تحریک پاکستان کا ا یک فیصلہ کن موڑ
مسلمانوں میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا ہونے سے قیام پاکستان کی منزل قریب آپہنچی
یونینسٹ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی
اس کے دس ارکان اسمبلی نے اپنی جماعت چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی
مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال نے پاکستان کا جو خواب دیکھا تھا اس کی آبیاری میں قائد اعظم محمد علی جناح نے خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کر تے ہوئے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک حاصل کرنے میں تاریخ ساز کامیابی حاصل کی ۔ تحریک پاکستان میں یوں تو مسلم اکثریت رکھنے والے ہر شہر اور قصبے نے اہم کردار ادا کیا لیکن جموں و کشمیر سے ملحقہ ہزاروں سال پرانی تاریخ رکھنے والے ضلع سیالکوٹ اور اس کے شہریوں نے سپوت سیالکوٹ حضرت علامہ اقبال کے تصور پاکستان پیش کرنے سے لے کر تحریک پاکستان کو اس کے حتمی نتیجے تک پہنچانے تک شہر اقبال سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگیوں نے نہ صرف اپنے شہرمیں بلکہ ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے شہر وں میں جاکر آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاسوں اور اس کی مختلف سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لے کر اپنے ضلع کی بھرپور نمائندگی کی جبکہ سیالکوٹ کو آل انڈیا مسلم لیگ کا مضبوط گڑھ بنانے اور تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے، دامے، درمے اور سخنے حصہ ڈال کر پوری طرح سرخرو ہوئے۔ اس سلسلے میں شہر اقبال کے ممتاز دانشور اور محقق مرزا محمد ارشد طہرانی نے قائد اعظم کے دورہ سیالکوٹ کے عنوان سے شائع کردہ کتاب میں تحریک پاکستان میں ضلع سیالکوٹ کے کردار اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے دورہ سیالکوٹ کے دوران آل انڈیا مسلم لیگ کے صوبائی اجلاس کی کارروائی اور اس کے اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
یہ بات کسی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ جس وقت پاکستان بنانے کی باتیں ہو رہی تھیں ایک طرف تو پنجاب کی انگریز نواز یونینسٹ پارٹی آل انڈیا مسلم لیگ کے لیے مشکلات پیدا کر رہی تھی اور اس کے وزیر اعظم خضر حیات خان مسلم لیگ کے رکن ہونے کے باوجود پنجاب کو پاکستان کا حصہ بنانے کی شدید مخالفت کر رہے تھے جبکہ دوسری طرف گانگریس اور تمام مسلم نیشلسٹ جماعتیں آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ اس وقت سیالکوٹ مجلس احرار کا گڑھ تھا۔ مجلس احرار والے سیالکوٹ کو مدینة الاحرار کہتے تھے۔ ان حالات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو اپنا پیغام عام لوگوں تک پہنچانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔
لیکن 1946 کے عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ سیالکوٹ کی مقامی قیادت کی طرف سے مرکزی قیادت کو یہاں مدعو کر نے کی دوراندیشی پر مبنی دعوت نے سارا منظر ہی بدل کر رکھ دیا۔
ان عام انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کے لیے پنجاب میں کامیابی حاصل کرنا زندگی و موت کا مسئلہ بنا ہوا تھا ۔ یہاں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر قائد اعظم محمد علی جناح کی سوچ اور اعلیٰ حکمت عملی پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنا انتہائی ضروری ہے جنہوں نے اس دعوت کو شرف قبولیت بخشا اور پنجاب کا صوبائی اجلاس کسی بڑے شہر کے بجائے مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال کے آبائی شہر سیالکوٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا جبکہ سیالکوٹ میں قائد اعظم کے دورہ کو ناکام بنانے کے لیے حکومتی یونینسٹ پارٹی نے مشکلات پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اسی طرح مجلس احرار کے کارکنوں نے مسلم لیگی کارکنوں کے آگے مختلف طرح کی مشکلات پیدا کیں۔ کئی محلوں میں دنگا فساد اور مسلم لیگی کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
قائد اعظم کے خطاب سے قبل ہی سیالکوٹ شیخ مولا بخش تالاب کا پنڈال عوام سے کھچاکھچ بھر چکا تھا اور پنڈال میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں بچی تھی جبکہ تالاب کے قریب سڑکوں ، مکانوں اور دکانوں کی چھتوں پر موجود ہزاروں کی تعداد میں پنڈال میں داخل نہ ہونے والے لوگوں کو اپنے عظیم قائد کا خطاب سنانے کے لیے آخری روز خصوصی طور پر لائوڈ سپیکروں کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔
یونینسٹ سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے وزیر اعظم خضر حیات خان سے ایک ہفتہ ( 20سے27اپریل) تک چلنے والے بے نتیجہ ختم ہونے والے مذاکرات کے دوسرے ہی روز وعدے کے مطابق قائد اعظم 28 اپریل1944ء کو سیالکوٹ تشریف لائے اور انہوں نے مسلسل تین دن (28 سے30 اپریل1944) سیالکوٹ میں قیام فرمایا ۔ مسلم لیگ صوبہ پنجاب کے سالانہ اجلا س میں بطور مہمان خصوصی شرکت فرمائی ۔ مرے کالج کا دورہ کرکے طلبہ سے خطاب کیا جبکہ کمپنی باغ سیالکوٹ کینٹ میں مسلم لیگ کی طرف سے دیئے جانے والے عصرانے میں شرکت فرمائی اور کارکنوں میں گھل مل گئے اور ان کی تحریک پاکستان کے لیے خدمات پر انہیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور ان کے حوصلے بڑھائے۔
اجلاس سیالکوٹ کی آخری نشست میں قائد اعظم نے جو خطاب کیا وہ انگریزی میں تھا لیکن صدر اجلاس سردار عبدالرب نشتر نے اس کا برمحل ، برجستہ، با محاورہ اور آسان فہم اردو ترجمہ کرکے جس حسن ترتیب، اثر انگیز انداز بیاں اور روانی سے قائد اعظم کے الفاظ وخیالات کو درست اور نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا اس سے پورا مجمع اَش اَش کر اٹھا ۔ کھلے اجلاس میں پہلے دو روز کے اخبارات میں کامیاب اجتماعات اور قائد اعظم کے شاہانہ استقبال کی خبریں اخبارات اور ریڈیو کے ذریعے ہندوستان کے طول و عرض میں پہنچیں تو جہاں جہاں سے ممکن ہو سکا اس آخری روز کے اجلاس میں لوگ پہنچ گئے۔ اس اجلاس کی عوامی سطح پر پذیرائی کی یہ زندہ مثال ہے کہ قائد اعظم کے خطاب سے قبل ہی سیالکوٹ شیخ مولا بخش تالاب کا پنڈال عوام سے کھچاکھچ بھر چکا تھا اور پنڈال میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں بچی تھی جبکہ تالاب کے قریب سڑکوں ، مکانوں اور دکانوں کی چھتوں پر موجود ہزاروں کی تعداد میں پنڈال میں داخل نہ ہونے والے لوگوں کو اپنے عظیم قائد کا خطاب سنانے کے لیے آخری روز خصوصی طور پر لائوڈ سپیکروں کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ صدرمسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع سیالکوٹ خواجہ محمد طفیل کے سپاسنامہ کا جواب دیتے ہوئے قائد اعظم نے کہا کہ میں آپ کی طرح نوجوان نہیں ہوں لیکن آپ کی نوجوان روح اور جوش عمل نے مجھے نوجوان بنا دیا ہے۔ گو میں بوڑھا ہو چکا ہوں لیکن ان نوجوان مسلم طلبہ کے عزم ، ارادہ اور قربانی کے جذبہ کو دیکھ کر میری بوڑھی رگوں میں بھی پرجوش خون گردش کرنے لگا ہے اور قوم کی بیداری نے مجھے نوجوان بنا دیا ہے۔گزشتہ سال ایمانداری سے جس طبقہ نے اس سیاسی جنگ میں میرا ہاتھ بٹایا ہے وہ طلبہ کا طبقہ ہے۔ مجھے ان پر ہمیشہ اعتماد رہا ہے۔ تقریر کے اختتام پر قائد اعظم نے فرمایا کہ سیالکوٹ کا یہ سیشن مسلم لیگ کے اجلاس لاہورسے کم اہم نہیں ہے۔یہاں ہم ایک قدم آگے بڑھا رہے ہیں جو ایک دستوری قدم ہے۔ ہماری جنگ دستوری جنگ ہے۔ ہم اس جنگ کو جیت سکتے ہیں۔ اگر کل تمام89 مسلمان اراکین اسمبلی متحد ہو جائیں اور مسلم لیگ پارٹی میں شمولیت طے کر لیں تو فیصلہ ہمارے حق میں ہو گا۔لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔اگر آپ کامیاب نہ ہوں اور تمام ارکان کو اپنے ساتھ نہ ملا سکیں تو کم از کم ہم اکثریت کو اپنے ساتھ لے آئیں اگر ایسا ہوا تو ہمارا مقصد حاصل ہو جائے گا۔ سیالکوٹ میں آپ کا جوش و خروش دیکھ کر میرا دل بڑھ گیا ہے اور میں کامیابی کے متعلق کوئی شبہ نہیں رکھتا۔ وہ دن دور نہیں جب آپ کو اپنی قربانیوں کا صلہ ضرور ملے گا۔ اہل سیالکوٹ کو مسلم لیگ کے جھنڈے کے نیچے منظم کرنا چاہئے۔اس تمام علاقے میں مسلم لیگ کا نظام قائم کرنا چاہئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان آگے بڑھیں اور دنیا کو اپنی تنظیم اور بیداری سے قائل کر دیں کہ آج کا مسلمان گزشتہ چھ یا سات سال پہلے کا مسلمان نہیں ہے جو آسانی سے دھوکہ کھا جائے۔ جو رویہ ان لوگوں نے اختیار کیا ہے اس کا نتیجہ انہیں جلد معلوم ہو جائے گا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس شہر میں رونما ہونے والے واقعات کا فوری اثر ریاست جموں و کشمیر پر بھی پڑتا تھا۔ کہنے کو تو یہ صوبائی کنونشن تھا لیکن اس میں پورے ہندوستان کی مسلم قیادت شریک ہوئی ۔اس کنونشن میں قائد اعظم محمد علی جناح کی بنفس نفیس شرکت نے کنونشن کی اہمیت کو مزید نمایاں کردیا ۔ ان کی ولولہ انگیز قیادت میں شہر میں نکلنے والے تاریخ ساز اور عظیم الشان جلوس نے نہ صرف شہر کی سیاسی فضا کی کایا پلٹ کر رکھ دی بلکہ اس کی دھوم دھام اور یہاں کے عوام میں پائے جانے والے جوش و جذبہ نے پورے ہندوستان میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا کردی اور قائد اعظم کے پیغام کی باز گشت دور دور تک سنی گئی اور مسلمانوں کو نہایت جاندار پیغام ملا۔
اجلاس سیالکوٹ کے دوران وزیر اعظم پنجاب خضر حیات خان کے ایک طرف مسلم لیگ کا رکن اور دوسری طرف یونینسٹ پارٹی کا سربراہ ہونے کے باوجود غیر جمہوری اور غیر دستوری طرز عمل کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ان کے خلاف سخت انضباطی کارروائی کی منظوری دی ۔یونینسٹ پارٹی کا لیبل اتار کر مسلم لیگ میں شامل ہونے والے ارکان اسمبلی کی توثیق کی گئی۔ اجلاس میں پنجاب مسلم لیگ کے عہدے داران کی حتمی منظوری دی گئی جس کے مطابق نواب افتخار ممدوٹ کو صدر اور ممتاز محمد خان دولتانہ کو جنرل سیکرٹری بنایا گیا۔اجلاس سیالکوٹ کے دوران منظور کی جانے والی قراردادوں میں سردار شوکت خان کی پنجاب کی وزارت سے بلاجواز برطرفی پر قرارداد مذمت منظور کی گئی۔جناح خضر مذاکرات کے حوالے سے قائد اعظم کی اختیار کردہ حکمت عملی کی متفقہ توثیق کی گئی اور بطور صدر ان پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا گیا۔بلوچستان کے نمائندے قاضی محمد عیسیٰ کی طرف سے پیش کردہ منظور کی جانے والی قرارداد میں حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق عربوں کے حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے فلسطین میں یہودیوں کا داخلہ بند کرائے۔ عربوں کی حق تلفی کا عمل فوراً روکا جائے اور مسلمانوں کو حج کے موقع پر اپنے دینی شعارکی ادائیگی کے لیے تمام ممکنہ سہولتیں فراہم کی جائیں۔ منظور کردہ قرارداد میں وزیر اعظم پنجاب خضر حیات خان کے مسلم لیگ کے خلاف معاندانہ رویہ کی مذمت کی گئی اور یہ قرار دیا کہ وزیر اعظم پنجاب خضر حیات خان نے جماعتی نظم کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے اور پنجاب کونسل کے اجلاس میں پیش ہو کر اپنے مؤقف کی وضاحت کرنے سے بھی انکار کردیا ہے نیز مسلم لیگ کے خلاف حقائق کے برعکس بیان جاری کرکے محاذ آرائی کی صورت حال پیدا کردی ہے۔ لہٰذا آج کا یہ اجلاس اس رویّے کی شدید مذمت کرتا ہے۔
اس جلاس کی ایک بہت بڑی کامیابی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اجلاس کی کارروائی کے دوران ہی دس یونینسٹ ممبران اسمبلی نے اپنی پارٹی چھوڑ کر قائد اعظم کا ساتھ دینے کا اعلان کرکے اجلاس کو چار چاند لگا دیئے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ قائد اعظم کے اس خطاب کے بعد ایسا انقلاب برپا ہوا کہ پنجاب بھر کی رائے عامہ ملک خضر حیات خان اور ان کی پارٹی کے خلاف ہو گئی۔شہروں اور بڑے بڑے قصبوں میں شدید ردعمل ہوا۔ ہر طرح کے سیاسی دبائو کے باوجودلوگ مسلم لیگ کی طرف مائل ہو نا شروع ہو گئے اور تحریک پاکستان ایک دلچسپ اور فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئی۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ اجلاس سیالکوٹ کے ثمرات کے طور پر صرف ایک ماہ بعد ہی ایک بہت بڑا فیصلہ کرتے ہوئے ملک خضر حیات خان کی مسلم لیگ کی رکنیت ختم کرکے انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ اجلاس سیالکوٹ کے ایک سال کے اندر اندر ہندوستان اور بالخصوص پنجاب کی سیاست یکسر تحریک پاکستان کے حق میں بدل گئی۔ گانگریس سمیت اور تمام مسلم نیشلسٹ جماعتیں جو آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت نہیں سمجھتی تھیں جون 1945 میں شملہ کانفرنس کے دوران قائداعظم کا یہ جرأت مندانہ اعلان کہ اگر یہ لوگ مسلمانوں کے مطالبہ پاکستان کو ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت کا مطالبہ نہیں سمجھتے تو الیکشن کراکے دیکھ لیں،مخالفین پاکستان پر بجلی بن کر گرا اور مخالفین کے تمام ارادے خاک میں ملتے نظر آنے لگے۔
اجلاس سیالکوٹ کی کامیابی کی وجہ سے پاکستان کا قیام عمل میں آنے میں صرف تین سال اور چار ماہ کی مسافت رہ گئی۔ 1945-46 کے عام انتخابات میں بھرپور کامیابی نصیب ہو گئی۔ وہ ضلع سیالکوٹ جہاں1935- 36کے عام انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ ایک سیٹ بھی جیتنے کی پوزیشن میں نہیں تھی اسی ضلع میں 1945-46 کے انتخابات میں چاروں نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ اجلاس سیالکوٹ1944 کے بعد پنجاب مسلم لیگ کا اس نوعیت کا کوئی اور اجلاس منعقد نہ ہوا۔ سیالکوٹ کایہی اجلاس پنجاب کی سیاست کا رخ مسلم لیگ کے حق میں بدلنے کی وجہ بن گیا اور قیام پاکستان کی نوید مسرت لے کر قائدین تحریک کو سرخرو کرکے کامیابی و کامرانی کا سبب بن گیا اور اپنی اہمیت منوا گیا۔ ||
مضمون نگار شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے