اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2024 16:43
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد یَومِ یکجہتی ٔکشمیر بھارتی انتخابات اور مسلم ووٹر پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان سے غیرقانونی مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ اور اس کا پس منظر پاکستان کی ترقی کا سفر اور افواجِ پاکستان جدوجہدِآزادیٔ فلسطین گنگا چوٹی  شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے مواقع اور مقامات  عالمی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ پاکستانی شہریوں کے قتل میں براہ راست ملوث بھارتی نیٹ ورک بے نقاب عز م و ہمت کی لا زوال داستا ن قائد اعظم  اور کشمیر  کائنات ۔۔۔۔ کشمیری تہذیب کا قتل ماں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور بھارتی سپریم کورٹ کی توثیق  مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ۔۔ایک وحشیانہ اقدام ثقافت ہماری پہچان (لوک ورثہ) ہوئے جو وطن پہ قرباں وطن میرا پہلا اور آخری عشق ہے آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی میں کانووکیشن کا انعقاد  اسسٹنٹ وزیر دفاع سعودی عرب کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات  پُرعزم پاکستان سوشل میڈیا اور پرو پیگنڈا وار فئیر عسکری سفارت کاری کی اہمیت پاک صاف پاکستان ہمارا ماحول اور معیشت کی کنجی زراعت: فوری توجہ طلب شعبہ صاف پانی کا بحران،عوامی آگہی اور حکومتی اقدامات الیکٹرانک کچرا۔۔۔ ایک بڑھتا خطرہ  بڑھتی آبادی کے چیلنجز ریاست پاکستان کا تصور ، قائد اور اقبال کے افکار کی روشنی میں قیام پاکستان سے استحکام ِ پاکستان تک قومی یکجہتی ۔ مضبوط پاکستان کی ضمانت نوجوان پاکستان کامستقبل  تحریکِ پاکستان کے سرکردہ رہنما مولانا ظفر علی خان کی خدمات  شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن ہو بہتی جن کے لہو میں وفا عزم و ہمت کا استعارہ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار کرگئے جو نام روشن قوم کا رمضان کے شام و سحر کی نورانیت اللہ جلَّ جَلالَہُ والد کا مقام  امریکہ میں پاکستا نی کیڈٹس کی ستائش1949 نگران وزیراعظم پاکستان، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر اور  چیف آف آرمی سٹاف کا دورۂ مظفرآباد چین کے نائب وزیر خارجہ کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات  ساتویں پاکستان آرمی ٹیم سپرٹ مشق 2024کی کھاریاں گیریژن میں شاندار اختتامی تقریب  پاک بحریہ کی میری ٹائم ایکسرسائز سی اسپارک 2024 ترک مسلح افواج کے جنرل سٹاف کے ڈپٹی چیف کا ایئر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ اوکاڑہ گیریژن میں ''اقبالیات'' پر لیکچر کا انعقاد صوبہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں مقامی آبادی کے لئے فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد  بلوچستان کے ضلع خاران میں معذور اور خصوصی بچوں کے لیے سپیشل چلڈرن سکول کاقیام سی ایم ایچ پشاور میں ڈیجٹلائیز سمارٹ سسٹم کا آغاز شمالی وزیرستان ، میران شاہ میں یوتھ کنونشن 2024 کا انعقاد کما نڈر پشاور کورکا ضلع شمالی و زیر ستان کا دورہ دو روزہ ایلم ونٹر فیسٹول اختتام پذیر بارودی سرنگوں سے متاثرین کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کمانڈر کراچی کور کاپنوں عاقل ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کوٹری فیلڈ فائرنگ رینج میں پری انڈکشن فزیکل ٹریننگ مقابلوں اور مشقوں کا انعقاد  چھور چھائونی میں کراچی کور انٹرڈویژ نل ایتھلیٹک چیمپئن شپ 2024  قائد ریزیڈنسی زیارت میں پروقار تقریب کا انعقاد   روڈ سیفٹی آگہی ہفتہ اورروڈ سیفٹی ورکشاپ  پی این فری میڈیکل کیمپس پاک فوج اور رائل سعودی لینڈ فورسز کی مظفر گڑھ فیلڈ فائرنگ رینجز میں مشترکہ فوجی مشقیں طلباء و طالبات کا ایک دن فوج کے ساتھ روشن مستقبل کا سفر سی پیک اور پاکستانی معیشت کشمیر کا پاکستان سے ابدی رشتہ ہے میر علی شمالی وزیرستان میں جام شہادت نوش کرنے والے وزیر اعظم شہباز شریف کا کابینہ کے اہم ارکان کے ہمراہ جنرل ہیڈ کوارٹرز  راولپنڈی کا دورہ  چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی  ایس سی او ممبر ممالک کے سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں شرکت  بحرین نیشنل گارڈ کے کمانڈر ایچ آر ایچ کی جوائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے ملاقات  سعودی عرب کے وزیر دفاع کی یوم پاکستان میں شرکت اور آرمی چیف سے ملاقات  چیف آف آرمی سٹاف کا ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کا دورہ  آرمی چیف کا بلوچستان کے ضلع آواران کا دورہ  پاک فوج کی جانب سے خیبر، سوات، کما نڈر پشاور کورکا بنوں(جا نی خیل)اور ضلع شمالی وزیرستان کادورہ ڈاکیارڈ میں جدید پورٹل کرین کا افتتاح سائبر مشق کا انعقاد اٹلی کے وفد کا دورہ ٔ  ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد  ملٹری کالج سوئی بلوچستان میں بلوچ کلچر ڈے کا انعقاد جشن بہاراں اوکاڑہ گیریژن-    2024 غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان کے طلباء اور فیکلٹی کا ملتان گیریژن کا دورہ پاک فوج کی جانب سے مظفر گڑھ میں فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد پہلی یوم پاکستان پریڈ انتشار سے استحکام تک کا سفر خون شہداء مقدم ہے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ریاستی چیلنج بے لگام سوشل میڈیا اور ڈس انفارمیشن  سوشل میڈیا۔ قومی و ملکی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے تحریک ''انڈیا آئوٹ'' بھارت کی علاقائی بالادستی کا خواب چکنا چور بھارت کا اعتراف جرم اور دہشت گردی کی سرپرستی  بھارتی عزائم ۔۔۔ عالمی امن کے لیے آزمائش !  وفا جن کی وراثت ہو مودی کے بھارت میں کسان سراپا احتجاج پاک سعودی دوستی کی نئی جہتیں آزاد کشمیر میں سعودی تعاون سے جاری منصوبے پاسبان حریت پاکستان میں زرعی انقلاب اور اسکے ثمرات بلوچستان: تعلیم کے فروغ میں کیڈٹ کالجوں کا کردار ماحولیاتی تبدیلیاں اور انسانی صحت گمنام سپاہی  شہ پر شہیدوں کے لہو سے جو زمیں سیراب ہوتی ہے امن کے سفیر دنیا میں قیام امن کے لیے پاکستانی امن دستوں کی خدمات  ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات سرمایہ و محنت گلگت بلتستان کی دیومالائی سرزمین بلوچستان کے تاریخی ،تہذیبی وسیاحتی مقامات یادیں پی اے ایف اکیڈمی اصغر خان میں 149ویں جی ڈی (پی)، 95ویں انجینئرنگ، 105ویں ایئر ڈیفنس، 25ویں اے اینڈ ایس ڈی، آٹھویں لاگ اور 131ویں کمبیٹ سپورٹ کورسز کی گریجویشن تقریب  پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں 149ویں پی ایم اے لانگ کورس، 14ویں مجاہد کورس، 68ویں انٹیگریٹڈ کورس اور 23ویں لیڈی کیڈٹ کورس کے کیڈٹس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ  ترک فوج کے چیف آف دی جنرل سٹاف کی جی ایچ کیومیں چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات  سعودی عرب کے وزیر خارجہ کی وفد کے ہمراہ آرمی چیف سے ملاقات کی گرین پاکستان انیشیٹو کانفرنس  چیف آف آرمی سٹاف نے فرنٹ لائن پر جوانوں کے ہمراہ نماز عید اداکی چیف آف آرمی سٹاف سے راولپنڈی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی ملاقات چیف آف ترکش جنرل سٹاف کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات ساحلی مکینوں میں راشن کی تقسیم پشاور میں شمالی وزیرستان یوتھ کنونشن 2024 کا انعقاد ملٹری کالجز کے کیڈٹس کا دورہ قازقستان پاکستان آرمی ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ 2023/24 مظفر گڑھ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کے طلباء اور فیکلٹی کا ملتان گیریژن کا دورہ   خوشحال پاکستان ایس آئی ایف سی کے منصوبوں میں غیرملکی سرمایہ کاری معاشی استحکام اورتیزرفتار ترقی کامنصوبہ اے پاک وطن خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC)کا قیام  ایک تاریخی سنگ میل  بہار آئی گرین پاکستان پروگرام: حال اور مستقبل ایس آئی ایف سی کے تحت آئی ٹی سیکٹر میں اقدامات قومی ترانہ ایس آئی  ایف سی کے تحت توانائی کے شعبے کی بحالی گرین پاکستان انیشیٹو بھارت کا کشمیر پر غا صبانہ قبضہ اور جبراً کشمیری تشخص کو مٹانے کی کوشش  بھارت کا انتخابی بخار اور علاقائی امن کو لاحق خطرات  میڈ اِن انڈیا کا خواب چکنا چور یوم تکبیر......دفاع ناقابل تسخیر منشیات کا تدارک  آنچ نہ آنے دیں گے وطن پر کبھی شہادت کی عظمت "زورآور سپاہی"  نغمہ خاندانی منصوبہ بندی  نگلیریا فائولیری (دماغ کھانے والا امیبا) سپہ گری پیشہ نہیں عبادت ہے افواجِ پاکستان کی محبت میں سرشار مجسمہ ساز بانگِ درا  __  مشاہیرِ ادب کی نظر میں  چُنج آپریشن۔ٹیٹوال سیکٹر جیمز ویب ٹیلی سکوپ اور کائنات کا آغاز سرمایۂ وطن راستے کا سراغ آزاد کشمیر کے شہدا اور غازیوں کو سلام  وزیراعظم  پاکستان لیاقت علی خان کا دورۂ کشمیر1949-  ترک لینڈ فورسز کے کمانڈرکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کاپاکستان نیوی وار کالج لاہور میں 53ویں پی این سٹاف کورس کے شرکا ء سے خطاب  کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ،جنرل سید عاصم منیر چیف آف آرمی سٹاف کی ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی وفات پر اظہار تعزیت پاکستان ہاکی ٹیم کی جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات باکسنگ لیجنڈ عامر خان اور مارشل آرٹس چیمپیئن شاہ زیب رند کی جنرل ہیڈ کوارٹرز میں آرمی چیف سے ملاقات  جنرل مائیکل ایرک کوریلا، کمانڈر یونائیٹڈ سٹیٹس(یو ایس)سینٹ کام کی جی ایچ کیو میں آرمی چیف سے ملاقات  ڈیفنس فورسز آسٹریلیا کے سربراہ جنرل اینگس جے کیمبل کی جنرل ہیڈکوارٹرز میں آرمی چیف سے ملاقات پاک فضائیہ کے سربراہ کا دورۂ عراق،اعلیٰ سطحی وفود سے ملاقات نیوی سیل کورس پاسنگ آئوٹ پریڈ پاکستان نیوی روشن جہانگیر خان سکواش کمپلیکس کے تربیت یافتہ کھلاڑی حذیفہ شاہد کی عالمی سطح پر کامیابی پی این فری میڈیکل  کیمپ کا انعقاد ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈی کا دورۂ ملٹری کالج سوئی بلوچستان کمانڈر سدرن کمانڈ اورملتان کور کا النور اسپیشل چلڈرن سکول اوکاڑہ کا دورہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، لیہ کیمپس کے طلباء اور فیکلٹی کا ملتان گیریژن کا دورہ منگلا گریژن میں "ایک دن پاک فوج کے ساتھ" کا انعقاد یوتھ ایکسچینج پروگرام کے تحت نیپالی کیڈٹس کا ملٹری کالج مری کا دورہ تقریبِ تقسیمِ اعزازات شہدائے وطن کی یاد میں الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں شاندار تقریب کمانڈر سدرن کمانڈ اورملتان کورکا خیر پور ٹامیوالی  کا دورہ مستحکم اور باوقار پاکستان سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور قربانیوں کا سلسلہ سیاچن دہشت گردی کے سد ِباب کے لئے فورسزکا کردار سنو شہیدو افغان مہاجرین کی وطن واپسی، ایران بھی پاکستان کے نقش قدم پر  مقبوضہ کشمیر … شہادتوں کی لازوال داستان  معدنیات اور کان کنی کے شعبوں میں چینی فرم کی سرمایہ کاری مودی کو مختلف محاذوں پر ناکامی کا سامنا سوشل میڈیا کے مثبت اور درست استعمال کی اہمیت مدینے کی گلیوں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ماحولیاتی تغیر پاکستان کادفاعی بجٹ اورمفروضے عزم افواج پاکستان پاک بھارت دفاعی بجٹ ۲۵ - ۲۰۲۴ کا موازنہ  ریاستی سطح پر معاشی چیلنجز اور معاشی ترقی کی امنگ فوجی پاکستان کا آبی ذخائر کا تحفظ آبادی کا عالمی دن اور ہماری ذمہ داریاں بُجھ تو جاؤں گا مگر صبح کر جاؤں گا  شہید جاتے ہیں جنت کو ،گھر نہیں آتے ہم تجھ پہ لٹائیں تن من دھن بانگِ درا کا مہکتا ہوا نعتیہ رنگ  مکاتیب اقبال ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم ذرامظفر آباد تک ہم فوجی تھے ہیں اور رہیں گے راولپنڈی میں پاکستان آرمی میوزیم کا قیام۔1961 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا ترکیہ کا سرکاری دورہ چیف آف ڈیفنس فورسز آسٹریلیا کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کا عیدالاضحی پردورۂ لائن آف کنٹرول  چیف آف آرمی سٹاف کی ضلع خیبر میں شہید جوانوں کی نماز جنازہ میں شرکت ایئر چیف کا کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ کا دورہ کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آبادکے ساہیوال کیمپس کی فیکلٹی اور طلباء کا اوکاڑہ گیریژن کا دورہ گوادر کے اساتذہ اورطلبہ کاپی این ایس شاہجہاں کا مطالعاتی دورہ سیلرز پاسنگ آئوٹ پریڈ کمانڈر پشاور کور کی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنے والے انسداد دہشتگردی سکواڈ کے جوانوں سے ملاقات کما نڈر پشاور کور کا شمالی و جنوبی وزیرستان کے اضلاع اور چترال کادورہ کمانڈر سدرن کمانڈ اور ملتان کور کا واٹر مین شپ ٹریننگ کا دورہ کیڈٹ کالج اوکاڑہ کی فیکلٹی اور طلباء کا اوکاڑہ گیریژن کا دورہ انٹر سروسز باکسنگ چیمپیئن شپ 2024 پاک میرینز پاسنگ آؤٹ پریڈ  ہلال جولائی کے شمارے میں سوشل میڈیا کے حوالے سے مضمون ا د ا ر یہ عزمِ بقائے وطن قیام پاکستان سے استحکامِ پاکستان تک  روشنی کا ایک سفر  پاکستان قائد اعظم کی بصیرت کی روشنی میں ترانہ آزادی کے محافظ یوم آزادی اور شہیدوں کے ورثاء کے جذبات  اے ارض وطن وطن سے محبت ایمان کا حصّہ پاکستان سے پیار کریں 5اگست 2019ء کا سانحہء کشمیر 1948بھارتی مظالم اورکشمیریوں کے حقوق کا استحصال کشمیریوں کی شہادت سے عبارت جدوجہدِ آزادی افغان مہاجرین کی واپسی ، پاکستان کا مؤقف اور عالمی برادری کی لاتعلقی بھارتی مسلمان مودی کے مظالم کاشکار  نریندرمودی کا سکھ رہنمائوں کی ٹارگٹ کلنگ کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری بھارت کوہزیمت کا سامنا ڈیجیٹل دہشت گردی آرٹیفشل انٹیلی جنس ، مستقبل کی دنیا یا دنیا کا مستقبل ڈیٹا سائنس اورمصنوعی ذہانت کے اثرات علم ٹولو دا پارہ تعلیم سب کے لیے اُمید سپیشل ایجوکیشن مرکز کوئٹہ میرا انمول ہیرا دل سے نکلے گی نہ مرکر بھی وطن کی الفت ہر کسی کو میسر نہیں رتبہ شہادت کا شہادت ہمارا ورثہ ہے سیاحوں کی جنت پاکستان دیس میرا پاکستان 12  نوجوانوں کا عالمی دن مرحبا پاکستان 14تیسرا یومِ آزادی و جشنِ استقلال 1949 جنرل ساحر شمشاد مرزا کی پیپلز لبریشن آرمی کے 97 ویں یوم تاسیس کی یادگاری تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت  چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کادورہ ٔروس  پاک فوج اور چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے درمیان تعلقات مضبوط ہیں۔ جنرل سید عاصم منیر کیپٹن محمد اسامہ بن ارشد شہید کی نماز جنازہ چکلالہ گیریژن راولپنڈی میں ادا کی گئی کمانڈر کراچی کور کا فیلڈ فائرنگ رینج کا دورہ پاک امریکا رائفل کمپنی ایکسچینج مشق 2024 وفاقی وزیر برائے بحری اُمورکا دورۂ گوادر پی این فری میڈیکل کیمپس علاقائی تجارت کے فروغ میں این ایل سی کا کردار البرق ڈویژن میںتقریبِ فلسفہ اقبال  لاہور گیریژن یونیورسٹی میں  منشیات کے نقصانات سے آگاہی کے لیے اسٹیج ڈراما پیش کیا گیا دفاعِ وطن  دفاع وطن مقدم ہے  نگاہ شوق جنگِ ستمبر کی اَنمٹ یادیں…! محاذِچونڈہ ۔