14اگست 1947 ایک ملک بنا تھا۔
6 ستمبر 1965 ایک قوم بنی ہے۔
اسی دن کی تو آرزو تھی سب کو۔ کہ جب وطن پر دشمن کا وار ہو۔ جب سرحد پر غنیم کی یلغار ہو تو سب ایک ہوجائیں۔ یہ پاکستانیت ہے، یہ جذبہ ستمبر ہے، دکاندار، تاجر، صنعت کار، مزدور، کسان، کلرک، افسر، صحافی، استاد، پروفیسر، طالب علم، وزیر، سفیر، جاگیردار، سردار، سب ایک ہیں۔ سب کہہ رہے ہیں۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔
''عزیز ہم وطنو! السلام علیکم!
دس کروڑ پاکستانی عوام کی آزمائش کا وقت آگیا ہے۔
اب بھارتی حکمرانوں نے کسی رسمی اعلان جنگ کے بغیر اپنی روایتی بزدلی اور عیاری سے کام لیتے ہوئے اپنی فوج کو پاکستان کی مقدس سر زمین میں داخل ہونے کا حکم دیا ہے۔ ہمارے لیے وقت آگیا ہے کہ دشمن کو دندان شکن جواب دیں اور بھارتی سامراجیت کو کچل کر رکھ دیں۔ حالات نے دشمن سے مقابلہ کے لیے لاہور کے بہادر شہریوں کا سب سے پہلے انتخاب کیا ہے۔ تاریخ ان جواںمردوں کے کارنامے اس عبارت کے ساتھ زندہ رکھے گی کہ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے دشمن کی تباہی کے لیے آخری ضرب لگائی۔ پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دلوں میں''لا الٰہ الا اللہ'' کے مقدس کلمات بسے ہوئے ہیں، اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک بھارتی توپوں کے دہانے ہمیشہ کے لیے سرد نہیں ہوجاتے۔ بھارتی حکمران یہ نہیں جانتے کہ انہوں نے کس جری قوم کو چھیڑنے کی جسارت کی ہے۔ پاکستانی عوام جو اپنے عقائد کی سر بلندی اور اپنے مقصد کی صداقت پر ایمان کامل رکھتے ہیں۔ اللہ کے نام پر فرد واحد کی طرح متحد ہوکر دشمن کے خلاف جنگ آزما ہوں گے۔ نوع انسانی کو اللہ تعالیٰ کی یہ بشارت ہے کہ حق کا ہمیشہ بول بالا ہوگا۔
ہنگامی حالات کا اعلان کردیا گیا ہے۔ جنگ شروع ہوگئی ہے۔ ہمارے صف شکن سپاہی دشمن کو پسپا کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کی آزاد افواج دشمن کے حملہ کا منہ توڑ جواب دیں گی۔ یہ افواج جو ایک ناقابل شکست جذبہ اور غیر متزلزل ارادے کی مالک ہیں۔ دشمن کو کچل کر رکھ دیں گی۔ حکومت پاکستان پوری طرح تیار ہے اور اس کے تمام وسائل موجودہ صورت حال سے مقابلہ کے لیے وقف ہوں گے۔''
بیگم جنرل سرفراز نے خاص طور پر فوجی جوانوں کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک ناقابل تسخیر جذبے سے لڑے تھے۔ جنگ کے دنوں میں وہ روزانہ اسپتال میں جا کر زخمی مجاہدین کی تیمار داری کرتی تھیں۔ کسی کا ہاتھ وطن کے لئے کٹ گیا تھا کوئی سر تا پیر جھلسا ہوا۔ کسی کے سر پر گولہ لگا تھا لیکن انہیں دیکھتے ہی سب کہتے بیگم صاحب! جنرل صاحب سے کہئے ہم بالکل ٹھیک ہیں۔ ہمیں جلدی محاذ پر بھیجیں۔ وطن پر دشمن کے گولے پڑ رہے ہیں اور ہم یہاں بستر پر دراز ہیں۔
میں کتنا خوش قسمت تھا۔ تاریخ مجھ پر مہربان تھی۔ میں ان دنوں داتا کی نگری لاہور شہر میں ہی تھا۔ ایم اے تازہ تازہ کرکے ایک روزنامے سے وابستہ تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم اوران کے جواب میں مجاہدین کشمیر کی پیش رفت کی کہانیاں روز آرہی تھیں۔ دہلی کی راجدھانی کشمیر میں جنگ آزادی سے لرز گئی تھی۔ دنیا سے مدد کی اپیلیں کی جارہی تھیں۔ پاکستان کے غیور جفاکش باشندے ایک طرف واہگہ سے گوادر تک اور دوسری طرف ڈھاکا سے چٹاگانگ تک اس لمحے کے منتظر تھے جب انہیں دوسری دفاعی لائن بننے کا موقع ملے۔ جب انہیں اپنی مقدس سرزمین کی سلامتی پر جاںنثارکرنے کا شرف حاصل ہو۔
صبح کے گیارہ بجے ہیں۔ جب ریڈیو سے صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی آواز گونجتی ہے۔ بھارت نے کس قوم کو للکارا ہے۔ جس کے دلوں میں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ'' کے مقدس کلمات بسے ہوئے ہیں۔ ہر طرف کلمۂ طیبہ کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا۔''لا الٰہ الا اللہ۔ تیرا میرا رشتہ کیا۔ لا الٰہ الا اللہ۔
میں کہ ایک صحافی ہوں، ایک شاعر بھی ہوں۔ ایک صحافی کی حیثیت سے مجھے جنگ کی صحیح صحیح رپورٹنگ کرنا ہے۔ ایک شاعر کی حیثیت سے ایسے نغمے قلمبند کرنا ہیں کہ میرے ہم وطنوں کے دل گرما جائیں۔ بھارت کے کمانڈر انچیف نے رعونت سے یہ امید ظاہر کی ہے کہ شام کو لاہور جم خانہ میں وہ جام نوش کریں گے۔ دشمن نے پاکستان کے دل لاہور کو اپنے پہلے حملے کے لیے چُنا ہے۔ سن رہے ہیں کہ اس کے فوجی دستے پاکستان کی حدود میں کافی آگے تک آبھی گئے ہیں۔ لیکن پاکستان کے جانبازوں نے ان کی یلغار روک دی ہے۔
پھر پاک ٹی ہائوس میں علم ہوتا ہے کہ ریڈیو پاکستان نے عمارت کے باہر ایک لیٹر بکس لگادیا ہے۔ شاعر حضرات اپنے نغمے اس کے سپرد کردیں۔ قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ سکیورٹی کامسئلہ ہے۔ ریڈیو اسٹیشن میں اندر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیٹر بکس تک رسائی ہوجائے ، کافی ہے۔ وطن خطرے میں ہے،اس لیے ہر فرد اہم ہے، بات کسی سینئر جونیئر کی نہیں۔ بڑے چھوٹے کا امتیاز نہیں ہے۔ عظیم مغنی۔ گلوکارائیں ۔ موسیقار ریڈیو اسٹیشن میں دن رات موجود ہیں۔ ہمارے جوان سرحد پر ہیں، شاعر، قلم کار، اپنے مورچوں پر سرگرم ہیں۔
میں کوچۂ صحافت میں بھی نووارد ہوں اور شاعری کے شبستان میں بھی۔ جاننے والے پڑھنے والے کم ہی ہیں۔ میں نے رات گئے تک بلیک آئوٹ کے اندھیرے میں بیٹھ کر کچھ نغمے سوچے ہیں۔ صبح کی روشنی میں انہیں کاغذ پر نقش کیا ہے۔ رخ ریڈیو اسٹیشن ایبٹ روڈ کی طرف ہے۔ لیٹر بکس میرا منتظر ہے۔
6ستمبر سے 23ستمبر۔ قوم کے ایک ایک فرد کی زندگی کے اہم ترین اور حساس ترین دنوں میں سے ہیں۔ ان ایّام میں ہی ہمیں وہ سارے شہدا یاد آتے ہیں جو بھارت سے پاکستان آتے ہوئے ریل گاڑی میں بلوائیوں نے مار دیے ۔ جن کا خون راستوں میں بہا، جو مہاجر کیمپوں میں پہنچ تو گئے مگر زخموں کی بیماریوں کی تاب نہ لاسکے۔
ان لاکھوں شہیدوں کی قربانیاں رنگ لارہی تھیں۔ ان کی تگ و دو جدو جہد کا تسلسل پاکستان بھارت کی سرحدوں پر ہمارے جانبازوں کی قربانیاں تھیں۔ میجر عزیز بھٹی، بریگیڈیئر شامی، کتنے کرنل، بریگیڈیئر، کپتان، لیفٹیننٹ، نائیک، صوبیدار، سب اپنے وطن کی سلامتی کے لیے محاذ پر ڈٹے رہے۔ دشمن پانچ گنا زیادہ طاقت ور تھا۔ اس کے پاس امریکہ کا اسلحہ بھی تھا۔ کمیونسٹ روس کا بھی۔ اسرائیل بھی اس کے ساتھ تھا لیکن ہمارے جوانوں نے ان سب طاقتوں کو پسپا کردیا۔
ایک روز بعد میرے ایک بزرگ میرا ہاتھ چومتے ہیں۔ پاک فضائیہ کے لیے بہت زبردست نغمہ ہے آپ کا۔ مجھے پتہ چلتا ہے کہ میرے کاغذ نے پروڈیوسر کے انتخاب سے لے کر موسیقی کی دھنیں مرتب ہونے، گلوکار کی آواز میں ڈھلنے اور پھر ریڈیو سے ہوا کے دوش پر نشر ہونے اور زندہ دلانِ پاکستان کے دلوں میں اترنے کے مراحل طے کرلیے ہیں۔
مت پوچھئے۔ میں کتنا خوش ہوں۔ لگتا ہے کہ میں بھی ہوا میں اُڑ رہا ہوں۔
اے ہوا کے راہیو
بادلوں کے ساتھیو
پر فشاںمجاہدو
پھر میں ساندہ کلاں سے دفترجانے کے لیے بس اسٹاپ کی طرف جارہا ہوں۔ ایک نوجوان بائیسکل پر گزر رہا ہے۔ گنگنارہا ہے۔
اے ہوا کے راہیو
بادلوںکے ساتھیو
پر فشاں مجاہدو
مجھے لگ رہا ہے کہ میں ایوان صدر میں کھڑا ہوں۔ صدرمملکت مجھے کوئی تمغہ پہنارہے ہیں۔ زندگی میں پہلی بار مجھے شاعر ہونے پر فخر ہورہا ہے۔
نہ جانے کتنے میرے ہم عصر، نامور، گمنام اہل قلم اس کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں چھتوں پر بیٹھے پاکستانی ریڈیو سے تازہ ترین خبریں سن رہے ہیں۔ شکیل احمد کی گرجتی آواز خبریں نہیں نیزے پھینک رہی ہے۔ گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ میں اپنے ارد گرد ہر ہم وطن کو ایک ہی جذبے سے سرشار دیکھ رہا ہوں۔
صدر ایوب خان کے سخت مخالفین، ناقد، اپوزیشن لیڈر اپنے سب اختلافات ایک طرف رکھ کر ملک کے اس نازک وقت میں حکومت کے ساتھ ہونے کا یقین دلانے پنڈی پہنچ گئے ہیں، قوم یہ منظر دیکھ کر اپنے رہنمائوں پر ناز کرنے لگتی ہے۔
اخبارات کی سرخیاں کہہ رہی ہیں۔
14اگست 1947 ایک ملک بنا تھا۔
6ستمبر1965ایک قوم بنی ہے۔
اسی دن کی تو آرزو تھی سب کو۔ کہ جب وطن پر دشمن کا وار ہو۔ جب سرحد پر غنیم کی یلغار ہو تو سب ایک ہوجائیں۔ یہ پاکستانیت ہے، یہ جذبہ ستمبر ہے، دکاندار، تاجر، صنعت کار، مزدور، کسان، کلرک، افسر، صحافی، استاد، پروفیسر، طالب علم، وزیر، سفیر، جاگیردار، سردار، سب ایک ہیں۔ سب کہہ رہے ہیں۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔
مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان سب یک آواز ہیں۔ سب وطن پر قربان ہونے کو تیار ہیں۔ بچے اپنے 'گلک' خالی کررہے ہیں۔ جنگ کے لیے عطیات دے رہے ہیں۔ شہر ،گائوں۔ مائیں، بہنیں، سہاگنیں اپنے زیور جنگی فنڈ کی نذر کررہی ہیں۔ بڑی بوڑھیاں جانمازوں پر بیٹھ گئی ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر سے گڑگڑا کر پاکستان کی سلامتی، افواج پاکستان کی فتح کی دعائیں مانگ رہی ہیں۔
میں خوش ہوں کہ اپنی تعلیم سے فارغ ہوتے ہی عملی میدان میں آتے ہی اس قومی آزمائش سے گزرنے اور سرخرو ہونے کا موقع مل رہا ہے۔
محاذ پر فوجیوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے شاعر، گلوکار، سرحدوں کا رُخ کررہے ہیں۔ ریڈیو، اخبارات عوام کو منع کررہے ہیں کہ سرحدوں پر آپ کے سپاہی ہر لمحہ مستعد ہیں، صفیں باندھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داریوں کے لیے ان خطرناک معرکوں کے لیے تربیت یافتہ ہیں، آپ زحمت نہ کریں، ضرورت ہوئی تو آپ کی خدمات سے بھی فائدہ اٹھایا جائے گا۔
آپ دوسری دفاعی لائن کو مضبوط کریں۔ شہری دفاع کی تربیت حاصل کریں۔ فضائی حملوں کی صورت میں مائوں، بہنوں بچوں کی رہنمائی کریں۔
لاہور کے زندہ دل تو بالکل ہی بے خوف ہیں۔ جنگ کو بھی کھیل سمجھ رہے ہیں۔ فضائی حملے کا سائرن بجنے پر کئی علاقوں میں نوجوان خندقوں میں جانے کے بجائے چھتوں پر چڑھ کر طیاروں کی لڑائی دیکھتے ہیں۔
ریڈیو سے نغموں کے ساتھ ساتھ ایسے ڈرامے اور ایسے نشریے پیش کیے جارہے ہیں جس سے نوجوانوں کے حوصلے بلند ہوں۔ شہریوں کا اپنی فضائیہ، بحریہ اور برّی افواج پر اعتماد بڑھے۔
جنگی رپورٹر تو باقاعدہ سرحدوں پر جاکر خبریں دے رہے ہیں۔
ہمیں بھی جوش آتا ہے۔ میں ایک اور نوجوان صحافی ایم ایس ناز لاہور سے بلھے شاہ کی نگری قصور جا پہنچتے ہیں۔ کھیم کرن کی فتح کی خبر نے یہ حوصلہ دیا ہے کہ وہاں پہنچ کر اس پر فیچر لکھا جائے۔صحافتی جوش میں ایک نہر کے کنارے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں متعین فوجی ہمیں سمجھاتے ہیں کہ اس طرح جنگی رپورٹنگ نہیں ہوتی ہے۔ فوج کا ایک محکمہ اس سلسلے میں موجود ہے، ان سے رابطہ کریں، وہ آپ کے لیے اہتمام کریں گے۔ ہمیں اس وقت آئی ایس پی آر کا کوئی علم نہیں تھا۔ بس ایک جوش تھا اور فتح کی خوشی۔
میں اپنے جن جذبات کو یاد کررہا ہوں۔ مشرقی اورمغربی پاکستان کے سارے شہروں دیہات میں یہی محسوسات تھے۔
کراچی سے رئیس امروہوی کا جب یہ نغمہ نشر ہوتا تھا۔
خطۂ لاہور تیرے جاںنثاروں کو سلام
لاہور کا ہر فرد کراچی کا شکر گزار ہوتا تھا اورمحسوس کرتا تھا کہ کراچی والے اسے ہی سلام پیش کررہے ہیں۔
شعلہ بیاں شورش کاشمیری مشرقی پاکستان رائفلز کے جوانوں کو سلام پیش کررہے ہیں۔
مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام
مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان کے کروڑوں دل ایک ساتھ دھڑک رہے ہیں۔ چین اس نازک وقت میں پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے۔ ترکی، ایران، سعودی عرب، سب کسی نہ کسی صورت میں پاکستان کی مدد کررہے ہیں۔
6ستمبر سے 23ستمبر۔ قوم کے ایک ایک فرد کی زندگی کے اہم ترین اور حساس ترین دنوں میں سے ہیں۔ ان ایّام میں ہی ہمیں وہ سارے شہدا یاد آتے ہیں جو بھارت سے پاکستان آتے ہوئے ریل گاڑی میں بلوائیوں نے مار دیے ۔ جن کا خون راستوں میں بہا، جو مہاجر کیمپوں میں پہنچ تو گئے مگر زخموں کی بیماریوں کی تاب نہ لاسکے۔
ان لاکھوں شہیدوں کی قربانیاں رنگ لارہی تھیں۔ ان کی تگ و دو جدو جہد کا تسلسل پاکستان بھارت کی سرحدوں پر ہمارے جانبازوں کی قربانیاں تھیں۔ میجر عزیز بھٹی، بریگیڈیئر شامی، کتنے کرنل، بریگیڈیئر، کپتان، لیفٹیننٹ، نائیک، صوبیدار، سب اپنے وطن کی سلامتی کے لیے محاذ پر ڈٹے رہے۔ دشمن پانچ گنا زیادہ طاقت ور تھا۔ اس کے پاس امریکہ کا اسلحہ بھی تھا۔ کمیونسٹ روس کا بھی۔ اسرائیل بھی اس کے ساتھ تھا لیکن ہمارے جوانوں نے ان سب طاقتوں کو پسپا کردیا۔
جرأت کی نئی داستانیں رقم ہورہی ہیں۔ بہادری کے نئے معرکے سر کیے جارہے ہیں۔ مجھے لاہور محاذ کے ہیرو میجر جنرل سرفراز یاد آرہے ہیں۔ جن سے میں نے معرکۂ لاہور پر ایک تفصیلی خصوصی انٹرویو کیا تھا۔
جنرل سرفراز خان محافظ لاہور بتارہے تھے کہ ہمیں 7ستمبر کی شام مکمل یقین ہوچکا تھا کہ دشمن کمزور ہوچکا ہے اور اس کے ہر اول دستوں میں حملہ کرنے کی سکت نہیں ہے۔ اس کے لئے اسے وقت درکار ہے۔ ہمارا اندازہ تھا کہ اسے تنظیم نو کے لئے اگر42 گھنٹے مل جائیں توہ تازہ دم ہو کر بھر پور حملہ کر سکتا ہے۔ دشمن کو یہ موقع دینا نہایت خطرناک تھا بلکہ اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔ ہماری محفوظ سپاہ اتنی نہیں تھی کہ ہم اتنے اتنے وقتوں کے بعد تبدیلیاں کرتے رہتے ، زخمیوں، تھکے ہاروںاور شہیدوں کے خلا کو پر کرنے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ میں اس وقت سوچ رہا تھا کہ ممکن ہے دشمن تازہ دم ہو کر نہر کو عبور کر جائے ، ایسا ہوا تو بہت گڑ بڑ ہو جائے گی اور8 ستمبر کی در میانی رات میری زندگی کی نازک ترین رات تھی۔ مجھے داتا کی نگری کو ہر قیمت پر محفوظ رکھنا تھا۔ دشمن کے قدموں سے ، دشمن کے عزائم سے ، اس رات میں نے اپنے محدود وسائل اور دشمن کی بے اندازہ تعداد کے باوجود یہ فیصلہ کیا کہ نہر عبور کر کے جوابی حملہ کیا جائے اور دشمن کی کمر اس طرح توڑی جائے کہ اس میں تازہ دم ہو کر حملہ کرنے کی بھی ہمت نہ رہے۔ لیکن نہر عبور کیسے کی جائے۔ نہر کے تمام پل تو6 ستمبر کی شام کو ہی اڑادیئے گئے تھے۔ یہ قابل غور بات ہے کہ دشمن جس وقت حملہ آور ہواپل تمام کے تمام موجود تھے ، اس کے باوجود نہرپار نہیں کر سکا تھا اور اب جبکہ ہر سمت سے دشمن کی فائرنگ ہو رہی تھی ، پل بھی ٹوٹ چکے تھے ، نہر کو عبور کر نابذات خود نہایت خطرناک مرحلہ تھا اور جس قوت سے میں جوابی حملہ کرنا چاہتا تھاوہ تعداد میں اس قدر کم تھی کہ اس سے اتنے بڑے جو ابی حملے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ میں صرف 2 کمپنیاں بھیج رہا تھا جو بمشکل 24 جوانوں پر مشتمل تھیں اور ان کی امداد کے لئے صرف 30 ٹینک تھے اور دوسری طرف دشمن جس پر جوابی حملہ کیا جانا تھا ادھر دشمن کا پورا10ڈویژن تھا۔ مشہور بھگوڑا میجر جنرل نرنجن پرشاد اس کی قیادت کر رہا تھا۔ بٹالین آر ٹلری اس کی مدد کے لئے موجود تھیں۔ اس طرح ان کی تعداد20 ہزار بن جاتی تھی۔
میں بے تاب ہوکر سوال کرتا ہوں۔
''جنرل صاحب! آپ نے اتنا خطرہ کیسے مول لے لیا''۔
کہنے لگے :نپولین نے یہ کہا ہے
In war moral is to material 9 to 1
(جنگ میں حوصلہ اور اسلحے کا تناسب نوایک کا ہے) تاریخ اسلام کی جنگیں تو ہمیشہ مورال کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ یہ حوصلہ اور اسلحہ کی جنگ تھی۔ جذبے اور جنگی سامان کی جنگ تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ یہ حملہ اس قدر تیزی سے ہو گا کہ دشمن کو کم ازکم 12 گھنٹے کے اندر تو یہ معلوم ہی نہیں ہو سکے گا کہ ان پر کتنی بڑی تعداد سے حملہ ہو رہا ہے اور اس محاذ پر ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ یہاں گردو غبار اس قسم کا ہو تا ہے کہ تعداد کا اندازہ لگانا دشوار ہو جاتا ہے۔ ادھر بھارتی کمانڈر تویہ تصور بھی نہیں کر سکے گا کہ کوئی کمانڈر اتنی قلیل تعداد کے ساتھ نہر عبور کر کے جوابی حملہ کرواسکتا ہے۔ وہ یقینا یہی سوچے گا کہ یہ ہم سے زیادہ نفری ہے۔ اس چیز کا تصور کرتے ہوئے وہ ذہنی طور پر جوابی حملے کے لئے تیار نہیں ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اقدام نازک ترین بھی تھا کیونکہ جتنے ریزرو تھے وہ سب دائو پر لگادیئے تھے۔،،
ستمبر 1965 کا یہ قومی جذبہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی قیمتی تحفہ ہے۔ جب قوم ایک ہوگئی ہے۔ لسانی، صوبائی، نسلی، فرقہ وارانہ تعصبات دم توڑ گئے ہیں۔وہ قوم صورت پذیر ہوگئی ہے جس کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں یہ عظیم مملکت حاصل کی گئی تھی۔
تاریخ گواہ ہے کہ ستمبر 1965کا یہ جذبہ ، یہ احساس، یہ ادراک قوم کے استحکام کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔ قومیں اسی طرح کسی بھٹی سے نکل کر کندن بنتی ہیں۔
مگر آپ نے نہر کیسے عبور کروادی ـــ؟ میں اپنے ذہن میں کروٹیں بدلتے تجسس کو باہر لے آیا۔ میں نے دراصل دور دراز ایک راستہ دیکھ لیا تھا اور بریگیڈیئر قیوم شیر کو یہ نازک ترین ذمہ داری سپرد کی کہ وہ وہاں سے نہر عبور کرے جنوب کی طرف بھیسن کے پیچھے سے واہگہ کی طرف پیش قدمی کریں۔ یہ آرڈر رات کو دیئے گئے تھے لیکن منزل تک پہنچنے پہنچتے اندھیرا ختم ہو گیا اور جہاں سے نہر پار کرنا تھی وہ اونچا حصہ تھا۔ اس لئے دشمن نے آرٹلری کا منہ کھول دیا۔ اس بریگیڈ کی اطراف سے حفاظت کے لئے میں نے بھیسن میں متعین بر یگیڈیئر آفتاب احمد سے کہا کہ وہ حتی الامکان کم نفری سے بھیسن تک کے علاقے سے دشمن کی کمر توڑ دیں۔ اور ساتھ ہی سب جوانوں کو ہدایت دی کہ حملہ اس قدر تیز اور شدید ہو کہ دشمن کو یہ اندازہ لگانے کا موقع ہی نہ ملے کہ ان پر کتنی تعداد سے حملہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاک فضائیہ سے بھی مدد لی گئی اور ادھر توپ خانے سے فائر کر دیا گیا۔ میں اس وقت اللہ تعالیٰ سے دست بہ دعا بھی تھا کہ اے اللہ تعالیٰ میرے اس منصوبے کو کامیاب بنا اور ہمیں اس معرکہ میں سرخرو کر۔اتنے میں اطلاع ملی کہ بھیسن کے راستے میں ہی دشمن کے ساتھ تصادم ہو گیا۔ ہم ڈرے کہ کہیں یہ مشن فیل ہی نہ ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے افسروں اور جوانوں کو غیر معمولی جرأت سے نوازا ہے۔ بریگیڈ یئر آفتاب احمد نے بھیسن کے علاقے پر اس سرعت سے حملہ کیا کہ بھارتیوں کی ساری توجہ اس طرف ہو گئی اور بریگیڈیئر قیوم شیر بھیسن پہنچ گئے۔ ہیڈ کوارٹر میں ہم سب اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے اور اس لڑائی کی اطلاعات کے انتظار میں مصروف تھے۔ یہاں دشمن نے بہت زیادہ مقابلہ کیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ ڈویژن کمانڈر میجر جنرل نرنجن پرشاد بھی وہیں موجود تھا۔ وہ نہر سے صرف ایک ہزار گز کے فاصلے پر تھا۔ لیکن یہاں ٹینک کام آئے اور ٹینک سواروں نے ایسی جرأت کا مظاہرہ کیا کہ دشمن سب کچھ چھوڑ کر بھاگ گیا۔ سراسیمگی کا یہ عالم تھا کہ دشمن اپنا ٹیکنیکل ڈویژن ہیڈ کوارٹر بھی چھوڑ گئے۔ یہ ایک چھوٹا ہیڈ کوارٹر تھا جس میں کمانڈر اور اس کے ساتھ تین دوسرے افسر ہوتے ہیں۔ وہ اصل ہیڈ کوارٹر سے آگے محاذ جنگ کے عین نزدیک پہنچ کر ٹھکانہ بناتے ہیں تاکہ جنگ کو زیادہ قریب سے کنٹرول کر سکیں۔ اس ہیڈ کوارٹر میں چار جیپیں تھیں جو بالکل اچھی حالت میں تھیں۔ ان میں سے ایک جیپ اس محاذ کے بھارتی کمانڈر میجر جنرل نرنجن پر شاد کی تھی۔ اس سے قیمتی کاغذات بھی بر آمد ہوئے۔ میجر جنرل نرنجن پرشاد کا اب تک پتہ نہیں چل سکا کہ زندہ ہے یا اس کا کریا کرم ہو چکا ہے۔ بریگیڈ کمانڈ کا تو تین چار روز بعد کورٹ مارشل ہو گیا تھا۔ اب واہگہ میں پندرہ میل تک علاقہ دشمن سے صاف ہو گیا تھا۔ ادھر بریگیڈیر آفتاب راوی سائفن سے حملہ کرتے ہوئے گیارہ میل اندر تک چلے گئے تھے۔ نازک ترین ساعت گزر گئی تھی۔ ہم نے دشمن کو تازہ دم ہوکر حملہ کرنے کا موقع نہیں دیا تھا۔
ستمبر 1965 کا یہ قومی جذبہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی قیمتی تحفہ ہے۔ جب قوم ایک ہوگئی ہے۔ لسانی، صوبائی، نسلی، فرقہ وارانہ تعصبات دم توڑ گئے ہیں۔وہ قوم صورت پذیر ہوگئی ہے جس کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں یہ عظیم مملکت حاصل کی گئی تھی۔
تاریخ گواہ ہے کہ ستمبر 1965کا یہ جذبہ ، یہ احساس، یہ ادراک قوم کے استحکام کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔ قومیں اسی طرح کسی بھٹی سے نکل کر کندن بنتی ہیں۔
تاریخ اور جغرافیے کی پکار یہی تھی کہ جذبۂ ستمبر نسل در نسل منتقل ہونا چاہئے۔ ان معرکوں نے ثابت کیا کہ بھارت نے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اسے جب بھی موقع ملے گا وہ ہماری سلامتی کے در پے ہوگا۔ اس کی اولین ترجیح یہی ہوگی کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو غیر مستحکم کرے۔ پاکستانیوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں اورکدورتیں پیدا کرے۔ بھارت کی سیاسی پارٹیوں، حکمرانوں اور دانشوروں میں لاکھ اختلافات ہوں۔ مگر پاکستان کے معاملے پر وہ سب ایک ہیں۔ جو حکومت کا مؤقف ہوتا ہے وہی ان کے صحافیوں ،دانشوروں، منصفوں، تاجروں، صنعت کاروں کا بیانیہ ہوتا ہے۔ اس کا مظاہرہ ہم نے 1971کے واقعات میں مارچ سے 16دسمبر تک دیکھ لیا۔ ہمارے سیاسی اختلافات کا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ سازشیں تو وہ 1969سے ہی شروع کرچکا تھا۔ 1970 کے انتخابات میں سیاسی محاذ آرائی نے اسے پورا سہارا دیا۔
1972 کے شملہ معاہدے کے بعد مجھے ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے وزیر اعظم، دوسرے وزیروں، اپوزیشن لیڈروں، شاعروں، ادیبوں، دفاعی ماہرین، وزرائے اعلیٰ سے باقاعدہ انٹرویوز اور تبادلۂ خیال کے مواقع اس اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک ملتے رہے ہیں۔ پاکستان دشمنی ان سب کا مشترکہ رویہ ہے۔ چاہے وہ بی جے پی سے تعلق رکھتے ہوں یا کانگریس سے یا کسی اور جماعت سے۔ پاکستان کے بارے میں ان کی نفرتیں اور کدورتیں ایک سی ہیں۔
اپنے ہاں سب کہتے تو ہیں کہ جذبۂ ستمبر رواں دواں، جاری و ساری رہنا چاہئے مگر بہت سی نا انصافیاں، بے قاعدگیاں، بعض غیر ممالک کے گماشتوں کی منافقتیں، مغربی دانشوروں کی اسلام دشمنی ہماری پاکستانیت پر حملہ آور ہوتی رہتی ہے۔ جذبۂ ستمبر کمزور پڑتا رہتا ہے مگر یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ عوام کی اکثریت میں جذبۂ ستمبر اسی طرح شباب پر رہتا ہے۔ نسل در نسل پاکستانیوں کی بڑی تعداد جذبۂ ستمبر سے سرشار ہے۔ وہ منافقوں اور گماشتوں کی ریشہ دوانیوں کو شکست دیتی رہتی ہے۔ عوام چاہے کتنی ہی مشکلات سے دوچار ہوں۔ غربت کے تھپیڑے کھارہے ہوں۔ وہ ملک کے استحکام کے لیے مستعد رہتے ہیں۔اس تاریخ ساز رویے سے کون انکار کرسکتا ہے کہ یہ بھی جذبۂ ستمبرہی ہے جس نے 1974میں ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ملتان میں ملک بھر کے سائنسدانوں کو یکجا کرکے جس ایٹمی پروگرام کی شروعات کی تھیں، مختلف سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے تمام تر اختلافات کے باوجود اس ایٹمی پروگرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ 1998 میں ہم نے کامیاب ایٹمی تجربات کیے۔ پاکستان اسلامی دنیا میں واحد ایٹمی طاقت بن گیا ہے۔ یہ بھی جذبۂ ستمبرہی ہے بھارت کو اب پاکستان پر وار کرنے کے لیے سو بار سوچنا پڑتا ہے۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جبر و غصب کا جو مسلسل دَور جاری رکھا ہے پاکستانی عوام کی اکثریت نے ہمیشہ اس کی مذمت کی ہے اور ہر حکمران نے دنیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے لیے آواز بلند کی ہے۔ موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے 5اگست 2019کو اپنے آئین میں ترمیم کرکے کشمیر کی مخصوص حیثیت کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی جو سازشیں کی ہیں اس کے خلاف بھی پاکستان نے دنیا بھر میں توجہ اس ناانصافیکی طرف مبذول کروائی ہے۔ یہ بھی جذبۂ ستمبر ہے۔
میں پھر آپ کو 1968 میں لے جاتا ہوں۔ محافظ لاہور میجر جنرل سرفراز سے میں پوچھتا ہوں کہ جنگ کے دنوں میں پوری قوم میں جو جذبہ پیدا ہوگیا ہے کیسے برقرار رکھا جائے اور کیا بھارت کی طرف سے پھر جارحیت کا خطرہ ہے۔
ہمیں اطمینان ہونا چاہئے کہ اب دفاعی اعتبار سے ہم اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق تیار ہیں۔ ہمارے پاس Detterrent Strategy بھی ہے۔ اب جنگ میدان کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی لڑی جارہی ہے۔ پاکستانی قوم اور مسلح افواج اس کے لیے پوری طرح آمادہ بھی ہیں اور ضروری اسلحے سے لیس بھی۔
آج بھی محاذ آرائی جاری ہے۔ آج بھی بھارت کی طرف سے پاکستان میں ریشہ دوانیاں کی جارہی ہیں۔ جہاںجہاںہم سیاسی طور پر سماجی حوالے سے کمزور پڑتے ہیں بھارت فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان کی سلامتی کا تقاضا جذبۂ ستمبر ہے۔ ایک بیانیہ، ایک مؤقف، حکمران اپوزیشن تمام سیاسی پارٹیوں کا، تمام دانشوروں کا بیرونی پالیسیوں پر ایک موقف ہونا چاہئے۔ کہیں بھی ایسا شگاف نہ ہو، ایسی کمزور اپوزیشن نہ ہو جہاں سے ہمارے دشمن ہماری صفوں میں داخل ہوسکیں۔
ان کا جواب بہت ہی مدبرانہ تھا۔ آج نصف صدی کے بعد بھی بھارت کا وہی رویہ ہے۔ ہمیں بھی ان ہی تجاویز پر عملدرآمد کرنا چاہئے۔جو نصف صدی پہلے میجر جنرل صاحب نے سمجھائی تھیں۔
''ہم یہ ہر گز نہیں چاہتے کہ بھارت سے ہمیشہ تعلقات کشیدہ رکھیں۔ لیکن… جنرل صاحب نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اپنی فوجی طاقت میں بے پناہ اضافہ کر رہا ہے اور اسے بڑی طاقتیں بے تحاشا فوجی امداد بھی دے رہی ہیں۔ ظاہر میں وہ یہ تیاریاں چین کے مقابلے کے لئے کر رہا ہے۔ لیکن تاریخ تو یہ گواہی دیتی ہے کہ اگر وہ1962ء کی شکست کابدلہ لینا چاہتا تو چین سے جنگ لڑتا۔ اس نے تو فوجی طاقت سے لیس ہو کر پاکستان پر حملہ کر دیا تھا۔ کیونکہ ان بد نیت بھارتیوں کے ذہن میں تو یہ بات ہے کہ اس کی پیٹھ پر جو کانٹا ہے۔ پہلے اسے ختم کر دیا جائے۔ اس کا دو محاذوں پر لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اسے جو محاذ نسبتاً کمزورلگتا ہے پہلے اسے ختم کرنا چاہے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم فوری طور پر اپنی طاقت بڑھائیں اور کبھی اپنی کمزوری کا احساس نہ ہونے دیں جب بھی بھارت نے اس کمزوری کا اشارہ پایا خواہ یہ حو صلے میں ہو ئی یا اسلحہ میں، وہ ضرور جارحیت کا ارتکاب کرے گا۔ آپ دیکھ لیجئے۔ امریکہ روس اگر چہ لڑتے نہیں ہیں۔ لیکن ان کی جنگی تیاریاں کس حد تک بڑھی ہوئی ہیں۔اسے Detterrent Strategy کہا جاتا ہے۔ بھارت کو جب تک یقین ہے کہ پاکستان ہمارا مقابلہ کر سکتا ہے، وہ اس وقت تک اس جرم کا دوبارہ مر تکب نہ ہو گا۔1965کی جنگ کے دوران قوم میں یہ جذبہ بے انتہا موجود تھا۔ میرے ہیڈ کوارٹر میں لوگ پہنچتے تھے اور محاذ پر بھیجے جانے کی درخواست کرتے تھے۔ قوم میں اب بھی پورا جذبہ موجود ہے، اسے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔،،
ہماری بات چیت ختم ہورہی تھی کہ جنرل صاحب کی بیگم صاحبہ آگئیں۔ ان کے متعلق دشمن کے ایجنٹوں نے جنگ کے دوران یہ افواہیں پھیلائی تھیں کہ وہ امریکن ہیں۔ مجھے شکل و صورت گفتگو کسی اعتبار سے بھی تو امریکن نہیں لگتی تھیں۔ امریکن نژاد ہونے کا تو سوال پیدا ہی نہیں ہو تا تھا۔ انہوں نے بھی قوم کے ان دنوں کے جذبے کی تصدیق کی ۔ بیگم جنرل سرفراز نے خاص طور پر فوجی جوانوں کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک ناقابل تسخیر جذبے سے لڑے تھے۔ جنگ کے دنوں میں وہ روزانہ اسپتال میں جا کر زخمی مجاہدین کی تیمار داری کرتی تھیں۔ کسی کا ہاتھ وطن کے لئے کٹ گیا تھا کوئی سر تا پیر جھلسا ہوا۔ کسی کے سر پر گولہ لگا تھا لیکن انہیں دیکھتے ہی سب کہتے بیگم صاحب! جنرل صاحب سے کہئے ہم بالکل ٹھیک ہیں۔ ہمیں جلدی محاذ پر بھیجیں۔ وطن پر دشمن کے گولے پڑ رہے ہیں اور ہم یہاں بستر پر دراز ہیں۔
ہمیں اطمینان ہونا چاہئے کہ اب دفاعی اعتبار سے ہم اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق تیار ہیں۔ ہمارے پاس Detterrent Strategy بھی ہے۔ اب جنگ میدان کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی لڑی جارہی ہے۔ پاکستانی قوم اور مسلح افواج اس کے لیے پوری طرح آمادہ بھی ہیں اور ضروری اسلحے سے لیس بھی۔
آج بھی محاذ آرائی جاری ہے۔ آج بھی بھارت کی طرف سے پاکستان میں ریشہ دوانیاں کی جارہی ہیں۔ جہاں جہاں ہم سیاسی طور پر سماجی حوالے سے کمزور پڑتے ہیں بھارت فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان کی سلامتی کا تقاضا جذبۂ ستمبر ہے۔ ایک بیانیہ، ایک مؤقف، حکمران اپوزیشن تمام سیاسی پارٹیوں کا، تمام دانشوروں کا بیرونی پالیسیوں پر ایک موقف ہونا چاہئے۔ کہیں بھی ایسا شگاف نہ ہو، ایسی کمزور اپوزیشن نہ ہو جہاں سے ہمارے دشمن ہماری صفوں میں داخل ہوسکیں۔
مضمون نگارنامورصحافی' تجزیہ نگار' شاعر' ادیب اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے