تنقید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی برے بھلے میں تمیز کرنا ،پرکھنا ،جانچنا ، تجزیہ کرنا ، موازنہ کرنا ، تعریف کرنا اور تنقیص کرنا وغیرہ کے لیے جاتے ہیں ۔ زندگی کے ہر پہلو میں تنقید کی اہمیت مسلمہ ہے، اگر تنقید نہ ہو تی تو زندگی مفلوج و مفقود ہو جاتی۔ تنقید اور انسانی زندگی کا رشتہ دریا کے ان دو کناروں کا سا ہے جو ساتھ تو چلتے ہیں لیکن کبھی ملتے نہیں ۔ تنقید انسانی زندگی کو نہ صرف خوب صورت لباس عطا کرتی ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید تزئین و آرائش کا کام بھی کرتی ہے ۔
یہ تنقید ہی ہے جو زندگی کو جمود سے روکتی ہے ،زندگی ایک جگہ رکتی نہیں ہے بلکہ ہر دم اپنا سفرآگے کی طرف جاری رکھتی ہے جس سے نت نئی تبدیلیوں سے ہمکنار رہتی ہے ۔ یہ تبدیلیاں زندگی کو سنوارتی ہیں ۔ یہ تبدیلیاں دراصل تنقیدی بصیرت سے آتی ہیں ۔ انسان جب زندگی کی مشکلات سے ہارنے لگتا ہے توسوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ دوسرے لوگوں کا مشاہدہ کرتا ہے اپنے عمل اور اپنے حالات کا دوسروں سے موازنہ کرتا ہے اور پھر اپنے تخیل کے ذریعے مسائل کے نئے حل دریافت کرتا ہے، ان کا اطلاق کر کے اپنی مشکلات پر قابو پا لیتا ہے ۔ دراصل تنقید زندگی کو جانچنے کی کسوٹی ہے جس سے برے اور بھلے کی تمیز ہو جاتی ہے اور شعوری اور لا شعوری کوششوں سے زندگی سے بد صورتیوں کا قلع قمع کر کے اس میں نکھار اور سدھار پیدا کرنے کا موجب بنتی ہے ۔ جمالیات سے علم تک زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس میں تنقید کارفرما نہ ہو ، اس کی وجہ سے انسان زندگی کے گیسوئوں کو سنوارنے میں مصروفِ عمل رہتا ہے ۔
زمانہ قدیم کا انسان غاروں میں رہتا تھا ، جنگلی جانوروں کا گوشت اور پھل اس کی خوراک تھے ، تن ڈھانپنے کے لیے اس کے ذہن میں درختوں کے پتوں کا خیال آیا ، پتھروں کو رگڑ کر آگ جلائی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے انسان نے تنقیدی بصیرت کو کام میں لا کر انسانی زندگی کا نقشہ ہی بدل ڈالا ۔ جنگل کے پھل کھانے والے اور درختوں کے پتوں سے تن ڈھانپنے والا انسان جنگل کا سفر با آسانی تنقید کے سہارے طے کر کے لمحہ موجود میں آ پہنچا اور آج قدم قدم پر آسائشیں اس کی منتظر ہیں ایک کلک کرنے پر دنیا کی ہر آسائش حاصل کر سکتے ہیں ،بہترین اور مہنگے ملبوسات ہماری خوش لباسی کا پتہ دیتے ہیں ۔ انواع و اقسام کے پکوان اس بات کا اظہار ہیں کہ ہم جنگلی پھل کھانے کا سفر طے کر چکے ہیں ۔ زندگی کی لامتناہی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے، ابھی بھی انسان کائنات کے الجھے رنگوں کو سلجھانے کی تگ ودو میں لگا ہواہے ۔
انسان کی خود کو سنوارنے اور خود کو ترقی دینے کی کاوش نے زمانے کو کیا سے کیا بنادیا ہے۔ ا بھی بھی انسان اس کوشش میں ہے کہ وہ اور کیا کرے کہ مستقبل کی راہوں کو مزید روشن کر سکے ، زندگی کے نئے گوشے وا کر سکے ۔ تخلیق اور تعمیر کا یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا ۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں
(اقبال)
بد قسمتی سے ہمارے ہاں تنقید کو وسیع معنوں میں لیا ہی نہیں گیا ، صرف اعتراض کی حد تک اس کو استعمال کیا گیا جس کی وجہ ہماری قوم دوسری اقوام سے پیچھے رہ گئی ہے ۔ جب تنقید کو تنقید برائے اصلاح اور تنقید برائے تعمیر کے معنوں میں لیا گیا تو نہ صرف اس کے مؤثر اثرات مرتب ہوئے بلکہ زندگی ایک بڑی تبدیلی سے ہمکنار ہوئی ۔ ایک مشہور قول ہے کہ ''میری زندگی دوسرے لوگوں کی مرہونِ منت ہے ''اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انسان کے پاس اپنا تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا لباس اس کے جوتے اس کی ہر شے دوسرے لوگوں نے بنائی ہے ۔ اس کا دوسرا پہلو تنقیدی حوالے سے بہت اہم ہے جو آج تک کوئی نہیں سمجھ سکا۔ وہ یہ ہے کہ انسان کی جتنی بھی ترقی ہے وہ دوسرے لوگوں کی وجہ سے ہے کیونکہ انسان ہمیشہ دوسرے لوگوں کی رائے کو اہمیت دیتا ہے ،اچھی بری رائے اس کی شخصیت کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور دوسری اہم بات کہ انسان ہمیشہ اپنا موازنہ دوسروں سے کرتا ہے اس میزا ن میں اگر کہیں کمی پاتا ہے تو برابری کی اور آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے ۔
نظامِ تعلیم میں بھی تنقید کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ ابھی تک اس نظام میں جتنی بھی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہ تنقید ہی کی وجہ سے ہیں۔ ایک خاص مدت کے لیے تعلیمی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ، نصاب تیار کیا جاتا ہے اور پھر کتابیں مرتب کی جاتی ہیں،تعلیمی اداروں میں ان کا اطلاق کیا جاتا ہے اور پھر معینہ مدت کے بعد اس کے خاطر خواہ نتائج دیکھے جاتے ہیں ، اچھے برے پہلوئوں کا موازنہ کیا جاتا ہے، یہ پورا منصوبہ کامیاب رہا یا ناکام ، کامیابی و ناکامی کے کیا اسباب تھے اور اس سارے عمل کا ناقدانہ جائزہ لینے کے بعد اس میں ضروری ترامیم کر دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ہم نظامِ تعلیم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے قابل ہوتے ہیں ۔ اس کوشش ،عمل پیہم اور محنت ِ شاقہ کا بڑا حصہ تنقیدی بصیرت کا ہے ۔
بچے قوم کا روشن مستقبل ہوتے ہیں اور کوئی بھی قوم اپنے مستقبل سے روگردانی نہیں کر سکتی ۔ ہر قوم اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لاتی ہے ۔ لمحہ موجود میں پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جس میں سے ایک اہم مسئلہ نسلِ نو کی تعلیم وتربیت ہے ۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں تربیت ایک مشکل کام ہے۔ بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے سنجیدہ حلقوں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے ۔ ہر کوئی دوسرے پر الزام تراشی کر رہا ہے ،کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، والدین مصروف ہیں، معاشرے سے بزرگوں کا مقام و مرتبہنایاب ہو چکا ہے ، اخلاقی اقدار صرف فلموں کہانیوں اور ڈراموں کی حد تک محدود ہو گئیں ہیں تو ایسے میں تنقیدی رحجان سے مدد لی جا سکتی ہے ۔ بچوں کو اپنے ہر اچھے برے عمل کا ناقدانہ جائزہ لینے کی طرف مائل کیا جائے تا کہ اس بحران پر قابو پا کر وہ اس میں بہتری لا سکیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا اطلاق کیسے کیا جائے ؟ اس کی شروعات گھر سے ہونی چا ہئیں ۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ہر عمل پر کڑی نظر رکھیں ،جو کام یا جو عمل وہ کریں اس پر ان سے پوچھا جائے کہ یہ کام /عمل اور کیسے ہو سکتا تھا ؟ کیسے اس کو مزید بہتر کیا جا سکتا تھا ۔ اس کا اچھا پہلو کون سا ہے اور برا کون سا ہے ؟ اور وہ کون سا پہلو ہے جو اسے برا بناتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ بچوں کے اندازِ گفتگو سے لے کر تمام سرگرمیوں میں اسی رویے کو اپنایا جائے ۔آہستہ آہستہ یہ رویہ بچوں کی شخصیت میں راسخ ہو جائے گا اور پھر وہ خود اپنے ہر عمل کا ناقدانہ جائزہ لینے کے قابل ہو جائیں گے۔یہ کام راتوں رات تبدیلی کا موجب نہیں بنے گا بلکہ بہت آہستہ اور سبک روی سے یہ ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائے گا اور اس کے اثرات جتنی دیر سے ظاہر ہوں گے اتنے ہی دیر پا ثابت ہوں گے ۔
جماعت کے کمرے میں اساتذہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نصابی سرگرمیوں سے لے کر ہم نصابی سرگرمیوں تک تنقیدی رحجان کو طلبہ میں راسخ کریں ، بہت معذرت کے ساتھ کہ یہ رحجان تعلیمی اداروں میں تنقیدی نوعیت کے سوالات کرنے سے نہیں آئے گا بلکہ مختلف حکمتِ عملیوں کو اپنا کر طلبہ کو تنقیدی سوچ کا حامل بنایا جائے، اس کے لیے سکول کا کوئی اہم واقعہ ، کسی طالب علم کی اچھی بری حرکت ، کسی کا اچھا برا جملہ ، طلبہ کا امتحانی نتیجہ وغیرہ کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے ۔ جیسا کہ طلبہ سے کہا جائے کہ آپ نے جو جملہ بولا ہے کیا وہ آپ کو زیب دیتا ہے ۔اس جملے کی وجہ سے آپ کی شخصیت ، سیرت و کردار کہاں تک متاثر ہوئے ہیں اور اس تنقیدی رحجان کی وجہ سے سکول کے نتائج میں بھی تبدیلی آسکتی ہے۔ اگر طلبہ اپنے نتائج کاخود تجزیہ کریں، سوچیں کہ انہوں نے کہاں اور کیوں غلطی کی ہے اورایسا کیا کریں کہ ان غلطیوں کو دہرایا نہ جائے ۔ طلبہ کو راہ نمائی دی جائے کہ وہ اپنے لیے ایک ایسی حکمتِ عملی مرتب کریں جس پر عمل پیرا ہو کر وہ پہلے سے بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں ۔
اس سارے عمل میں ایک اہم بات یہ کہ اساتذہ بھی اس رحجان کے ذریعے اپنی تدریس اور امتحانی نتائج کو بہتر بنا سکتے ہیں ۔ اساتذہ تعلیمی سال کے آخر میں اور گاہے بگاہے اپنے پورے تعلیمی منصوبے کا از سر نو جائزہ لے کر طریقہ تدریس، تدریسی حکمت ِ عملیاں، تدریسی سرگرمیوں میں مناسب تبدیلیاں کر کے اپنی تدریس کو مؤثر بنا سکتے ہیں۔اساتذہ کے رویے اور شخصیت کو سنوارنے میں بھی تنقیدی بصیرت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ اساتذہ بھی اپنے تدریسی لائحہ عمل کا تنقیدی جائزہ لیں کہ ان سے کہاں غلطی ہوئی ہے ، کون سے عوامل ہیں جواس عمل کی ناکامی کا موجب بنے ہیں، ان پر کیسے قابو پایا جائے ؟ اور پھر ایک نیا تدریسی منصوبہ بنا کر اپنی خامیوں پر قابو پائیں ۔
سکولوں میں اس رجحان کی ترقی و ترویج کے لیے ایک مؤثر اور قابلِ عمل منصوبہ بنانا ہوگا ۔ جو طلبہ تنقیدی رجحان کے ذریعے اپنی شخصیت ،سیرت و کردار اور تعلیمی نتائج میں تبدیلی لاتے ہیں ،ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ وہ دوسرے طلبہ کے لیے قابلِ تقلید نمونہ بن سکیں ۔ اس سارے عمل میں بہت جاں فشانی کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کے تربیتی پروگرام میں اسے شامل کیا جائے اورسکول کی طرف سے والدین کو بھی راہ نمائی باہم پہنچائی جائے ۔
المختصر یہ کہ تنقید زندگی کے ہر میدان میں کارفرما نظر آتی ہے۔ اس کے بغیر ترقی کا تصور ممکن نہیں، اب دیکھیے کہ تنقید کی بدولت کل کیا ہو؟
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں(حالی) ||
مضمون نگار ایپسیکس(APSACS) سیکریٹریٹ میں اردو کوارڈینیٹر کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں ۔
تبصرے