میری اماں کی پانچ بہنیں تھیں۔بھائی کوئی نہیں تھا۔آگے ان کے ہاں بھی ہم دو بہنیں ہی بچی تھیں۔سب سے بڑی آپا اور پھر سب سے چھوٹی میں۔جانے خدا کی مصلحت کیا تھی کہ درمیان میں ایک بھائی اور دو بہنیں اماں کی آغوش میں آنے سے پہلے ہی ان سے بچھڑ گئے۔اماں کو بیٹے کی بہت چاہ تھی۔آپا مجھ سے بارہ سال بڑی تھی اور میں دس سال کی تھی تو تب آپا کی شادی بی اے کرتے ہی ہو گئی اور آپا کے ہاں اوپر تلے چار بیٹیوں کی پیدائش نے اماں کے دل میں بیٹوں کی آرزو کو حسرت میں بدل ڈالا۔آپا کینیڈا جا بسیں۔اب اماں کی توجہ کا مرکز صرف میں تھی۔پھر جب میں نے ایم اے کر کے لیکچررشپ جوائن کر لی تو اماں میرے فرض سے بھی سبکدوش ہو گئیں اورپھر ابا کی اچانک وفات نے اماں کو بالکل تنہا کر دیااور میں اماں کو اپنے ہاں لے آئی۔برس بھر میں میری گود میں ایکپھول سے بیٹے نے جیسے اماں کے تمام ارمان پورے کر دئیے۔آدرش بلال جیسے میرا نہیں میری اماں کا بچہ تھا۔میں نے بھی خوب انہیں اپنے چائو پورے کرنے دیے۔خود کالج چلی جاتی اور اماں اس کی دیکھ بھال کرتیں، نہلاتیں، کھلاتیں،پلاتیں،سلاتیں اور نہ جانے کون کون سی باتیں اس ننھی سی جان سے شیئر کرتیں کہ کبھی کبھی میں ہنس دیتی ۔ اماںآپ تو اس کی دیوانی ہو گئی ہیں بلکہ مجھے بھول گئی ہیں، اور اماں جیسے اپنی دیوانگی پہ شرمندہ ہو جاتیں۔
تمھیں کیا پتہ یہ میرے لیے کیا ہے؟ یہ میرا بھائی بھی ہے،میرا بیٹا بھی ہے اور میرا نواسہ بھی۔بس تم مجھے ٹوکا نہ کرواور نہ ہی میرے پیار سے جلا کرو۔ابھی تو میں نے اس کے بچوں کو بھی اپنی گود میں کھلانا ہے،۔۔۔۔۔ میں ماما تھی اور اماں اس کی امی جان۔اور وہ مجھ سے زیادہ ان سے مانوس تھا۔اماں آدرش کو سینے سے چمٹا کر آنکھیں بند کر کے نہ جانے کہاں کھو جاتیں اور میری پلکیں بھیگنے لگتیں۔
''خدایا ۔۔۔ میری ماں کوآدرش کی خوشیاں دیکھنی نصیب کرے اور وہ اپنے ہاتھوں سے اس کے سر پر سہرا باندھیں اور گھر میں بہو لانے کی آرزو بھی پوری کریں''۔۔۔۔۔میرا رواں رواں دعا گو ہوجاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آدرش بلال دو مائوں کا اکلوتا بیٹا ہوں۔کبھی کبھی میں اپنی ماما کو مذاق میں آپا کہتا ہوں کیونکہ میری'نانو' مجھے میری ماں لگتی ہیں اور میں انہیں امی جان کہتا ہوں۔اتنا پیار تو مجھے میری ماما بھی نہیں کرتیں۔لیکن دونوں مائوں نے مجھے اپنے لاڈ پیار سے بگڑنے نہیں دیا۔میرے پاپا کا کہنا ہے کہ وہ میرے ساتھ خصوصی سخت رویہ نہ رکھتے تویہ دونوں عورتیں تو مجھے مزید ہی بگاڑ دیتیں۔اور اس لفظ'مزید'پر مجھے بہت اعتراض ہوتا۔