بھارتی ٹینکوں کا قبرستان جنگ ستمبر65ء چند بہادر سپوتوں کا تذکرہ  یوم دفاع پاکستان اِک ولولۂ تازہ خراج تحسین 1965پاک بھارت جنگ میں معرکۂ ستمبر جنگ ستمبر1965 افکار کے خزانے مرحبا پاکستان ہم زندہ قوم ہیں وہ ہے ایک محافظ عزم ِاستحکام، انسدادِ دہشت گردی کی ایک مؤثر حکمتِ عملی بھارت کے شیطانی عزائم اور مسلمان۔۔ مرے وطن کا ہر دیگر ممالک میں بھارتی ایماء پر قتل و غارت پاکستانی ہیرو ارشد ندیم اور بھارتی پروپیگنڈا خاک ِوطن نہ ہوگا رائیگاں خون شہیدان وطن ہر گز ویسٹ مینجمنٹ (Waste Management) میں پاک فوج کا کردار فالج (سٹروک)کے خطرے کو کم کیسے کیا جا سکتا ہے اقوام متحدہ کے پرچم تلے پاکستان کے امن دستوں کی خدمات  بانگ درا اور نسل نو مرے وطن کے جری جوانو مایہ ناز انٹرنیشنل ایتھلیٹ صوبیدار محمد یو سف شہید ہم نے اپنے خون سے لکھا ہے اِک تابندہ باب چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا برطانیہ کا دورہ اولمپک ریکارڈ ہولڈر ارشد ندیم کی چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کا یوم آزادی کے موقع پر پاک فوج کے سابق فوجیوں کے اعزاز میں ایک شاندار استقبالیہ  امام مسجد نبوی ۖکی جنرل ہیڈکوارٹرز میں چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات  ہارورڈ بزنس سکول کے طلباکے ایک وفد کی جنرل ہیڈ کوارٹرز میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے ملاقات  اولمپیئن ارشد ندیم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے آرمی آڈیٹوریم جی ایچ کیو میں چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے تقریب کا اہتمام عراقی وفد نے فضائیہ کے ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا ضلع خانیوال کے مختلف تعلیمی اداروں کے طلباء اور فیکلٹی کا اوکاڑہ گیریژن کا دورہ کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخارکا ائیر ڈیفنس تربیتی مشقوں کا معائنہ پشاورگیریژن میں پرچم کشائی کی تقریب فورتھ ورلڈ ملٹری کیڈٹ گیمز ملتان اور اوکاڑہ گیریژنز میں جشن آزادی کی تقریبات شہ رگِ پاکستان یوم سیاہ کشمیر۔ عالمی ضمیر کی بیداری کی ضرورت ملی نغمہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں 27اکتوبر1947۔۔۔ کشمیر پربھارت کا غاصبانہ قبضہ اک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا گرین پاکستان انیشیٹومنصوبہ پاکستان کی خوشحالی کا ضامن  میڈیا اور ہم آؤ اپنی سوچ کو بدلیں بحر ِ ہند کی سیاسی و معاشی اہمیت،پاکستان کے تناظر میں  ویسٹ مینجمنٹ !سماجی شعور کی بیداری کی ضرورت خون کی قیمت ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی معاونت راہ ِحق کا شہید۔لیفٹیننٹ ناصر حسین سلہریا (تمغۂ بسالت) ایک باہمت محب ِ وطن ماں اور اس کے بہادر بیٹے کی جرأت آمیز داستان امدادی کارروائیاں اور افواج پاکستان  سفر وادیٔ کمراٹ کا ماضی کے جھروکوں سے ایک زمانہ بیت گیا خود ملامتی  عسکری و قومی ادارہ برائے امراض قلب راولپنڈی  دہر میں اسمِ محمدۖ سے اُجالا کردے ! عصر حاضر (بسلسلہ بانگِ درا کے سو سال ) بانگ درا کی طویل نظمیں یومِ دفاع:سیالکوٹ میں ہلال استقلال کی تبدیلی پرچم کی رسم اوردیگر خصوصی تقریبات وزیر اعظم پاکستان کی راولپنڈی میں آرمی وار گیم کے اختتامی اجلاس میں شرکت  چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ عمان  سنو : امن کی آواز ورلڈ ملٹری کیڈٹ گیمز کی ٹیم کی چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات پاکستانی مسلح افواج کی ٹیم نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا چین کا سرکاری دورہ روسی فیڈریشن کے نائب وزیر اعظم کی جنرل ہیڈ کوارٹرز میں آرمی چیف سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کا دورۂ کراچی  آئی ٹی پارک کا افتتاح اور تاجر برادری سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کا ضلع اورکزئی کا دورہ  ایک دن پاک بحریہ کے ساتھ پاک میرینز پاسنگ آئوٹ پریڈ سربراہ پاک فضائیہ کا دورۂ ترکی  اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر کی پاک فضائیہ کے سربراہ سے ملاقات یوم دفاع و شہداء کے موقع پرملتان اور اوکاڑہ گیر یثرن میں تقریبات سندھ میں یومِ دفاع کی تقریبات اور کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخارکی شہدا ء کے خاندانوں سے ملاقات پشاورگیریژن میں یومِ دفاع و شہداء کے موقع پر تقریبات کا انعقاد ملٹری کالج جہلم میں تقریب بسلسلہ یومِ دفاع آزاد کشمیر: پاک فوج کی قربانیاں اور ترقی میں کردار  پاکستان آرڈننس فیکٹریز کا افتتاح 1951 
Advertisements

ہلال اردو

ہندوتوا: بھارت کی نظریاتی اساس 

اگست 2022

قومیں نظریے کی بنیاد پر بنتی ہیں۔ نظریہ ان کی سمت طے کرتے ہوئے ان کے اندر خود اعتمادی اور اپنی شناخت کے لیے لگن پیدا کرتا ہے۔ نظریہ قوموں کو پہچان دیتا ہے۔ کچھ اقوام کی نظریاتی شناخت مذہب ہوتی ہے، کچھ کی معاشی پہچان انہیں جوڑے رکھتی ہے اور کچھ کسی مخصوص سیاسی بنیاد پر متحد ہوتی ہیں۔


جس طرح بھارت کا یہ روپ اور مودی کے کرتوت چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ بھارت کی سوچ 1920 میں واپس چلی گئی ہے جب مسلمانوں کو کچلنے کے لیے قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہب کا گٹھ جوڑ کیا گیا اور ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری گئی۔ اسی طرح تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ بھارت کسی ٹھوس نظریے کی بنیاد پر قائم نہیں ہوا۔


 دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کے دعویدار بھارت کا نظریہ کیا ہے؟ بھارتیوں کی اکثریت کے نزدیک سیکولرازم ان کا نظریہ ہے۔ ان کے بقول بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کو بھی و ہی مراعات اور مواقع میسر ہیں جو ہندو اکثریت کو۔ یہاں مذہب کے نام پر امتیاز نہیں برتا جاتا۔ یہی بھارت کی بنیاد تھی۔ ان کی مزید دلیل یہ ہوتی ہے کہ ہندوستان میں تقسیم سے پہلے بھی سب مل جل کر رہتے تھے اور آج بھی۔ یہی بھارت کا خوبصورت نظریہ ہے جو ہر ایک کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ لیکن درحقیقت بھارت کا کبھی کوئی ٹھوس نظریہ رہا ہی نہیں ۔ بھارت کوئی نظریاتی ملک نہیں، نہ ہی اس کی کبھی کوئی مخصوص شناخت رہی ہے۔ یہ ہمیشہ آدھا تیترآدھا بٹیر رہا ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھیں تو قدیم ہندوستان میں موجود تمام چھوٹی بڑی راجدھانیاں نہ ہی مذہب پر پوری طرح متفق تھیں، نہ ہی سماجی ڈھانچے پر۔ سب راجے مہاراجے اپنے اپنے نظریات لیے بیٹھے تھے۔ ذات برادری کی اونچ نیچ کے ساتھ ساتھ توہم پرستی اور چھوت چھات پر مبنی معاشرتی تقسیم نے ہندوستان کو کھوکھلا کر رکھا تھا۔
 جب مسلمان یہاں آئے تو اپنے ساتھ اپنے مضبوط مذہبی اور معاشرتی نظریات بھی لائے جن میں مساوات کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے رہنے والے مسلمان حکمرانوں کے اقدامات اور حسن سلوک کو دیکھ کرانگشت بدنداں رہ گئے۔ وہ ایسے ہی کسی ٹھوس نظریے کی تلاش میں کبھی رشیوں کی طرف دیکھتے اور کبھی پنڈتوں کی طرف۔ وہاں سے انہیں ہندوستان کی قدیم تہذیب، آریاورت اور ذات برادری پر دلائل تو ملتے لیکن فکری اساس کی تسلی نہ ہوپاتی۔ اپنے ایک ہزار سالہ دور حکومت میں کئی مسلمان حکمرانوں نے ہندوستان کو انسان دوست مساوات کی نظریاتی پہچان دینے کی کوشش کی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کا مذہب کی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اپنے اپنے عقیدے پر رہتے ہوئے انسانی وقعت اور عظمت کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی لیکن چونکہ اونچی ذات کی ہندو اشرافیہ کے مفادات سماجی عدم مساوات سے جڑے ہوئے تھے لہٰذا یہ کوششیں دربار تک ہی محدود رہیں جہاں ہندو بڑے بڑے منصب سنبھالتے لیکن دل سے یہ عہدیدار اپنے آباؤاجداد کی سماجی تعلیمات کی پابندی کرتے۔ البتہ مسلمانوں کے مذہبی اور فکری نظریات نے ایک مخصوص ہندو طبقے پر خوب اثرات مرتب کیے جنہوں نے اسلام سے متاثر ہوکر اصلاحی تحریکیں شروع کیں ۔ یہ تحریکیں ایک بار پھر ہندو اشرافیہ کے لیے درد سر بنیں کیونکہ ان کی مقبولیت اور کامیابی کا براہ راست اثر مراعات یافتہ طبقے کے عیش وعشرت اور اعلیٰ سماجی مقام پر پڑ رہا تھا، سو انہوں نے پرتھوی راج چوہان، مہاراجہ پرتاپ سنگھ، سورج مل اور مرہٹہ پیشوا جیسے مقامی حکمرانوں کو ان کے جنگی اور سیاسی قد کاٹھ سے کہیں بڑا بنا کر عام ہندو کے سامنے پیش کرنا شروع کردیا تاکہ ہندوؤں کی بہادری جنگجوانہ صلاحیت اور مٹی سے محبت ایک ساتھ دکھائی جاسکے، ساتھ ہی یہ بات بھی ذہنوں میں بٹھا دی جائے کہ اونچے طبقے کا کوئی نعم البدل نہیں۔ مسلمان حکمرانوں کے زوال کے آغاز سے ہی یہ کوششیں کامیاب ہونے لگیں تھیں اور ایسی تمام شخصیات کو عظیم تر کا درجہ بھی دے دیا گیا تھا جس سے ایک نئی مشکل کھڑی ہوگئی۔
 مغل سلطنت کے انحطاط نے ہندوستان کی سیاسی، معاشی، معاشرتی زندگی کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ یہاں کے ڈائنمکس بدل رہے تھے۔ یہ قدرتی امر تھا کہ انگریزوں کے بڑھتے اثر ورسوخ نے مسلمانوں میں بے چینی پیدا کی کیونکہ وہ اقتدار کے مالک تھے اور انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کا محور بھی مسلمان ہی تھے تاکہ ان کو کمزور کرکے ہندوستان پر قبضے کا خواب پورا کیا جاسکے۔ اس لیے مسلمانوں کا انگریزوں کو مشکوک نظر سے دیکھنا جائز تھا۔ انگریزوں کی پیش قدمی اگر مسلمانوں کے لیے باعث تشویش تھی تو اس نے ہندوؤں کی سماجی فکر و فلسفے کے اساسی ڈھانچے کے کرتا دھرتاؤں کی پریشانی بھی بڑھائی کہ ان کے مقابل دو اقوام ہوگئیں ۔ ایک مضبوط مذہبی نظریے کی حامل تو دوسری نت نئی ایجادات، علمی مباحث سے لبریز فلسفیانہ سوچ اور دنیاوی جاہ و چشم کی دلدادہ ۔ اب چونکہ وقت بدل رہا تھا اور یہ بھی واضح تھا کہ جلد یا بدیر حکمرانی بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے مکمل نکل جائے گی- اس ماحول میں ہندواقتدار کی خواہش دلوں میں کروٹیں لینے لگی لیکن اس کے لیے کسی ایسی سوچ کی ضرورت تھی جو مسلمانوں سے الگ بھی ہو اور جسے انگریزوں کے سامنے پیش کرکے اقتدار میں حصہ مانگا جاسکے، سو اس بار ہندو قومیت اور وطن پرستی کی پہچان ہندوؤں کو دینے کی ٹھانی گئی۔ اب ہندوتوا کا نعرہ لگایا گیا۔ ہندوتوا کیا تھا ؟ یہ ہندو قوم پرستی کے نام پرماسوائے تعصب کے اور کچھ نہیں تھا۔ 1890 سے اس تنگ نظر نظریے کی بازگشت ہندوستان میں سنائی دینے لگی تھی۔ اس کے پیچھے دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے چندراناتھ باسو کا دماغ تھا جوہندوؤں کو باقی تمام انسانوں سے اعلیٰ سمجھتے۔ اس طبقہ فکر کے لوگ عورتوں کے حقوق کے سخت مخالف تھے۔ یہ فرسودہ سماجی عقائد اور ماضی کی خود ساختہ عظمت کے تنگ دائرے میں چکر لگا رہے تھے۔ اس نظریے نے مہاراشٹر میں بہت تیزی سے جگہ بنائی۔ لیکن باقی ہندوستان پر ابھی اس کی گرفت ڈھیلی تھی۔
 دراصل جنگ آزادی 1857 کی ناکامی کے بعد جب انگریزوں نے اپنے حقیقی حریف مسلمانوں پر جبر کرنا شروع کیا تو اقتدار کی آس لیے ہندو اشرافیہ  انگریزوں کی حلیف بن گئی۔ یہ ہندو کی نئی نظریاتی پہچان تھی جس کا چہرہ انڈین نیشنل کانگریس بنی۔ اب کچھ وقت کے لیے ہندو ترقی پسند بن گئے۔ اب روایات کو یورپی فکر و فلسفہ سے ہم آہنگ کر کے ہندو کو پروگریسو دکھایا جانے لگا۔ اس امیج بلڈنگ میں خاطر خواہ کامیابی ملنا شروع ہوئی اور سیاسی و سماجی میدان میں بہت ہی کم تناسب سے ہندوؤں نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ ہندوستان میں عددی اکثریت رکھنے کے باعث سرکار میں حصہ ہندوؤں کو چند قدم دور دکھائی دے رہا تھا۔ ہندو اقتدار کی نیّا پار ہونے والی تھی۔ انگریز اور ہندو نے باہمی اشتراک کا مظاہرہ کرنا شروع کیا ہوا تھا۔ سرکاری نوکریوں میں ہندو کو حصہ مل رہا تھا۔ یہ انگریزی تعلیم بھی حاصل کررہے تھے۔ یوں ہندو انگریزوں کے بعد ہندوستان کی دوسری بڑی طاقت بن کر ابھرنے کا سپنا بُن رہے تھے۔ اس پورے منظر نامے سے مسلمان غائب تھے۔ احساس کمتری اور افراتفری کی وجہ سے مسلمان اپنا وجود اورتشخص کھو کر ہندوؤں کے زیر اثر آنے ہی والے تھے لیکن مسلمانوں کی نظریاتی تباہی قدرت کو منظور نہ تھی سو سرسید احمد خان نے مسلم فکر کو بچانے کے لیے علی گڑھ تحریک شروع کی اور ہندوؤں کے سامنے دو قومی نظریہ رکھ دیا۔ مسلمانوں نے اپنی علمی و سیاسی جدوجہد سے ایک بار پھر اپنا معاشرتی مقام حاصل کرنے کی راہ ہموار کرنا شروع کی تو ہندو راہنماؤں نے ہندوتوا کو سیاسی رنگ دے ڈالا۔ سوارکر نے اس سیاسی رنگ میں مذہب کا تڑکہ لگا دیا۔ یوں ہندو معاشرے پر کٹر بنیاد پرست مذہبی تنگ نظرنظریے کی نئی سوچ لاد دی گئی۔ اس کے مطابق ہندوستان پر صرف ہندوؤں کا حق تھا باقی تمام قومیتوں کو یا تو ہندو مت قبول کرلینا چاہیے یا پھر ہندوستان چھوڑ دینا چاہیے۔ اس سوچ نے تشدد کو خوب ہی ہوا دی کیونکہ اس نظریے کے کرتا دھرتا پر امن جدوجہد پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔ ہر جگہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ شدھی کی ترویج و اشاعت معمول بن گئی۔ شدھی کے مطابق ہندوستان کو پاک و صاف کرنے کے لیے غیر ہندو کا ہندو بننا ضروری تھا۔ دامودار سوارکر نے ہمیشہ مسلمانوں کو علیحدگی پسند، شرپسند اور غدار کہا۔ وہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف مسلح جدوجہد پر اکساتے رہے کیونکہ ان کے نزدیک ہندوؤں کو دراصل غاصب مسلمانوں سے آزادی حاصل کرنی تھی۔ وہ مسلمانوں کے خلاف وہ ہی سلوک روا رکھنے کے حامی تھے جو ہٹلر نے یہودیوں سے رکھا۔ یہ سوچ رکھنے والے عناصر کانگریس میں بھی کثیرتعداد میں موجود تھے جو اپنی شدت پسندانہ سوچ کا برملا اظہار کرتے۔ 
مہاتما گاندھی جب جنوبی افریقہ سے ہندوستان واپس آئے تو ان کی جدوجہد کا محورخواتین کے حقوق کا تحفظ اور ان میں توسیع، بین المذاہب ہم آہنگی اور سب سے بڑھ کر سوراج یعنی ہندوستانیوں کی اپنی حکومت تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے غیر ملکی اشیا پر انحصار کم کرنے اور مقامی پیداوار بڑھانے پر زور دیا۔ اس کے لیے انہوں نے چرخے کی نئی پہچان ہندوستانیوں کو دی۔ گاندھی کا چرخہ ملک کے طول و عرض میں خوب گھوما لیکن شدت پسند متعصب ہندوؤں کی سوچ نہ بدل سکا۔ انہوں نے مذہبی بنیادوں پر ہندوستان کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کا کام جاری رکھا۔ یہ گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کے خلاف تھے۔ یہ شدھی پر عمل پیرا تھے- بال گنگا دھر تلک کانگریس میں ایسی سوچ کو پروان چڑھاتے رہے۔ 1915 کے بعد سے اس میں اور تیزی آگئی۔ ان کے ہاتھ گاندھی کے قریبی ساتھی نہرو اپنی وطن پرستانہ سوچ سے مضبوط کررہے تھے۔ یہ لوگ گاندھی جی سے اپنی بات منوانے کا گر جانتے تھے۔ اگرچہ نہرو دائیں بازو کے نظریات نہیں رکھتے تھے لیکن وہ اپنی نیشنلسٹ سوچ کی وجہ سے گاندھی کی پالیسی سے اختلاف رکھتے تھے۔ یہ چونکہ آزادی کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کو جائز سمجھتے لہٰذا کانگریس کے ہاکس یعنی غیر معتدل حلقے نہرو کو گاندھی کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے۔ بعد ازاں کارل مارکس کے نظریات کے زیر اثر ہوکر جب نہرو نے ہندوستان کوسوشلسٹ سیکولر پہچان دینے کا فیصلہ کیا تب انتہا پسند عناصر ان کے عتاب کا نشانہ بنے۔ ہندوستان کے وزیراعظم کے طور پر ان کے اقدامات ان کی اس سوچ کے عکاس ہیں۔


مودی سرکار نے بھارت کی سیکولر پہچان کو سیفران ایجنڈے سے بدل دیا ہے۔ اقلیتوں پر جس طرح شدت پسند متعصب ہندو حملہ آور رہتے ہیں، وہ قابل مذمت ہی نہیں بلکہ لائق تعزیر ہے۔ انہیں نہ قانون کا ڈر ہوتا ہے نہ عدالتوں کا۔ ان کی میڈیا اورحکومتی پشت پناہی شرمناک ہے۔ بھارت وہ ملک بن چکا ہے جس کی واحد پہچان اور نظریہ تنگ نظری اور اقلیتوں سے نفرت بن کے رہ گیا ہے۔ یہاں کی نظریاتی سوچ محض یہ ہے کہ یا تو بھارت میں بسنے والی اقلیتیں ہندومت قبول کرلیں یا بھارت سے نکل جائیں۔


 دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہندو رہنما آزادی کے نام پر اپنا خفیہ ایجنڈا پورا کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ یہ اسلام کے بارے میں مہاتما گاندھی کے اعتدال پسند خیالات کو برا کہتے کہ گاندھی جی کا یہ فلسفہ ہندوستانی مسلمانون کو رعایت اور چھوٹ دے رہا ہے۔ یہ لوگ راشٹرا، جاتی اور سنسکرتی پر زور دیتے۔ انہوں نے ہندو قومیت کو صرف اور صرف مذہب سے جوڑ دیا۔ ان کے نزدیک جو ہندو نہیں اس کا ہندوستان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی نظر میں ہندوؤں کے سب سے بڑے دشمن مسلمان تھے۔ یہ انگریزوں کو اتنی شد و مد سے تنقید اور نفرت کا نشانہ نہیں بناتے جتنا زہر مسلمانوں کے خلاف اگلتے۔ کیشو بلرام نے دیش کی محبت اور راشٹریہ کے نام پر ہندو نوجوان کے ہاتھ میں خنجر اور تلوار پکڑائی۔ ان نام نہاد' سوام سیوکیوں' کی ساری توانائیاں مسلمانوں کے خلاف خرچ ہوتیں۔ مساجد کے سامنے بوقت نماز ڈھول پیٹنا، مسلم آبادی والے محلوں پر جتھوں کی صورت میں حملے کرنا ان کا روز کا کام تھا۔ شمالی بھارت میں انہوں نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ 1875 میں آریہ سماج کے قیام کے بعد تنگ نظری کھل کر منظم ہونا شروع ہوئی ۔ اسی متعصب آریہ سماج نے شدھی کی بدنام زمانہ تحریک شروع کی تھی ۔ دیانند سرسوتی اور سوامی شردھانند شدھی کے بانی تھے۔ دیانند سرسوتی نے اسلام کے خلاف خوب زہر اگلا ہے۔ ان کی سوچ عیسائیت کے بارے میں بھی شرمناک ہے۔ انہوں نے ان دونوں مذاہب کے بارے میں جو نظریات پیش کیے وہ سراسر مذہبی منافرت اور اشتعال انگیزی ہے۔ اپنی کتاب ستیارتھا پرکاش میں انہوں نے دونوں الہامی مذاہب پر نام نہاد تنقید کرتے ہوئے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیۖ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ایسے متعصبانہ گھٹیا الفاظ کا چناؤ کیا ہے جو تہذیب کے زمرے میں نہیں آتے۔ انہوں نے سکھوں پر بھی اسی گھٹیاپن سے تنقید کی ہے۔ مسلمان ،عیسائی، سکھ، بدھ سب کے عقائد اور مذہبی شخصیات کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے انہوں نے ہندومت میں دنیا جہاں کی خوبیاں تلاش کرلیں۔ موصوف کے مطابق ہندومت واحد منطقی مذہب ہے جو عقل اور دلائل کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ اس بڑائی کو بیان کرنے میں وہ اس حد تک اندھے ہوگئے کہ یہ کہتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی نہ شرمندہ ہوئے نہ گھبرائے کہ بجلی کے استعمال کا ذکر ویدوں میں موجود ہے۔ سوامی شردھانند نے ہندوستان کو شدھ کرنے کی تنگ نظری میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہر سطح پر ہوا دی۔ مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے آریہ سماج اور شدھی کے کارندے اسلام کے خلاف اشتعال انگیز زبان استعمال کرتے اور ایسی کارروائیاں کرتے جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے۔ ایسی زور زبردستی کی فضا میں تصادم ہونا ناگزیر تھا۔ 
 پانچ لاکھ راجپوتوں کو شدھی کرکے سوامی جی نے اسلام دشمنی کی نئی مثال قائم کی۔ مزے کی بات ہے اس پر بھی سوامی جی کو ہندو مسلم اتحاد کا داعی گردانا جاتا ہے۔ ان دونوں کی تبدیلی مذہب کی پالیسی سے گاندھی کا اختلاف کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ شدھی کے بعد سنگھٹن مسلمانوں کے خلاف ان کا دوسرا ہتھیار تھا۔ شردھانند نے سنگھٹن کے نظریے کو دوام بخشتے ہوئے راشٹریہ مندر بنانے کے اعلان کیا۔ ان مندروں میں دیوتا کی مورتی کے بجائے ہندوستان کا نقشہ لگا ہوتا کہ ہندوؤں میں مسلمان دشمنوں سے مقابلے کے لیے سماجی اور مذہبی اتحاد پیدا ہوسکے۔ یہ سنگھٹن تحریک کی ابتداء تھی۔ ہندو مہاسبھا اور آریہ سماج کے یہی نظریات ہندوتوا کی طرف پیش قدمی کا موجب بنے۔
 افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج بھارت میں ان دونوں شدت پسند لیڈران کو ایسے ریفارمر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے ہندوستان کو نئی جہت دی۔ بس یہ ہوا کہ اس نئی جہت کا منہ بولتا ثبوت بابری مسجد کی شہادت ہے۔ چرچ پر انگنت حملے ہیں۔ سنگھ پریوار کا بے لگام بیانیہ ہے اور مودی سرکار نامی خون آشام بلا ہے۔
ہندو مہاسبھا کے نظریاتی گرو سوارکر کی نظر میں غیر ہندو اجنبی تھے ان کا ہندوستانی زمین سے رشتہ ہی نہیں تھا۔ بڑھتے بڑھتے ان رائٹ ونگرز کی ہمت اتنی بڑھ گئی کہ انہوں نے بھارت کے ترنگے کو ماننے سے انکار کردیا ۔ 
 یہ شدت پسند نظریات پنپتے رہے اور یہ آگ اس حد تک بڑھی کہ ایک ہندو مہاسبھائی نتھورام نے 1947 میں گاندھی کو اس لیے قتل کردیا کہ وہ ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی مخالفت کررہے تھے اور تقسیم کے بعد پاکستان کو اس کا جائز حق دینے کے حامی تھے۔ اس سوچ کی قیمت انہوں نے اپنے خون سے ادا کی۔ اس کے بعد نہرو نے دائیں بازو کی جماعتوں کوشکنجے میں کسنا شروع کیا۔ سنگھ پریوار پر پابندیاں لگائیں اور بڑے پیمانے پرگرفتاریاں عمل میں آئیں۔ 
اگرچہ نہرو کے دور حکومت میں شدت پسند عناصر کے خلاف اقدامات کیے گئے لیکن نہ راشٹریہ سیوک سنگھ کا وجود ختم ہوا نہ اس کی ذیلی جماعتوں کا۔ یہ اپنی جڑیں مضبوط کرتی رہیں۔ یہ بتدریج اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتی رہیں۔ ان کی سب سے بھیانک شکل نریندر مودی کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ مودی سرکار نے بھارت کی سیکولر پہچان کو سیفران ایجنڈے سے بدل دیا ہے۔ اقلیتوں پر جس طرح شدت پسند متعصب ہندو حملہ آور رہتے ہیں، وہ قابل مذمت ہی نہیں بلکہ لائق تعزیر ہے۔ انہیں نہ قانون کا ڈر ہوتا ہے نہ عدالتوں کا۔ ان کی میڈیا اورحکومتی پشت پناہی شرمناک ہے۔ بھارت وہ ملک بن چکا ہے جس کی واحد پہچان اور نظریہ تنگ نظری اور اقلیتوں سے نفرت بن کے رہ گیا ہے۔ یہاں کی نظریاتی سوچ محض یہ ہے کہ یا تو بھارت میں بسنے والی اقلیتیں ہندومت قبول کرلیں یا بھارت سے نکل جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے قوانین بنائے جارہے ہیں۔ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان پر مذہبی اور سماجی پابندیاں عائد ہیں۔ یوں سرکاری سرپرستی میں ہندوتوا کا نظریہ بھارت کا نظریہ بن چکا ہے۔ ہندوتوا کا ہندو قوم پرستی کا نعرہ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ اب واقعی بھارت صرف ہندوؤں کے لیے ہے۔ آج بھی مہاسبھائی مسلمانوں کی نسل کشی پرآمادہ ہیں۔ یہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں اور دونوں کی عبادت گاہوں پر حملے کرتے ہیں۔ اور ان کے لیڈر ایسے اقدامات کی تعریف کرتے ہیں۔
 بھارتی آئین کا آرٹیکل 27 لوگوں کے ٹیکس کے پیسے کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی مذہب کی ترویج و اشاعت سے روکتا ہے لیکن یہاں تو پوری بھارتی حکومتی مشینری ہندومت کو اقلیتوں پر تھوپ رہی ہے۔ وقتاً فوقتاً بھارتی سپریم کورٹ میں آئین سے سیکولر اور سوشلسٹ کے الفاظ حذف کرنے کی درخواستیں دائر کی جاتی ہیں۔نصابی کتب میں ہندو راجوں، مہاراجوں، مہارانیوں کی بہادری اور عظمت کو بڑھا چڑھا کر پراپیگنڈا کرنا،اودے پور راجھستان میں پرتاپ گورو کیندرا کی تعمیر۔ عائلی قوانین میں تبدیلیاں وغیرہ سب کچھ آر ایس ایس کے ہندوتوا ایجنڈے کے عین مطابق ہورہا ہے۔ 
 جس طرح بھارت کا یہ روپ اور مودی کے کرتوت چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ بھارت کی سوچ 1920 میں واپس چلی گئی ہے جب مسلمانوں کو کچلنے کے لیے قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہب کا گٹھ جوڑ کیا گیا اور ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری گئی۔ اسی طرح تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ بھارت کسی ٹھوس نظریے کی بنیاد پر قائم نہیں ہوا۔ ان کے بیانیے کو نہرو کے سکولرازم نے وقتی طور پر پیچھے دھکیل دیا تھا۔ انہوں نے بھی بظاہر خود کو قومی دھارے میں شامل کرلیا تھا لیکن درحقیقت یہ اپنی روش پر قائم رہے۔ سنگھ پریوار کو اکھنڈ بھارت اورہندوتوا کے یوٹوپیائی نظریے کو فروغ دینے کے لیے اور مین اسٹریم پالیٹکس میں جگہ بنانے یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بھارت کی مرکزی حکومت کو کنٹرول کرنے کے لیے جس مقبول سیاسی جماعت کی ضرورت تھی وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکل میں ان مذہبی جنونیوں کو مل گئی۔ بی جے پی نے اپنے دور اقتدار میں اقلیتوں کے گلے پر پاؤں رکھ کر حکومت کی ہے۔ رام جنم بھومی تحریک ، گجرات کا قتل عام جیسے کالے کارناموں سے مزین بی جے پی ساری انتہا پسند جماعتوں کی نمائندہ ہے۔
بہت سے دانشوروں کا ماننا ہے کہ موجودہ جنونیت ہی اب بھارت کا نظریہ ہے لیکن سچ یہ ہے کہ بھارت ایک بار پھر آدھا تیتر آدھا بٹیر بن گیا ہے۔ بھارت تقسیم سے پہلے اور نوے کی دہائی میں بی جے پی کے مضبوط ہو نے کے بعد کی طرح ایک بار پھر نظریاتی تقسیم اور شناخت کے بحران کا شکار ہے۔ اگر اگلے انتخابات میں بھارتیوں نے بی جے پی کو مسترد کردیا تو ممکن ہے کہ ہندوتوا کا نظریہ ایک بار پھر پیچھے چلا جائے اور سوشلسٹ سیکولر بیانیہ طاقت پکڑ لے کیونکہ ابھی بھی کچھ ہندو شدت پسندی کے مخالف اور اقلیتوں کے حقوق کے حامی ہیں لیکن یہ امید رکھنا ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ فی الحال تو یہ لوگ اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں۔ ||


مضمون نگار فری لانس صحافی ہیں۔ حالاتِ حاضرہ اور سماجی و سیاسی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]