ بچوں کی طرح رونے لگا۔ اس پر انہوں نے فرمایا''کچھ دنوں کے بعد رونا ابھی اس طرح رونا ٹھیک نہیں ہے۔''آخر جب 20 اپریل کا  دن آیا تو مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہونے لگا۔گھر کے کسی کام میں دلچسپی نہ رہی۔ باہر سے بھی جو دیکھنے یا ملنے آتا میں اس کو دیکھتے ہی رونے لگتا۔اسی طرح پورا دن گزر گیا اور رات آگئی اس وقت ان کے نزدیک بے انتہا پریشان حالت میں چوہدری محمد حسین، میاں محمد شفیع، سید نذیر نیازی،راجہ حسن اختر،سید سلامت اللہ شاہ اور حکیم محمد حسن قرشی آکر بیٹھ گئے۔مگر اصل بات مجھے کوئی نہ بتلاتا۔حالانکہ میاں محمد شفیع نے بڑی آہستہ آواز سے کہا جناب علی بخش کا تو رو رو کر برا حال ہوا جاتا ہے۔ اس پر میرے شفیق آقا نے بڑے رک رک کر فرمایا۔ اسے معلوم ہے کہ آج ہماری رفاقت کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ رات کو اور دوستوں کے علاوہ بہت سے ڈاکٹر بھی آئے۔ سبھی مایوس نظر آ رہے تھے۔رات کا کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ڈاکٹر عبدالقیوم نے طبیعت زیادہ خراب دیکھ کر فروٹ سالٹ تیار کرکے پلانے کو کہا۔ میں گلاس آقا کے منہ کے قریب لایا  تو انہوں نے انگریزی دوائی سمجھ کر منہ پھیر لیا اور آہستہ سے فرمایا کہ میں انگریزی دوائی نہیں پیوں گا۔ مگر جب میں نے عرض کیا جناب یہ کوئی دوائی نہیں بلکہ فروٹ سالٹ ہے جو آپ پہلے بھی پیتے رہے ہیں۔ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ میں نے دوبارہ گلاس ان کے منہ کو لگا دیا اور جلدی سے پلادیا۔اس کے بعد میں چوکی لگا کر وہیں بیٹھ گیااور انہیں کچھ نیند آگئی۔ اس وقت میرا خیال ہے کہ ایک مرتبہ حکیم قرشی صاحب اور ڈاکٹر عبدالقیوم بھی دیکھنے آئے۔اور تسلی دی کہ اب علامہ کی طبیعت پہلے سے بہتر ہے۔اس وجہ سے سو رہے ہیں۔یہ کہہ کر چلے گئے۔اس کے بعد کچھ دوست چلے گئے اور کچھ وہیں بڑے کمرے کے فرش پر سو گئے۔لیکن میں برابر ان کے پلنگ کے قریب ہی بیٹھا رہا۔اس وقت میرے دماغ میں طرح طرح کے الٹے سیدھے خیالات آنے لگے اور بے حد خوف سا محسوس ہونے لگا۔اس وقت انہوں نے کچھ کہنا چاہا لیکن میں اپنے خیالات میں غرق ہونے کی وجہ سے اچھی طرح  سن نہ سکا۔مگر پھر زیادہ نزدیک ہونے پر مجھیان کے یہ آخری الفاظ سنائی دئیے جو کبھی نہیں بھولیں گے۔ کیا تم بھی مجھے چھوڑ چکے ہو؟ پھر انہوں نے اشارے سے شانے دبانے کو کہا اس وقت رات آدھی سے بھی زیادہ گزر چکی تھی۔میں ان کے اشارے کے مطابق شانوں کو دبانے لگا۔کچھ دیر بعد انہوں نے ہاتھ پائوں پھیلا دئیے۔ میں نے ایک بازو ان کی گردن کے نیچے رکھ دیا۔ اور دوسرے سے برابر دباتا رہا۔اس طرح کہ جیسے میںانہیں گود میں اٹھائے ہوئے ہوں۔پھر انہوں نے اشارے سے یہ کہا کہ  میرے دل پر درد ہے۔اس  وقت صبح کے ٹھیک سوا پانچ بجے تھے۔ میرے سوا کوئی دوسرا وہاں موجود نہیں تھا ، اذان ہونے ہی والی تھی کہ اچانک میرے بے حد شفیق مہربان آقا کے منہ سے لااِلٰہ اللہ محمد رسول اللہ کی آواز نکلی اور اس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند ہو گئیں۔ میں بے قرار ہو کر ان سے لپٹ کر زور زور سے رونے لگا۔اس وقت چوہدری محمد حسین، راجہ حسن اختر ، میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم بھاگ کر کمرے میں آگئے۔عبدالقیوم نے مجھے ہٹاتے ہوئے نبض پر ہاتھ رکھا لیکن پھر چپ چاپ الگ کھڑے ہوگئے۔جس کے بعد سب دھاڑیں مار مار رونے لگے۔جاوید منزل میں کہرام مچ گیا۔میں نے جلدی سے اندرون خانہ جاکر جاوید کو بھی جگا دیا۔ پھر معلوم نہیں کس طرح سارے شہر میں میرے آقا کے دنیا سے چلے جانے کی خبر پھیل گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے جاوید منزل لوگوں سے بھر گئی۔ ||


مضمون نگار شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔
[email protected]