آدرش بلال تو وہ تو بڑے ''وکھری ٹائپ ''کے شریک حیات تھے۔جیون ساتھی میرے تھے اور مرنا وطن کے لیے چاہتے تھے۔مجھ سمیت اپنے تمام رشتوں کے ساتھ انتہائی مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ وطن کے لیے بھی بے حد جذباتی تھے اور اٹھتے بیٹھتے وطن عزیز کی خاطر جان دینے اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے کی آرزو کا اظہار کرتے رہتے اور میں اندر ہی اندر ڈر سی جاتی۔
لیکن میرے پاپا نہیں جانتے کہ امی جان نے ہمیشہ مجھے اچھے اچھے مثالی لوگوں کی زندگی کے واقعات سناسنا کر میری ذہنی تربیت کی ہے۔میرے اندر پاکستان کی محبت کا امرت ٹپکایا ہے اور مجھے پاکستان بننے کے وقت کے اتنے سچے واقعات سنائے ہیں کہ میں بچپن ہی سے وطن کی آزادی اور اس کی حفاظت کے عشق میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ جب بھی وہ 14اگست1947ء کی آزادی کے دن اور اس کے بعد کے خونی لمحات کاذکر کرتیں تو ان کی آنکھیں تو خشک ہوتیں مگر ان میں کرب کی ایک ایسی لالی چھا جاتی جو انہیں سرخ کرنے کے بجائے دھواں دھواں کر دیتی۔۔۔۔انہیں پاکستان کی حالیہ صورتحال کا بھی بہت صدمہ تھاوہ کہتی تھیں'' میرے لال قائد اعظم نے پاکستان اس لیے نہیں بنایا تھا کہ ہم اس کی یہ حالت کر دیتے۔ مہنگائی، احتجاج، بغاوتیں،مذہب کی آڑ میں خون خرابا،خود کش حملے،ہماری پیشانی پر دہشت گردی کا دھبہ۔۔۔۔یہ سب ہماری منزل نہ تھی۔''
میں اور میرا بچپن کا دوست گلریزاکٹھے ہی سکولج جاتے،گلریز کی امی نہیں تھیںاس لیے وہ ہمارے گھر والوں سے بہت مانوس تھا۔ہم سکول سے واپس آکر اکٹھے ہوم ورک کرتے۔اکٹھے سوئمنگ کرتے اور پھر وہ دونو ںگھروں کی درمیانی باڑ پھلانگ کر ہمارے ہاں آ جاتا اور امی جان ہمیں خوب مزے کرواتیں اور کہتیں،، میرے بچو!اب یہ تم لوگوں پر منحصر ہے کہ تم اپنے وطن کی حفاظت کا عہد کرو۔اپنی قوم کے ماتھے سے دہشت گردی کا یہ داغ دھو دو۔ان دہشت گردوں سے جو مذہب کی آڑ لے کر خون کی ہولی کھیل رہے ہیں،اپنے پاکستان کو پاک کر کے اسے ایک بار پھرسے جنت نظیر بنا دو۔۔۔۔اب ہماری آخری امید تم نوجوان ہی ہو۔خدا تم کو سلامت رکھے ۔خدا تم لوگوں کو ہمیشہ غموں کی لو سے محفوظ رکھے۔''
وہ ہم دونوں کی پیشانی چومتیں اور خوب مزے مزے کی چیزیں کھانے کو دیتیںاور نہ جانے کیسے اس طرح باتوں باتوں میں پاکستانی قوم کے ماتھے کے داغ دھونے کا فرض،محبت،بھائی چارے ،امن و آشتی کے سفیر بننے کی نصیحت کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت اور اپنے ملک وقوم سے محبت کے جذبے کا میٹھا امرت انہوں نے ہماری رگ رگ میں انڈیل دیا تھاا ور ہم دونوں دوستوں نے ہوش سنبھالتے ہی فوج میں جانے کا عہد کر لیا تھا۔ ایف ا یس سی کے بعدہم دونوں دوست پاکستان ملٹری اکیڈمی میں فوجی افسر بننے کے لیے سلیکٹ ہو گئے۔ ہمیں ایک ماہ بعد اکیڈمی جانا تھا کہ امی جان کے دل میں عمرے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔پاپا کی انہی دنوں ان جیوپلاسٹی ہوئی تھی اور ماماکالج سے چھٹیاں لے کر ان کی تیمارداری کر رہی تھیں۔انہوں نے امی جان کو روکنے کی کوشش کی تو وہ کہنے لگیں: تھوڑے دنوں کی بات ہے، میں نے منت مانگ رکھی تھی کہ آدرش کی فوج میں سلیکشن ہوتے ہی خدا کے در پر حاضری دوں گی یوں بھی میرا محرم تومیرے ساتھ ہے مجھے تم لوگوں کی کیا ضرورت'' انہوں نے بڑے مان سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہااور یوں میں ان کے ساتھ سرزمین حجاز کی زیارت کے لیے روانہ ہو گیا۔
انھی دنوں میرے ایک دوست کا بڑاا بھائی سوات میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں شہید ہو گیاتھااور جب اس کا جسد خاکی لایا گیا تواس کی یونٹ کا پورا گروپ تھا۔سبز ہلالی پرچم میں لپٹا ہوا تابوت،توپو ں کی سلامی اور بے شمار پھولوں کی چادر سے سجی ہوئی لحد نے ہمیں بہت متاثر کیااور ہم دونوں دوستوں کے دل میں شہادت کی آرزو پختہ ہو گئی۔تب ہی میں نے عمرے کے دوران خدا سے خوب گڑ گڑا کے اپنے وطن عزیز کی سلامتی ،امن اور حفاظت کی دعا کے ساتھ ساتھ اپنے اور اپنے پیارے دوست کی شہادت کی آرزو بھی خدا کے سپرد کر دی اوراسی روز حرم شریف میں نوافل اداکر کے مجھے غنودگی کی ایک جھونک سی آئی اور میں نے سوتی جاگتی کیفیت میںیہ محسوس کیا کہ میں اور گلریز سفید براق پوشاک میں ملبوس ایک اونچی پہاڑی کی طرف رواں دواں ہیں جہاں بہت سے لو گ ہار، پھول لیے ہوئے ہمارے استقبال میں کھڑے ہیں۔فضا میں عجیب سی پاکیزگی اور نور ہے اور ہم دونوں بہت خوش ہیں۔ہمارے سر فخر سے تنے ہوئے ہیں اور مجھے یوں لگا جیسے خدا نے میری آرزو بارآور کر دی ہے۔میں نے اسی وقت گلریز کو فون کر کے یہ نوید سنائی تو وہ بہت خوش ہوا۔چار سالہ ٹریننگ کے بعدہم اکیڈمی سے پاس آئوٹ ہو گئے اور ہم دونوں سیکنڈلیفٹیننٹ کے رینک لگا کر امی جان کے خوابوں کوسچا کرنے کے لیے تمام تر جذبوں کے ساتھ تیار تھے۔ ہم دونوں کو ایک ہی یونٹ ملی تھی ۔ حالات بہت خراب تھے۔دہشت گردی اپنے عروج پر تھی بازاروں،گلی محلوں،فوجی ٹھکانوں یہاں تک کہ مسجدوںتک میں بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا تھا۔خود کش حملے جیسے روز کا معمول بن گئے تھے۔دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری تھا اور حسن اتفاق سے نئے نئے فوجی جوان اور نوجوان افسر زیادہ شہید ہو رہے تھے۔ہر سڑک پر کسی شہید کا نام لکھا ہوتا۔ میں نے ہنس کر پاپا سے کہا'' پاپا آپ بزرگ ہمیشہ نئی نسل کولاپروا اور غیر ذمہ دار کہہ کہہ کر ڈانٹتے رہتے ہیں، دیکھیں تو ہم کس طرح وطن عزیز کی حفاظت کے لیے اپنی جا ن قربان کرکے ثابت کر رہے ہیں کہ ہم کتنے ذمہ دار اور محب وطن ہیں۔،،
میرے پاپا میری پیشانی چوم کر بولے: بیٹا تم لوگ تو ہمارا تازہ لہو ہو،اسے اتنی جلدی نہیں بہنا چاہیے ''خدا تم لوگوں کو سلامت رکھے۔تم ہمارا مستقبل ہو۔''۔۔۔۔اور امی جان نے جھٹ ان کی تائید کی 'اللہ تمہاری طرف سے ہمیشہ ٹھنڈی ہوا آئے۔ تمہیں خدا 'تتی ہوا' سے دور رکھے۔''وہ ہمیشہ یہی دعا کرتی تھیں۔۔۔۔۔۔'امی جان اتنی ٹھنڈسے تو مجھے نمونیہ ہو جائے گا۔۔۔۔کبھی کبھی 'تتی ہوا' بھی ضروری ہوتی ہے۔میں شرارت سے ہنساتو انہوں نے نجانے کیا کیا پڑھ کے مجھ پر پھونکنا شروع کر دیا اور میں سوچ میں پڑ گیا۔یہ مائیں بھی عجیب ہوتی ہیں ۔۔۔خود وطن پر مر مٹنے کا درس دیتی ہیں اور خود ہی ہمارے لیے پریشان ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں شمائلہ بلال ہوں۔کیپٹن آدرش بلال کی شریک حیات۔ابھی میرے بی اے کے امتحان کا رزلٹ بھی نہیں آیا تھا کہ کیپٹن آدرش بلال کا رشتہ آگیااور یوں جھٹ منگنی پٹ بیاہ کے بعد میں اپنا میکہ چھوڑ کر اپنے گھر میں آگئی جہاں میرے اپنے ڈیڈی جیسے پاپا اور ممی جیسی ماماکے ساتھ بے انتہا شفیق اور پیار کرنے والی نانو بھی تھیں اور رہے کیپٹن آدرش بلال تو وہ تو بڑے ''وکھری ٹائپ ''کے شریک حیات تھے۔جیون ساتھی میرے تھے اور مرنا وطن کے لیے چاہتے تھے۔مجھ سمیت اپنے تمام رشتوں کے ساتھ انتہائی مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ وطن کے لیے بھی بے حد جذباتی تھے اور اٹھتے بیٹھتے وطن عزیز کی خاطر جان دینے اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے کی آرزو کا اظہار کرتے رہتے اور میں اندر ہی اندر ڈر سی جاتی۔
ملک کے حالات یوں ہی خراب تھے اور فوج کو سرحدوں کے بجائے ملک کے اندرموجود شرپسندوں سے نمٹنا تھا۔تمام ملک میںجنگ کا سا عالم تھااور دشمن جنونی انتہا پسند تھا جس کو جڑسے ختم کرنا ناگزیر ہو چکا تھا۔
اور پھر خدا نے مجھ پر نعمتوں اور رحمتوں کی ایک ساتھ برسات کر دی اور ہمارے آنگن میں جڑواں بچوں نے جیسے عید کا سماں پیدا کر دیا۔ایک بیٹی اور ایک بیٹا پا کر جہاں میں مسرور تھی وہیں اتنی بڑی ذمہ داری سے گھبرا بھی گئی تھی لیکن چند ہی دنوں میں مجھے احساس ہوا کہ بچے دو تھے اور ہم مائیں تین۔میں ،مامااور امی جان۔۔۔۔بس پھرمیں تو relaxہو گئی کیونکہ امی جان نے زوار کے تمام کام سنبھال لیے تھے اور میں نے فاطمہ کے اور ماما کالج سے آ کر ہم دونو ں کی مدد کرنے لگتیں۔ہماری بیٹی کا نام فاطمہ بنت آدرش اور بیٹے کا نام آدرش کی فرمائش پر کیپٹن زوارآدرش رکھا گیا۔مجھے بہت عجیب لگا کہ ابھی سے بچے کے نام کے ساتھ کیپٹن کا لاحقہ؟۔۔۔۔لیکن آدرش بہت جذباتی ہو رہا تھا ،کہنے لگا: یہ ایک مجاہد کا بیٹا ہے اور اپنے باپ کے نقش قدم پرچلے گا چونکہ اس نے فوج میں ہی جانا ہے اس لیے اسے بھی کیپٹن کہنے میں کیا حرج ہے؟ پتہ نہیں میں رہوں نہ رہوں تو اپنے بیٹے کو کیپٹن پکارنے کی حسرت تو نہ رہے۔۔۔۔اور پھریاد نہیں'کیپٹن کرنل شیر خان' بھی پیدائشی کرنل تھا۔یہ بھی اسی کی طرح وطن کی حفاظت کرے گا۔ ۔۔۔میں آدرش کی ایسی باتیں سن کر کانپ سی جاتی تھی۔ جب بھی سوات،وزیرستان یا سیاچن سے کسی جوان افسر کی شہادت کی خبر آتی تو میں ڈر سی جاتی اور سوچتی اس سے بہتر تھا میری ممی میری شادی میرے خالہ زاد سے کر دیتیں جو انگلینڈ میں سیٹل تھا،کم از کم ہر وقت کا دھڑکا تو نہ رہتا۔اور پھر خود اپنے آپ کو ڈانٹ دیتی کہ وطن کو آزمائش میں چھوڑ کر پردیس کی آسائشوں میں جا بسنا کہاں کا انصاف ہے۔مجھے توفخر ہونا چاہیے کہ''میرا سہاگ قوم اور ملک کا محافظ ہے'' انہی دنوں آدرش کے جگری دوست کیپٹن گلریز کو وزیرستان آپریشن پر بھیج دیا گیااورآدرش کی پوسٹنگ سیاچن ہو گئی۔
میں نے دیکھا شمائلہ سفید سوتی دوپٹہ اوڑھے بچوں کو کھانا کھلا رہی تھی اس کی چہرے پر زردی کھنڈی ہوئی تھی اور آنکھیں ویران تھیں۔میں فوراًاس کے کمرے میں گئی اور اس کا دھنک رنگ دوپٹہ لاکر اس کے سر پر ڈال دیا۔۔۔۔بیٹی تم شہید کی بیوی ہو۔۔۔اور شہید ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اس لیے تم سدا سہاگن ہو۔وہ ہر لمحہ ہمارے ساتھ ہے اس لیے تمہاری آنکھوں میں ویرانی نہیں آس کے دیئے روشن رہنے چاہئیں کیونکہ تم نے شہید کے بچوں کی پرورش کرنی ہے اور اس کے خوابوں کو پورا کرنا ہے اور اس تمام سفر میں ہماری دعائیں اور ہمارا ساتھ ہمیشہ تمہارا ہمسفر رہے گا۔
دونوں دوست پہلی بار جدا ہوئے تھے لیکن دونوں بہت پر جوش تھے۔ایک سرحدوں کی حفاظت کے لیے سب سے بلند اور سرد ترین محاذ پر جا رہا تھا اور دوسرا دہشت گردی کو ختم کرنے کے کٹھن مشن پرمیں بہت پریشان تھی کیونکہ میں بھی تو پہلی بار آدرش سے الگ ہو رہی تھی۔لیکن بچوں کی مصروفیت اور مما ،امی جان اور پاپا کی محبت نے مجھے بہت سہارا دیا۔یوں بھی آدرش چھ ماہ کے لیے گئے تھے اور وقت سبک رفتاری کے ساتھ گزر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں مختلف مراحل سے ہوتا ہوا سیا چن اپنی پوسٹ پر پہنچ چکا تھا۔کیپٹن گلریز کو وزیرستان آپریشن میں گئے دو ماہ ہو گئے تھے۔ہم دونوں کا رابطہ فون پر رہتا تھا۔وہ مجھے وہاں کے حالات سے آگاہ کرتا اور میں سیا چن کے موسم اور رروزمرہ کے معمولات کے متعلق بتاتا۔گھر میں بھی میری ہفتے میں ایک بار بات ہوتی تھی۔ماما اور امی کی دعائیں،پاپا کی حوصلہ افزائی اور ۔۔۔شمائلہ کی فکرمندی سبھی کچھ ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
پھرایک دن مجھے ریڈیو کے ذریعے پتہ چلا کہ وزیرستان میں ایک چیک پوسٹ پر دہشت گردی کے حملے سے بہت سے جوان اور افسر شہید ہوئے ہیں۔ان میں کیپٹن گلریز بھی شامل تھا۔میں نے فوراً چھٹی Applyکی اور تیسرے دن میں گھرپہنچ چکا تھا۔گلریز کی تدفین ہو چکی تھی لیکن وہ مجھے جاتے جاتے میرے خانہ کعبہ میں دیکھے گئے خواب کی سچائی کا ثبوت دے گیاتھااور اب بہت جلد میری باری تھی۔کیونکہ شہادت کی دعا بھی میں نے دونوں کے لیے اکٹھی مانگی تھی۔پھر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ اکیلا جائے اور میں محروم رہ جائوں۔اس لیے میرا گھر آنا بہت ضروری تھا۔امی جان، ،ماما اور پاپا سے تو میں کوئی ایسی بات کر کے انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا مجھے شمائلہ کو بہت سی ہدایات دینی تھی کہ فاطمہ کو ڈاکٹر بنائے اور وہ بھی آرمی کی اور کیپٹن زوار کو فوج میں بھیجے۔یہ میری آخری خواہش ہے۔میرے دل کو مکمل یقین تھا کہ اب شہادت مجھ سے دور نہیں۔میری ابھی ایک ہفتے کی چھٹی باقی تھی کہ اچانک وہ ہو گیا جس کے بارے میں میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔۔میری پیاری امی ۔۔۔۔ایک صبح خاموشی سے ہم سب کو چھوڑ کر چلی گئیں۔خود کو اور ماما کو سنبھالنا میرے لیے مشکل ہو گیاتھا۔لیکن میری چھٹی ختم ہو گئی تھی اور میں نے ماما کا خاص خیال رکھنے کی تاکید کے ساتھ شمائلہ کو بہت زیادہ حوصلہ اور ہمت دکھانے کی نصیحت کی اور واپس گیاری سیکٹر اپنی ڈیوٹی پر آگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدرش کو واپس گئے ایک ہفتہ ہوا تھا کہ ایک مہیب گلیشئیر نے اس کی پوسٹ کو ڈھانپ لیا اور اپنی حفاظت پر مامور محافظوں کو اپنی برفیلی پناہوں میں لے لیا۔ایک لمحے میں ہنستی کھیلتی زندگیاں منجمد ہو گئیں۔
میں تو ابھی اماں کی جدائی کے غم سے باہر نہ نکلی تھی کہ آدرش کے اس سانحے نے جیسے مجھے توڑ کر رکھ دیا۔دنیا میرے لیے اندھیر ہو گئی اور میں بکھرنے کو تھی کہ آدرش کے پاپا نے مجھے احساس دلایا کہ۔۔۔۔۔موت زندگی تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔لیکن وہ موت جو اعلیٰ ترین مقصد کے عوض ملے وہ زندگی کو امر کر دیتی ہے۔ہمارے بیٹے کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی تھی ،وہ شہادت پا چکا تھا اور ہمیشہ کی زندگی اس کا مقدر بن چکی تھی۔شہیدوں کے ماں باپ آنسو نہیں بہایا کرتے۔
میں نے دیکھا شمائلہ سفید سوتی دوپٹہ اوڑھے بچوں کو کھانا کھلا رہی تھی اس کی چہرے پر زردی کھنڈی ہوئی تھی اور آنکھیں ویران تھیں۔میں فوراًاس کے کمرے میں گئی اور اس کا دھنک رنگ دوپٹہ لاکر اس کے سر پر ڈال دیا۔۔۔۔بیٹی تم شہید کی بیوی ہو۔۔۔اور شہید ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اس لیے تم سدا سہاگن ہو۔وہ ہر لمحہ ہمارے ساتھ ہے اس لیے تمہاری آنکھوں میں ویرانی نہیں آس کے دیئے روشن رہنے چاہئیں کیونکہ تم نے شہید کے بچوں کی پرورش کرنی ہے اور اس کے خوابوں کو پورا کرنا ہے اور اس تمام سفر میں ہماری دعائیں اور ہمارا ساتھ ہمیشہ تمہارا ہمسفر رہے گا۔
میں نے 7ماہ کے' کیپٹن 'زوار اور فاطمہ کو پیار کرکے شمائلہ کی پیشانی چوم لی جس پر دمکتی نورانی لاٹ اس کے رتبے کی امین تھی۔میں شمائلہ کو تسلی دے کر اپنے کمرے میں آ گئی لیکن اماں کی تصویرکے آگے رک کر مجھے خیال آیا ۔۔۔اماں اچھا ہوا کہ آپ پہلے چلی گئیں۔۔۔آپ اس جدائی کا صدمہ کیسے سہہ پاتیں۔آدرش تو آپ کا بھائی،بیٹا اور نواسہ سبھی کچھ تھا۔تبھی تو آپ اس کا استقبال کرنے پہلے ہی اس دیس جا پہنچی جہاں کا وہ مسافر تھا۔اور وہ مجھے تو بڑے اعزازسے نواز گیا ہے۔۔۔ایک شہید کی ماں۔۔۔جس کے احترام میں ساری قوم اپنا سر جھکا دیتی ہے۔حب الوطنی،مقصد سے عشق اور وطن کی حفاظت کا یہ سلسلہ تو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اس قوم کا آخری فوجی جوان زندہ ہے اور میں بہت خوش ہوںکہ میرے بیٹے نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔لیکن اماںآپ کویاد ہے کہ آدرش کو کتنی جلدی ٹھنڈلگ جاتی تھی اور ذرا سی ٹھنڈی ہوا سے اس کی ناک بند ہو جاتی تھی اور Nasal Drops ڈالنے پڑتے تھے۔تب کہیں وہ سوتا تھا۔اب اس سرد گلیشیئر کی خنکی کو کیسے برداشت کر رہا ہوگا۔ہڈیوں کا گودا تک جما دینے والی برفیلی چادر میں اس کی ناک بند ہو جائے گی تو اس کو نیند کیسے آئے گی؟پس اس فکر نے میری نیندیں اڑا دی ہیںاور میری پتھریلی آنکھیں گزشتہ کئی راتوں سے ایک لمحہ بھی سو نہیں پائیں۔۔۔۔تم ہی بتائو اماں میں کیا کروں؟ میں نے اماں کی تصویرکے سرد شیشے پر پیشانی ٹیک دی اور جیسے میرے کانوں میں کسی نے شرارت بھرے سرگوشی کی۔۔۔۔یہ مائیں بھی کیا چیز ہو تی ہیں۔۔۔۔خود ہی وطن پر مر مٹنے کا درس دیتی ہیں اور خود ہی ہماری راہ میں آنسو کے سمندر حائل کر دیتی ہیں۔۔۔۔اور میں نے جلدی سے اپنے اشک آنچل میں سمیٹ لیے مبادا میرے لال اور اس کے ساتھیوں کی قربانی رائیگاں جائے۔ ||
تبصرے