پاکستان کی مسلح افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔پاک فوج نے اپنے پروفیشنل ازم کی بدولت حربی تاریخ میں اپنا ایک الگ مقام پیدا کیا ہے۔محدود وسائل کے ساتھ بڑے سکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پاک فوج کی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔سیا چن کامحاذ ہو یا پھر افغانستان کے ساتھ طویل سرحدی پٹی۔بھارت کے جارحانہ عزائم کا مقابلہ کرنا ہو یا ان کے خفیہ منصوبوں کی ناکامی،بیرونی مداخلت سے جاری دہشت گردی کی کارروائیوں کو ناکام بنانا ہو یا اندرون ملک بیٹھے ہوئے ملک دشمن عناصر کی سرکوبی، ہر میدان میں پاکستانی افواج نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا لوہا منوایا ہے۔پاک فوج نے اندرون ملک اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک اقوام متحدہ کے امن مشن کے ساتھ بھی اپنی خدمات سرانجام دی ہیںاور دنیا نے پاکستانی افواج کی خدمات کا ہر مقام پر اعتراف کیا ہے۔ اس وقت پاکستان کی مسلح افواج کے اس کردار کا تذکرہ کرنا مطلوب ہے جو عام طور پر قوم کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔پاک فوج پاکستانی معیشت کو کس طرح سپورٹ کرتی ہے، اعداد و شمار کی مدد سے میں یہ بات باور کرانے کی کوشش کروں گا تاکہ بعض عناصر کی طرف سے پاک فوج کے بجٹ کے حوالے سے کیے جانے والے گمراہ کن پراپیگنڈے کی قلعی کھولی جا سکے۔
بجٹ موازنہ
پاک فوج کے حوالے سے تواتر کے ساتھ یہ بات کی جاتی ہے کہ بجٹ کا 70 فیصد دفاع پر خرچ ہوتا ہے،حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ گزشتہ پچاس سال کے دوران پاکستان کا دفاعی بجٹ بہت کم ہو گیا ہے،بجٹ دستاویزات کے مطابق بجٹ 2021-22 میں 'ڈیفنس سروسز' کے لیے کل 8,487 ارب روپے کے بجٹ کے وسائل میں سے 1,370 بلین روپے مختص کیے گئے تھے جو کل بجٹ کا محض 16 فیصد ہے۔اس 16 فیصد مختص بجٹ میں سے پاک فوج کو محض 594 ارب روپے ملتے ہیں۔ درحقیقت، پاکستانی فوج کو کل بجٹ کے وسائل کا 7 فیصد حصہ ملتا ہے۔ پاک فوج نے ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوے سال 2019 میں ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اپنے بجٹ میں مختص 100 ارب روپے بھی ترک کر دیے تھے ۔
دفاعی بجٹ کا دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ
اپنی بات کو سمجھانے کے لیے میں یہاں پر کچھ دیگر ممالک کے دفاعی بجٹ کا اجمالی تذکرہ کروں گا جس سے یہ بات سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی کہ پاکستان اپنے کل بجٹ کا کتنا فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے اور یہ بات بھی واضح ہو جائے گی کہ دنیا کے دیگر ممالک اپنے دفاع پر اپنے مجموعی بجٹ کا کتنے فیصد خرچ کرتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ فوجی اخراجات والے 40 ممالک کی فہرست میں 23 ویں نمبر پر ہے. SIPRI ملٹری ایکسپینڈیچر ڈیٹا بیس اور ملٹری بیلنس انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے مطابق، پاکستان (2.54 GDP) کے مقابلے دفاع پر زیادہ خرچ کرنے والے ممالک میں عمان (GDP کا 12 فیصد) لبنان (10.5 فیصد)، سعودی عرب (8 فیصد)، کویت (7.1 فیصد)، الجیریا (6.7 فیصد)، عراق (5.8 فیصد)، متحدہ عرب امارات (5.6 فیصد)، آذربائیجان (4 فیصد)، ترکی (2.77 فیصد)، مراکش (5.3 فیصد)، اسرائیل (5.2 فیصد) اُردن (4.9 فیصد)، آرمینیا (4.8 فیصد)، مالی (4.5 فیصد)، قطر 4.4 فیصد، روس 3.9 فیصد، امریکی 3.4 فیصد اور بھارت (3.1 فیصد) جیسے ممالک شامل ہیں۔اس فہرست میں پاکستان کا نام بہت نیچے ہے۔جبکہ اس کے ہمسایہ ممالک اس فہرست میں کہیں اوپر ہیں۔
دفاعی اخراجات کی تقسیم کا عالمی موازنہ
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دیگر ممالک کے دفاعی اخراجات دن بدن بڑھ رہے ہیں اور پاکستان کے کم ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے 8.8 ارب امریکی ڈالر کے دفاعی بجٹ کے مقابلے میں بھارت 76 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے، ترکی 22.1 ارب ڈالر، جنوبی کوریا 46.32 ارب ڈالر، جاپان 47.2 ارب ڈالر، سعودی عرب 46.32 ارب ڈالر، ایران اپنے دفاع پر 15.34 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ جبکہ یورپ میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی بالترتیب 68.4 ارب ڈالر، 56.6 ارب ڈالر اور 56 ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ چین 230 ارب امریکی ڈالر خرچ کرتا ہے اور امریکہ دفاعی بجٹ پر 801 ارب ڈالر خرچ کر کے اعدادوشمار میں سب سے آگے ہے۔
SIPRI کے مطابق، بھارت کے 76.6 ارب ڈالر کے فوجی اخراجات دنیا میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ اس میں 2020 سے 0.9 فیصد اور 2012 سے 33 فیصد اضافہ کیا گیا۔ بھارتی دفاعی بجٹ پاکستان کے دفاعی بجٹ سے 9 گنا زیادہ ہے۔
پاکستان کے پاس دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے، اس کے اخراجات سب سے کم ہیں۔ امریکہ 392000 ڈالر فی فوجی خرچ کرتا ہے، سعودی عرب 371000 ڈالر، بھارت 42000 ڈالر، ایران 23000 ڈالر خرچ کرتا ہے جب کہ پاکستان ہر سال 12500 ڈالر فی فوجی خرچ کرتا ہے۔
کیا پیشہ ورانہ معیار کم ہوا؟
ہم نے اعداد و شمار کی مدد سے آپ کو یہ بتایا کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ دنیا کے اکثر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔تو قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے اخراجات میں کمی سے پیشہ ورانہ اہلیت میں بھی کمی واقع ہوئی ہوگی۔لیکن ایسا نہیں ہے۔دنیا کی افواج کے مقابلے میں کم دفاعی بجٹ ہونے کے باوجود پاکستان کی مسلح افواج نے اپنے پیشہ ورانہ معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونے دیا۔ اس کا شمار دنیا کی 9ویں طاقتور ترین فوج میں ہوتا ہے۔
سرکاری خزانے میں پاک فوج کا حصہ پاکستان آرمی نے بھی مالی سال2020-21میں 28 ارب روپے کا حصہ سرکاری خزانے میں براہ راست ٹیکس کے طور پر دیا ہے (تنخواہ اور الاؤنسز، راشن / ایندھن خریداری، کسٹمز وغیرہ کی مد میں)
پاک فوج کے فلاحی منصوبے
فوج نے اپنے ساتھ جڑے افراد اور شہداء کے خاندانوں کی فلاح و بہبود کا بیڑا اٹھایا ہے۔جن لوگوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جان کے نذرانے پیش کیے ان کے خاندانوں کی فلاح و بہبود بھی فوج اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کے زیر انتظام ایسے کئی فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں جن کی آمدن سے نہ صرف شہداء کے خاندانوں کی کفالت ہوتی ہے بلکہ ہزاروں شہریوں کو روزگار بھی فراہم کیا جاتا ہے۔فوجی فاؤنڈیشن اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کاروباری منصوبے نہیں ہیں بلکہ ان کے چارٹر کے مطابق وہ فلاحی تنظیمیں ہیں جنہیں چیریٹیبل انڈوومنٹ ایکٹ 1890 کے تحت شامل کیا گیا ہے۔ ان کی آمدنی کا 73% سے زیادہ شہداء، جنگ کے زخمیوں، معذور فوجیوں اور ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں پر خرچ کیا جاتا ہے۔فوجی فاؤنڈیشن اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے 17% ملازمین شہداء، ڈبلیو ڈبلیو پی اور ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کے وارثان ہیں جبکہ یہ تنظیمیں شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو ملازمتیں بھی فراہم کرتی ہیں جو کہ 83 فیصد بنتا ہے۔فوجی فاونڈیشن گروپ سب سے زیادہ ٹیکس دہندگان میں سے ایک ہے کیونکہ مالی سال 2020-21میں ٹیکسوں، ڈیوٹیوں اور لیویز کی شکل میں قومی خزانے کو 150 ارب روپے ادا کیے گئے، جب کہ گزشتہ پانچ سالوں میںفوجی فائونڈیشن نے حکومت کو ٹیکس اور لیویز کے طور پر 1 ٹریلین روپے ادا کیے ہیں۔
فوجی فاؤنڈیشن میں ملازمین کا مجموعی تناسب 3989(سابق سروسز اہلکار)اور 22,652(سویلین)ہیں جو کہ سویلین ملازمین کاتناسب 79% بنتا ہے۔
مواصلاتی میدان میں پاک فوج کا کردار
پاک فوج جن علاقوں میں امن وامان بحال کرتی ہے وہاں پر ذرائع آمدورفت اور مواصلاتی ذرائع کی بحالی پر بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔.
سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (SCO) نے مواصلات کے شعبے میں 4612 ملازمتیں پیدا کی ہیں۔ اس آرگنائزیشن نے AJ&K اور GB میں 6789 کلومیٹر طویل آپٹیکل فائبر کیبل بچھائی ہے جس نے دنیا کے سب سے ناہموار خطوں میں سے ایک میں جدید ترین ڈیجیٹل مواصلاتی نظام کو فعال کیا ہے۔
جنگ کے دوران AFs (آرمڈ فورسز)کے لیے ریزرو ٹرانسپورٹیشن کے انتظام کے لیے NLC مادر وطن کی سٹریٹجک ضرورت ہے۔ یہ 6500 سے زیادہ شہریوں کو ملازمت دیتا ہے جس میں 78 فیصد سویلین ملازمین کا روزگار تناسب ہے۔ این ایل سی نے گزشتہ 5 سالوں میں 6 ارب روپے ٹیکس ادا کیا ہے۔
ریکو ڈک منصوبہ اور پاک فوج
پاکستان کی مسلح افواج نے اہم قومی نوعیت کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں اپنا کردار ادا کیاجس میں ریکوڈک منصوبہ خطے میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔.آرمی چیف کی قیادت میں ان گنت کوششوں کی وجہ سے پاکستان کو ریکوڈک کیس میں 11 ارب ڈالر کے جرمانے سے بچایا گیا اور اس منصوبے کی تشکیل نو کی گئی جس کا مقصد بلوچستان میں اس جگہ سے سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر کی کھدائی کرنا تھا۔یاد رہے ریکوڈک معاہدہ گزشتہ تین سالوں میں کئی اَدوار کی بات چیت کے بعد طے پایا ہے۔ ریکوڈک ممکنہ طور پر دنیا کی سب سے بڑی سونے اور تانبے کی کان ہوگی۔ یہ پاکستان کو قرضوں سے نجات دلائے گی اور ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز کرے گی۔
ریکوڈک وفاقی، صوبائی حکومتوں اور بلوچستان کے عوام کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف پاکستان کا سرمایہ کاری امیج بحال ہو گا بلکہ اس سے بڑے اقتصادی فوائد بھی حاصل ہوں گے، مقامی معدنیات کی تلاش کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا اور بلوچستان کے لوگوں کو اہم سماجی و اقتصادی فروغ حاصل ہو گا۔ بلوچستان کو طویل مدتی ریونیو سٹریم کے لیے حکومت بلوچستان کا حصہ حکومت پاکستان ادا کرے گی۔ یہ منصوبہ تقریباً 8000 ہنر مندوں کے لیے براہ راست ملازمت کے مواقع پیدا کرے گا جبکہ 12000 بالواسطہ ملازمتیں پیدا کرے گا۔
تعلیمی خدمات اور پاک فوج
پاک فوج نے دیگر منصوبوں کے ساتھ ساتھ تعلیم کے منصوبوں میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے جس کے باعث پاکستان بھر میں تعلیمی ادارے اپنے معیار کی بدولت ایک عالمی مقام حاصل کر چکے ہیں۔ 113 سکولوں کی نگرانی پاک فوج کے ذریعے کی جاتی ہے اور بلوچستان بھر میں تقریباً 40,000 طلباء ان سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔
پاکستان آرمی نے سوئی، پشین، مستونگ، پنجگور، جعفرآباد، کوہلو، تربت، نوشکی اور آواران میں 12 آرمی سکول اور کالجز، 32 ایف سی سکول اور کالجز اور 9 کیڈٹ کالجز قائم کیے۔ سات جدید ترین تعلیمی منصوبوں میں کوئٹہ میں NUST، کوئٹہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، ملٹری کالج سوئی، سوئی ایجوکیشن سٹی، بلوچستان پبلک سکول سوئی، بلوچستان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن، گوادر انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، اور آرمی انسٹی ٹیوٹ آف معدنیات شامل ہیں۔
چمالنگ بلوچستان ایجوکیشن پروگرام (سی بی ای پی)
اس منصوبے میںچمالنگ کوئلے کی کانوں کی آمدنی کے ذریعے بلوچ طلباء کو مالی اعانت فراہم کی گئی۔ 2500 سے زیادہ طلباء فارغ التحصیل ہوئے جبکہ 4500 سے زیادہ طلباء اس وقت زیر تعلیم ہیں۔
طبی سہولیات کی فراہمی میں پاک فوج کا کردار
پاک فوج نے پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں طبی سہولیات کا جال بچھا دیا ہے۔ 2016 سے اب تک، سدرن کمانڈ اور فرنٹیئر کور کی طرف سے لگائے گئے 650 فری میڈیکل کیمپوں میں 60,000 مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔ 2018 سے ٹیلی میڈیکل سینٹرز بھی کام کر رہے ہیں جو ویڈیو لنک پر دور دراز علاقوں میں طبی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ اب تک تقریباً 25000 مریض اس سہولت سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ خوشحال بلوچستان پروگرام کے ایک حصے کے طور پر کارڈیک سینٹر کوئٹہ تقریباً 80 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ ہسپتال میں جدید ترین طبی سہولیات بشمول جدید ترین آپریشن تھیٹرز، ایکو اور نیوکلیئر کارڈیو سہولیات ہوں گی۔
انفراسٹرکچر، تعلیم اور صحت کے شعبے میں شراکت کے علاوہ، فوج نے ٹائمر پنجگور ڈیٹ فارمنگ پروجیکٹ کے قیام میں بھی اپنا حصہ ڈالا ہے جس سے اس کی روایتی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ||
مضمون نگار لاہور اور کراچی میں قائم جسٹس پیرمحمد کرم شاہ انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے بانی ڈائریکٹر ہیں۔
[email protected]
تبصرے