''میں پائلٹ بنناچاہتی ہوں، میں سول سروسز میں جانا چاہتی ہوں، میں ڈاکٹر بنناچاہتی ہوں، میں یہ بننا چاہتی ہوں، میں وہ چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''
یہ پر جوش آوازیں گرلز کیڈیٹ کالج کے ہال سے آرہی تھیں۔ تربت پہنچ کر میری سوچ گزشہ دنوں میں ہوئے کچھ بد امنی کے واقعات سے متاثر تھی۔
تربت بازار اور سڑکوں پر گزرتے لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف اور معمولات زندگی میں نظر آئے۔
آج میری ملاقات گرلز کیڈٹ کالج تربت میں طالبات کے ساتھ تھی۔ کالج کے گیٹ پر پہنچے تو احساس ہوا کہ یہ ایک وسیع و عریض رقبے پہ محیط علاقہ ہے۔ اندر داخل ہوئے تو بڑی بڑی عمارتوں نے ہمارااستقبال کیا۔ تربت کے لحاظ سے یہ فن ِتعمیر الگ تھا۔ اس وقت صبح کی اسمبلی کا وقت تھا۔ تمام طالبات ایک طرح کی یونیفارم میں موجود تھیں اور ان کے اساتذہ ان کی رہنمائی کر رہے تھے۔ تلاوت کے بعد قومی ترانہ پڑھا گیا اور تمام طالبات نے اپنی اپنی کلاسز کا رخ کیا۔ یہ ایک منفرد احساس تھا۔ تربت گرمی اور ہواکے جکھٹروں کی وجہ سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ جس دن سے ہم آئے تھے مٹی کے طوفان رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور ہر طرف مٹی ہی مٹی تھی۔
کلاسوں کا چکر لگایا تو بچیوں نے اپنا تعارف کروایا، طالبات تو بہت تھیں بس کچھ سے ہی بات کر سکے۔
صدیقہ غنی قلات سے، عائشہ عبدالجبار گوادر سے، صفیہ وزیر خاران سے، علیزہ حفیظ وا شک سے، بی بی نایاب پنجگور سے ، مدیحہ ابراہیم پنجگور سے تھیں۔ ان بلوچ طالبات کے علاوہ یہاں دوسرے صوبوں سے بھی بچیاں آئی ہوئی ہیں۔ خاص طور پر سندھ اور پنجاب سے۔ 90طالبات بلوچستان کی ہی ہیں ۔ خوش آئند بات یہ تھی کہ یہ بچیاں آپس میں بالکل گھل مل گئی تھیں۔ ان کی آپس کی پہچان ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی تھی۔ ایک دوسرے کو علاقے کے بجائے اپنے اخلاص اور پیار سے جانتی تھیں۔ میری اب بچیوں سے گفتگو شروع ہو چکی تھی اور میری سوچ کے تمام بت ٹوٹنے کو تیار تھے۔۔ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ اس دور ا فتادہ علاقے میں تعلیم کا معیار بس واجبی ساہوگا اور اس کی معقول وجہ یہ لگتی تھی کہ ایسے دور درازعلاقے اور پھر جہاں بنیادی سہولیات بھی محدود ہوں،کیسے ممکن ہے کہ وہا ں تعلیم کا کوئی بہتر معیار ہو۔
عائشہ عبدالجبار نے پہلے پر اعتماد انداز سے اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ سب سے پہلے میں بلو چ والدین کو کہتی ہو کہ اپنی بیٹیوں کو تعلیمی میدان میں آگے آنے دیں، کیوں کہ جب بیٹیاں پڑھی لکھی ہو نگی تو پھر ہمارے معاشرے میں شعور آئے گا۔ ایک عظیم انسان کا قول ہے کہ آپ مجھے ایک پڑھی لکھی ماں دیں اور میں آپکو ایک پڑھی لکھی قوم دیتا ہوں۔
عائشہ عبدالجبار جو قد میں سب سے چھوٹی لیکن اپنے اعتماد میں سب سے اوپرتھی، نے اپنے پیغام میں کہا کہ میں اپنی اور اپنے والدین دونوں کی خواہشیں پوری کرنا چاہتی ہوں۔ میرے والدین مجھے یونیفارم میں دیکھنا چاہتے ہیں اور میں اسے پورا کر کے دکھاؤں گی۔ میں اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہو ں جو آگے آنا چاہتی ہے۔
ایک بچی نے کہاکہ میں والدین کو کہتی ہوں کہ اپنی بیٹیوں کو یہاں پر تعلیم کے لیے بھیجیں۔ کبھی منفی سوچ کو آڑے نہ آنے دیں۔ اپنی بیٹیوں کو آگے بڑھنے دیں۔ ان پر اعتبار کریں کہ وہ تعلیم حاصل کریں اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کریں۔
ان طالبات سے جب پوچھا گیا کہ آپ پورے پاکستان میں تعلیم میں مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں تو سب نے پر جوش اور ایک زبان ہو کر یس سر کہا۔
ایک بچی جو کھیلوں میں دلچسپی رکھتی تھی، نے کہا کہ وہ پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم جوائن کریں گی۔
یہ سادہ سی نظر آنے والی پیاری بچیاں تاریخ لکھ رہی تھیں۔ وہ تاریخ کو موڑ رہی تھیں۔ وہ تاریخ بدل رہی تھیں۔
جہاں بہت سی خوشگوار باتیں پتہ چلیں وہاں یہ پتہ بھی چلا کہ بلو چستان میں تربت کا تعلیمی معیار سب سے اعلیٰ ہے اور وہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ جہاں کسی کا انگریزی میں بات کرنا دوسرے کو مرعوب کرنا نہیں ہے۔ وہاں ان بچیوں کا اپنے اچھے لہجے اور روانی سے بات کرنا یقینا ایک حیرانی کی بات تھی۔
ان بچیوں کی آنکھیں روشن اور طاقتور تھیں۔ ان آنکھوں کا یقین مسحور کن تھا۔ ان کے جذبے سچے تھے اور مستقبل پر نظر قابل رشک تھی۔
میں مکمل اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کے ان بچیوں کا جوش و ولولہ لا فانی تھا۔ ان کے ارادے بلوچستان کے پہاڑوں کی طرح تھے پکے اور غیر متزلزل۔ ان کی نگاہیں اپنے آنے والے کل پر تھیں اور ایسی گرفت کے ساتھ کہ جیسے کل ان کی مرضی کا محتاج ہو۔
بلوچستان کو باہر سے دیکھنے اور اس کو اندر سے سمجھنے میں ایک بڑا فرق نظر آتا ہے۔ میں اس بات پر سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آپ کسی کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے دراصل اپنی سوچ کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں اور اصل حقائق سے مماثلت لازمی نہیں۔ اس کی ایک قریب ترین مثال امریکہ اور افغانستان میں 20 سالہ جنگ کی ہے جس میں لاکھوں جانیں ضائع ہونے کے بعد اور اپنا مالی اور جانی نقصان کروانے کے بعد بھی امریکہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکا اور اس کی ایک بڑی وجہ زمینی حقائق سے دوری تھی۔ کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے اہم یہ ہے کہ اس مسئلے کو آغاز سے سمجھا جائے اور اس کا حل موجودہ دور میں دیکھا جائے۔ اگر ماضی میں رہ کر حال کا حل ڈھونڈیں گے تو مستقبل آپ کی خوا ہش کے مطابق نہیں ہو سکتا۔
کیڈٹ کالج سے باہر آتے ہوئے میں اب بھی ان طالبات کی گفتگو کے اثر میں تھا۔ مجھے یہ خیال آرہا تھا کہ بچیاں جب تعلیم مکمل کر کے اپنی عملی زندگی میں جائیں گی تو گھر اور معاشرے پر کتنا مثبت اثر ڈالیں گی۔
میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بلوچستان کی بچیاں کسی بھی پیمانے پہ ملک کے دوسرے ترقی یافتہ علاقوں سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو مناسب ہوگا کہ ملک کے دوسرے علاقے کی بچیوں کے لیے بلوچستان کی بچیاں ایک مثال ہیں۔
ایک بڑا فرق جو واضح تھا وہ ان بچیوں کا چٹان جیسا حوصلہ تھا ۔ ان کا وردی پہننا صرف شوق ہی نہیں تھا بلکہ ایک بڑے مقصد کا حصہ تھا۔ وہ آنے والے چیلنجز کے لیے تیاری کر رہی تھیں اور جب کبھی بات ہونی ہو مقابلے کی تو یہ یقینا جیت جائیں گی کیونکہ قابلیت کامیابی کے لیے محنت کی محتاج ہے اور یہ بلوچ بچیاں قابلیت اور محنت دونوں کا مرکب ہیں۔ ||
تبصرے