علامہ کی زندگی بے حد سادہ، زیادہ وقت پڑھائی اور عبادت میں گزرتا
علامہ بے حد نرم طبیعت اور جھوٹ سے نفرت کرتے تھے
مفکر ِ پاکستان حضرت علامہ اقبال کے خادم ِخاص علی بخش مرحوم کی یادداشتوں کے حوالے سے مرتب کردہ کتاب سے اقتباسات
جب مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال کی روح پرواز کرنے لگی تو میں نے کیا دیکھا!
''صبح کے ٹھیک سوا پانچ بجے تھے۔ میرے سوا کوئی دوسرا وہاں موجود نہیں تھا ، اذان ہونے ہی والی تھی کہ اچانک میرے بے حد شفیق، مہربان آقا کے منہ سے لاالہ اللہ محمد رسول اللہ کی آواز نکلنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند ہو گئیں۔ میں بے قرار ہو کر ان سے لپٹ کر زور زور سے رونے لگا۔''
شاعر مشرق مفکر پاکستان حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال کی زندگی اور ان کی خدمات کے حوالے سے بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ ان کی زندگی کے آخری ایام کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔اس سلسلے میں فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال نے بھی اپنی کتاب زندہ رود میں جو یاد داشیں تحریر کی ہیں، وہ بھی بڑی مستندحیثیت رکھتی ہیں لیکن علامہ اقبال کے خادم خاص علی بخش کی یاد داشتوں کی بھی اہمیت کسی سے کم نہیں۔ جو راز اور حقیقتیں گھریلو ملازم جانتے ہیں شایدبیوی اور اولاد بھی ان سے آشکار نہ ہو ۔ علی بخش نے تقریباً چالیس برس تک حضرت علامہ اقبال کی خدمت کی اور جس وقت آپ کی روح پر واز کرنے لگی تو اس وقت صرف اکیلے علی بخش ہی علامہ صاحب کے پاس موجود تھے اور ان کے منہ سے آخری الفاظ بھی سننے کا اعزاز انہیں ہی حاصل ہے۔
مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور تحصیل ملکیریاں کے گائوں اٹل گڑھ کے غریب کسان حیات بخش عرف حیاتا قوم جٹ کے ہاں 1888ء میں پیدا ہونے والے علی بخش اپنے تین بھائیوں محمد بوٹا، مولا بخش اور مہر دین سے بڑے تھے اور جب ان کے والد محترم کو زرعی اراضی ساہو کار کے پاس گروی رکھنے کی وجہ سے گھر میں معاشی پریشانیوں نے دبا لیا تو کوئلے لاد کر لاہور جانے والے ایک قافلے میں شامل ہو کرعازم لاہور ہوئے۔لاہور میں شفیع کی سرائے میں قیام کیا اور اپنے گائوں کے ایک شخص کے حوالے سے لاہور میں مقیم ہوشیار پور کے مولوی حاکم علی کے پاس چار روپے ماہوار پر نوکری حاصل کر لی۔ مولوی حاکم علی کی مہربانی سے ان کی حضرت علامہ اقبال سے ملاقات ہوئی جنہوں نے علی بخش کو اپنے ہاں ملازمت کی پیش کش کردی۔ یہ غالباً 1901 ء کی بات ہے۔علی بخش کو محکمہ بحالیات نے اس اراضی کے عوض جو ان کے آبائی گائوں میں ساہوکار کے پاس گروی تھی، لائلپور (فیصل آباد) کے چک نمبر 188/RBنلے والا میں اراضی الاٹ کردی تھی۔اسی چک میںعلی بخش نے زندگی کے آخری ایام گزار ے ۔علی بخش 2 جنوری 1969ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی زندگی کے دوران ان کے حقیقی بھتیجے غلام محمد عرف محمد اقبال نے علامہ صاحب کی زندگی کے بارے میںجو معلومات حاصل کیں، لیہ کے محمد انور بودلہ نے بڑی محنت اور جدوجہد سے ان معلومات کو حاصل کیا جنہیں بہاولنگر سے تعلق رکھنے والے ممتاز محقق اور مصنف میاں فضل فرید لالیکا نے نومبر 2016 ء میں مرقع اقبال کے نام سے شائع کیا ۔ یہ پہلا موقع ہے علی بخش کی یادداشتوں پر مبنی کوئی کتاب سامنے آئی ہے۔
علی بخش ایک تاریخ ساز شخصیت تھے اور انہوں نے علامہ اقبال کے ساتھ دن رات جس ذمہ داری اور نیک نیتی سے گزارے اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی اس سے علی بخش کے مقام و مرتبے کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ علی بخش سے علامہ اقبال بڑے متاثر تھے اور ان کا بڑا دھیان رکھتے تھے اور علی بخش کو کسی بھی صورت اپنے سے جدا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ علی بخش بھی اپنے آپ کو انتہائی خوش قسمت انسان سمجھتے تھے اورہر وقت علامہ اقبال کی خدمت کے لیے موجود رہتے تھے۔علی بخش کی یاداشتوں سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
علی بخش کہتے ہیں کہ اپنا ذاتی حقہ بے دریغ دینے میں مطلق کوئی تکلف نہ کرتے کہ کوئی بناوٹ کی باتیں نہیں۔لوگ چاہے کچھ ہی سمجھیں مگر علامہ آقا اور ملازم کے بارے میں ہمیشہ بے حد سادہ رہے۔ انہوں نے کبھی سخت کلامی، سختی اور زور سے اپنے حکم کو نہیں دینا چاہاجو ان کی سب سے بڑی خوبی رہی۔ وہ مخاطب کرنے میں بڑی نرمی کے ساتھ پیش آتے۔اگر کوئی بات میری سمجھ میں نہ آتی تو مجھ سے خود فرماتے، دوبارہ پوچھ لیا کرو اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے۔
علامہ صاحب کے ہاں میری ملازمت
علی بخش کا کہنا ہے کہ مجھے یا کسی کو کیا معلوم تھا کہ ایک وہ وقت آئے گا کہ جب شیخ محمد اقبال صاحب دنیا کی ایک بڑی شخصیت بنیں گے اور میں بھی ان کی خدمت کرتے کرتے دنیا کے سامنے ایک وہ شمع بن کر آجائوں گا کہ جہاں کہیں بھی حضرت علامہ اقبال کا نام آئے گا تو مجھے لوگ ان کے ساتھ پروانہ وار دیکھنے اور یاد کرنے پر مجبور ہو ں گے ورنہ میں خود بھلا کس قابل تھا اور آج بھی ہو ں۔ یہ سب کچھ مجھے ایک عاشق رسولۖ کی خدمت کرنے کے صلے میں حاصل ہوا ہے۔
حضرت علامہ کی طبیعت بے حد نرم اور دوسرے پر جلد اعتبار کرنے والی واقع ہوئی تھی جس نے کبھی کسی کے خلاف ایک برا کلمہ تک استعمال نہیں کیا۔ البتہ جھوٹ بولنے والے سے سخت نفرت کرتے تھے۔ پھر میں نے ان کے لیے ہر ممکن کوشش کر کے وہ راہ اختیار کی جس کی بنا پر وہ مجھے کسی وقت بھی غیر نہ سمجھیں اور پوری طور پر مجھ پر اعتبار کر لیں۔
