قومیں نظریے کی بنیاد پر بنتی ہیں۔ نظریہ ان کی سمت طے کرتے ہوئے ان کے اندر خود اعتمادی اور اپنی شناخت کے لیے لگن پیدا کرتا ہے۔ نظریہ قوموں کو پہچان دیتا ہے۔ کچھ اقوام کی نظریاتی شناخت مذہب ہوتی ہے، کچھ کی معاشی پہچان انہیں جوڑے رکھتی ہے اور کچھ کسی مخصوص سیاسی بنیاد پر متحد ہوتی ہیں۔
جس طرح بھارت کا یہ روپ اور مودی کے کرتوت چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ بھارت کی سوچ 1920 میں واپس چلی گئی ہے جب مسلمانوں کو کچلنے کے لیے قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہب کا گٹھ جوڑ کیا گیا اور ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری گئی۔ اسی طرح تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ بھارت کسی ٹھوس نظریے کی بنیاد پر قائم نہیں ہوا۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کے دعویدار بھارت کا نظریہ کیا ہے؟ بھارتیوں کی اکثریت کے نزدیک سیکولرازم ان کا نظریہ ہے۔ ان کے بقول بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کو بھی و ہی مراعات اور مواقع میسر ہیں جو ہندو اکثریت کو۔ یہاں مذہب کے نام پر امتیاز نہیں برتا جاتا۔ یہی بھارت کی بنیاد تھی۔ ان کی مزید دلیل یہ ہوتی ہے کہ ہندوستان میں تقسیم سے پہلے بھی سب مل جل کر رہتے تھے اور آج بھی۔ یہی بھارت کا خوبصورت نظریہ ہے جو ہر ایک کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ لیکن درحقیقت بھارت کا کبھی کوئی ٹھوس نظریہ رہا ہی نہیں ۔ بھارت کوئی نظریاتی ملک نہیں، نہ ہی اس کی کبھی کوئی مخصوص شناخت رہی ہے۔ یہ ہمیشہ آدھا تیترآدھا بٹیر رہا ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھیں تو قدیم ہندوستان میں موجود تمام چھوٹی بڑی راجدھانیاں نہ ہی مذہب پر پوری طرح متفق تھیں، نہ ہی سماجی ڈھانچے پر۔ سب راجے مہاراجے اپنے اپنے نظریات لیے بیٹھے تھے۔ ذات برادری کی اونچ نیچ کے ساتھ ساتھ توہم پرستی اور چھوت چھات پر مبنی معاشرتی تقسیم نے ہندوستان کو کھوکھلا کر رکھا تھا۔
جب مسلمان یہاں آئے تو اپنے ساتھ اپنے مضبوط مذہبی اور معاشرتی نظریات بھی لائے جن میں مساوات کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے رہنے والے مسلمان حکمرانوں کے اقدامات اور حسن سلوک کو دیکھ کرانگشت بدنداں رہ گئے۔ وہ ایسے ہی کسی ٹھوس نظریے کی تلاش میں کبھی رشیوں کی طرف دیکھتے اور کبھی پنڈتوں کی طرف۔ وہاں سے انہیں ہندوستان کی قدیم تہذیب، آریاورت اور ذات برادری پر دلائل تو ملتے لیکن فکری اساس کی تسلی نہ ہوپاتی۔ اپنے ایک ہزار سالہ دور حکومت میں کئی مسلمان حکمرانوں نے ہندوستان کو انسان دوست مساوات کی نظریاتی پہچان دینے کی کوشش کی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کا مذہب کی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اپنے اپنے عقیدے پر رہتے ہوئے انسانی وقعت اور عظمت کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی لیکن چونکہ اونچی ذات کی ہندو اشرافیہ کے مفادات سماجی عدم مساوات سے جڑے ہوئے تھے لہٰذا یہ کوششیں دربار تک ہی محدود رہیں جہاں ہندو بڑے بڑے منصب سنبھالتے لیکن دل سے یہ عہدیدار اپنے آباؤاجداد کی سماجی تعلیمات کی پابندی کرتے۔ البتہ مسلمانوں کے مذہبی اور فکری نظریات نے ایک مخصوص ہندو طبقے پر خوب اثرات مرتب کیے جنہوں نے اسلام سے متاثر ہوکر اصلاحی تحریکیں شروع کیں ۔ یہ تحریکیں ایک بار پھر ہندو اشرافیہ کے لیے درد سر بنیں کیونکہ ان کی مقبولیت اور کامیابی کا براہ راست اثر مراعات یافتہ طبقے کے عیش وعشرت اور اعلیٰ سماجی مقام پر پڑ رہا تھا، سو انہوں نے پرتھوی راج چوہان، مہاراجہ پرتاپ سنگھ، سورج مل اور مرہٹہ پیشوا جیسے مقامی حکمرانوں کو ان کے جنگی اور سیاسی قد کاٹھ سے کہیں بڑا بنا کر عام ہندو کے سامنے پیش کرنا شروع کردیا تاکہ ہندوؤں کی بہادری جنگجوانہ صلاحیت اور مٹی سے محبت ایک ساتھ دکھائی جاسکے، ساتھ ہی یہ بات بھی ذہنوں میں بٹھا دی جائے کہ اونچے طبقے کا کوئی نعم البدل نہیں۔ مسلمان حکمرانوں کے زوال کے آغاز سے ہی یہ کوششیں کامیاب ہونے لگیں تھیں اور ایسی تمام شخصیات کو عظیم تر کا درجہ بھی دے دیا گیا تھا جس سے ایک نئی مشکل کھڑی ہوگئی۔
مغل سلطنت کے انحطاط نے ہندوستان کی سیاسی، معاشی، معاشرتی زندگی کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ یہاں کے ڈائنمکس بدل رہے تھے۔ یہ قدرتی امر تھا کہ انگریزوں کے بڑھتے اثر ورسوخ نے مسلمانوں میں بے چینی پیدا کی کیونکہ وہ اقتدار کے مالک تھے اور انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کا محور بھی مسلمان ہی تھے تاکہ ان کو کمزور کرکے ہندوستان پر قبضے کا خواب پورا کیا جاسکے۔ اس لیے مسلمانوں کا انگریزوں کو مشکوک نظر سے دیکھنا جائز تھا۔ انگریزوں کی پیش قدمی اگر مسلمانوں کے لیے باعث تشویش تھی تو اس نے ہندوؤں کی سماجی فکر و فلسفے کے اساسی ڈھانچے کے کرتا دھرتاؤں کی پریشانی بھی بڑھائی کہ ان کے مقابل دو اقوام ہوگئیں ۔ ایک مضبوط مذہبی نظریے کی حامل تو دوسری نت نئی ایجادات، علمی مباحث سے لبریز فلسفیانہ سوچ اور دنیاوی جاہ و چشم کی دلدادہ ۔ اب چونکہ وقت بدل رہا تھا اور یہ بھی واضح تھا کہ جلد یا بدیر حکمرانی بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے مکمل نکل جائے گی- اس ماحول میں ہندواقتدار کی خواہش دلوں میں کروٹیں لینے لگی لیکن اس کے لیے کسی ایسی سوچ کی ضرورت تھی جو مسلمانوں سے الگ بھی ہو اور جسے انگریزوں کے سامنے پیش کرکے اقتدار میں حصہ مانگا جاسکے، سو اس بار ہندو قومیت اور وطن پرستی کی پہچان ہندوؤں کو دینے کی ٹھانی گئی۔ اب ہندوتوا کا نعرہ لگایا گیا۔ ہندوتوا کیا تھا ؟ یہ ہندو قوم پرستی کے نام پرماسوائے تعصب کے اور کچھ نہیں تھا۔ 1890 سے اس تنگ نظر نظریے کی بازگشت ہندوستان میں سنائی دینے لگی تھی۔ اس کے پیچھے دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے چندراناتھ باسو کا دماغ تھا جوہندوؤں کو باقی تمام انسانوں سے اعلیٰ سمجھتے۔ اس طبقہ فکر کے لوگ عورتوں کے حقوق کے سخت مخالف تھے۔ یہ فرسودہ سماجی عقائد اور ماضی کی خود ساختہ عظمت کے تنگ دائرے میں چکر لگا رہے تھے۔ اس نظریے نے مہاراشٹر میں بہت تیزی سے جگہ بنائی۔ لیکن باقی ہندوستان پر ابھی اس کی گرفت ڈھیلی تھی۔
دراصل جنگ آزادی 1857 کی ناکامی کے بعد جب انگریزوں نے اپنے حقیقی حریف مسلمانوں پر جبر کرنا شروع کیا تو اقتدار کی آس لیے ہندو اشرافیہ انگریزوں کی حلیف بن گئی۔ یہ ہندو کی نئی نظریاتی پہچان تھی جس کا چہرہ انڈین نیشنل کانگریس بنی۔ اب کچھ وقت کے لیے ہندو ترقی پسند بن گئے۔ اب روایات کو یورپی فکر و فلسفہ سے ہم آہنگ کر کے ہندو کو پروگریسو دکھایا جانے لگا۔ اس امیج بلڈنگ میں خاطر خواہ کامیابی ملنا شروع ہوئی اور سیاسی و سماجی میدان میں بہت ہی کم تناسب سے ہندوؤں نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ ہندوستان میں عددی اکثریت رکھنے کے باعث سرکار میں حصہ ہندوؤں کو چند قدم دور دکھائی دے رہا تھا۔ ہندو اقتدار کی نیّا پار ہونے والی تھی۔ انگریز اور ہندو نے باہمی اشتراک کا مظاہرہ کرنا شروع کیا ہوا تھا۔ سرکاری نوکریوں میں ہندو کو حصہ مل رہا تھا۔ یہ انگریزی تعلیم بھی حاصل کررہے تھے۔ یوں ہندو انگریزوں کے بعد ہندوستان کی دوسری بڑی طاقت بن کر ابھرنے کا سپنا بُن رہے تھے۔ اس پورے منظر نامے سے مسلمان غائب تھے۔ احساس کمتری اور افراتفری کی وجہ سے مسلمان اپنا وجود اورتشخص کھو کر ہندوؤں کے زیر اثر آنے ہی والے تھے لیکن مسلمانوں کی نظریاتی تباہی قدرت کو منظور نہ تھی سو سرسید احمد خان نے مسلم فکر کو بچانے کے لیے علی گڑھ تحریک شروع کی اور ہندوؤں کے سامنے دو قومی نظریہ رکھ دیا۔ مسلمانوں نے اپنی علمی و سیاسی جدوجہد سے ایک بار پھر اپنا معاشرتی مقام حاصل کرنے کی راہ ہموار کرنا شروع کی تو ہندو راہنماؤں نے ہندوتوا کو سیاسی رنگ دے ڈالا۔ سوارکر نے اس سیاسی رنگ میں مذہب کا تڑکہ لگا دیا۔ یوں ہندو معاشرے پر کٹر بنیاد پرست مذہبی تنگ نظرنظریے کی نئی سوچ لاد دی گئی۔ اس کے مطابق ہندوستان پر صرف ہندوؤں کا حق تھا باقی تمام قومیتوں کو یا تو ہندو مت قبول کرلینا چاہیے یا پھر ہندوستان چھوڑ دینا چاہیے۔ اس سوچ نے تشدد کو خوب ہی ہوا دی کیونکہ اس نظریے کے کرتا دھرتا پر امن جدوجہد پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔ ہر جگہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ شدھی کی ترویج و اشاعت معمول بن گئی۔ شدھی کے مطابق ہندوستان کو پاک و صاف کرنے کے لیے غیر ہندو کا ہندو بننا ضروری تھا۔ دامودار سوارکر نے ہمیشہ مسلمانوں کو علیحدگی پسند، شرپسند اور غدار کہا۔ وہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف مسلح جدوجہد پر اکساتے رہے کیونکہ ان کے نزدیک ہندوؤں کو دراصل غاصب مسلمانوں سے آزادی حاصل کرنی تھی۔ وہ مسلمانوں کے خلاف وہ ہی سلوک روا رکھنے کے حامی تھے جو ہٹلر نے یہودیوں سے رکھا۔ یہ سوچ رکھنے والے عناصر کانگریس میں بھی کثیرتعداد میں موجود تھے جو اپنی شدت پسندانہ سوچ کا برملا اظہار کرتے۔
مہاتما گاندھی جب جنوبی افریقہ سے ہندوستان واپس آئے تو ان کی جدوجہد کا محورخواتین کے حقوق کا تحفظ اور ان میں توسیع، بین المذاہب ہم آہنگی اور سب سے بڑھ کر سوراج یعنی ہندوستانیوں کی اپنی حکومت تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے غیر ملکی اشیا پر انحصار کم کرنے اور مقامی پیداوار بڑھانے پر زور دیا۔ اس کے لیے انہوں نے چرخے کی نئی پہچان ہندوستانیوں کو دی۔ گاندھی کا چرخہ ملک کے طول و عرض میں خوب گھوما لیکن شدت پسند متعصب ہندوؤں کی سوچ نہ بدل سکا۔ انہوں نے مذہبی بنیادوں پر ہندوستان کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کا کام جاری رکھا۔ یہ گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کے خلاف تھے۔ یہ شدھی پر عمل پیرا تھے- بال گنگا دھر تلک کانگریس میں ایسی سوچ کو پروان چڑھاتے رہے۔ 1915 کے بعد سے اس میں اور تیزی آگئی۔ ان کے ہاتھ گاندھی کے قریبی ساتھی نہرو اپنی وطن پرستانہ سوچ سے مضبوط کررہے تھے۔ یہ لوگ گاندھی جی سے اپنی بات منوانے کا گر جانتے تھے۔ اگرچہ نہرو دائیں بازو کے نظریات نہیں رکھتے تھے لیکن وہ اپنی نیشنلسٹ سوچ کی وجہ سے گاندھی کی پالیسی سے اختلاف رکھتے تھے۔ یہ چونکہ آزادی کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کو جائز سمجھتے لہٰذا کانگریس کے ہاکس یعنی غیر معتدل حلقے نہرو کو گاندھی کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے۔ بعد ازاں کارل مارکس کے نظریات کے زیر اثر ہوکر جب نہرو نے ہندوستان کوسوشلسٹ سیکولر پہچان دینے کا فیصلہ کیا تب انتہا پسند عناصر ان کے عتاب کا نشانہ بنے۔ ہندوستان کے وزیراعظم کے طور پر ان کے اقدامات ان کی اس سوچ کے عکاس ہیں۔
مودی سرکار نے بھارت کی سیکولر پہچان کو سیفران ایجنڈے سے بدل دیا ہے۔ اقلیتوں پر جس طرح شدت پسند متعصب ہندو حملہ آور رہتے ہیں، وہ قابل مذمت ہی نہیں بلکہ لائق تعزیر ہے۔ انہیں نہ قانون کا ڈر ہوتا ہے نہ عدالتوں کا۔ ان کی میڈیا اورحکومتی پشت پناہی شرمناک ہے۔ بھارت وہ ملک بن چکا ہے جس کی واحد پہچان اور نظریہ تنگ نظری اور اقلیتوں سے نفرت بن کے رہ گیا ہے۔ یہاں کی نظریاتی سوچ محض یہ ہے کہ یا تو بھارت میں بسنے والی اقلیتیں ہندومت قبول کرلیں یا بھارت سے نکل جائیں۔
دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہندو رہنما آزادی کے نام پر اپنا خفیہ ایجنڈا پورا کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ یہ اسلام کے بارے میں مہاتما گاندھی کے اعتدال پسند خیالات کو برا کہتے کہ گاندھی جی کا یہ فلسفہ ہندوستانی مسلمانون کو رعایت اور چھوٹ دے رہا ہے۔ یہ لوگ راشٹرا، جاتی اور سنسکرتی پر زور دیتے۔ انہوں نے ہندو قومیت کو صرف اور صرف مذہب سے جوڑ دیا۔ ان کے نزدیک جو ہندو نہیں اس کا ہندوستان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی نظر میں ہندوؤں کے سب سے بڑے دشمن مسلمان تھے۔ یہ انگریزوں کو اتنی شد و مد سے تنقید اور نفرت کا نشانہ نہیں بناتے جتنا زہر مسلمانوں کے خلاف اگلتے۔ کیشو بلرام نے دیش کی محبت اور راشٹریہ کے نام پر ہندو نوجوان کے ہاتھ میں خنجر اور تلوار پکڑائی۔ ان نام نہاد' سوام سیوکیوں' کی ساری توانائیاں مسلمانوں کے خلاف خرچ ہوتیں۔ مساجد کے سامنے بوقت نماز ڈھول پیٹنا، مسلم آبادی والے محلوں پر جتھوں کی صورت میں حملے کرنا ان کا روز کا کام تھا۔ شمالی بھارت میں انہوں نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ 1875 میں آریہ سماج کے قیام کے بعد تنگ نظری کھل کر منظم ہونا شروع ہوئی ۔ اسی متعصب آریہ سماج نے شدھی کی بدنام زمانہ تحریک شروع کی تھی ۔ دیانند سرسوتی اور سوامی شردھانند شدھی کے بانی تھے۔ دیانند سرسوتی نے اسلام کے خلاف خوب زہر اگلا ہے۔ ان کی سوچ عیسائیت کے بارے میں بھی شرمناک ہے۔ انہوں نے ان دونوں مذاہب کے بارے میں جو نظریات پیش کیے وہ سراسر مذہبی منافرت اور اشتعال انگیزی ہے۔ اپنی کتاب ستیارتھا پرکاش میں انہوں نے دونوں الہامی مذاہب پر نام نہاد تنقید کرتے ہوئے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیۖ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ایسے متعصبانہ گھٹیا الفاظ کا چناؤ کیا ہے جو تہذیب کے زمرے میں نہیں آتے۔ انہوں نے سکھوں پر بھی اسی گھٹیاپن سے تنقید کی ہے۔ مسلمان ،عیسائی، سکھ، بدھ سب کے عقائد اور مذہبی شخصیات کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے انہوں نے ہندومت میں دنیا جہاں کی خوبیاں تلاش کرلیں۔ موصوف کے مطابق ہندومت واحد منطقی مذہب ہے جو عقل اور دلائل کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ اس بڑائی کو بیان کرنے میں وہ اس حد تک اندھے ہوگئے کہ یہ کہتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی نہ شرمندہ ہوئے نہ گھبرائے کہ بجلی کے استعمال کا ذکر ویدوں میں موجود ہے۔ سوامی شردھانند نے ہندوستان کو شدھ کرنے کی تنگ نظری میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہر سطح پر ہوا دی۔ مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے آریہ سماج اور شدھی کے کارندے اسلام کے خلاف اشتعال انگیز زبان استعمال کرتے اور ایسی کارروائیاں کرتے جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے۔ ایسی زور زبردستی کی فضا میں تصادم ہونا ناگزیر تھا۔
پانچ لاکھ راجپوتوں کو شدھی کرکے سوامی جی نے اسلام دشمنی کی نئی مثال قائم کی۔ مزے کی بات ہے اس پر بھی سوامی جی کو ہندو مسلم اتحاد کا داعی گردانا جاتا ہے۔ ان دونوں کی تبدیلی مذہب کی پالیسی سے گاندھی کا اختلاف کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ شدھی کے بعد سنگھٹن مسلمانوں کے خلاف ان کا دوسرا ہتھیار تھا۔ شردھانند نے سنگھٹن کے نظریے کو دوام بخشتے ہوئے راشٹریہ مندر بنانے کے اعلان کیا۔ ان مندروں میں دیوتا کی مورتی کے بجائے ہندوستان کا نقشہ لگا ہوتا کہ ہندوؤں میں مسلمان دشمنوں سے مقابلے کے لیے سماجی اور مذہبی اتحاد پیدا ہوسکے۔ یہ سنگھٹن تحریک کی ابتداء تھی۔ ہندو مہاسبھا اور آریہ سماج کے یہی نظریات ہندوتوا کی طرف پیش قدمی کا موجب بنے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج بھارت میں ان دونوں شدت پسند لیڈران کو ایسے ریفارمر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے ہندوستان کو نئی جہت دی۔ بس یہ ہوا کہ اس نئی جہت کا منہ بولتا ثبوت بابری مسجد کی شہادت ہے۔ چرچ پر انگنت حملے ہیں۔ سنگھ پریوار کا بے لگام بیانیہ ہے اور مودی سرکار نامی خون آشام بلا ہے۔
ہندو مہاسبھا کے نظریاتی گرو سوارکر کی نظر میں غیر ہندو اجنبی تھے ان کا ہندوستانی زمین سے رشتہ ہی نہیں تھا۔ بڑھتے بڑھتے ان رائٹ ونگرز کی ہمت اتنی بڑھ گئی کہ انہوں نے بھارت کے ترنگے کو ماننے سے انکار کردیا ۔
یہ شدت پسند نظریات پنپتے رہے اور یہ آگ اس حد تک بڑھی کہ ایک ہندو مہاسبھائی نتھورام نے 1947 میں گاندھی کو اس لیے قتل کردیا کہ وہ ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی مخالفت کررہے تھے اور تقسیم کے بعد پاکستان کو اس کا جائز حق دینے کے حامی تھے۔ اس سوچ کی قیمت انہوں نے اپنے خون سے ادا کی۔ اس کے بعد نہرو نے دائیں بازو کی جماعتوں کوشکنجے میں کسنا شروع کیا۔ سنگھ پریوار پر پابندیاں لگائیں اور بڑے پیمانے پرگرفتاریاں عمل میں آئیں۔
اگرچہ نہرو کے دور حکومت میں شدت پسند عناصر کے خلاف اقدامات کیے گئے لیکن نہ راشٹریہ سیوک سنگھ کا وجود ختم ہوا نہ اس کی ذیلی جماعتوں کا۔ یہ اپنی جڑیں مضبوط کرتی رہیں۔ یہ بتدریج اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتی رہیں۔ ان کی سب سے بھیانک شکل نریندر مودی کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ مودی سرکار نے بھارت کی سیکولر پہچان کو سیفران ایجنڈے سے بدل دیا ہے۔ اقلیتوں پر جس طرح شدت پسند متعصب ہندو حملہ آور رہتے ہیں، وہ قابل مذمت ہی نہیں بلکہ لائق تعزیر ہے۔ انہیں نہ قانون کا ڈر ہوتا ہے نہ عدالتوں کا۔ ان کی میڈیا اورحکومتی پشت پناہی شرمناک ہے۔ بھارت وہ ملک بن چکا ہے جس کی واحد پہچان اور نظریہ تنگ نظری اور اقلیتوں سے نفرت بن کے رہ گیا ہے۔ یہاں کی نظریاتی سوچ محض یہ ہے کہ یا تو بھارت میں بسنے والی اقلیتیں ہندومت قبول کرلیں یا بھارت سے نکل جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے قوانین بنائے جارہے ہیں۔ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان پر مذہبی اور سماجی پابندیاں عائد ہیں۔ یوں سرکاری سرپرستی میں ہندوتوا کا نظریہ بھارت کا نظریہ بن چکا ہے۔ ہندوتوا کا ہندو قوم پرستی کا نعرہ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ اب واقعی بھارت صرف ہندوؤں کے لیے ہے۔ آج بھی مہاسبھائی مسلمانوں کی نسل کشی پرآمادہ ہیں۔ یہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں اور دونوں کی عبادت گاہوں پر حملے کرتے ہیں۔ اور ان کے لیڈر ایسے اقدامات کی تعریف کرتے ہیں۔
بھارتی آئین کا آرٹیکل 27 لوگوں کے ٹیکس کے پیسے کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی مذہب کی ترویج و اشاعت سے روکتا ہے لیکن یہاں تو پوری بھارتی حکومتی مشینری ہندومت کو اقلیتوں پر تھوپ رہی ہے۔ وقتاً فوقتاً بھارتی سپریم کورٹ میں آئین سے سیکولر اور سوشلسٹ کے الفاظ حذف کرنے کی درخواستیں دائر کی جاتی ہیں۔نصابی کتب میں ہندو راجوں، مہاراجوں، مہارانیوں کی بہادری اور عظمت کو بڑھا چڑھا کر پراپیگنڈا کرنا،اودے پور راجھستان میں پرتاپ گورو کیندرا کی تعمیر۔ عائلی قوانین میں تبدیلیاں وغیرہ سب کچھ آر ایس ایس کے ہندوتوا ایجنڈے کے عین مطابق ہورہا ہے۔
جس طرح بھارت کا یہ روپ اور مودی کے کرتوت چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ بھارت کی سوچ 1920 میں واپس چلی گئی ہے جب مسلمانوں کو کچلنے کے لیے قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہب کا گٹھ جوڑ کیا گیا اور ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری گئی۔ اسی طرح تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ بھارت کسی ٹھوس نظریے کی بنیاد پر قائم نہیں ہوا۔ ان کے بیانیے کو نہرو کے سکولرازم نے وقتی طور پر پیچھے دھکیل دیا تھا۔ انہوں نے بھی بظاہر خود کو قومی دھارے میں شامل کرلیا تھا لیکن درحقیقت یہ اپنی روش پر قائم رہے۔ سنگھ پریوار کو اکھنڈ بھارت اورہندوتوا کے یوٹوپیائی نظریے کو فروغ دینے کے لیے اور مین اسٹریم پالیٹکس میں جگہ بنانے یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بھارت کی مرکزی حکومت کو کنٹرول کرنے کے لیے جس مقبول سیاسی جماعت کی ضرورت تھی وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکل میں ان مذہبی جنونیوں کو مل گئی۔ بی جے پی نے اپنے دور اقتدار میں اقلیتوں کے گلے پر پاؤں رکھ کر حکومت کی ہے۔ رام جنم بھومی تحریک ، گجرات کا قتل عام جیسے کالے کارناموں سے مزین بی جے پی ساری انتہا پسند جماعتوں کی نمائندہ ہے۔
بہت سے دانشوروں کا ماننا ہے کہ موجودہ جنونیت ہی اب بھارت کا نظریہ ہے لیکن سچ یہ ہے کہ بھارت ایک بار پھر آدھا تیتر آدھا بٹیر بن گیا ہے۔ بھارت تقسیم سے پہلے اور نوے کی دہائی میں بی جے پی کے مضبوط ہو نے کے بعد کی طرح ایک بار پھر نظریاتی تقسیم اور شناخت کے بحران کا شکار ہے۔ اگر اگلے انتخابات میں بھارتیوں نے بی جے پی کو مسترد کردیا تو ممکن ہے کہ ہندوتوا کا نظریہ ایک بار پھر پیچھے چلا جائے اور سوشلسٹ سیکولر بیانیہ طاقت پکڑ لے کیونکہ ابھی بھی کچھ ہندو شدت پسندی کے مخالف اور اقلیتوں کے حقوق کے حامی ہیں لیکن یہ امید رکھنا ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ فی الحال تو یہ لوگ اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں۔ ||
مضمون نگار فری لانس صحافی ہیں۔ حالاتِ حاضرہ اور سماجی و سیاسی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے