ممتاز صحافی اور تجزیہ کارعقیل یوسف زئی کا ایک جائزہ
کچھ عرصہ سے سوات اور نواحی علاقوں میں ایک بار پھر امن و امان کی صورتحال بگڑتی دکھائی دینے لگی ہے جس کا براہ راست تعلق افغانستان کے حالات سے جڑا ہوا ہے جہاں 2009 کے بعد سرکاری سرپرستی میں تحریک طالبان پاکستان کی قیادت اور ان کے تقریباً 5000 جنگجوں کو پناہ گاہیں فراہم کی گئیں تاکہ ان کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے۔اگست 2021 میں جب امریکی اور اتحادی افواج متبادل کے بغیر افغانستان سے نکل گئیں اور افغان حکومت، فورسز نے کسی مزاحمت کے بغیر ہتھیار ڈال دیئے تو طالبان نہ صرف پورے ملک کے دوبارہ حکمران بنے بلکہ پاکستانی طالبان بھی اپنے ٹھکانوں اور جیلوں سے نکل آئے اور ان سے نمٹنے کے لیے افغان طالبان کی خواہش پر پاکستان نے مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع کیا جو بعد میں ڈیڈلاک کا شکار ہوا کیونکہ بعض سواتی اور قبائلی جنگجو پاکستان میں نہ صرف داخل ہوئے بلکہ انہوں نے حملے بھی شروع کئے جن کا بھرپور جواب دیا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ حملوں کی روک تھام اور عوام کو اعتماد میں لینے کی ضرورت سے صوبائی حکومت لاتعلق رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام میں سخت تشویش پھیل گئی اور وہ حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے نکل آئے ۔ وفاقی حکومت کا رویہ بھی بے وجہ ذمہ دارانہ نہیں رہا تاہم کور کمانڈر پشاور اور اعلی عسکری قیادت نے جہاں عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں بہت دلچسپی لی وہاں فورسز نے شورش زدہ علاقوں میں ٹارگٹڈ کارروائیوں کا بھی آغاز کیا ۔
پاک فوج نے ان اقدامات کے علاوہ تعلیمی اداروں، سڑکوں، مواصلات اور ہسپتالوں کی تعمیر اور بحالی کیلئے بھی بنیادی کام کیا ۔ اس ضمن میں سوات کیڈٹ کالج کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں ہزاروں اسٹوڈنٹس معیاری تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ بحالی کے درجنوں مراکز قائم کئے گئے، اسکالرشپ دی گئی اور باصلاحیت نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع دیے گئے جن میں ملالہ یوسفزئی بھی شامل ہیں جن کا علاج پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کی خصوصی دلچسپی پر ممکن بنایا گیا تھا ۔
سوات میں عسکریت پسندی کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔اس کا آغاز 1993-94 کے دوران اس وقت ہوا تھا جب پورے مالاکنڈ ڈویژن میں صوفی محمد کی قیادت میں ہزاروں افراد نے شریعت کے مطالبے پر پرتشدد کارروائیوں کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں سوات نہ صرف پورے ملک سے کٹ کر رہ گیا بلکہ بدیع الزمان خان نامی ممبر صوبائی اسمبلی سمیت درجنوں دیگر کو ہلاک بھی کیا گیا اور یہ سلسلہ کئی مہینوں تک چلتا رہا۔
دوسری بار یہاں نائن الیون کے بعد ایسی ہی سرگرمیوں کا پھر آغاز ہوا تاہم اس میں شدت لال مسجد اسلام آباد کے آپریشن کے بعدآئی جب مولانا صوفی محمد کے داماد مولوی فضل اللہ نے فورسز خصوصاً پولیس اور بعض پارٹیوں پر خود کش حملوں سمیت درجنوں دیگر حملے کراکے آدھے سوات کو یرغمال بنالیا ۔ سال 2007 کے اسی عرصے میں جب بیت اللہ محسود نے تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی تو فضل اللہ نہ صرف اس کا حصہ بنے بلکہ انہوں نے صوفی محمد کے جانشین کے طور پر ان کی قائم کردہ تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی پر بھی قبضہ کر لیا اور سال 2008 کے الیکشن کے بعد صوبہ میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے قیام کے بعدپورا علاقہ بدترین حملوں کی لپیٹ میں آگیا ۔ دونوں پارٹیاں چونکہ جہاد وغیرہ کی مخالف تھیں اس لیے ان کی حکومت کا جینا حرام کیا گیا ۔ وزیرستان اور پشاور کے بعد سب سے زیادہ خودکش حملے سوات میں کرائے گئے جن کی تعداد 46 رہی ۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2008 اور 2013 کے درمیان سوات میں 270 سکیورٹی اہلکاروں سمیت تقریباً 500 افراد خصوصاً سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا ۔حکومت نے فوج کے تحفظات کے باوجود سوات امن معاہدے کے نام سے شدت پسندوں کے مطالبات بھی مان لئے مگر اس کو ایک عوامی اجتماع کے دوران کھلے عام اعلان کے ذریعے توڑا گیا۔
اس دوران پولیس اور صوبائی حکومت کے دوسرے ادارے نہ صرف سرینڈر ہوئے بلکہ سرکاری ملازمین نے کام کرنا بھی چھوڑ دیا ۔ یہ صورت حال مرج ڈسٹرکٹ اور صوبے کے دوسرے علاقوں میں بھی جاری رہی ۔
سال 2008 کے آخری مہینوں میں سوات میں ریاستی رٹ ختم ہوچکی تھی ۔ خواص علاقے چھوڑ چکے تھے جبکہ عوام مکمل طور پر طالبان کے رحم و کرم پر تھے ۔
سال 2010 اور سال 2022 کے دوران جب سوات اور ملحقہ علاقوں کو بدترین سیلابوں نے اپنی لپیٹ میں لیا اس سے نمٹنے میں بھی بنیادی کردار پاک فوج کا رہا ۔ صوبائی انتظامیہ کی کارکردگی کا یہ عالم رہا ہے کہ سال 2010 کے سیلاب کے بعد فوج نے ہنگامی بنیادوں پر سٹیل کے جو پل منگوائے تھے اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک انہی سے کام چلایا جارہا ہے اور چند ہی پل تعمیر کرنے کی زحمت گوارا کی گئی ہے ۔
اس صورتحال میں مشہور زمانہ سوات آپریشن کا 2009 میں آغاز کیا گیا جس کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی خود لیڈ کررہے تھے اور اس آپریشن کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا کامیاب ترین آپریشن سمجھا جاتا ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس تاریخی آپریشن کے پیچھے کھڑی ہوگئیں اور انہوں نے اس کی باقاعدہ اونرشپ لی۔ فوج نے نہ صرف یہ کہ 20 لاکھ سے زائد شہریوں کو بحفاظت نکال کر ان کو بندوبستی علاقوں میں بسایا بلکہ 3 ماہ کے قلیل عرصے میں اتنے بڑے آپریشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر متاثرین کی واپسی کو بھی یقینی بنایا جس کی عالمی سطح پر تعریف کی گئی اور اس آپریشن کی مثالیں دی جانے لگیں ۔ فوجی قیادت نے متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کے کاموں پر نہ صرف بھرپور توجہ دی بلکہ عالمی برادری کے تعاون سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ بھی کیا اور ریکارڈ وقت میں انفراسٹرکچر فعال کرکے عوام کو تمام درکار سہولیات بھی فراہم کی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ علاقہ دہشتگردوںسے صاف کرایا گیا، ان کے ٹھکانوں کو ختم کیا گیا اور سیکڑوں کو یا تو مارا گیا یا گرفتار کر لیا گیا ۔ دوران آپریشن بعض عسکریت پسند افغانستان چلے گئے جہاں وہ سرکاری سرپرستی میں دوسرے گروپس کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملے کرتے رہے ۔
صوبائی حکومت نے چند برس قبل ایک اہم غلطی یہ کی کہ اس نے ان محدود فوجی دستوں کو واپس بلواکر اور چیک پوسٹوں کو ختم کیا جو کہ آپریشن کے بعد سکیورٹی کے معاملات سنبھالنے کے لیے مامور تھے ۔اس پالیسی کو متعدد دوسرے علاقوں میں بھی اپنایا گیا تھا۔اکتوبر2018 میں تمام اختیارات سول انتظامیہ کو منتقل کئے گئے منتقلی کے بعد سول انتظامیہ نے جس طرح اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا اور پھر انہیں ایک خاص سطح پر برقراررکھنے کا جو ہدف تھا وہ تا حال پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقامی طالبان اور ان کے حامیوں کے لیے پھر سے حالات سازگار ہونے لگے اور رہی سہی کسر افغانستان پر طالبان کے غیر متوقع قبضے نے پوری کردی ۔
ستمبر اور اکتوبر 2022میں جو صورتحال بنی اس سے نمٹنے کے لیے بھی فوج کو کچھ سکیورٹی اقدامات فوری اٹھانے پڑے اگر ایسا نہ کیا جاتا تو شاید حالات قابو سے نکل جاتے تاہم اس تمام معاملے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہسول انتظامیہ حالات کو اس انداز سے کنٹرول کرنے میںناکام رہی جس کی ضرورت تھی۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ سال 2010 اور سال 2022 کے دوران جب سوات اور ملحقہ علاقوں کو بدترین سیلابوں نے اپنی لپیٹ میں لیا اس سے نمٹنے میں بھی بنیادی کردار پاک فوج کا رہا ۔ صوبائی انتظامیہ کی کارکردگی کا یہ عالم رہا ہے کہ سال 2010 کے سیلاب کے بعد فوج نے ہنگامی بنیادوں پر سٹیل کے جو پل منگوائے تھے اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک انہی سے کام چلایا جارہا ہے اور چند ہی پل تعمیر کرنے کی زحمت گوارا کی گئی ہے ۔
پاک فوج نے ان اقدامات کے علاوہ تعلیمی اداروں، سڑکوں، مواصلات اور ہسپتالوں کی تعمیر اور بحالی کیلئے بھی بنیادی کام کیا ۔ اس ضمن میں سوات کیڈٹ کالج کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں ہزاروں اسٹوڈنٹس معیاری تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ بحالی کے درجنوں مراکز قائم کئے گئے، اسکالرشپ دی گئی اور باصلاحیت نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع دیے گئے جن میں ملالہ یوسفزئی بھی شامل ہیں جن کا علاج پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کی خصوصی دلچسپی پر ممکن بنایا گیا تھا ۔
بلا شبہ سوات ایک بے مثال کامیابی ہے اسے برقرار رکھنا ہوگا اور موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے لازمی ہے کہ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے حکومتیں اوردیگر اربابِ اختیار ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور قومی سلامتی کے اداروں کو غیر ضروری تنقید سے بچاتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کا راستہ اختیار کیا جائے تاکہ مشترکہ کوششوں کے ذریعے درپیش چیلنجز سے خود کو بچا لیا جائے ۔ ||
تبصرے