بارانِ رحمت قدرت کی مہربانی اور دعائوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اور لوگ بارشوں کے موسم کو بھرپور انجوائے کرتے ہوئے اس بادوباراں سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں اور بارش کے مختلف پکوانوں اور سیرو تفریح سے محظوظ ہوتے ہیں۔ مگراس موسم میں مختلف بیماریاں جن میں ہیضہ ، ٹائیفائیڈ، ملیریا ، ڈینگی ، پیپائٹس ، ڈائریا وغیرہ قابل ذکر ہیں، بھی جنم لیتی ہیں ۔ احتیاط سے کام لیتے ہوئے ہم ان سے خود کو بچاسکتے ہیں اور بارانِ رحمت سے بھر پور طریقے سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔
ملیریا زیادہ تر بارشوں کے موسم میں ہونے والی ایک عام لیکن خطرناک بیماری ہے ۔ یہ مادہ اینا فلیز مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ مادہ مچھر انسان کو کاٹ کر ملیریا کے جراثیم انسان کے خون میں منتقل کر دیتی ہیں جو ملیر یا کا سبب بنتے ہیں ۔
ملیریا کی خاص علامات میں تیز بخار ، الٹیاں ، سر میں درد ، سردی ، تھکن ، نزلہ ، کھانسی وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ بعض اوقات جوڑوں میں درد، یرقان ، بے ہوشی کے دورے ، اور پھر ملیر یا کے شدید حملے میں اعصابی نظام بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے ، جلد پر خارش اور سرخ دھبے ملیریا کی نشانیوں میں شامل ہیں ۔
سڑکوں کے کنارے کھڑے ٹھیلے والے سے یا بازاروں میں فروخت کیے جانے والے کھانوں سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ کھلی فروخت کی جانے والی کھانے پینے کی اشیاء جن پر مکھیاں اور کیڑے مکوڑے بیٹھتے ہیں، ٹائیفائیڈ، ہیضہ ، اور ہیپاٹائٹس جیسے امراض کا باعث بنتے ہیں ۔
مریض کے خون کے معائنے اور اس کے سرخ جسیموں میں پلازموڈیم کی موجودگی ثابت کرنے کے لیے مریض کا لیبارٹری ٹیسٹ کروانا لازمی ہوتا ہے ۔ ملیریا سے بچائوکے لیے مچھروں کو تلف کرنا اور مچھروں کے کاٹنے سے بچائو بے حد ضروری ہے ۔ بارشوں کے موسم میں ٹھہرے ہوئے پانی کو صاف کرنا اور اپنے گھر اور علاقے کو صاف رکھنے سے مچھروں کی افزائش کی روک تھام ممکن ہو سکتی ہے ۔
ٹائیفائیڈ نامی مرض سالمونیلا ٹائفی (Salmonella Typhi) نامی بیکٹریا سے ہوتا ہے ۔یہ آلودہ غذا اور پانی کے استعمال سے انسانی صحت کو متاثر کرتا ہے ۔ ٹائیفائیڈ کے جراثیم مکھیوں اور گرد وغبار کے ذریعے کھانے پینے کی اشیاء میں شامل ہو جاتے ہیں یا پھر دوسری صورت میں ٹائیفائیڈ میں مبتلا مریض کے ہاتھ کی اشیاء یا آلودہ خوارک یا پانی کے ذریعے بھی صحت مند انسان میں منتقل ہو سکتے ہیں ۔ ٹائیفائیڈ کی اہم علامات میں بخار کے ساتھ ساتھ سر اور پیٹ میں درد اور اسہال شامل ہیں ۔
ٹائیفائیڈ کے بیکٹریا مریض کے پیٹ خاص طور پر آنتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں جس کے باعث آنتوں میں ورم اور آبلے کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور دست شروع ہو جاتے ہیں اور پھر مرض شدید ہونے کی صورت میں آنتوں سے خون بھی خارج ہونے لگتا ہے ۔ اس بیماری میں مریض کو مکمل آرام کے ساتھ ہلکی پھلکی غذا استعمال کرنی چاہیے ۔ چائے ، کافی اور دیگر کاربونیٹڈ مشروبات سے گریز کرنا چاہیے ۔ پانی ، سوپ اور تازہ جوس وغیرہ کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے ۔ ٹائیفائیڈ جیسے مرض سے بچنے کے لیے صحت اور صفائی کا ہر ممکن خیال رکھنا چاہیے، خصوصاََ برسات کے موسم میں پانی ابال کر استعمال کرنا چاہیے اور کھانے پینے کی تمام اشیاء کو مکھیوں اور دوسرے کیڑے مکوڑوں اور گردو غبار سے بچا کر، ڈھک کر رکھنا چاہیے ۔ کھانے سے پہلے اور رفع حاجت سے فراغت کے بعد لازمی طورپر ہاتھوں کو اچھی طرح صابن سے دھونا چاہیے ۔ مریض کے رفع حاجت اور پیشاب کو فوراََ اچھی طرح سے بہانا چاہیے یا مٹی سے ڈھک دینا چاہیے تاکہ مکھیاں اس پر نہ بیٹھ سکیں۔ کنویں ، تالاب اور پانی کے مختلف ذخائر کے نزدیک رفع حاجت سے گریز کرنا چاہیے اور اپنے گھروں کے اندر اور گلیوں میں کوڑا کرکٹ اور غلاظت کے ڈھیر نہیں لگنے دینے چاہئیں ورنہ ان میں مکھیاں پیدا ہو کر بیماریوں کا باعث بنتی ہیں ۔
ڈینگی بخار بھی مچھروں کے کاٹنے سے پھیلتا ہے لیکن ڈینگی پھیلانے والے مچھر صاف پانی میں پرورش پاتے ہیں ۔ ڈینگی وائرس کا سبب بننے والی مادہ جس کے جسم پر سیاہ رنگ کی دھاریاں پائی جاتی ہیں ، صاف پانی ، پانی کے ٹینکیوں ، گملوں ، نکاسی آب کے راستوں ، بارش کے پانی ، ساکن پانی ، صاف پانی کے بھرے ہوئے برتنوں وغیرہ میں انڈے دیتی ہیں ۔ ڈینگی بخار میں ابتدائی علامات میں نزلہ وزکام کے بعد شدید بخار، بھوک کا نہ لگنا ، آنکھوں کے پیچھے درد ہونا، جسم میں شدید درد ، پٹھوں اور جوڑوں میں شدید درد کے ساتھ جسم پر دھبوں کانمودار ہوجانا ، سانس لینے میں دشواری ، مریض کے خون میں Platelets اور سفید خلیات کی کمی شامل ہیں۔ ڈینگی وائرس کی ابھی تک کوئی ویکسین یا دوا دریافت نہیں ہوئی ہے لہٰذا جیسے ہی اس کی علامات ظاہر ہو ں ، مریض کو جس قدر ممکن ہو پانی اور تازہ شربت وغیرہ پلانا چاہیے اور قریبی میڈیکل سینٹر سے رابطہ کرنا چاہیے ۔
ڈینگی مچھر سے احتیاط ہی اس موذی مرض سے بچنے کا واحد ذریعہ ہے اور احتیاطی تدابیر میں مچھروں سے بچائوں کے لیے پانی کی ٹینکی ، بالٹی اور دوسرے پانی کے برتنوں کو ڈھک کر رکھنا چاہیے اور بارش کا پانی کہیں بھی جمع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ دروازے اور کھڑکیوں پر مچھروں سے بچنے کے لیے جالی لگوانی چاہیے اور گھروں اور دفاتر وغیرہ میں مچھرمار اسپرے بھی کرتے رہنا چاہیے ۔
کھانے کو فریج میں رکھنے سے بہتر ہے کہ ہر وقت تازہ پکے ہوئے کھانے استعمال کیے جائیں ۔ ان سب کے ساتھ ساتھ پانی اور تازہ پھلوں کا جوس بھی زیادہ سے زیادہ استعمال کریں اور اُبلے ہوئے صاف پانی کو ہی پینے کے لیے استعمال میں لانا چاہیے کیونکہ مون سون کے موسم میں ٹائیفائیڈ وغیرہ گندے پانی کے ذریعے ہی پھیلتے ہیں ۔
ہیضہ جو کہ Vibrio Cholera نامی بیکٹریا کے ذریعے پھلتا ہے ، کی وجہ زیادہ تر گندا پانی، پرانی اور باسی خوارک ہے اور موسم برسات میں کھانے پینے میں لاپروائی اور آلودہ پانی کے سبب اس مرض میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ جن لوگوں کا ہاضمہ کمزور ہوتا ہے وہ اس بیماری میں جلدی مبتلا ہوتے ہیں ۔ چھوٹے بچے بھی ہیضہ سے جلد متاثر ہوتے ہیں ۔ ہیضہ کے جرثومے مریض کی چھوٹی آنت میں پہنچ کر بہت زیادہ مقدار میں ٹاکسن پیدا کرتے ہیں ۔ اگر مریض کا براوقت علاج نہ کیا جائے تو وہ بے حد نڈھال ہو جاتاہے ۔ نظا م تنفس اور نظام انہضام پر بہت اثر پڑتا ہے ۔ ہیضے کی تشخیص میں تازہ پاخانے کا معائنہ بھی کیا جاتا ہے اور مریض کو بروقت طبی امداد دے دی جائے تو اس کی صحت بحال ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔ ہیضے کے مریض کو فوری طورپر جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے جس کے لیے اس کو نمکیات والے محلول پلانا مفید ہوتا ہے ۔ ہیضے سے بچنے کے لیے اپنے گھر اور اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرارکھنا چاہیے اور بارشوں کے موسم میں خصوصاََ پانی کو ابال کر استعمال کریں اور بازاری کھانوں اور مشروبات سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ کھانے پینے کے برتنوں اور کھانوں کو ڈھانپ کر اور مکھیوں سے بچا کر رکھنا چاہیے اور خراب سبزیوں اور پھلوں کا استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔
ہیپاٹائٹس A جو کہ گندے پانی سے پھیلتا ہے اور مریض کے جسم میں وائرس داخل ہونے کے چار ہفتے بعد پیٹ میں درد، بخار ، قے ، آنکھیں اور پیشاب کا پیلا پڑجانا ، شدید کمزوری اور نقاہت کی علامتیں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ زیادہ تر مریض کچھ عرصے میں صحت یاب ہو جاتے ہیں جبکہ کچھ مریضوں میں جگر کے فیل ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے ۔ ہیپاٹائٹس سے بچنے کے لیے صاف ستھرے پانی اور خوراک کا استعمال کریں ۔ سبزیاں اور تازہ پھلوں کو استعمال کرنے سے پہلے صاف پانی سے اچھی طرح دھولینا چاہیے ۔ کھانا کھانے سے پہلے اور رفع حاجت کے بعد ہاتھوں کو اچھی طریقے سے صابن سے دھولینا چاہئیں اور برسات کے موسم میں خصوصاََ بازاری کھانوں اور چاٹ برگر وغیرہ سے پرہیز کرنا چاہیے ۔
ہمارے معاشرے میں برسات کے دنوں میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کے پیش نظر بے شمار چھوٹی بڑی بیماریوں کا پھیلائو بہت آسانی سے ہو جاتا ہے۔ بارش کے دنوں میں کئی ہفتوں بلکہ بعض جگہوں پر تو مہینوں تک گلیوں اور سٹرکوں میں بارش کا پانی کھڑا رہتا ہے جس سے مچھروں کے ساتھ مکھیوں اور دیگر کیڑوں مکوڑوں کو بھی اپنی افزائش نسل کا بھرپور موقع ملتا ہے اور ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے ۔ اور پھر یہ مندرجہ بالا مختلف بیماریوں مثلاََ ہیضہ ، ٹائیفائیڈ، ملیریا وغیرہ کا باعث بنتے ہیں ۔ ان سب بیماریوں سے بچنے کے ہم لوگوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے ۔ سڑکوں اور گلی محلوں میں کہیں بھی بارش کے پانی کو جمع نہیں ہونے دینا چاہیے اور صفائی ستھرائی کا بھرپور خیال رکھنا چاہیے۔
سڑکوں کے کنارے کھڑے ٹھیلے والے سے یا بازاروں میں فروخت کیے جانے والے کھانوں سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ کھلی فروخت کی جانے والی کھانے پینے کی اشیاء جن پر مکھیاں اور کیڑے مکوڑے بیٹھتے ہیں، ٹائیفائیڈ، ہیضہ ، اور ہیپاٹائٹس جیسے امراض کا باعث بنتے ہیں ۔
مون سون کے موسم میں پہلے سے کٹے ہوئے پھل نہ کھائیں اور سبزیوں کو اچھی طریقے سے دھوکر پکانا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ تازہ پھل اور سبزیاں ہی استعمال کی جائیں اور معیاری غذائیں استعمال کرنی چاہئیں کیونکہ ایک اچھی صحت اور مختلف امراض کے خلاف جسم میں قوت مدافعت کو درست رکھنے کے لیے معیاری غذائوں کا استعمال بے حد ضروری ہے ۔ صاف ستھری اور تازہ خوراک استعمال کریں کھانے کو فریج میں رکھنے سے بہتر ہے کہ ہر وقت تازہ پکے ہوئے کھانے استعمال کیے جائیں ۔ ان سب کے ساتھ ساتھ پانی اور تازہ پھلوں کا جوس بھی زیادہ سے زیادہ استعمال کریں اور اُبلے ہوئے صاف پانی کو ہی پینے کے لیے استعمال میں لانا چاہیے کیونکہ مون سون کے موسم میں ٹائیفائیڈ وغیرہ گندے پانی کے ذریعے ہی پھیلتے ہیں ۔ ان سب کے علاوہ مچھروں سے بچنے کے لیے مچھر ماراسپرے کرنا چاہیے۔ ہلکے رنگوں کے مکمل آستینوں والا لباس زیب تن کرنا چاہیے اور گھروں کے اندر کسی بھی برتن میں اور باہر بارش کا پانی جمع نہیں ہونے دیا جانا چاہیے ۔
مضمون نگارایک گروپ آف ہاسپٹلز میں بہ حیثیت مائکرو بیالوجسٹ وابستہ ہیں اورمختلف اخبارات میں لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے