آرمی میوزیم لاہور میں شہدا ٔگیلری کے قیام کے حوالے سے لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر صیام بن سعید کی تحریر
پاکستان آرمی کے تمام رینکس نے نہ صرف پاک بھارت جنگوں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔میوزیم کا یہ ڈسپلے قوم کے ان سپوتوں اور ان کی یونٹس اور فارمیشنز کے لیے ایک خراج تحسین ہے۔یہ گیلری باور کراتی ہے کہ قوم اور پاکستانی فوج اپنے بہادر بیٹوں کی قربانی کو نہ صرف یاد رکھے ہوئے ہے بلکہ اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ اگر مستقبل میں بھی کبھی قوم کو ضرورت پڑی تو اپنا لہو دے کر آزادی کی حفاظت کرے گی۔
آرمی میوزیم لاہور کی شہدا ء گیلری پورے پاکستان میں وہ واحد ڈسپلے ہے جس میں پاکستان آرمی کے 1947 سے لے کر آج تک کے تمام شہدا کے نام کندہ کیے گئے ہیں ۔گیلری کا تھیم ہے
"Price of freedom is a son a day"
پاکستان آرمی کے تمام رینکس نے نہ صرف پاک بھارت جنگوں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔میوزیم کا یہ ڈسپلے قوم کے ان سپوتوں اور ان کی یونٹس اور فارمیشنز کے لیے ایک خراج تحسین ہے۔یہ گیلری باور کراتی ہے کہ قوم اور پاکستانی فوج اپنے بہادر بیٹوں کی قربانی کو نہ صرف یاد رکھے ہوئے ہے بلکہ اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ اگر مستقبل میں بھی کبھی قوم کو ضرورت پڑی تو اپنا لہو دے کر آزادی کی حفاظت کرے گی۔
جب آرمی میوزیم لاہور بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو ابتدائی ڈیزائن میں شہدا گیلری موجود نہیں تھی۔ یہ خیال میوزیم بننے کے دوران سامنے آیا اور اس کے سامنے آنے کی وجہ ایک دلچسب واقعہ ہے۔میوزیم بنانے کے دوران اکثر جی ایچ کیو کا چکر لگتا تھا اور وہاں مختلف ڈائریکٹریٹ اور برانچز میں جانا پڑتا تھا۔ ایک دن جی ایچ کیو شہدا سیل جانے کا اتفاق ہوا، بنیادی طور پر نشان حیدر پانے والے شہدا کے حوالے سے کچھ تفصیلات درکار تھیں۔وہاں شہدا کی لسٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔جیسے جیسے وہاں کا سٹاف نام دکھاتا جا رہا تھا ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوتی جارہی تھی کہ اس ملک کی حفاظت کے لیے آج تک سپاہی سے لے کر جنرل تک ہر رینک کے فرد نے اپنی جان کی قربانی دی ہے۔پہلی مرتبہ یہ خیال میرے ذہن میں کوندا کہ یہ کیسے ممکن ہو کہ ان تمام لوگوں کے نام ایک جگہ پر لکھ کر لگا دیے جائیں۔ مجھے دنیا کے مختلف ممالک میں میوزیم دیکھنے کا اتفاق ہوا اور بہت سارے ممالک میں کسی نہ کسی انداز میں اپنے شہدا کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔سوچا کہ ہم بھی انہی خطوط پر اپنے شہدا کے نام کندہ کریں۔
سٹاف سے ڈیٹا مانگنے کا طریقہ پوچھا پھر متعلقہ افسران سے اس پر بات کی۔ ان سب نے نہ صرف اسے سراہا بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ 4 کور کے ذریعے جی ایچ کیو سے ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا ہے۔واپس آنے کے بعد، اگلی آئی ایچ ڈی سے پہلے ایک پروپوزل بنایا اور ڈسپلے کی اہمیت اجاگر کی گئی۔ ہمارے ڈیزائنر زیادہ ترسویلین تھے اور میوزیم ڈیزائن فائنل ہو چکا تھا ۔انہوں نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ انہیں نئے سرے سے کام کرنا پڑے گا۔ چونکہ ذکر شہدا کا تھا ، وہ بھی 1947 ء سے لے کر اس دن تک تو کوئی بھی اس خیال کو آسانی سے رد نہیں کر سکتا تھا۔
یہاںیہ امر بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ اس وقت کے کور کمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل صادق علی کو انہوں نے نہ صرف اس خیال کو پسند کیا بلکہ مکمل حوصلہ افزائی بھی کی۔کور سے شہدا سیل کو خط لکھا گیا اور تمام ڈیٹا ہمیں ایک ایکسل فائل کی صورت میں مل گیا۔ ڈیٹا اتنا زیادہ تھا سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس ڈیٹا کو کس طریقے سے ٹرانسفارم کرکے دیوار کے اوپر لگایا جائے یا کسی اور مقام پر بھی ڈسپلے کیا جائے-جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ میوزیم کا ڈیزائن پہلے پلان کر چکے تھے تو پہلی تجویز یہ تھی کہ میوزیم کے باہر لان میں دیوار بنا دی جائے لیکن لاہور کے موسمی حالات کو دیکھتے ہوئے جہاں تقریبا پانچ چھ مہینے شدید گرمی رہتی ہے اور باہر شدید گرمی میں لوگ زیادہ دیر تک ٹھہر کر ڈیٹا نہیں پڑھ سکتے اور باہر بارش اور دیگر موسمی اثرات کی وجہ سے ڈسپلے کے خراب ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے۔بالآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ دیوار میوزیم کے اندر ہی بنائی جائے گی۔ایک رائے تھی کہ ایک بڑی ایل سی ڈی لگا دی جائے ۔آخر کار موجودہ مقام پر سب کا اتفاق ہو گیا کہ میوزیم کا آغاز اس گیلری سے کیا جائے۔ ابتدائی پلان یہ تھا کہ اس جگہ ایک طرف پاکستان کی تاریخ کی ٹائم لائن دی جائے گی اور سامنے تمام آرمی چیف کے پورٹریٹ لگائے جائیں گے ۔اب یہ فیصلہ ہوا کہ ایک سائیڈ پہ شہدا کے نام لگا دیتے ہیں اور سامنے آرمی چیف کے پورٹریٹ لگا دیتے ہیں اور انگریزی میں اس کے لیے جو تھیم دیا گیا، وہ تھا
"Epitome of Sacrifice and Epitome of hard work"
اگلا مرحلہ ڈیزائن کا تھا۔ ڈیزائن کرنے کی ذمہ داری سعدیہ خان اور زینت ضیا کو دی گئی اور ان کے ساتھ یاسر سعید بھی تھے۔ اسی دوران یہ بھی بحث چل پڑی کے کیا کیا تفصیلات لگائی جائیں ۔ہمارے پاس شہدا کے نام نمبر، شہادت کی تاریخ، جائے شہادت، یونٹ سب موجود تھا ۔دیکھنا یہ تھا کہ ہم کتنا ڈیٹا لگا سکتے ہیں۔ جگہ اور پڑھنے والوں کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ شہید کا نام، رینک، پیرنٹ یونٹ اور شہادت کے وقت کی یونٹ کا ڈیٹا لگایا جائے گا۔اور ڈیٹا زینت صاحبہ کے ساتھ شیئر کیا گیا ۔ جب انہوں نے ڈیٹا کا جائزہ لیا تو یہ بات سامنے آئی کہ اس دیوار پہ تو ایک چوتھائی نام بھی نہیں آئیں گے۔ شہدا کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ یہ جگہ کم پڑ گئی ہے۔یہ ایک نئی صورتحال تھی ۔
بالآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ دونوں سائیڈ پر شہدا کے نام لگا دیے جائیں اور آرمی چیف وال اگلی گیلری میں لے جائیں۔ ایک مرتبہ پھر محترمہ زینت صاحبہ کو ڈیٹا ارینج کر کے ڈیزائن کرنے کا کہا گیا۔اس مرتبہ بھی پتہ چلا کہ ابھی بھی شہدا کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان دو دیواروں پہ نام پورے نہیں آئیں گے۔ زینت صاحبہ نے اس کا حل یہ نکالا کہ اگر انگریزی حرف "وی" شکل کی دیواریں بنائی جائیں تو شہدا کے نام پورے ہو سکتے ہیں اور بالآخر کافی بحث کے بعد یہ تجویز منظور کر لی گئی ۔اب ڈیٹا کی پرووننگ کا مرحلہ شروع ہوا۔ایک نیا مسئلہ اس وقت درپیش تھا۔ اس کا تعلق میوزیم بنانے سے نہیں تھا بلکہ آنے والے وزیٹرز کے ساتھ تھا۔جب وزیٹر آئیں گے تو وہ ہزاروں شہدا کے ناموں میں سے اپنے عزیز و اقارب یا اپنے یونٹ کے شہید کا نام کیسے تلاش کریں گے ۔
کیونکہ شہدا کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے اب یہ فیصلہ کیاگیاکہ شہدا کا ڈیٹا سال کی ترتیب سے 1947 سے آج تک لگایا جائے گا ۔ اور ہر سال کے ڈیٹا کی ترتیب رینک کے اعتبار سے کی جائے گی کیونکہ رینک کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے اور انہیں آسانی سے تفریق کیا جاسکتا ہے(افسروں میں سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لے کر جنرل تک جبکہ سپاہیوں میں سپاہی سے لے کر صوبیدار میجر تک)۔ عوام کی مزید آسانی کے لیے ہر رینک کے شہدا کو انگریزی حروف تہجی کی ترتیب سے لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کیونکہ انگریزی میں صرف چھبیس حروف تہجی ہیں اس وجہ سے سے نام ڈھونڈنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہاں ایک چیز اور سامنے آئی کہ 1965ء اور1971 میں کچھ یونٹس میں ایک ہی نام کے ایک ہی رینک کے ایک سے زیادہ شہید موجود تھے ۔اب یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان شہدا کے نام کے سامنے ان کا آرمی نمبر لکھا جائے گا تاکہ دونوں شہدا کے درمیان تفریق کی جا سکے ۔ اگلا مرحلہ تقریبا پچیس ہزار شہدا کے ناموں کے ڈیٹا کو اس ترتیب کے ساتھ ارینج کرنا تھا۔میرے ساتھ صرف فرنٹیئر فورس کا ایک سپاہی کلرک فضل مولا تھا۔ہم دونوں نے اس ڈیٹا کو اپنی ضرورت کے مطابق ترتیب دینا شروع کیا ۔کام اتنا آسان نہیں تھا آزادی سے لے کر آج تک ایک ایک شہید کے نام کی ترتیب دینی تھی۔سب سے پہلے انہیں 1947 سے لے کر آج تک ایک ایک سال کی ترتیب سے الگ الگ کرنا تھا۔ اس کے بعد ہر رینک کو الگ کرنا تھا اور پھر ہر رینک کو انگریزی حروف تہجی کی ترتیب دینا تھی۔ہم دونوں گھنٹوں لیپ ٹاپ لے کر بیٹھے رہتے اور ایک ایک شہید کا ڈیٹا الگ کرتے۔ ڈیٹا کی حساسیت بہت اہم تھی کہ جب ایک مرتبہ ڈیٹا لگ جائے گا تو اس کے بعد اسے تبدیل کرنا یا اتارنا کافی مشکل کام ہوتا-کسی بھی شہید کے نام، رینک، یونٹ میں کسی بھی قسم کی غلطی کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس بات کا غالب امکان تھا ان شہدا کے اپنے عزیز و اقارب بھی میوزیم آئیں گے اور اپنے شہدا ء کا نام پڑھیں گے۔ چونکہ میوزیم کی باقی گیلریاں بھی ساتھ ساتھ بن رہی تھی اور ان پر بھی ریسرچ کا کام جاری تھا اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ ڈیزائنر زکو ڈیٹا ساتھ ساتھ بھیجا جائے گا اور جیسے جیسے اسے وہ مکمل کرتا جائے گا تو شہدا کے نام کی وہ والی سلیب لگا دی جائے گی۔ ڈیزائنرز کو شہدا کے نام بھیجے جاتے وہ اسے ڈیزائن کرکے واپس میوزیم اتھارٹی کو بھجوا دیتے، اس کو چیک کیا جاتا اور پھر فائنل سائزنگ کے لیے ڈیزائنر کو بھجوا دیا جاتا۔آخری مرحلے میں ڈیزائن کو مکمل سائز کے پینا فلیکس پر تمام شہدا کے نام لگا کر سلیب کے اوپر رکھ کے سائز چیک کیا جاتا ہے۔ درست ڈیٹا اور سائز ہونے کی صورت میں سلیب نام کندہ کرنے والے آرٹسٹ کو بھجوا دی جاتی اور وہ اس پر نام کندہ کرنے شروع کر دیتا۔ ایک ایک سلیب آتی اور وہ لگا دی جاتی ہے اور یوں یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کے تمام شہدا کے نام لگا نہیں دیے گئے۔
ملک و ملت کے لیے لیے قوم کے ان بیٹوں کی شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ 2016 ئ کے بعد ہونے والے شہدا کا ڈیٹا ہر سال کے اختتام پر جی ایچ کیو، شہدا سیل سے حاصل کر لیا جاتا ہے اور ان کے نام شہدا گیلری میں شامل کر دیے جاتے ہیں ۔ شہدا گیلری میں صرف ان شہدا کے نام لگائے جاتے ہیں جنہیں جی ایچ کیو شہدا سیل شہید قرار دیتا ہے۔ میوزیم آنے والے وزیٹرز کے لیے شہدا گیلری میں ایک کمپیوٹر بھی لگا دیا گیا ہے ۔ اگر کسی شہید کا نام تلاش کرنے میں کوئی دشواری ہو تو کمپیوٹر کارنر میں موجود متعلقہ کلرک سے شہید کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ وہ کلرک نشاندہی کرتا ہے کہ متعلقہ شہید کا نام کس جگہ پر کندہ ہے۔
شہادتوں کا جو سلسلہ اگست 1947ئ سے شر وع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ قوم کے بہادر بیٹوں نے مادر وطن کی حفاظت کے لیے ملک کے ہر کونے میں اپنے لہو کا نذرانہ لگاتار پیش کیا ہے اور کر رہے ہیں۔شہدا کا یہ خون قوم کی آزادی اور خود مختاری کا ضامن ہے۔ گیلری میں کندہ ایک ایک شہید کا نام پکار پکار کر کہتا ہے کہ ' شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سپاہی کلرک فضل مولا کو شہدا کا ڈیٹا مرتب کر نے میں لیفٹیننٹ کرنل صیام کی معاونت پر چیف آف دی آرمی سٹاف کمینڈیشن کارڈ سے نوازا گیا۔ ||
تعارف
مضمون نگار تحریر اور تحقیق کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ آرمی میوزیم لاہور کے بانی و ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔
تبصرے