علامہ صاحب کے ساتھ میرے تعلقات کے عنوان سے علی بخش بتاتے ہیں کہ حالانکہ اس سے قبل جس قدر ملازم آئے شاید انہوں نے حضرت علامہ کے مزاج کو صحیح طور پر نہیں پہچانا بلکہ محض اپنے مطلب کے لیے ایک بہترین آقا کو فراموش کردیا۔پھر میں یہی کہہ سکتا ہو ں کہ قدرت کونہ جانے میری کونسی بات پسند آئی جس نے حضرت علامہ کو مجھے انتخاب کرنے میں بے دریغ خود کو آمادہ کرلیا۔حالانکہ میں تو ایک بالکل ہی جاہل قسم کا وہ دیہاتی تھا جو شہری زندگی سے کچھ بھی واقف نہ تھا۔پھر بھلا کیونکر ان کی خدمت بجالانے کے لیے ان کے مزاج کے مطابق پورا اتر سکتا تھا۔ وہ کبھی مجھ سے تلخی کے ساتھ پیش نہ آتے بلکہ اولاد کی طرح ہمیشہ برتائو کیاجو میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ بلکہ میں یہاں پر ایک خاص واقعہ تحریر کرنا چاہتا ہو جس سے کہ آپ علامہ صاحب کی شفقت کا اندازہ کر سکیں گے۔میں اس وقت کا سن ہجری بھول رہا ہوں لیکن شاید وہ زلزلہ جس میں کہ کانگڑہ شہر غرق ہوا جبکہ علامہ صاحب اندرون بھاٹی دروازہ میں میلہ رام کے مکان میں مقیم تھے ،چنانچہ وہ زلزلے کا وقت اس قدر وحشت ناک تھا کہ جیسے قیامت آگئی ہو بلکہ خود علامہ صاحب اپنے کمرے ہی میں تھے اور مجھے بار بار ہدایت کر رہے تھے کہ میں سیڑھیوں میں کھڑا ہو جائوں۔بھلا کیا شبہ ہو سکتا ہے کہ حضرت علامہ کی طبیعت بے حد نرم اور دوسرے پر جلد اعتبار کرنے والی واقع ہوئی تھی جس نے کبھی کسی کے خلاف ایک برا کلمہ تک استعمال نہیں کیا۔ البتہ جھوٹ بولنے والے سے سخت نفرت کرتے تھے۔ پھر میں نے ان کے لیے ہر ممکن کوشش کر کے وہ راہ اختیار کی جس کی بنا پر وہ مجھے کسی وقت بھی غیر نہ سمجھیں اور پوری طور پر مجھ پر اعتبار کر لیں۔خدا گواہ ہے کہ میں نے ان کی ایک ایک بات کا لحاظ رکھا۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز کی طرف بری نگاہ تک نہ ڈالی اور ان کو زیادہ سے زیادہ آرام پہنچانے کا ہر ذریعہ اختیار کیا کیونکہ جب میں نے پورے طور سے دیکھ لیا تو میں نے نہ صرف ان کی خدمت کو اپنے لیے باعث فخر سمجھنے لگا بلکہ اپنے آپ کو بنانے اور سمجھانے کے لیے قدرت کی جانب سے ایک بہترین موقع سمجھا۔میں نہیں سمجھتا ہوں کہ شاید انہوں نے مجھے کبھی نوکر سمجھ کر کسی کام کے لیے حکم دیا ہو۔ وہ مجھے اپنا ایک قریب ترین رہنے والا انسان اور دکھ درد کے موقع پر ہمیشہ احساس کرنے والا سمجھتے تھے۔جس میں انہوں نے کبھی کنجوسی سے کام نہیں لیا۔جب کبھی وہ ناراض ہو جاتے تو انتہائی غصہ کے عالم میں ''تم بڑے جنگلی اور بے وقوف ہو'' کے کلمات کہنے سے زیادہ آگے نہ بڑھتے حالانکہ خود اس بات کا انتہائی لحاظ رکھتا کہ کوئی بات اور کوئی کام ان کی طبیعت کے خلاف نہ ہونے پائے۔
آقا اور ملازم کی حیثیت
علی بخش کہتے ہیں کہ اپنا ذاتی حقہ بے دریغ دینے میں مطلق کوئی تکلف نہ کرتے کہ کوئی بناوٹ کی باتیں نہیں۔لوگ چاہے کچھ ہی سمجھیں مگر علامہ آقا اور ملازم کے بارے میں ہمیشہ بے حد سادہ رہے۔ انہوں نے کبھی سخت کلامی، سختی اور زور سے اپنے حکم کو نہیں دینا چاہاجو ان کی سب سے بڑی خوبی رہی۔ وہ مخاطب کرنے میں بڑی نرمی کے ساتھ پیش آتے۔اگر کوئی بات میری سمجھ میں نہ آتی تو مجھ سے خود فرماتے، دوبارہ پوچھ لیا کرو اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے۔کچھ روز تو میں اس بات کو بالکل نہ سمجھ سکا مگر جب زیادہ غور کیا تو معلوم ہوا کہ واقعی کام کے لیے دوبارہ نہ پوچھنے سے بڑا نقصان ہو جایا کرتا ہے۔ میں یہ راز کہیں نہیں بھولوں گا کہ آقا کی نظر اگر صحیح کام انجام دے تو وہ تلوار سے کہیں زیادہ کام کرتی ہے۔زبان آقا کا ایک بڑا حکم ہے جو آقا اور ملازم کی حیثیت کو بر قرار رکھنے میں ہمیشہ کام آتی ہے۔
علامہ صاحب کی گھریلو زندگی
علی بخش کا کہنا ہے کہ سچ تو یہ کہ علامہ صاحب کی زندگی بے حد سادہ رہی اور ان کا زیادہ وقت پڑھائی اور عبادت میں گزرا کرتا۔البتہ یہ مجھے اچھی طرح یاد پڑتا ہے کہ ان کی راتوں کا زیادہ تر حصہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے کرتے زاروقطار رونے اور سجدوں میں گزرتا۔یقین جانیے کہ اس وقت مجھے یہ جرأت نہ ہو سکتی کہ میں ان کے نزدیک جائوں اور کچھ دریافت کرسکوں۔ میں نے ان کو جہاں تک دیکھا ہے و ہ بے حد سادہ نظر آئے۔ انہوں نے گھر میں اکثر ایک کھدر کے شلوکے اور دھوتی سے زیادہ لباس کو پہننا پسند نہیں کیا۔ہاں باہر جاتے تو انگریزی لباس پہن لیا کرتے مگر گھر آکر فوراً اتار دیتے تھے۔ وہ کبھی ظاہری نمائش اور بناوٹ کو پسند نہ کرتے بلکہ بے حد سادہ اور ہلکی غذا کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھتے۔ وہ عموماً ایک وقت کھانا کھاتے جس میں ہلکی دوچپاتیاں اور تھوڑے سے سالن کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ان کو حقہ بے حد مرغوب تھا ۔سگریٹ پسند نہ تھے لیکن چونکہ وہ کام میں حد سے زیادہ مشغول رہا کرتے تھے اس لیے حقہ پینے کی نوبت تو کم ہی آتی مگر جب کبھی خیال پیدا ہو جا تا تو خشک دیکھ کر دوبارہ تازہ کرنے کا حکم ضرور دیتے۔ چنانچہ حضرت علامہ کی گھریلو زندگی کی بابت مجھے یہ ہی معلوم ہو ا ہے کہ شاید وہ کسی زمانے میں پہلوانی اور پتنگ بازی کے شوق سے کہیں زیادہ کبوتر دیکھنے اور پالنے کا خیال رکھتے تھے بلکہ کبوتروں کی بابت تو اس حد تک وہ چاہتے تھے کہ اگر ایک پورا جھنڈ کا جھنڈ ان کے گرد جمع ہو جائے تو وہ بڑی خوشی محسوس کریں۔لیکن میرے سامنے اس قسم کے مواقع کبھی کم ہی دیکھنے میں آئے لیکن اکثر وہ اپنے دوست سید تقی شاہ سے کبوتروں کا ضرور ذکر کیا کرتے بلکہ میرے دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ حضرت علامہ ستار بجانے اور سننے کا شوق تھا۔کبھی کبھی پہلوانوں کی طرح گھر ہی میں ورزش کیا کرتے۔ ڈنڈ بیٹھکیں لگاتے۔ اسی وجہ سے ان کی دوستی لالو پہلوان سیالکوٹ والے کے ساتھ زیادہ تھی۔وہ اکثر لاہور آتا تو میرے آقا ہی کے پاس کئی روز تک رہتا۔ میں اس جگہ یہ بات بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ میرے علاوہ حضرت علامہ کی خدمت میں دوسرے نوکر بھی ہوتے تھے جن سے وہ بڑی محبت اور شفقت سے پیش آیا کرتے تھے۔بلکہ وہ اس حد تک خیال کرتے تھے کہ کبھی کبھی نوکروں کے حسب منشا کھانے تیار کرواتے جس کے بعد بیٹھ کر سب کو اپنے سامنے کھلاتے۔ یہ ان کی ایک عام عادت تھی۔یہاں میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں اپنے آقا کے واسطے اکثر آلو گوشت ہی پکایا کرتا تھا جس کے لیے ایک روز انہوں نے مجھ سے کہا علی بخش تم کو تو آلو گوشت ہی بہت پسند ہیں۔حالانکہ سچ بات تو یہ تھی مجھے اس سالن کے علاوہ کوئی دوسرا کھانا پکانا کم ہی آتا تھا۔ میں کیا کرتا! اتفاق بھی ہوجاتا تھا کہ جب کبھی وہ کام سے فارغ ہوتے تو پھرتے پھراتے باورچی خانے کی طرف بھی نکل آتے جہاں کے وہ پیڑھی لے کر بیٹھ جاتے اور مجھ سے میرے گھر کے حالات پوچھنے لگتے۔میں کھانا پکانے میں مشغول رہتا اور اپنے آقا کے شفقت بھرے سوالوں کا جواب دیتا جاتا۔ اس طرح باتوں باتوں میں کھانا تیار ہو جاتا۔ اس وقت میں عرض کرتا کہ جناب کھانا تیار ہے جس پر وہ جواب دیتے کہ لائو علی بخش میں آج چولہے کے پاس ہی بیٹھ کر کھانا کھا لوں گا۔ میرے آقا کو اروی گوشت اور ٹینڈے گوشت کھانے میں کم ہی پسند آئے، اسی طرح چائے پینا بھی زیادہ پسند نہ تھی۔لیکن ان کو ان کھانوں سے کبھی نفرت نہ تھی۔ پان بھی بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے یہاں تک کہ پاندان بھی بنوا رکھا تھا۔ پھلوں میں آم سب سے زیادہ پسند تھے۔پھر جب آم کا موسم آتا تو اکثر دوست ان کو آموں کے تحفے بھیجا کرتے۔ جس کے بعد وہ اپنے قریبی دوستوں کو بلوایا کرتے ،مل کر بڑے شوق سے کھاتے اور کھلاتے اور بہت خوش نظر آتے۔ علامہ صاحب فصل کے نئے نئے خربوزے اور سردے بے حد پسند کر تے۔ گرمیوں کے موسم میں کبھی کبھی مجھے یہ حکم دیتے، علی بخش آج کسی اچھی سی دکان سے فالودہ لیتے آنا۔ وہ فالودہ شوق سے پیتے تھے۔اس جگہ میں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میری شادی کم عمری میں ہی ہو گئی تھی لیکن بدقسمتی سے ہمارے علاقے میں ایک وبائی مرض طاعون پھیلنے سے ہزاروں لوگ مر گئے۔اتفاق سے اسی بیماری سے میری بیوی کا بھی انتقال ہو گیا جس کے بعدنہ تو میرا ارادہ شادی کرانے کا ہو ا اور نہ ہی کبھی گھر والوں کے کہنے پر خیال آیا۔بلکہ جب کبھی میں نے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کیا تو مجھے مایوس کر دیتے۔اس طرح کئی مرتبہ اتفاق ہوا لیکن مجھے شادی کی اجازت نہ مل سکی بلکہ مذاق کے طور پر کہہ دیا جاتا کہ ہم تمہاری شادی یہاں لاہور میں ہی کر دیں گے۔کبھی مجھ سے یہ مذاق کرتے میں ولایت جائوں گا تو وہاں سے تمہارے لیے کوئی اچھی سی میم لائوںگا۔ ایک مرتبہ جب میں اپنے گھریلو حالات سے متاثر ہو کر جانے پر آمادہ ہو گیا تومیں نے بڑے حوصلے سے اپنا بستر باندھ کر خدمت میں جاکر رکھ دیا اور عرض کی کہ جناب میری تلاشی لے لیں، میں گھر جارہا ہوں۔جس پر حضرت علامہ اپنی عینک اتار کر مجھ سے اس طرح مخاطب ہوئے میں دیکھتا ہو ں کہ تم کس طرح جائو گے میں ابھی پولیس بلوا کر اس کے حوالے کر دوں گا۔ میں نے اس سے زیادہ سخت الفاظ کبھی بھی ان کی زبان سے نہیں سنے۔ میں ڈر کے مارے وہیں کھڑا کانپتا رہا اور رونے لگا جس کے بعد وہ شفقت کے ساتھ کہنے لگے دیکھو ڈرو نہیں میں تم کو گھر جانے کے لیے اچھے اچھے کپڑے بنوا دوں گا اور تمہارے چھوٹے بھائیوں کے لیے مٹھائی بھی ساتھ دوں گا۔اس طرح کے کلمات سن کر چپ ہو گیا، بستر اٹھا کر اپنے کوارٹر میں لاکر کھول دیا۔
رخصت سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ اس وقت وہ بالکل اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا علی بخش دیکھو میری زندگی کا اب کوئی بھروسہ نہیں ہے لیکن تم میرے اس گھر میں اسی طرح رہنا۔ یہ تمھارا اپنا گھر ہے اور بچوں کی خاص طور پر دیکھ بھال رکھنا۔ اگر تجھے یہاں سے چلے جانا ہی ہو تو جب تک جاوید جوان نہ ہو جائے کہیں نہ جانا۔
علامہ صاحب کے طبیب اور بیماریاں
جب سے میں نے علامہ صاحب کی خدمت کرنا شروع کی تو وہ مجھے بڑے کام کرنے والے اور راتوں کو بے حد عبادت کرنے والے نظر آئے۔جس کی وجہ سے میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ وہ اسی لیے اکثر بیمار رہتے تھے۔طبیعت تو شروع ہی سے نازک تھی۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ درد گردہ کی بیماری ان کو میرے آنے سے شاید پہلے ہی تھی۔پھر بد ہضمی الگ ہو گئی جو شاید زیادہ دیر بیٹھے رہنے اور زیادہ کام کرنے کی وجہ سے پیدا ہو گئی۔ ورنہ وہ کبھی زیادہ سوڈا نہ لیتے تھے۔ پھر راتوں کو اللہ اللہ کرنے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے کرتے بے حد رونے کی وجہ سے ان کی نظر بھی کمزور ہو گئی تھی۔بلکہ میں تو سمجھتا ہو ں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے آقا کی بیماریوں کی وجہ سے مجھے بھی خدمت کرنے کا موقع دے دیا۔ میں دردِ گردہ اٹھنے کے وقت میں ان کے قریب ہی رہتا بلکہ ایک مرتبہ عید کے موقع پر جب وہ شاہی مسجد سے نماز پڑھ کر گھر آئے تو دہی ڈال کر سویاں کھائیں جس کی وجہ سے ان کا گلا بیٹھ گیا۔ جو بے انتہا علاج کروانے کے بعد بھی اچھا نہ ہو سکا۔ انہوں نے اپنی بیماریوں کے سلسلہ میں بہت سے حکیموں اور ڈاکٹروں سے علاج کروائے۔سچ بات تو یہ ہے کہ اس قدر بیمار رہنے کے باوجود ہمیشہ بڑے حوصلہ والے رہے۔
علامہ صاحب کا انتقال
جہاں تک میرا خیال ہے جاوید منزل میں آنے سے پہلے میرے آقا کو درد گردہ، نظر کی کمزوری اور گلے کی تکلیف کا زیادہ زور ہو گیا تھا۔جو بڑھتے بڑھتے بڑی خطرناک صورت بن گئی۔حالانکہ سچ پو چھئے تو والدہ جاوید کے انتقال کے بعد علامہ نے بہت غم محسوس کیا۔خاص کر جب عزیزی منیرہ کو دیکھتے تو پریشان ہو جایا کرتے اور سب کام چھوڑ کر ان کو پیار کرنے لگتے۔ پھر اک وہ وقت آگیا، میرے لیے وہ منحوس گھڑیاں آگئیں کہ اپریل کا مہینہ شروع ہو گیا۔اس مہینے کے اول روز ہی کچھ اچھی حالت نظر نہیں آرہی تھی۔میں عجیب طرح کے ڈراؤنے قسم کے خواب دیکھتا جن کے بعد راتوں کو میں اپنے آقا کو اٹھ کر دیکھنے جاتا کہ وہ کیسے سو رہے ہیں۔ مگر ڈر کے مارے کسی کو کچھ نہ بتلاتا۔رخصت سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ اس وقت وہ بالکل اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا علی بخش دیکھو میری زندگی کا اب کوئی بھروسہ نہیں ہے لیکن تم میرے اس گھر میں اسی طرح رہنا۔ یہ تمھارا اپنا گھر ہے اور بچوں کی خاص طور پر دیکھ بھال رکھنا۔ اگر تجھے یہاں سے چلے جانا ہی ہو تو جب تک جاوید جوان نہ ہو جائے کہیں نہ جانا۔اس کے بعد ان کی آواز بھرا گئی۔میں یہ سب باتیں سن کر کوئی جواب نہ دے سکا بلکہ بچوں کی طرح رونے لگا۔ اس پر انہوں نے فرمایا''کچھ دنوں کے بعد رونا ابھی اس طرح رونا ٹھیک نہیں ہے۔''آخر جب 20 اپریل کا دن آیا تو مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہونے لگا۔گھر کے کسی کام میں دلچسپی نہ رہی۔ باہر سے بھی جو دیکھنے یا ملنے آتا میں اس کو دیکھتے ہی رونے لگتا۔اسی طرح پورا دن گزر گیا اور رات آگئی اس وقت ان کے نزدیک بے انتہا پریشان حالت میں چوہدری محمد حسین، میاں محمد شفیع، سید نذیر نیازی،راجہ حسن اختر،سید سلامت اللہ شاہ اور حکیم محمد حسن قرشی آکر بیٹھ گئے۔مگر اصل بات مجھے کوئی نہ بتلاتا۔حالانکہ میاں محمد شفیع نے بڑی آہستہ آواز سے کہا جناب علی بخش کا تو رو رو کر برا حال ہوا جاتا ہے۔ اس پر میرے شفیق آقا نے بڑے رک رک کر فرمایا۔ اسے معلوم ہے کہ آج ہماری رفاقت کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ رات کو اور دوستوں کے علاوہ بہت سے ڈاکٹر بھی آئے۔ سبھی مایوس نظر آ رہے تھے۔رات کا کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ڈاکٹر عبدالقیوم نے طبیعت زیادہ خراب دیکھ کر فروٹ سالٹ تیار کرکے پلانے کو کہا۔ میں گلاس آقا کے منہ کے قریب لایا تو انہوں نے انگریزی دوائی سمجھ کر منہ پھیر لیا اور آہستہ سے فرمایا کہ میں انگریزی دوائی نہیں پیوں گا۔ مگر جب میں نے عرض کیا جناب یہ کوئی دوائی نہیں بلکہ فروٹ سالٹ ہے جو آپ پہلے بھی پیتے رہے ہیں۔ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ میں نے دوبارہ گلاس ان کے منہ کو لگا دیا اور جلدی سے پلادیا۔اس کے بعد میں چوکی لگا کر وہیں بیٹھ گیااور انہیں کچھ نیند آگئی۔ اس وقت میرا خیال ہے کہ ایک مرتبہ حکیم قرشی صاحب اور ڈاکٹر عبدالقیوم بھی دیکھنے آئے۔اور تسلی دی کہ اب علامہ کی طبیعت پہلے سے بہتر ہے۔اس وجہ سے سو رہے ہیں۔یہ کہہ کر چلے گئے۔اس کے بعد کچھ دوست چلے گئے اور کچھ وہیں بڑے کمرے کے فرش پر سو گئے۔لیکن میں برابر ان کے پلنگ کے قریب ہی بیٹھا رہا۔اس وقت میرے دماغ میں طرح طرح کے الٹے سیدھے خیالات آنے لگے اور بے حد خوف سا محسوس ہونے لگا۔اس وقت انہوں نے کچھ کہنا چاہا لیکن میں اپنے خیالات میں غرق ہونے کی وجہ سے اچھی طرح سن نہ سکا۔مگر پھر زیادہ نزدیک ہونے پر مجھیان کے یہ آخری الفاظ سنائی دئیے جو کبھی نہیں بھولیں گے۔ کیا تم بھی مجھے چھوڑ چکے ہو؟ پھر انہوں نے اشارے سے شانے دبانے کو کہا اس وقت رات آدھی سے بھی زیادہ گزر چکی تھی۔میں ان کے اشارے کے مطابق شانوں کو دبانے لگا۔کچھ دیر بعد انہوں نے ہاتھ پائوں پھیلا دئیے۔ میں نے ایک بازو ان کی گردن کے نیچے رکھ دیا۔ اور دوسرے سے برابر دباتا رہا۔اس طرح کہ جیسے میںانہیں گود میں اٹھائے ہوئے ہوں۔پھر انہوں نے اشارے سے یہ کہا کہ میرے دل پر درد ہے۔اس وقت صبح کے ٹھیک سوا پانچ بجے تھے۔ میرے سوا کوئی دوسرا وہاں موجود نہیں تھا ، اذان ہونے ہی والی تھی کہ اچانک میرے بے حد شفیق مہربان آقا کے منہ سے لااِلٰہ اللہ محمد رسول اللہ کی آواز نکلی اور اس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند ہو گئیں۔ میں بے قرار ہو کر ان سے لپٹ کر زور زور سے رونے لگا۔اس وقت چوہدری محمد حسین، راجہ حسن اختر ، میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم بھاگ کر کمرے میں آگئے۔عبدالقیوم نے مجھے ہٹاتے ہوئے نبض پر ہاتھ رکھا لیکن پھر چپ چاپ الگ کھڑے ہوگئے۔جس کے بعد سب دھاڑیں مار مار رونے لگے۔جاوید منزل میں کہرام مچ گیا۔میں نے جلدی سے اندرون خانہ جاکر جاوید کو بھی جگا دیا۔ پھر معلوم نہیں کس طرح سارے شہر میں میرے آقا کے دنیا سے چلے جانے کی خبر پھیل گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے جاوید منزل لوگوں سے بھر گئی۔ ||
مضمون نگار شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے