دنیا اس وقت بدلتے موسم، قدرتی آفات اور پوسٹ کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے گزر رہی ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو بلا تخصیص رنگ و نسل اورملک و قوم کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں، جن پر انسانوں نے اپنے اختلافات بھلا کر ہی کام کرنا ہے کیونکہ آج کا انسان اپنا سب سے بڑا دشمن خود ہے ۔ اس کی ہوس اور لالچ نے نہ صرف اس کے اپنے لیے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے جو مسائل پیدا کر دئیے ہیں ان سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمیں بطورِ انسان ہی کام کرنا پڑے گا۔ کوئی مخصوص گروہ، ملک یا قوم وہ بگاڑ احسن طریقے سے ٹھیک نہیں کر سکتی جس کے ذمہ دار سب انسان ہوں۔انسانی زندگی کی بقا زمین، ہوا اور پانی کے ساتھ ساتھ لاتعداد اقسام کے جنگلوں، پیڑ، پودوں، جانوروں، پرندوں، کیڑے مکوڑوں، سمندروں، ندیوں، تالابوں پر منحصر ہے۔یعنی کرہ ارض پر نظام قدرت کے عطا کردہ فطری عطیات اور وسائل پر ہی انسانی زندگی کا دارومدار ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ انسان ہی قدرت کے ان بیش بہا عطیات کی اہمیت و افادیت کو نظر انداز کر بیٹھا ہے۔ اس رویے نے کرہ ارض پر موجود انسانوں، حیوانات اور نباتات کو بہت ہی سنگین اور تشویشناک حالات میں مبتلا کر رکھا ہے۔ قدرت کے فطری ماحول کے توازن کو برقرار رکھنے میں ہم انسان دن بدن ناکام ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ جن کے منفی اثرات کا سامنا موجودہ نسل بھگت رہی ہے اور یہی حال رہا تو آنے والی نسلیں زیادہ شدت سے ان نقصانات کو بھگتیں گی۔ایک سروے کے مطابق بڑھتی فضائی آلودگی سے ہر سال عالمی سطح پر 70 لاکھ سے زیادہ افراد کی ہلاکت ہو رہی ہے اور کئی لاکھ لوگ دمہ، کینسر اور دیگر کئی طرح کے امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔
عالمی یوم ماحولیات ہر سال 5 جون کو منایا جاتا ہے۔ عالمی یوم ماحولیات کا مقصد آلودگی کی بڑھتی ہوئی سطح اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ماحول کو لاحق خطرے کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔ پہلا عالمی یوم ماحولیات 1974 میں منایا گیا ، جس نے ماحول میں مثبت تبدیلی کے لیے ایک عالمی پلیٹ فارم دیا۔پہلے عالمی یوم ماحولیات کا موضوع ''صرف ایک زمین'' تھا۔ اقوام متحدہ نے 5 جون کو عالمی یوم ماحولیات کے طور پر منانے کے لیے نامزد کیا تاکہ آلودگی کی وجہ سے ماحول کو ممکنہ نقصان سے بچانے کی ضرورت پر توجہ مبذول کروائی جا سکے۔ اس دن حکومتیں ، این جی اوز اور شہری ماحول کے تحفظ اور ماحول پر انسانی سرگرمیوں کے اثرات کے متعلق شعور کی آگاہی میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ 1974سے تاحال یہ دن منانے کے کسی حد تک مثبت نتائج و اثرات صرف ایسے ممالک میں دیکھنے کو ملے ہیں، جہاں کی حکومت اور عوام نے انسانی بقا کے اس اہم مسئلے پر سنجیدگی دکھائی۔ لیکن ان ممالک میں جہاں انسانی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور صنعتی ترقی کی رفتار بھی تیز ہے، وہاں ماحولیات کی سنگینی کو نظر انداز کیا گیا ہے جس کے مضر اور منفی نتائج ان ممالک میں زیادہ نظر آ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ بار بار اس عالمی مسئلہ کے سلسلے میں خبردار کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ عالمی سطح پر مختلف وجوہات اور عدم توجہی کے باعث ماحول بہت تیزی سے زہریلا ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں انسان ہلاک ہو رہے ہیں اور مختلف قسم کے امراضکا شکار ہو رہے ہیں۔
United Nation Environment Assembly کی ایک رپورٹ میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے دنیا بھر میں تیزی سے معدوم ہوتے جانور، نباتات، انسانی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ کے باعث آلودہ فضا اور پلاسٹک کے استعمال، نامیاتی کھاد اور پانی میں ہارمونز میں تبدیلی لانے والے کیمیائی مواد کی موجودگی کو دنیا اس کے ماحول اور اس کی آبادی کے لیے سنگین خطرات قرار دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ ایمسٹرڈیم اور لندن سے تعلق رکھنے والے دو انوائرمینٹل سائنسدانوں جوستیا گپتا اور پال ایکنز نے مرتب کی تھی۔ ان سائنسدانوں کے مطابق دنیا میں فضائی آلودگی سے ہرسال 70 لاکھ افراد کی موت ہو رہی ہے اور اس سے معاشرے کو 50 کھرب ڈالر سالانہ کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے مطابق آبی آلودگی کے باعث ہونے والے متعلقہ امراض ہر سال مزید 14 لاکھ انسانی زندگیوں کو نگل ر ہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے درجہ حرارت میں بھی بڑی تیزی سے اضافہ اور حیاتیاتی تنوع میں آنے والی کمی انسانوں کو درپیش سنگین ترین خطرات ہیں جو مسلسل کئی طرح سے انسانی زندگی پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث دنیا کی زر خیزی بھی شدت سے متاثر ہو رہی ہے اور زمین تیزی سے بنجر اور بے کار ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت زمین کے کل رقبے کا 29 فیصد ایسا ہے جن پر فصل اگانا مشکل ہے۔ عالمی سطح پر بڑھتی آلودگی کے باعث زمینی، فضائی اور سمندری آبادی پر بھی خطرات بہت شدت سے منڈلا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ورلڈ وائلڈ فنڈ کی جانب سے بھی جاری کردہ Living Planet نامی رپورٹ میں حیران کن اعداد شمار پیش کیے گئے ہیں۔ عالمی سطح پر ماحولیات کے بڑھتے خطرات کے مد نظر اقوام متحدہ نے 1987 میں یہ طے کیا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک کو ماحولیات کے سنگین صورت حال سے متنبہ کرنے اور ان کے تدارک کے لیے ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں کسی ایک ملک میں مؤثر تھیم کے ساتھ عالمی یوم ماحولیات کے انعقاد کی میزبانی دی جائے اور اسی تھیم پر پوری دنیا میں ماحولیات کو سازگار بنانے کی کوشش ہو۔
اس پس منظر میں گزشتہ سال 5 جون عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی پاکستان کے حصے میں آئی تھی جو پاکستان کے لیے ایک اعزاز اور ملک کی ماحول دوست پالیسیوں کااعتراف بھی تھا۔اس عمل کی سربراہی موسمیاتی تبدیلی کی وزارت نے کی تھی۔ عالمی حدت کا سبب بننے والی گرین ہائوس گیسز میں پاکستان کاحصہ ایک فیصد کے قریب ہے۔تاہم پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثرہ دس سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ گزشتہ سال اس دن کا موضوع''ماحولیاتی نظام کی بحالی اور فطرت کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے پر توجہ دینا''تھا۔گزشتہ سال اقوام متحدہ کی موجودہ دہائی سے متعلق ماحولیاتی نظام کی بحالی 2030 - 2021 کا باضابطہ آغاز بھی ہو گیا تھا۔ دوسری جانب گلوبل کلائمیٹ رسک انڈکس کے مطابق پچھلی دو دہائیوں کے دوران صرف ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے پاکستان کا تین ارب اسی کروڑ ڈالر کے قریب مالی نقصان ہوا اور دس ہزار کے قریب جانیں اس المیے کی نذر ہو گئیں۔ آب و ہوا میں تبدیلی اور ماحولیاتی تحفظ کی سرگرمیاں کو مزید فروغ دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس سے مزید پہلو تہی نہیں برتی جا سکتی۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق (2021) کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی زندگی چار سال کم ہو رہی ہے۔ جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔ایک نئی تحقیق میں پیش کیے گئے اندازوں کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگوں کی اوسط عمر میں 3 سال کی کمی آرہی ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ 2015 میں آلودگی کی وجہ سے 88 لاکھ اموات قبل از وقت واقع ہوئیں جو سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہونے والی اموات سے بھی زیادہ ہیں۔
جیسا کہ پہلے بتایا کہ پاکستان گلوبل وارمنگ کے پہلے دس متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان، خصوصاً پنجاب کی فضا میں اسموگ کی آمیزش کا مسئلہ تو بہت ہی سنگین ہو گیا ہے اور ان علاقوں میں رہائش پذیر افراد سانس اور جِلدی امراض کا شکار تو ہو رہے ہیں جبکہ ان کے پھیپھڑے بھی اس آلودگی سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ نیز، ملک کے دیگر شہروں، خصوصاً کراچی، لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، سیال کوٹ، فیصل آباد، ملتان، کوئٹہ اور پشاور میں بھی فضائی آلودگی کی مقدار بین الاقوامی معیار سے کہیں زیادہ ہے۔پاکستان کے بڑے شہروں پر نظر ڈالیں، تو جا بہ جا گندگی، غلاظت، کوڑے کرکٹ کے انبار نظر آتے ہیں۔ پولیتھین بیگز سیوریج لائن بلاک کرنے کا سبب بنتے ہیں، جس کی وجہ سے گٹروں کا پانی سڑکوں پر پھیل جاتا ہے اور ان پر بیٹھنے والی مکھیاں اور دیگر حشرات بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ پھر ملک میں ماحولیاتی آلودگی کا ایک بڑا سبب کارخانے بھی ہیں، جن پر کوئی محکمہ ایکشن نہیں لیتا۔
ہمارا دریائی پانی کے لیے کلیدی انحصار ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلے کے گلیشیرز پر ہے مگر بڑھتی ہوئی عالمی حدت ان گلیشیرز پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہی ہے ۔نہ صرف یہ کہ گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں بلکہ ہر سال برف کی مقدار میں بھی کمی آ رہی ہے۔ماحولیاتی حدت کی وجہ سے گلیشیر تیزی سے پگھلنے اور پھٹنے کے واقعات سے جو سیلاب اور تباہی آ تی ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔عالمی حدت کے پاکستان پر منفی اثرات نیا مسئلہ نہیں تھا تاہم اس جانب بروقت توجہ نہیں دی جاسکی جس کی وجہ سے مناسب حکومتی پالیسی اور عوامی رائے بنانے میں تاخیر ہوئی۔ اس حوالے سے پاکستان کا ''بلین ٹری منصوبہ '' اور''گرین پاکستان کا انیشی ایٹو'' یہ قابل تعریف ہیں ۔اگرچہ یہ اقدامات کافی نہیں ہیں ۔پاکستان کو ماحولیاتی بہتری اور گرین ہائوس گیسز کی مقدار کم کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ابھی بہت کام کی ضرورت ہے۔جرمن واچ کے مطابق ، گزشتہ 20 سال میں پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔جس کی وجوہات میں 2010 کے بعد سے آنے والے سیلابوں کا اثر ، بدترین خشک سالی (1998-2002) تھرپارکر اور چولستان میں حالیہ خشک سالی ، کراچی میں گرمی کی شدید لہر جولائی 2015 ، اسلام آباد جون 2016 میں شدید آندھی کے طوفان، ملک کے شمالی حصوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور گلیشیر لیک آؤٹ برسٹ سیلاب (جی ایل او ایف)کے واقعات شامل ہیں۔بلکہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے چند بڑے خطرات ہیں جن میں بارش ، شدید سیلاب ،خشک سالی کا سبب بننے والے غیر معمولی مون سون بارشوں کے ساتھ ساتھ ، موسم کی شدت میں اضافہ، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہندوکش قراقرم ہمالیہ گلیشیئرز لیک آؤٹ برسٹ یا آلودگی، کاربن ذخائر سے دریائے سندھ کے نظام میں آلودگی سے پانی کو خطرہ شامل ہیں۔
درجہ حرارت میں اضافہ کے نتیجے میں گرمی اور پانی کے تناو ٔمیں اضافہ ، خاص طور پر سوکھے اور نیم بنجر علاقوں میں زراعت کی پیداوار پر منفی اثرات پڑنا ۔آب و ہوا کے حالات میں تیزی سے تبدیلی سے جنگلا ت میں کمی ، صحت کے خطرات اور آب و ہوا میں تبدیلی کے عوامل شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے اب موسمیاتی تبدیلی کے مختلف پہلوؤں بشمول اہم پالیسی اور آب و ہوا سے متعلقہ مداخلتوں کو حل کرنے کی حکمت عملی اپناتے ہوئے پالیسی فریم ورک تیار کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہے تاکہ پاکستان میں آلودگی کے ان بڑھتے ہوئے مسائل پر قابو پایا جا سکے جن میں ہر گزرتے دن اضافہ ہو رہا ہے ۔ پاکستان بہرحال موسمیاتی تبدیلیوں سے مستقل طور پر متاثرہ ممالک میں شامل ہے اور ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے کام کرنے والے عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ ان موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے خطرات کو کم کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔نیز کرہ ارض کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک کرنے کے لیے مربوط کوششیں ازحد ضروری ہیں تاکہ آئندہ نسلوں کو ناقابلِ تلافی نقصان سے بچایا جا سکے ۔ اگرچہ حکومتیں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے بھرپور کوششیں کررہی ہیں تاہم عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ان کوششوں میں حکومتوں کا ساتھ دیں کیونکہ ماحولیاتی آلودگی کسی ایک کا نہیں، ہم سب کا مسئلہ ہے۔ ||
مضمون نگار شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور ایک اخبار میں کالم بھی لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے