کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی اور دیرینہ مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کے حل نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی اسلحے کی دوڑ جاری ہے۔ اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں۔ کشمیر وہ سلگتی چنگاری ہے جو کسی بھی وقت شعلہ بن کر خطے کے مصنوعی امن کو بھسم کر سکتی ہے۔
نوے فیصد مسلم اکثریت آبادی والی ریاست کشمیر کو1947 میں وہاں کی آبادکاروں کی امنگوں کے خلاف زبردستی بھارت میں شامل کرنے کی سازش نے اس جنت نظیر وادی کو آگ اور بارود میں دھکیل دیا۔ ہری سنگھ کی مرضی سے آر ایس ایس کے جنونی غنڈوں نے نیم فوجی دستوں کے ساتھ مل کر23000 سے لے کر ایک لاکھ سے زائد اور کچھ دیگر اندازوں کے مطابق تقریباًاڑھائی لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ کچھ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ اس قتل عام کے لیے بھارتی پنجاب سے بھی فوج کو بلایا گیا تھا۔ گاندھی نے اس قتل عام پر کہا تھا کہ جموں میں رہنے والے سکھ اور ہندو باہر سے بلائے گئے لوگوں کے ساتھ مل کربڑی تعداد میں کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ یہ سب نہرو اور ماؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے ممکن ہورہا تھا۔ یہ ظلم کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب کم کرنے کے لیے کیا گیا تھا تاکہ بھارت کے ساتھ الحاق کے وقت یہ کہا جاسکے کہ کشمیرمسلم اکثریتی علاقہ نہیں ہے۔بہرکیف بھارت نے 27اکتوبر 1947 کو کشمیر میں گرداسپور کے راستے اپنی فوج اتار دی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، کشمیر کے لوگ ہری سنگھ کے مجرمانہ فعل کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
بھارتی فوج نے بھارت کے غاصبانہ قبضے کو قانونی بنانے کے لیے ظلم و جبر کی نئی تاریخ رقم کی۔ کون سا ایسا ظلم ہے جو قابض فوج نے نہتے کشمیریوں پر روا نہ رکھا ہو۔ گھر گھر تلاشی کے نام پر خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ لاکھوں نوجوانوں کو جبری گمشدگیوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ مذہبی اجتماعات پر پابندی لگادی گئی، کیسا مذاق ہے کہ مسلم اکثریت رکھنے والی وادی کشمیر میں مسلمانوں پر نماز عید، نماز جمعہ، عاشورہ کے جلوس پر پابندی ہے۔ ٹاڈا اور پوٹا قوانین نے بھارتی فوج کو کھلی چھٹی دے کر ایسا شکاری کتا بنادیا ہے جو اپنے شکار کی بو سونگھتا پھرتا ہے اور گھات لگا کر اسے بھنبھوڑ ڈالتا ہے۔
ٹاڈا کے تحت محض شک کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو گرفتار کیا جاسکتا ہے اور بغیر مقدمہ چلا ئے ایک سال تک جیل میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے ٹاڈا کے تحت1990 سے اس کے خاتمے یعنی 1995 تک پانچ سال میں بیس ہزار مقدمے بنائے گئے، ان میں سے 776 لوگوں کو ابھی تک جیل میں رکھا گیاہے۔ 2002 میں نافذ کیے گئے پوٹا نے بھی بھارتی فوج کو ایسی طاقت دی جس کا نشانہ مسلمان ہی بنے۔ بے گناہوں کی زندگیوں سے جی بھر کر کھیلنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں کے شور پر ان دونوں کالے قوانین کو ختم کردیا گیا
بھارتی فوج کے علاوہ کشمیر میں سینٹرل ریزرو فورس اور بارڈر سکیورٹی فورسز انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر رہی ہیں۔ ریڈ کراس کے ایک اندازے کے مطابق دو سال کے عرصے میں بھارتی سکیورٹی فورسز نے ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کو اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرکے تشدد کا نشانہ بنایا۔ ماورائے عدالت قتل اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ ضیا مصطفی نامی پندرہ سالہ بچے کو اٹھارہ سال تک بغیر کسی ثبوت کے صرف اس لیے جیل میں رکھا گیا کہ اس نے غلطی سے آزاد کشمیر سے لائن آف کنٹرول عبور کرکے مقبوضہ کشمیر میں قدم رکھا تھا ۔ بعد ازاں2021 میں ضیا مصطفی کو جیل سے نکال کر ایک جنگل میں لے جاکر ماورائے عدالت قتل کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک دوسرے کیس میں اکیس سالہ نوجوان کو بغیر کسی وجہ، بغیر کسی وارنٹ کے اس وقت اٹھایا گیا جب وہ اپنی نوکری کی شفٹ ختم ہونے پر گھر واپس جارہا تھا۔ اسے بھی پیلٹ گن سے پیٹ میں گولیاں مار کر ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد 2016 میں قابض فوج نے نہتے مظاہرین پر پیلٹ گن سے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 17000بے گناہ شہری زخمی ہوئے جبکہ 600 کے چہروں پر پیلٹ گن کے زخم تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق 1990 سے لے کر 2022 تک 8000 ماورائے عدالت قتل رپورٹ ہوئے ہیں۔ جبکہ 2008 سے 2018 کے دوران یہ تعداد دو ہزار کے لگ بھگ رہی۔
جبری گمشدگیوں کے بڑھتے تناسب کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں ایک نئی اصطلاح ہاف وڈو(Half Widow) ایجاد ہوئی۔ ہاف وڈو ان کشمیری مسلمان عورتوں کو کہا جاتا ہے جن کے شوہر بھارتی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہیں۔ ایسا نام اس لیے ایجاد ہوا کیونکہ جن لوگوں کو اس طرح جبری طورپراٹھالیا جاتا ہے وہ لوٹ کر گھروں کو نہیں آتے بلکہ ان کا نشان پھر ان اجتماعی قبروں میں ہی ملتا ہے جو ہزاروں کی تعداد میں مقبوضہ کشمیر میں پائی جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک قبر میں سے برآمد شدہ دوہزار سات سو لاشوں میں سے پانچ سو سے زائد لاشیں مسنگ پرسنز کی تھیں۔ ایک تحقیق کے مطابق خواتین کی عصمت دری اور ماورائے عدالت قتل کو وادی میں خوف پھیلانے کے لیے منظم انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 1989 سے لے کر 2020 تک گیارہ ہزار دوسو چوبیس عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ خیال رہے کہ یہ اعداد وشمار ان کیسز کے ہیں جو رپورٹ ہوئے ورنہ زیادہ تر خواتین بدنامی کے ڈراوراپنے خاندان کی جان کے خوف سے خاموش رہتی ہیں۔ اس ضمن میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس طرح کے جرائم کی کوئی تفتیش نہیں ہوتی اگر ہو بھی تو زیادہ سے زیادہ سزا جو بھارتی اہلکاروں کو ملتی ہے وہ نوکری سے عارضی رخصت ہے۔ جب کہ فورتھ جینوا کنونشن کاآرٹیکل 27 ، خواتین کے خلاف کسی بھی قسم کے غیر مناسب رویے جس میں عصمت دری، جبری جسم فروشی وغیرہ شامل ہیں، کی ممانعت کرتا ہے۔ لیکن بھارت جینوا کنونشن کی اس ہدایت کو پیروں تلے روند کر جنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے۔
کشمیر میں بغیر مقدمہ چلائے بے گناہ شہریوں کو جیلوں میں رکھا جاتا ہے۔ خواتین کی عزتیں پامال کی جاتی ہیں۔ جبری گمشدگیاں ہوتی ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ کوئی چھپی ہوئی بات ہے۔ امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹس میں ان تمام جرائم کا ذکر موجود ہے۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس ظلم پر چیختی ہیں لیکن بھارت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ دراصل بھارت اپنی سکیورٹی فورسز کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (اے ایف ایس پی اے)کا استعمال کرتا ہے۔ 1990 میں نافذ کیا گیا یہ ایکٹ بھارتی فورسز کو کسی بھی انکوائری یا جواب دہی کے خلاف شیلڈ مہیا کرتا ہے۔ اس کے سیکشن5 کے مطابق مرکزی حکومت کی پہلے سے دی گئی منظوری کے بغیر بھارتی فوج کے اہلکاروں کے خلاف کوئی بھی انکوائری نہیں ہوسکتی۔ یہ ایکٹ کسی بھی شورش زدہ علاقے میں فورسز کو تشدد، گولی مارنے، املاک کو تباہ کرنے سمیت تمام ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے جن کے نتیجے میں چاہے کسی بے گناہ کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ انڈیا نے کشمیر میں اس قانون کا بھرپوراستعمال کیا ہے اور اپنی فوج کو پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے ہٹا کر بدمعاشوں کے جتھے میں بدل دیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اس ایکٹ کے خاتمے کے لیے چیخ چیخ کر تھک گئی ہیں لیکن بھارت پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اپنی ہٹ دھرمی سے تشدد کا راستہ اختیار کیے بیٹھا ہے۔ آٹھ لاکھ سے زائد انڈین آرمی کی موجودگی کے باوجود کشمیر کے لوگوں کے دل سے آزادی کی شمع بجھائی نہیں جاسکی ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے مقبوضہ وادی عقوبت خانہ بن چکی ہے ۔ باہر کی دنیا تک ان مظلوم مسلمانوں کی رسائی تقریباً ناممکن ہے لیکن یہ بھارت کے آگے سر جھکانے کو تیار نہیں۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے 27 اکتوبر1947 میں جب بھارتی قابض فوج کشمیر میں داخل ہوئی تو اس کا واحد مقصد ظلم کے ذریعے معصوم نہتے بے گناہ کشمیریوں کو خوفزدہ کرکے الحاق کو ان پر تھوپنا تھا۔ آج تک وہاں ننگی جارحیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ اب اس میں اور شاطرانہ چالیں شامل ہوگئی ہیں۔ انگلینڈ سے شائع کی گئی ایک رپورٹ ''انڈیا وار کرائم ان کشمیر'' کے مطابق بھارت نے جموں و کشمیر میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی کردار تفویض کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں مشہور کریم کیس کا حوالہ دیتے ہوئے اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کریم نامی شہری کو تفتیش کی غرض سے اٹھایا گیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پراس سے تفتیش کرنے والے انگریزی بولنے والے سفید فام آفیسرز تھے جو اس سے افغانستان اور فلسطین کے بارے میں تفتیش کرتے رہے۔ بھارت کے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہیں ہے۔
اقوام متحدہ میں سات دہائیوں قبل مسئلہ کشمیر پیش ہوا جہاں سے اس مسئلے کا حل حق خود ارادیت تفویض کیا گیا۔ اقوام متحدہ میں رسوا ہونے کے بعد بھی بھارت کی ہٹ دھرمی میں کوئی کمی نہیں آئی اور اس نے کسی بھی صورت اپنی فوج کو کشمیر سے نکالنے سے انکار کیا۔ مک ناٹن، ڈکسن اور فرینک گراہم تینوں ثالثوں نے جو تجاویز دیں پاکستان نے ہمیشہ ان سے اتفاق کیا لیکن بھارت نے ہمیشہ دھونس، زبردستی کا رویہ اپنائے رکھا۔ اس رویے اور کشمیر سے فوج نہ نکالنے کی ضد کے باعث امریکی حلقے بشمول امریکی سفیر آن ریکارڈ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ بھارت جان بوجھ کر کشمیریوں کوحق خود ارادیت نہیں دینا چاہتا کیونکہ بھارت جانتا ہے کہ کشمیری پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود کشمیر سلامتی کونسل کے سرد خانے میں کہیں پڑا ہوا ہے۔ بھارت نے آرٹیکل370 کو ختم کرکے کشمیریوں کے بچھے کھچے حقوق چھین لیے اور آرٹیکل 35 اے کو نافذ کرکے مقبوضہ کشمیر کی مسلم آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔پاکستان کے علاوہ چین وہ واحد ملک ہے جس نے ہمیشہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ باقی دنیا کا سویا ہوا ضمیر وادی سے بلند ہوتی چیخوں کو سننے سے قاصر ہے۔ اغیار سے کیا شکوہ کریں کہ امت مسلمہ خود خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ او آئی سی باقی تمام مسائل کی طرح یہاں پر بھی ناکام ہے۔
دنیا نے کشمیر نامی اس فلیش پوائنٹ کے حل کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ یہاں ہونے والے مظالم دنیا کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود دنیا کی طاقتیں بھارت کے ہاتھ روکنے میں ناکام ہیں۔ یاد رہے یہ وہی دنیا ہے اور وہی سپر پاور ہے جو ہولوکاسٹ کا ماتم آج بھی کررہی ہیں۔ صرف اس لیے کہ ہولوکاسٹ کی مذمت سے عالمی طاقتوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ جیسے ہولوکاسٹ کی مذمت اور اس کے متاثرین سے ہمدردی جتانا فرض بن چکا ہے، بالکل اسی طرح بلیک لائف میٹرز کی پذیرائی بھی لازم ہے۔ بے شک انسانیت کی معراج اسی میں ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور کسی بھی بے گناہ کی موت انسانیت کی موت ہے۔ لیکن کیا کشمیری انسان نہیں ہیں؟ کیا ان کے خون کا رنگ الگ ہے۔ دنیا کے مہذب ملکوں کی نظروں سے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اس لیے اوجھل رہتے ہیں کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ دوسری اورسب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا ایک ارب کی آبادی والی منڈی بھارت کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی، سو ایک طرح کے خاموش معاہدے کے تحت بھارت کو دنیا کیحمایت حاصل ہے کہ جتنی چاہو خون کی ہولی کھیلو کوئی نہیں پوچھے گا۔ لیکن دنیا کو یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسائیوں کے درمیان دیرپا اور پائیدار امن کے لیے تنازعات کا حل ہونا بے حد ضروری ہے۔ ||
مضمون نگار فری لانس صحافی ہیں۔ حالاتِ حاضرہ اور سماجی و سیاسی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے