کائنات میں اب تک کے انسانی علم کے مطابق زندگی صرف اور صرف کرۂ ارض پر ہی موجود ہے۔ کرۂ ارض پر زندگی کا وجود آکسیجن،کاربن، ہائیڈروجن اور سورج کی روشنی پر منحصر ہے۔اس لیے کرۂ ارض پر زندگی کو جاری وساری رکھنے کے لیے واٹر سائیکل،آکسیجن سائیکل اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سائیکل متوازن انداز میں روبہ عمل ہیں۔ ان ہی سائیکلز کے باہم اختلاط موسم (Climate) کی وجہ سے زمین پر زندگی کا نظام قائم ہے۔ اس سارے نظام کو رواں دواںرکھنے کے لیے سورج ضروری توانائی فراہم کرتا ہے۔
تمام جاندار بلا کسی استثنا (عالم نباتات اور عالم حیوانات) 98سے 99 فیصد تین عناصر آکسیجن،کاربن اور ہائیڈروجن کے مرکبات کا مجموعہ ہیں۔آسان زبان میں ہر جاندارمیں52 فیصدآکسیجن، 39 فیصدکاربن ڈائی آکسائیڈ 7فیصد ہائیڈروجن اور2 فیصد دوسرے مختلف عناصربشمول کیلشیم، فاسفورس، نائٹروجن وغیرہ شامل ہیں۔
تمام جانداروں (عالم حیوانات اور عالم )نباتات کی نشونما اور ان کے مختلف افعال کی انجام دہی کے لیے ضروری توانائی فراہم کرنے کے لیے عالم نباتات ضیائی تالیف کے عمل کے ذریعے گلوکوزجو کہ آکسیجن، کاربن اور ہائیڈروجن کا مرکب ہے، پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سے تیار کرتے ہیں۔
کرہ ٔارض پر کاربن ڈائی آکسائیڈ سائیکل کا حجم اور پھیلاؤ
کرۂ ارض کے خشکی والے حصے کی سطح پر موجود زندہ حیوانات اور نباتات کے زمین کے اوپر والے حصوں میں موجودکاربن ڈائی آکسائیڈ کا کل ذخیرہ 560 ارب ٹن ہے، جبکہ فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ذخیرہ 750 ارب ٹن یا 390 PPM ہے۔ اسی طرح زمین کی سطح کے نیچے نباتات کی جڑوں ،مردہ جانوروں اور نباتات کی باقیات میں موجودکاربن ڈائی آکسائیڈ کا ذخیرہ 1500 ارب ٹن ہے ۔ اس کے علاوہ سمندر میں محفوظ زندہ اور مردہ جانوروں اور نباتات میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ذخیرے کا اندازہ 38000 ارب ٹن لگایا گیا ہے۔ قدرتی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ سائیکل ان ہی ذخائر کے درمیان بہا ئوکی وجہ سے کرۂ ارض پر رواں دواں ہے۔خشکی اور سمندر میں موجود حیوانات اورنباتات کے عمل تنفس ،جلنے اورگلنے سڑنے کے عمل کے دوران سالانہ 213 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج ہو رہی ہے اور اتنی ہی مقدار میں خشکی اور سمندر میں موجود نباتات میں ضیائی تالیف کے عمل سے فضا سے استعمال ہورہی ہے۔ لہٰذا کاربن ڈائی آکسائیڈ کا سائیکل قدرتی طور پر متوازن رہتا ہے۔لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجہ میں کارخانوں ، گاڑیوں ، جہازوں اور دوسری مشینری کو توانائی فراہم کرنے کے لیے انسان ہزاروں فٹ نیچے زمین کے اندر سے سالانہ 6 ارب ٹن اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج کرنے کے لیے زمین کے اندر کوئلے اور ہائیڈرو کاربن کے 4000 ارب ٹن محفوظ ذخائر سے کوئلہ اور پیٹرول نکال رہا ہے ۔ہائیڈرو کاربن اور کوئلے کے 6ارب ٹن سالانہ کارخانوں میں استعمال کی وجہ سے زیر زمین ذخائر 6 ارب ٹن سالانہ کے حساب سے کم ہو رہے ہیں اور اگر اسی رفتار سے استعمال جاری رہا تو یہ ذخائر آئندہ 600 سال میں مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے جبکہ ان ذخائر کے استعمال کی وجہ سے فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کا 750 ارب ٹن (390PPM) کا ذخیرہ سالانہ 4 ارب ٹن (2 PPM) اضافے کی رفتارسے 600سال بعد 2400 ارب ٹن (1590PPM) ہو جائے گا۔ جو کسی صورت بھی کرہ ٔارض پر زندگی قائم رکھنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ثابت ہوتا ہے کرۂ ارض پر گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی زیر زمین چھپے ذخائر سے ہائیڈرو کاربن اور کوئلہ نکال کر کارخانوں اور گاڑیوں میں استعمال کرنے کی وجہ سے ہے۔ قابل تشویش یہ ہے کہ سال 2020 کے اعداد وشمار کی رو سے اضافی6 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے فضا میں اخراج کا پا کستان کا فی کس حصہ ایک ٹن سے بھی کم ہے جبکہ امریکہ اور یورپ کا فی کس حصہ16ٹن سالانہ سے زیادہ ہے۔اگر امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اپنا فی کس حصہ پاکستان کی برابری پر لے آئیں تو اس سے بھی موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ کم کیا جاسکتا ہے۔
پانی (ہائیڈرولجکل)سائیکل کا حجم اور پھیلائو
کرۂ ارض پر موجود پانی کی کل مقدار تقریباً 15 کروڑ18 لاکھ مکعب کلو میٹر میں سے تیرہ ہزار مکعب کلو میٹر فضا میں نمی کی صورت میں معلق ہے۔اسی طرح کرۂ ارض کے خشکی والے حصے پر موجود جھیلوں، دریائوں، زیر زمین واٹر ٹیبل اور جانداروں میں موجود پانی کی مقدار تقریباً ایک کروڑ 56 لاکھ مکعب کلو میٹرہے، جو کہ کل پانی کا 10.3 فیصد بنتا ہے جبکہ سمندر میں موجود پانی کی مقدار تیرہ کروڑ 61 لاکھ مکعب کلو میٹر ہے جو کہ کل پانی کا 89.7 فیصد بنتا ہے۔
سمندر سے سالانہ فضا میں چار لاکھ تیرہ ہزار مکعب کلو میٹر پانی کے برابر بخارات خارج ہوتے ہیں،جس میں سے تین لاکھ 73ہزار مکعب کلو میٹرکے برابر پانی بارش اور برف کی صورت میں واپس سمندر کے اوپربرس جاتا ہے جبکہ چالیس ہزار مکعب کلو میٹر پانی کے برابر بخارات بادلوں کی صورت میں خشکی کی طرف چلے جاتے ہیں ۔ یہی بادل جو خشکی سے فضا میں شامل ہونے والے 73 ہزار مکعب کلو میٹر پانی کے برابر اٹھنے والے بخارات میں شامل ہو کر خشکی پر ایک لاکھ13 ہزار مکعب کلو میٹر پانی کے برابر بارش اور برفباری کی صورت میں برستے ہیں اور اس بارش سے سمندر میں واپس چالیس ہزار مکعب کلو میٹر پانی دریائوں کے ذریعے واپس سمندر میں چلا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ پورا نظام انتہائی احسن انداز میں متوازن جاری رہتا ہے۔
آکسیجن سائیکل کا حجم اور پھیلائو
کرۂ ارض پر موجود آکسیجن کا 99.05 فیصد (2.9x1020 kg) مختلف مرکبات کی حالت میں ہے جبکہ صرف(1.4x1019 kg) آکسیجن کی کل مقدار کا 0.5فیصدخالص عنصر کی حالت میں موجود ہے اور یہی خالص عنصر کی حالت میں موجود آکسیجن کرۂ ارض کی فضا میں دوسری گیسوں کے ساتھ 20.98 فیصد کے تناسب سے آمیزے کی صورت میں خالص عنصر کی حالت میں موجود ہے۔ خالص عنصر کی حالت میں موجودآکسیجن کا کاربن کے مرکبات کی صورت میں استعمال (خرچ) اور واپس ان مرکبات سے عنصر آکسیجن کی حالت میں فضا میں ضیائی تالیف کے عمل کے دوران اخراج(آمد) کو آکسیجن سائیکل کہا جاتا ہے۔سالانہ آکسیجن کا فضا سے استعمال خرچ اور آمد دونوں (3000x1010kg)کے برابر ہیں۔ اسی طرح قدرتی طور پر یہ سائیکل متوازن ہے۔لیکن 6 ارب ٹن سالانہ ہائیڈرو کاربن اور کوئلہ کے استعمال کی وجہ سے تقریباً سات ارب ٹن سالانہ فضا سے آکسیجن کا خرچ آمد سے زیادہ ہوا ہے جس کی وجہ سے فضا سے سالانہ 8 ارب ٹن آکسیجن کم ہو رہی ہے اور اگر اسی مقدار سے فضا سے آکسیجن کی کمی جاری رہی تو آئندہ 749 سال بعد کرۂ ارض کی فضا میں آکسیجن کی موجودہ مقدار 20.98 فیصد سے کم ہو کر 19 فیصد ہو جائے گی۔ چونکہ فضا میں 19.5 فیصد سے کم آکسیجن میں انسان زندہ نہیں رہ سکتا لہٰذا آکسیجن کی فضا میں یہ غیر معمولی کمی انسان کی کرہ ٔارض پر بقا کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
عالمی موسمیاتی تبدیلی کی واحد وجہ ہائیڈروجن ، کاربن اور کوئلہ کا صنعت اور حرفت میں استعمال ہے۔ دنیا پر نظام زندگی کو قائم رکھنے کی ضامن کاربن ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈروجن اور آکسیجن تینوں سائیکلز قدرت نے زبردست انداز میں متوازن کیے ہیں۔ کرۂ ارض پر زندگی کو قائم رکھنے کے لیے ضروری عوامل خصوصی طور پرضیائی تالیف کو جاری رکھنے کے لیے کرۂ ارض پرسورج کی توانائی کی فراہمی، کاربن ڈائی آکسائیڈ سائیکل اور ہائیڈرولوجکل سائیکل کے ساتھ آکسیجن سائیکل بھی انتہائی متوازن طریقے سے جاری ہے۔ سورج کی روشنی اوران تینوں سائیکل کے متوازن جاری رہنے سے ہی کرہ ارض پر زندگی قائم ہے اور ان میں معمولی عارضی یا مستقل تبدیلی کوعام طور پر موسمیاتی تبدیلی (Climate Change)سے موسوم کیا جاتا ہے۔ کرۂ ارض پر ضیائی تالیف کے عمل میں تقریباً سالانہ 210 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ 85 ارب ٹن پانی کے ساتھ سورج کی روشنی میں عمل کرنے سے 152ارب ٹن آکسیجن اور143 ارب ٹن گلوکوز بنتے ہیں جو عالم نباتات کی اپنی افزائش اور نشوونما کے علاوہ عالم حیوانات کی نشوونما کا باعث بھی ہے ۔
حضرت انسان نے صنعتی انقلاب کے بعد صنعتی اور مواصلاتی پہیے کو گھمانے کے لیے توانائی کے حصول کے لیے سیکڑوں تہوں میں چھپے اورہزاروں فٹ نیچے زیر زمین مدفون پٹرول اور کوئلہ نکال کر استعمال میں لانے سے توازن میں بگاڑ پیدا کیا ہے۔ ہائیڈروکاربن اور کوئلے کے استعمال کی وجہ سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار سالانہ 4ارب ٹن 2PPM))بڑھ رہی ہے اور ساتھ ہی فضا سے سات ارب ٹن آکسیجن گھٹ رہی ہے۔ اسی طرح زمین پر قائم آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سائیکلز کے توازن میں واضح بگاڑ آرہا ہے اور یہی بگاڑ موسمیا تی تبدیلی کی شکل میں نمو دار ہورہا ہے۔ ہائیڈروکاربن اور کوئلے کے استعمال سے پیدا شدہ آلودگی اور گلوبل وارمنگ کو موسمیاتی تبدیلی کی صورت میں پوری دنیا بھگت رہی ہے۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ حیوانات اور بشمول جنگلی درخت سب نباتات موسمی تبدیلی کے متاثرین ہیں اور خود ان کے وجود کو موسمیاتی تبدیلی سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اس موسمیاتی تبدیلی کے بے قابوجن کو جنگلی درخت یا باغات لگانے سے نہیں بلکہ ہائیڈرو کاربن اور کوئلہ کے استعمال پر پابندی سے روکا جا سکتا ہے۔
صنعتی اور ترقی یافتہ ممالک نے اپنے پروردہ ایجنٹ NGOs کے ذریعے غریب اور ترقی پذیر ممالک کو صنعتی ترقی سے دور رکھنے کے لیے اور اپنے تیل اور گیس کی کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے جنگلات کی کٹائی کو موسمیاتی تبدیلی کی واحد وجہ بتا کر جنگلات کی کٹائی پر پابندی کے ساتھ ان کو زیادہ سے زیادہ غیر پھل دار جنگلی درخت لگانے کے کام پر لگا کر ان کو ٹرک کی سر خ بتی کے پیچھے لگایا ہے۔ مغربی ترقی یافتہ ممالک کی خواہش اور ایما پر WWF اورIUCN نے 1985 میں پاکستان میں اپنے دفتر قائم کر کے عوام سے موسمیاتی تبدیلی کی اصل وجوہات اور محرکات کو چھپاکرپاکستان میں موجود صاف توانائی (Clean Energy) کے وسیع ذرائع آبی قوت (Hydel Power) اور شمشی توانائی(Solar Energy) سے استفادہ کرنے کے بجائے پولیوشن(pollution) اور موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والے ہائیڈرو کاربن اور کوئلہ پر چلنے والے بجلی کے کارخانے IPPs کے تحت لگانے پر مجبور کیا اور اس طرح نہ صرف 1985 میں پاکستان کی فی کس کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 0.5 ٹن سے بڑھ کر 2020 میں ایک ٹن فی کس ہوگیا ۔ جبکہ پاکستان کی اکانومی ان بجلی کے کار خانوں کے لیے اربوں ڈالر کی گیس اور تیل درآمد کرنے کی وجہ سے وینٹی لیٹر پر ہے۔
سفارشات :-
پا کستان میں اس تمام صورت حال کا واحد حل توانائی کے حصول کے لیے ہائیڈرو کاربن اور کوئلہ پر انحصار ختم یا کم کرکے آبی قوت اور شمسی توانائی کے ذرائع سی مستفید ہونے میں ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ سستی بجلی کے حصول کے لیے ان ذرائع کو استعمال میں لا کر گلوبل وارمنگ کے بے قابو جن سے جان چھڑا نے کے علاوہ پٹرول اور LNG کی درآمد پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بھی بچائے۔ ||
مضمون نگار فارسٹ سکول ایبٹ آباد کے پرنسپل ہیں۔
[email protected]
تبصرے