یہ علم ہی ہے جوسماجی حیوان یعنی انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتاہے اور اسے شعور سے نوازتا ہے۔ اسے ضبط اورخود شناسی سکھانے کے ساتھ ساتھ غور و فکر کی صلاحیت کے ذریعے اطاعت گزار بھی بناتا ہے اور حاکم بھی ۔ علم ہی اسے ہار کو قبول کرنے اور جیت کے جذبے سے سرشار ہونے میں مدد دیتا ہے ، انسان کو اختلاف کرنااور دوسروں کی رائے کا احترام کرنا سکھاتا ہے ۔ یہی کالے کو گورے اور دیہاتی کو شہری پر سبقت دلاتا ہے ۔ بلا مبالغہ آج علم ہی اقوام عالم میں مسابقت کااہم ترین معیار بن چکا ہے ۔
یوں تو معیارتعلیم کے بہت سے پیمانے ہیں جن میں قابل اساتذہ ، معیاری نصاب ، تعلیمی ماحول ، تحقیق ،معاشرتی سپورٹ ،ریاستی عزم ،طلبا کا ذوق وغیرہ اہم ترین ہیں لیکن تعلیمی کارکردگی میں شرح خواندگی سب سے بنیادی پیمانہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان 25ناخواندہ ترین ممالک کی عالمی درجہ بندی میں 16ویں نمبر پر ہے ۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق بالترتیب جنوبی سوڈان، افغانستان ، برکینا فاسو ، نائجر، مالی ،چاڈ ، صومالیہ ، ایتھوپیا ، گنی ،بنین ، سر لیون، ہیٹی ، سینیگال ، گیمبیا ، اور بھوٹان جیسے جنگ یا بحران زدہ ممالک کی کار کردگی ہی پاکستان سے بد ترہے۔
پاکستان نے گزشتہ 75برس میں دفاع سمیت جہاں بہت سے شعبوں میں نمایاں کار کردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہیں بد قسمتی سے ترقی کے بنیادی معیار یعنی شرح خواندگی میں وہ مقام حاصل نہیں کر سکا جو دنیا کے کئی چھوٹے ممالک بھی حاصل کر چکے ہیں ۔ اکیسویں صدی کی 2دہائیاں گزرنے کے باوجود ملک کے زیادہ تر علاقو ں میںشرح خواندگی 50فیصد سے بھی کم ہے ۔ ملک میں صوبوں کی شرح خواندگی میںپنجاب 64 فیصد کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ63 فیصد کے ساتھ سندھ دوسرے 55 فیصد کے ساتھ خیبر پختونخوا تیسرے اور46 فیصد کے ساتھ بلوچستان چوتھے نمبر پر ہے ۔
پاکستان بیورو آف سٹیٹیسٹک (ادارہ برائے شماریات )کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ شرح خواندگی راولپنڈی میں82.45فیصد ہے جہاں 88فیصد مرد اور 77فیصد خواتین خواندہ ہیں اوراس کے دیہی علاقوں میں شرح 80جبکہ شہری علاقوں میں 84فیصد سے زیادہ ہے ۔ وسطی کراچی میں شرح خواندگی 82فیصد ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ ضلع میں 48فیصد خواجہ سراء بھی خواندہ ہیں۔ شرح خواندگی میں دارالحکومت اسلام آباد کا تیسرا نمبر ہے جہاں 81فیصد سے زیادہ آبادی خواندہ ہے اور مردوں میں شرح 87 جبکہ خواتین میں 76 فیصد ہے۔اسلام آباد میں خواجہ سرائوں کی شرح خواندگی55فیصد سے کچھ زائد ہے ۔ شرح خواندگی میں کراچی کا ضلع کورنگی چوتھے نمبر پر ہے جہاں 80فیصد آبادی خواندہ ہے اور یہاں 81فیصد مرد جبکہ 76فیصد خواتین خواندہ ہیں۔یہاں 58فیصد خواجہ سراء خواندہ ہیں۔لاہور میں شرح خواندگی 78فیصد ہے 79فیصد مرد جبکہ64 فیصدخواتین خواندہ ہیں۔ لاہور میں 46فیصد خواجہ سراء خواندہ ہیں۔سیالکوٹ، گجرات اور جہلم میں شرح خواندگی79، فیصل آباد 70اور ملتان میں60فیصدہے ۔ سندھ میں حیدر آباد میں شرح 66، سکھر 54، لاڑکانہ 53 اورمیر پور خاص میں 42فیصد ہے۔ خیبرپختونخوا ہ میں سب سے زیادہ شرح خواندگی ایبٹ آباد میں 76،ہری پور 72، چترال 64، کرک 63، مانسہرہ 62، مالا کنڈ میں 62جبکہ صوبائی دارلحکوت پشاور شہر میں شرح خواندگی 55فیصدہے۔بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے شہری علاقوں میں شرح خواندگی 69جبکہ دیہی علاقوں میں 49فیصد ہے ۔ کوئٹہ شہر میں 69فیصد مرد اور46 فیصد خواتین خواندہ ہیں اور یہاں 39فیصد خواجہ سراء خواندہ ہیں ۔ صوبے کے دیگر اضلاع میں سے کیچ میں شرح خواندگی 62، پنجگور 59اور پشین میں 52فیصد ہے ۔ ملک میںسب سے کم شرح خواندگی والے اضلاع میں کوہلو میں 18، بنوں 19فیصد ، ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت 20،کوہستان 22، واشک ، جھل مگسی اور نصیر آباد 23،بارکھان ، ڈیرہ بگٹی، آوران اورٹھٹھہ 25،تھر پارکر 29، راجن پور 33، ڈیرہ غازی خان 46، لودھراں 47 فیصدہے ۔
جدید دنیا میں ممالک کی ترقی کا پیمانہ سڑکیں یا پل نہیں بلکہ مسلمہ عالمی اصولوں کے تحت اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے،یو این ڈی پی کی وضع کردہ انسانی ترقی کی درجہ بندی ''ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس '' ہے جس کے لیے اوسط عمر، تعلیم اور فی کس آمدنی کے بنیاد ی پیمانوں پر کسی ملک کی ترقی کو جانچا جاتاہے ۔ شر ح خواندگی اور انسانی ترقی کا آپس میں گہرا تعلق ہے جس کا اظہار ان اعداد وشمار سے ہوتا ہے کہ ناخواندگی کی شرح میں بد ترین کار کردگی کا مظاہرہ کر نے والے اولین 10ممالک میں سے نصف یعنی نائجر ، چاڈ ، جنوبی سوڈان ، مالی اوربرکینا فاسوانسانی ترقی کی عالمی درجہ بندی میں بھی بدترین کار کردگی کا مظاہرہ کر نے والے پہلے دس ممالک میں شامل ہیں ۔دوسری جانب جب انسانی ترقی میں بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کر نے والے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ شرح خواندگی میں بہترین کار کر دگی کا مظاہرہ کر نے والے 10ممالک میں سے فن لینڈ ، آئس لینڈ ، ڈنمار ک ، سویڈن ، سوئٹزر لینڈ اور ہالینڈ انسانی ترقی کی عالمی فہرست میں بھی ٹاپ10میں شامل ہیں ۔یہ لمحہ فکریہ ہے کہ عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ماہر معیشت اور سابق وفاقی وزیر خرانہ ڈاکٹر محبوب الحق کی جانب سے متعارف کر وائے جانے والی انسانی ترقی کی درجہ بندی میں پاکستان کی کارکر دگی نیپال، بنگلہ دیش ، بھوٹان ، سری لنکا اور مالدیپ سمیت 150ممالک سے سے بھی نیچے ہے ۔
یونیسکو کے انسٹی ٹیوٹ فار لائف لانگ لرننگ (UIL)کے مطابق عالمی سطح پر 2تہائی سے زائد(75فیصد)56کروڑ50لاکھ ناخواندہ افراد 29ممالک میں آباد ہیں جن میں2030ء تک شرح خواندگی کے اہداف حاصل کر نے کے لیے14ارب ڈالر کی رقم در کار ہے، ان میںسے 50فیصد سے کم شرح خواندگی والے ممالک افغانستان ، بنین ، بر کینا فاسو ، سینٹرل افریقن ری پبلک ، چاڈ ، کوموروس ، آئیوری کوسٹ ، ایتھوپیا ،گیمبیا ، گنی ، گنی بسائو ، ہیٹی ، عراق ، لائبیریا ، مالی ، موریطانیہ ، نائجر ، سینیگال ، سرا لیون اور جنوبی سوڈان میں 10ارب ڈالرجبکہ 50فیصد سے زائد شرح خواندگی والے 9ممالک پاکستان ، بنگلہ دیش ، بھارت، چین ،مصر ، انڈونیشیا، میکسیکو اورنائیجیریا میں آئندہ 8برسوں میںپائیدار تر قی کے حصول کی خاطر شرح خواندگی کے اہداف کے حصول کے لیے 4ارب ڈالر درکا ہونگے ۔
تعلیم انسان میں مختلف حوالوں سے کیسے شعور اجاگر کرتی ہے، اس کی دنیا میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں ۔ان میں سے ایک طب کے حوالے سے بھی ہے ۔شرح خواندگی میں اضافے سے بہت سے طبی اور معاشرتی مسائل پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے ۔ 2020ء کی ایک تحقیق کے مطابق افریقی ملک بولیویا میں خواندگی کے ایک پروگرام میں شرکت کر نے والی خواتین ضرورت کے وقت اپنے اور اپنے بچوں کے لیے بہتر اندا زمیں طبی امداد طلب کر پائیں اور ان میں طبی خطرات سے نمٹنے کے نظام مثلاً حفاظتی ٹیکوں سے استفاد ہ کر نے کی زیادہ صلاحیت دیکھنے میں آئی ۔اسی طرح نیپال میں شرح خواندگی میں اضافے سے خاندانی منصوبہ بندی کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ کم آمدنی والے ممالک میں اگر تمام طلباء پڑ ھنے کے بنیادی فنون سیکھ لیں تو 17کروڑ 10لاکھ افراد شدید غربت سے نکل سکتے ہیں۔ 2003ء سے امریکہ ،برطانیہ، آسٹریلیا اور کولمبیا میں خواندگی کو بڑھا کر غربت کے خاتمے کے لیے قائم ''ورلڈ لٹریسی فائونڈیشن '' کے مطابق دنیا میں ناخواندگی کے باعث عالمی سطح پر (طب ، جرائم ،ویلفیئر،آمدنی و کاروبارکا نقصان)سالا نہ 11کھرب 90ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جس میں سے 25فیصدیا 300ارب ڈالر امریکہ، 135چین، 53بھارت ، 27برازیل اور 18ارب ڈالر سے زائد کا نقصان آسٹریلیا کو اٹھا نا پڑتا ہے ۔دنیا کے مختلف ممالک میں 80فیصد تک قیدی کم سطح کی خواندگی کے حامل ہیں ۔ 1973ء سے نیو یارک میں قائم ادارے لیٹریسی پارٹنرزکے مطابق ناخواندہ کو خواندہ ملازم کے مقابلے میں 42فیصد تک کم اجرت ملتی ہے ۔ کم خواندگی والے 43فیصد امریکی غربت میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔
خواتین کسی معاشرے میں تبدیلی کا بہت بڑا محرک ہوتی ہیں ،تحقیق کے مطابق کسی ملک میں طالبات کی 10فیصدشرح بڑھانے سے ملکی جی ڈی پی میں 3فیصد اضافہ ممکن ہے۔ جنگ زدہ معاشروں میں خواندگی کیسے امن کے قیام میں مدد دیتی ہے، اس کی ایک مثال 2004ء میں کی گئی ایک سٹڈی سے سامنے آتی ہے جب کولمبیا میں مقامی مسلح تصادم کے شکار افراد نے اپنے تجربات دوسروں تک پہنچا کر صدمے سے نکلنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ۔
8ستمبر کو ہرسال دنیابھر میں عالمی لیٹریسی ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہمارے لئے بھی ایک پیغام لاتا ہے کہ ہمارے ہاں ناخواندگی کی وجوہات پر قابو پانے کے لئے سوچ بچار کرکے قومی سطح پر ایک پالیسی متعارف کروائی جائے جس سے ملک میں خواندگی کی شرح میں اضافہ ہوسکے اور خواندہ افراد ملک کی تعمیرو ترقی میں بھرپورحصہ ڈال سکیں۔
مضمون نگار ایک قومی اخبار کے ساتھ وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے