وطنِ عزیز پاکستان کو ان دنوں تاریخ کے بد ترین سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق دمِ تحریر سولہ سو (1600)قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکاہے۔ جن میں چھ سو اٹھتر678) (مرد، تین سو پندرہ 315))خواتین جبکہ پانچ سو باون552) (بچے شامل ہیں۔ زخمیوں کی موجودہ تعداد بارہ ہزارآٹھ سواکہتر (12871) ہے۔بلوچستان کے بتیس ، گلگت بلتستان کے چھ، پنجاب کے تین، خیبر پختونخوا کے سترہ اضلاع اس ہولناک آفت کا شکار ہوئے ہیں۔ جبکہ صوبہ سندھ میں سیلاب نے جو خوفناک تباہی مچائی ہے اس کاتو صحیح تخمینہ لگانا ہی دشوار ہو رہا ہے۔اس صوبے کے تئیس (23) اضلاع سیلاب کی زد میں ہیں۔(13,055 KM) سڑکیں، تین سوبہتّر(372)پل اور انیس لاکھ اکیس ہزار چھ سو بائیس(192,1622) گھر یا تو مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں یا جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ جبکہ مال مویشی جو اس سیلاب کی نذر ہوئے ہیں ان کی تعداد تقریباًنو لاکھ(90000) تک جا پہنچی ہے۔ اندازے کے مطابق تین کروڑ تیس لاکھ چھیالیس ہزار تین سو انتیس (33,046,329) لوگ اس وقت تک متاثر ہیں۔ماہرین کے کہنا ہے کہ اب تک تیس ارب ڈالر کا مجموعی نقصان ہو چکاہے ۔ بنیادی انفراسٹرکچر کی بحالی پر پانچ سے سات سال درکار ہوں گے جبکہ قیمتی انسانی جانوں کا تو کوئی نعم البدل ممکن ہی نہیں۔
کینیڈا کے وزیرا عظم جسٹن ٹروڈو نے اپنے ملک کی طرف سے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر اپنے فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھا کہ وہ جس قدر ممکن ہو ہر سیلاب زدہ کو خوراک، پینے کے صاف پانی اور دوسری اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے لیے مدد فراہم کررہے ہیں۔ فرانس کے صدر نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیاہے۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق اس شدید سیلاب سے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ بچے متاثر ہوئے ہیں۔ کم از کم چونتیس لاکھ لڑکیوں اور لڑکوں کو فوری طور پر زندگی بچانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔ چھوٹے بچے اپنے اہل ِ خانہ کے ساتھ کھلی جگہوں پر رہ رہے ہیں۔ ان کے پاس پینے کا پانی ہے نہ خوراک اور نہ ہی آمدنی کا کوئی وسیلہ ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ سیلاب سے متعلق نئے بے شمار خطرات کا سامنا کر رہے ہیں جن میں تباہ شدہ عمارتیں، سیلاب کے پانی میں ڈوبنا اور سانپوں کا شکار بننے کے خطرات شامل ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ پڑی ہیں۔ غذا کی سخت قلت ہے۔ دوائیاں ناپید ہیں۔ وقت نے ان صاحب ِ ثروت لوگوں کو بھی ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیا ہے جو خود دوسروں کی مدد کیا کرتے تھے۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ کلاڈیا ویب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھا کہ پاکستان میں بارشوں اور سیلاب کے باعث ہونے والی تباہی کے پیشِ نظر عالمی برادری فوری طور پر پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضے معاف کرے۔ انہوں نے لکھا کہ پاکستان میں مہنگائی بلند ترین سطح 27 فیصد پر ہے اور قرض واپس لینے کی بجائے دنیا پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے بحران کا معاوضہ ادا کرے۔کلاڈیا ویب پہلے بھی یہ بات کہہ چکی ہیں کہ گرین ہائوس گیس کے عالمی اخراج میں پاکستان کا حصہ محض ایک فیصد ہے۔ تاہم وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ملکوں کی فہرست میں پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان ترقی یافتہ ملکوں کی لالچ کی قیمت چکانے پر مجبور ہے۔
پاکستان میں مون سون بارشوں کے اس طویل سلسلے پر جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، ماہرین نے اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارا وطن جغرافیائی اعتبار سے دوشدید موسمیاتی نظاموں کے سنگم پر واقع ہے۔علاوہ ازیں دنیا بھر میں شمالی قطبی ریجن کے بعد سب سے زیادہ گلیشیئرپاکستان میں واقع ہیں۔ان گلیشیئرز کی تعداد سات ہزار دو سو ترپن (7253) ہے۔یہ گلیشیر تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں۔ اس پگھلائو میں سب سے زیادہ کردار زمینی درجہ حرارت میں اضافہ پر مبنی تبدیلیاں ہیں ۔ گرین ہائوس ایفیکٹ (Green House Effect) اس کی سائنسی توجہہ ہے۔پاکستان کا موسمیاتی تبدیلیوں میں حصہ محض ایک فیصد ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ ممالک ان موسمیاتی تبدیلیوں میں بنیادی کردار ادا کررہے ہیں۔اس کا اعتراف بھی اب خود انہی ممالک کے نمایاں افراد کی طرف سے سامنے آرہا ہے۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ کلاڈیا ویب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھا کہ پاکستان میں بارشوں اور سیلاب کے باعث ہونے والی تباہی کے پیشِ نظر عالمی برادری فوری طور پر پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضے معاف کرے۔ انہوں نے لکھا کہ پاکستان میں مہنگائی بلند ترین سطح 27 فیصد پر ہے اور قرض واپس لینے کی بجائے دنیا پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے بحران کا معاوضہ ادا کرے۔کلاڈیا ویب پہلے بھی یہ بات کہہ چکی ہیں کہ گرین ہائوس گیس کے عالمی اخراج میں پاکستان کا حصہ محض ایک فیصد ہے۔ تاہم وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ملکوں کی فہرست میں پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان ترقی یافتہ ملکوں کی لالچ کی قیمت چکانے پر مجبور ہے۔
حالیہ سیلاب کی شدیدتباہ کاریوں پر عالمی رہنمائوں نے اپنے اپنے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پچھلے دنوں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس 2روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے۔ انہوں نے اس دوران سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ انہوں نے اپنے مشاہدات کے بعد دنیا بھر کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ انہوں نے اس طرح کا سیلاب اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ میں تباہ کن سیلاب سے متاثر افراد سے یک جہتی کے لیے پاکستان پہنچا ہوں۔ پاکستان موسمیاتی تباہی سے نبر د آزماہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس موقع پر کہا کہ سیکریٹری جنرل ایسے موقع پر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں جب ایک تہائی پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ ان کے دورے سے سیلاب متاثرین کے مسائل اور مشکلات کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے پاکستان کے سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے160 ملین ڈالر کی فلیش فلڈ اپیل بھی جاری کی ہے۔ دورے کے دوران وزیر اعظم پاکستان بھی سیکرٹری جنرل کے ہمراہ رہے اور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ دورہ انسانی المیے کے بارے میں شعور کو اجاگر کرنے کے لیے اہم ہے۔ مسٹر انتونیو گوتریس نے یہ بات نوٹ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ دوسروں کے لیے فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کئی دہائیوں سے پڑوسی ملک افغانستان سے آنے والے لاکھوں پناہ گزینوں کی بڑی قیمت چکا کر میزبانی کی ہے۔ اس لیے انہیں امید ہے کہ ان کے دورے سے بین الاقوامی مدد ملے گی۔ انہوں نے بڑی درد مندی سے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار ان الفاظ میں بھی کیا کہ پاکستان میں بلاشبہ صورتحال سنگین ہے اور بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پاکستان سمیت تمام ممالک کو کام کی ضرورت ہے اور اگر آج پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے زیرِ اثر ہے تو کل کوئی اور ملک ہوگا۔ ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ امیر ممالک ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر پاکستان کی مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقہ میرے ملک پرتگال کے کل رقبہ سے بھی تین گنا زیادہ ہے۔ اقوامِ متحدہ پاکستان کی مدد کے لیے مکمل طور پر متحرک ہے لیکن پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہ کن صورت حال سے نمٹنے میں مدد کے لیے وسیع مالی وسائل کی ضرورت ہے جو بڑے مقاصد کے حصول کے لیے بے حد ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی بحران پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر اقدامات ناکافی اور غیر منصفانہ ہیں اور یہ ایک دھوکا ہے۔ چاہے پاکستان ہو، قرن افریقہ کے ساحل ہوں یا چھوٹے جزیرے یا کم ترقی یافتہ ممالک، دنیا کے انتہائی کمزور ممالک ماحولیاتی بحران پیدا کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ دنیا کے امیر ممالک ماحولیاتی بحران کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال کے ذمہ دار ہیں لیکن غریب ممالک کاربن اخراج کی وجہ بننے والے بڑے ممالک کی خوفناک قیمت چکا رہے ہیں۔
کچھ اسی طرح کی دردمندی کا اظہار یو ایس ایڈ (USAID) کی ایڈمنسٹریٹر محترمہ سمانتھا جین پاور کی طرف سے بھی سامنے آیا جب وہ اپنے حالیہ دورے پر پاکستان پہنچیں۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھا کہ وہ پاکستان پہنچی ہیں۔ زمین پر کبھی انہوں نے ایسا سیلاب نہیں دیکھا۔ ملک کے ایک تہائی حصے پر گلیشیئرز کے پگھلنے اور غیر معمولی مون سون بارشوں کے سلسلے کے باعث سیلابی صورت حال ہے۔(USAID DISASTER RESPONSE TEAM)سیلاب زدگان کو خوراک، رہائش اور ادویات پہنچانے کے لیے حکومتی کوششوں میں ہاتھ بٹا رہی ہے۔
کینیڈا کے وزیرا عظم جسٹن ٹروڈو نے اپنے ملک کی طرف سے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر اپنے فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھا کہ وہ جس قدر ممکن ہو ہر سیلاب زدہ کو خوراک، پینے کے صاف پانی اور دوسری اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے لیے مدد فراہم کررہے ہیں۔ فرانس کے صدر نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیاہے۔جاپانی حکومت نے دس ملین یورو کی امداد کا اعلان کیا ۔ اس اعلان کی اقوام متحدہ نے تصدیق کر دی ہے۔
یورپی یونین نے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ حالیہ خوفناک سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ساڑھے تین لاکھ یورو کی امداد جاری کرے گا۔ تاہم تباہی کی شدت کے اندازے کے پیشِ نظر اس امداد کو بڑھا کر ایک اشاریہ آٹھ ملین یورو کیا گیا ہے۔تاہم سیلاب کے بعد کی صورت حال کے تناظر میں اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈپٹی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر رامیرو لوپس دا سلوا (Ramiro Lopes da Silva) کا کہنا ہے کہ سیلاب کے بعد پیدا شدہ انسانی بحران عالمی برادری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے سے قاصر رہا ہے۔
معلومات کے مطابق او آئی سی نے بھی حالیہ سیلاب پر اپنے دلی دکھ اوررنج کا اظہار کیا ہے اور اپنے اس عزم کا بھی اعادہ کیا ہے کہ وہ مشکل کی ان گھڑیوں میں پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (IRC) نے بھی اپنی ایمرجنسی رسپانس ٹیمیں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بھیجی ہیں۔
دم تحریر تازہ اطلاعات کے مطابق اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل مسٹر انتونیو گو تریس نے ایک پریس کانفرنس کے دوران دوبارہ سے اس امرکا اظہار کیا ہے کہ وہ عنقریب جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران زمینی سیارے پر درپیش چیلینجز پر روشنی ڈالیں گے۔ انہوں نے پاکستان میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا دوبارہ حوالہ دیا اور عالمی امداد کی فوری اور وسیع پیمانے پر ترسیل کی دردمندانہ اپیل کی۔
مقام شکر ہے کہ پاکستانی عوام نے اپنے ہم وطن سیلاب زدگان کے لیے اپنے اپنے طور پرفنڈز اکٹھے کیے اور مصیبتوں میں گھرے لوگوں کی امداد جاری رکھی ہوئی ہے۔ حکومت پاکستان ہر ممکن طور پر اپنے محدود وسائل کو بروئے کار لا رہی ہے۔ ہماری بہادر مسلح افواج اپنی بے مثال درخشاں تاریخ کے ساتھ اس بار بھی اپنے پاکستانی بھائیوں کی ہولناک پریشانیوں میں ان کی جس انداز میں مدد کررہی ہیں اس کا اعتراف کوئی امر پوشیدہ نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ مادرِ وطن کو درپیش ہر طرح کی صورت حال میں چاہے وہ وہشت گردی کی صورت میں ہو یا قدرتی آفات کی شکل میں، مسلح افواج کے بہادر جوانوں نے قوم کو کبھی مایوس نہیں کیا اور اپنی شاندار خدمات سے اپنا نام تاریخ میں سنہرے حروف میں درج کرایا ہے۔ اللہ پاک کا بے پایاں احسان ہے اور مقامِ شکر ہے کہ یہ قوم ایک عظیم قوم ہے۔ جب کبھی بھی اس قوم پر کوئی مصیبت پڑی ہے ساری قوم متحد ہو کر ایک ہو جاتی ہے اور سب مل کر اس کا مداوا کرنے لگ جاتے ہیں۔
ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر اس بات کا پوری طرح احساس اجاگر کیا جائے کہ پاکستان کا عالمی موسمیاتی تبدیلیوں میں حصہ نہ ہونے کے برابر یعنی محض ایک فیصد ہے جیسا کہ عالمی قائدین نے اپنے بیانات میں اعتراف کیا ہے لیکن اس کی بھاری قیمت چکانا پاکستان کو پڑر ہی ہے۔ اس لیے دنیا اس بات کا جتنا جلد ادراک کرے اتنا ہی بہتر ہوگا کیونکہ سیلاب زدگان کی تکالیف ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں موسم مزید سخت ٹھنڈا ہوتا جائے گا اورمزید بارشوں کی پیشین گوئیاں بھی کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر سیلاب زدگان اسی طرح بے یارو مددگار رہے اور ان کی بحالی کا کام بر وقت نہ ہوسکا تواس امر کا سخت احتمال ہے کہ آنے والے سال میں پاکستان میں غذائی بحران کی کیفیت قحط سالی کی طرح نہ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک بہت بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتا ہے۔ پوری دنیا کی ذمہ داری ہے کہ ان بحرانی حالات سے پاکستان کو نکالنے کے لیے جس وسیع امداد اور ٹیکنیکل سپورٹ کی ضرورت ہے وہ فوری طور پر مہیا کی جائے کہ یہ انصاف کا تقاضا بھی ہے اور انسانی شرف اور ہمدردی بھی۔ ||
مضمون نگارمختلف قومی وملی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے