اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 00:37
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد
Advertisements

بریگیڈیئر ذیشان فیصل خان

Advertisements

ہلال اردو

چٹان

جولائی 2022

''میں پائلٹ بنناچاہتی ہوں، میں سول سروسز میں جانا چاہتی ہوں، میں ڈاکٹر بنناچاہتی ہوں، میں یہ بننا چاہتی ہوں، میں وہ چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''
 یہ پر جوش آوازیں گرلز کیڈیٹ کالج کے ہال سے آرہی تھیں۔ تربت پہنچ کر میری سوچ گزشہ دنوں میں ہوئے کچھ بد امنی کے واقعات سے متاثر تھی۔ 
تربت بازار اور سڑکوں پر گزرتے لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف اور  معمولات زندگی میں نظر آئے۔ 



آج میری ملاقات گرلز کیڈٹ کالج تربت میں طالبات کے ساتھ تھی۔ کالج کے گیٹ پر پہنچے تو احساس ہوا کہ یہ ایک وسیع و عریض رقبے پہ محیط علاقہ ہے۔ اندر داخل ہوئے تو بڑی بڑی عمارتوں نے ہمارااستقبال کیا۔ تربت کے لحاظ سے یہ فن ِتعمیر الگ تھا۔ اس وقت صبح کی اسمبلی کا وقت تھا۔ تمام طالبات ایک طرح کی یونیفارم میں موجود تھیں اور ان کے اساتذہ ان کی رہنمائی کر رہے تھے۔ تلاوت کے بعد قومی ترانہ پڑھا گیا اور تمام طالبات نے اپنی اپنی کلاسز کا رخ کیا۔ یہ ایک منفرد احساس تھا۔ تربت گرمی اور ہواکے جکھٹروں کی وجہ سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ جس دن سے ہم آئے تھے مٹی کے طوفان رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور ہر طرف مٹی ہی مٹی تھی۔
 کلاسوں کا چکر لگایا تو بچیوں نے اپنا تعارف کروایا، طالبات تو بہت تھیں بس کچھ سے ہی بات کر سکے۔ 
صدیقہ غنی قلات سے، عائشہ عبدالجبار گوادر سے، صفیہ وزیر خاران سے، علیزہ حفیظ وا شک سے، بی بی نایاب پنجگور سے ، مدیحہ ابراہیم پنجگور سے تھیں۔ ان بلوچ طالبات کے علاوہ یہاں دوسرے صوبوں سے بھی بچیاں آئی ہوئی ہیں۔ خاص طور پر سندھ اور پنجاب سے۔ 90طالبات بلوچستان کی ہی ہیں ۔ خوش آئند بات یہ تھی کہ یہ بچیاں آپس میں بالکل گھل مل گئی تھیں۔ ان کی آپس کی پہچان ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی تھی۔ ایک دوسرے کو علاقے کے بجائے اپنے اخلاص اور پیار سے جانتی تھیں۔ میری اب بچیوں سے گفتگو شروع ہو چکی تھی اور میری سوچ کے تمام بت ٹوٹنے کو تیار تھے۔۔ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ اس دور ا فتادہ علاقے میں تعلیم کا معیار بس واجبی ساہوگا اور اس کی معقول وجہ یہ لگتی تھی کہ ایسے دور درازعلاقے اور پھر جہاں بنیادی سہولیات بھی محدود ہوں،کیسے ممکن ہے کہ وہا ں تعلیم کا کوئی بہتر معیار ہو۔
عائشہ عبدالجبار نے پہلے پر اعتماد انداز سے اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ سب سے پہلے میں بلو چ والدین کو کہتی ہو کہ اپنی بیٹیوں کو تعلیمی میدان میں آگے آنے دیں، کیوں کہ جب بیٹیاں پڑھی لکھی ہو نگی تو پھر ہمارے معاشرے میں شعور آئے گا۔  ایک عظیم انسان کا قول ہے کہ آپ مجھے ایک پڑھی لکھی ماں دیں اور میں آپکو ایک پڑھی لکھی قوم دیتا ہوں۔
عائشہ عبدالجبار جو قد میں سب سے چھوٹی لیکن اپنے اعتماد میں سب سے اوپرتھی، نے اپنے پیغام میں کہا کہ میں اپنی اور اپنے والدین دونوں کی خواہشیں پوری کرنا چاہتی ہوں۔ میرے والدین مجھے یونیفارم میں دیکھنا چاہتے ہیں اور میں اسے پورا کر کے دکھاؤں گی۔  میں اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہو ں جو آگے آنا چاہتی ہے۔
ایک بچی نے کہاکہ میں والدین کو کہتی ہوں کہ اپنی بیٹیوں کو یہاں پر تعلیم کے لیے بھیجیں۔ کبھی منفی سوچ کو آڑے نہ آنے دیں۔ اپنی بیٹیوں کو آگے بڑھنے دیں۔ ان پر اعتبار کریں کہ وہ تعلیم حاصل کریں اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کریں۔
ان طالبات سے جب پوچھا گیا کہ آپ پورے پاکستان میں تعلیم میں مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں تو سب نے پر جوش اور ایک زبان ہو کر یس سر کہا۔
  ایک بچی جو کھیلوں میں دلچسپی رکھتی تھی، نے کہا کہ وہ پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم جوائن کریں گی۔
 یہ سادہ سی نظر آنے والی پیاری بچیاں تاریخ لکھ رہی تھیں۔ وہ تاریخ کو موڑ رہی تھیں۔ وہ تاریخ بدل رہی تھیں۔ 
جہاں بہت سی خوشگوار باتیں پتہ چلیں وہاں یہ پتہ بھی چلا کہ بلو چستان میں تربت کا تعلیمی معیار سب سے اعلیٰ ہے اور وہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ جہاں کسی کا انگریزی میں بات کرنا دوسرے کو مرعوب کرنا نہیں ہے۔ وہاں ان بچیوں کا اپنے اچھے لہجے اور روانی سے بات کرنا یقینا ایک حیرانی کی بات تھی۔
 ان بچیوں کی آنکھیں روشن اور طاقتور تھیں۔ ان آنکھوں کا یقین مسحور کن تھا۔ ان کے جذبے سچے تھے اور مستقبل پر نظر قابل رشک تھی۔
 میں مکمل اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کے ان بچیوں کا جوش و ولولہ لا فانی تھا۔ ان کے ارادے بلوچستان کے پہاڑوں کی طرح تھے پکے اور غیر متزلزل۔ ان کی نگاہیں اپنے آنے والے کل پر تھیں اور ایسی گرفت کے ساتھ کہ جیسے کل ان کی مرضی کا محتاج ہو۔
بلوچستان کو باہر سے دیکھنے اور اس کو اندر سے سمجھنے میں ایک بڑا فرق نظر آتا ہے۔ میں اس بات پر سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آپ کسی کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے دراصل اپنی سوچ کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں اور اصل حقائق سے مماثلت لازمی نہیں۔ اس کی ایک قریب ترین مثال امریکہ اور افغانستان میں 20 سالہ جنگ کی ہے جس میں لاکھوں جانیں ضائع ہونے کے بعد اور اپنا مالی اور جانی نقصان کروانے کے بعد بھی امریکہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکا اور اس کی ایک بڑی وجہ زمینی حقائق سے دوری تھی۔ کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے اہم یہ ہے کہ اس مسئلے کو آغاز سے سمجھا جائے اور اس کا حل موجودہ دور میں دیکھا جائے۔ اگر ماضی میں رہ کر حال کا حل ڈھونڈیں گے تو مستقبل آپ کی خوا ہش کے مطابق نہیں ہو سکتا۔



 کیڈٹ کالج سے باہر آتے ہوئے میں اب بھی ان طالبات کی گفتگو کے اثر میں تھا۔ مجھے یہ خیال آرہا تھا کہ بچیاں جب تعلیم مکمل کر کے اپنی عملی زندگی میں جائیں گی تو گھر اور معاشرے پر کتنا مثبت اثر ڈالیں گی۔
 میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بلوچستان کی بچیاں کسی بھی پیمانے پہ ملک کے دوسرے ترقی یافتہ علاقوں سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو مناسب ہوگا کہ ملک کے دوسرے علاقے کی بچیوں کے لیے بلوچستان کی بچیاں ایک مثال ہیں۔ 
ایک بڑا فرق جو واضح تھا وہ ان بچیوں کا چٹان جیسا حوصلہ تھا ۔ ان کا وردی پہننا صرف شوق ہی نہیں تھا بلکہ ایک بڑے مقصد کا حصہ تھا۔ وہ آنے والے چیلنجز کے لیے تیاری کر رہی تھیں اور جب کبھی بات ہونی ہو مقابلے کی تو یہ یقینا جیت جائیں گی کیونکہ قابلیت کامیابی کے لیے محنت کی محتاج ہے اور یہ بلوچ بچیاں قابلیت اور محنت دونوں کا مرکب ہیں۔ ||


[email protected]
 

بریگیڈیئر ذیشان فیصل خان

Advertisements