29 مارچ 2022 کی شام ایک خبر ملی کہ آج کانگو میں اقوام متحدہ امن مشن میں ڈیوٹی پر مامور پوما ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی افسروں اور جوانوں سمیت 8 اہلکار شہید ہوگئے ۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کا پوما ہیلی کاپٹر نگرانی کے مشن پر تھا۔ پاک ایوی ایشن یونٹ یو این امن مشن کانگو میں 2011 سے تعینات ہے ۔ شہداء میں لیفٹیننٹ کرنل آصف نواز، میجرسعد نعمانی ، معاون پائلٹ میجر فیضان علی، نائب صوبیدار سمیع اللہ خان، حوالدار محمد اسماعیل، کریو چیف محمد جمیل شامل تھے۔ پاکستان نے ہمیشہ عالمی برادری میں ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے ، پاکستان یو این امن مشنز میں فروغ امن کے لیے بڑھ چڑھ کر کردار ادا کر رہا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ میجرسعد نعمانی کا تعلق ایوی ایشن میں جانے سے پہلے آرٹلری کی مایہ ناز یونٹ''دی سنچری سکس''سے تھا ۔ میں نے1994 میں اس یونٹ میں کمیشن لیا تھا۔پاکستان آرمی میں پیرنٹ یونٹ کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہوتا ہے جوکہ دوران سروس، بعد از سروس اور بعد از حیات بھی قائم رہتا ہے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ2010 میں ہمیں لائبیریا میں اقوام متحدہ کے امن دستے میں خدمات سر انجام دینے کا موقع ملا ہے۔اور ہمیں معلوم ہے کہ وطن سے ہزاروں کلومیٹر دور کیسے اپنوں کی یاد ستاتی ہے اور نامساعد حالات اور مقامات پر بھی امن مشن کے لیے پاکستانی دستے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔
خانہ جنگی کے شکار ممالک میں دیر پا امن کا قیام اقوام متحدہ کے امن مشنز کا سب سے بڑا مقصد ہو تا ہے ۔امن مشن میں شامل فوجی اورمختلف ممالک کے سویلینز جنگ کے بعد کسی ملک یا خطے میں سابقہ جنگجوئوں کے ساتھ مل کر طے پانے والے امن معاہدوں پر عملدرآمد کی نگرانی کرتے ہیں۔امن مشنز،اعتماد کی بحالی ،اختیارات کی تقسیم ، انتخابی عمل کی حمایت ، قانون کی حکمرانی کے علاوہ معاشی و معاشرتی ترقی کے لیے کسی ملک کی مدد کرتے ہیں اور رنگ،نسل،جنس، علاقہ اور مذہب کی بنیاد سے بالاتر ہو کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ان ممالک میں یوم پاکستان اور پاکستان کے دوسرے اہم قومی دنوں کی تقریبات بہت جوش و خروش سے منائی جاتی ہیںاور میڈل ڈے پیریڈ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ہردور میں امن کے خواہاں عالمی رہنمائوں اور اقوام متحدہ کی طرف سے افواج پاکستان کی خدمات اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا جانا پاکستان کی عالمی امن اور سلامتی کی خاطر کی گئی عملی کوششوں کا واضح اعتراف ہے۔ تاریخ کے تناظر میں دیکھاجائے تو بین الاقوامی امن و سلامتی کو فروغ دینے کے لیے اقوام متحدہ کے امن مشن کے ساتھ ہمارا دیرینہ تعلق ہے جوقائداعظم محمد علی جناح جیسی قدآور شخصیت سے جڑا ہوا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح اقوام متحدہ کے میثاق کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے پوری دنیا کی اقوام کے مابین امن اور خوشحالی کے فروغ میں بھر پور تعاون کرنے کے خواہاں تھے ۔ آج پاکستان کی سکیورٹی فو رسز بھی بانیٔ پاکستان کے اسی خواب کو عملی تعبیر دینے کے لیے پوری دنیامیں قیام امن کے لیے بھرپور کردار ادا کررہی ہیں۔
اقوام متحدہ امن مشنز
اقوام متحدہ کا قیام 24اکتوبر 1945 کو عمل میں آیا جس کا مقصد عالمی سطح پر امن کا قیام ، مختلف خطوں میں انسانی ہمدردی کے حوالے سے معاونت اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل تشکیل دے کر عملی اقدامات کرنا ہے۔ امن کوششوں کے حوالے سے اقوام متحدہ نے سب سے پہلے1948 میں فلسطین اور کشمیر کے مشنز سے آغازکیا تاہم اسرائیلی اور بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث دونوں خطوں میں 74برس گزرنے کے باوجود امن کا قیام ممکن نہ بنایا جا سکا اور آج بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر یہ دونوں طویل ترین مشنز بدستور حل طلب ہیں۔آزاد کشمیر میں سروس کے دوران اکثر اقوام متحدہ کے مبصرین کی گاڑیاں نظر آتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی امن کوششوں کے لیے دنیا بھر میں جاری مختلف امن مشنز میں 31 دسمبر 2021 تک 4173،اہلکار قیام امن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔قیام امن کے مشنز میں آج بھی دنیا کے125ممالک کے90 ہزار اہلکار سرگرم عمل ہیں جن میں 8 فیصد تعداد خواتین اہلکاروں کی ہے۔ پاکستان کے امن دستے جن میں خواتین اہلکار بھی شامل ہیں، عالمی امن فورس کا حصہ ہیں۔
دنیا میں امن کا قیام پاکستان کی ہمیشہ اولین ترجیح ہے اسی لیے پاکستان اپنی مسلح افواج کے ذریعے اقوام متحدہ کے امن مشنز میں حصہ لینے والا چھٹا بڑا ملک ہے۔ پاکستان کو اقوام متحدہ کی امن کوششوں میں معاونت کے حوالے سے 62برس گزر چکے ہیں اور پاکستان 6دہائیوں سے قیام امن کے لیے عالمی کوششوں کا حصہ رہا ہے ۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی امن کوششوں میں معاونت کا آغازاگست 1960میںکیا تھا ۔ علاوہ ازیں اس میں پاکستان نے نیوگینی، نمیبیا، کویت، سریا لیون ،ہیٹی،دارفور سمیت بعض دیگر ممالک میں امن دستے بھیجے جو قیام امن کی کوششوں میں سرگرم عمل رہے۔ بوسنیا میں بھی پاکستان نے قیام امن کی کوششوں میں بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے بہترین خدمات انجام دیں۔
یاد رہے کہ افواجِ پاکستان کے امن دستے دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی تعینات رہے، ان کی کارکردگی انتہائی نامساعد حالات میں بھی بہترین رہی ہے۔ پاکستانی امن دستے نہ صرف وہاں امن ِ عامہ کی بحالی کے لیے کام کرتے ہیں بلکہ وہاں کے غریب شہریوں اور مہاجرین کے لیے میڈیکل کیمپس کے ذریعے انہیں طبی سہولیات اور مفت ادویات بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ اسی طرح پاکستانی امن دستے ضرورت مند شہریوں میں راشن کی تقسیم بھی یقینی بناتے ہیں اور یہ سب ہماری افواج کے دستے اپنے ذرائع سے کررہے ہوتے ہیں۔ پاک فوج کے امن دستے مختلف ممالک میں تعلیمی پراجیکٹس بھی چلاتے ہیں۔ ان پراجیکٹس کے تحت مقامی بچوں کو نہ صرف تعلیم کی روشنی سے بہرہ ور کیا جاتا ہے بلکہ انہیں کتابوں اور سٹیشنری کی مفت فراہمی بھی یقینی بنائی جاتی ہے۔
عالمی امن اور پاکستان کی خدمات
عساکر پاکستان ہرمشکل گھڑی میں نہ صرف پاکستانی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے بلکہ انہوں نے شورش زدہ ممالک میں بھی قیام امن کے لئے اہم کردار ادا کیا۔ ہمارے سکیورٹی اہلکار اقوام متحدہ کا نشانِ امن ''بلیو ہیلمٹ'' اپنے سروں پر سجائے مختلف جنگ زدہ علاقوں میں امن و سلامتی کا کٹھن سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ان قربانیوں کی وجہ سے عالمی برداری کی قیادت اور شورش زدہ علاقوں کے عوام افواج پاکستان کو نہایت عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا :''پاکستان 28 ممالک میں46 اقوام متحدہ مشنز میں حصہ لے چکاہے اور160 سے زائد پاکستانی پیس کیپرز عالمی امن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ اب تک دو لاکھ پاکستانی فوجی اقوام متحدہ کے امن مشنزمیں حصہ لے چکے ہیں۔ ''امریکی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز بھی پاکستانی خواتین سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اورانہوں نے پاکستانی خواتین کے امن کردار کو سراہتے ہوئے کہا :''پاکستانی خواتین کا کردار نہایت متاثر کن ہے اور امن کے لیے ان کی خدمات کلیدی ہیں۔ پاکستان کانگو میں خواتین دستے تعینات کرنے والا پہلا ملک ہے۔''یاد رہے کہ گزشتہ سال کانگومیں پاکستانی خواتین پر مشتمل امن فوجیوں کے پندرہ رکنی دستے کو بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر اقوام متحدہ کی طرف سے میڈل سے نوازا گیا تھا۔اس ٹیم میں ماہر نفسیات،ڈاکٹرز، نرسز،انفارمیشن آفیسر سمیت دیگر افسران شامل تھیں۔
ہمارے یہ فوجی دستے انسانی ہمدردی کاجذبہ رکھتے ہوئے جنگ زدہ علاقوں میں امن کو برقرار رکھتے ہیں۔پاکستان گزشتہ کئی سال میں مستقل طور پر تعاون کرنے والے ممالک میں بڑا اور مؤثر ملک ہے۔ ہمارے جوانوں نے جنگ زدہ علاقوں کو معمول پر لانے، امن وامان برقرار رکھنے اور انتخابات کی نگرانی کے ذریعے سیاسی تقسیم اور اقتدار کی کامیاب منتقلی کو یقینی بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
اقوام متحدہ میں خدمات سرانجام دینے والے ہمارے فوجی دستوں نے کشیدگی کا شکار ممالک میں مقامی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت سمیت پرامن انتخابات کے انعقاد، باغیوں کو غیر مسلح کرنے ، بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے کے آپریشن اور شہریوں کے تحفظ میں بھی میزبان حکام کی مددبھی کی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں پاک فوج کا کردار
ایسے ممالک اور خطے جہاں خانہ جنگی، دیگر ممالک کی دست برد اور دراندازی یا دہشت گردی سمیت دیگر مسائل کے باعث امن و امان تباہ ہوجاتا ہے، وہاں اقوامِ متحدہ اپنے امن مشنز بھیجتا ہے جن میں پاک فوج سمیت دیگر ممالک کے فوجی شریک ہوتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امن مشنز کے دوران پاک فوج سمیت کسی بھی ملک کے کسی اہلکار کو اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، تاہم امن مشنز کا اصل کام امن کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے شہریوں کی مدد کرنا ہے۔
بظاہر یہ سب کچھ خاص طور پر فوج جیسے ادارے کے لیے ایک دردِ سر دکھائی دیتا ہے کیونکہ عام طور پر فوجیوں کو ہتھیار چلانے اور دشمن سے لڑنے کی تربیت دی جاتی ہے، لیکن امن مشنز میں فوج کا کردار مختلف ہوتا ہے۔ فوجی ہتھیاروں کے استعمال کے بجائے عوام کی مدد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔زیادہ تر صورتوں میں طاقت کے استعمال کی بالکل اجازت نہیں دی جاتی۔ صرف ذاتی دفاع میں اجازت ہوتی ہے۔
ماضی کے امن مشنز
اقوام متحدہ کے قیام سے لے کر اب تک پاکستان نے امن مشنز میں ایک ہراول دستے کا کام کیا ہے اور دنیا کے تمام ممالک میں امن کا پرچم بلند کیا ہے۔کانگو میں اگست 1960 سے لے کر مئی 1964 تک تقریباً 4 سال تک پاک فوج نے 400 سپاہی اور افسران بھیج کر امن مشن میں حصہ لیا جس میں ٹرانسپورٹ یونٹس اور نیم فوجی دستے بھی شامل تھے۔مغربی نیو گنی میں اکتوبر 1962 سے لے کر اپریل 1963 تک بھی پاک فوج کے 1 ہزار 500 جوانوں نے امن مشن میں حصہ لیا۔ نمیبیا میں اپریل 1989 سے لے کر مارچ 1990 تک پاک فوج نے اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے لیے20 عسکری مشاہدین بھیجے۔یہاں بھی پاک فوج کا کردار سراہا گیا۔
ہیٹی میں پاک فوج کے 525 جوانوں نے 1993 سے لے کر 1996 تک تقریبا 3 سال تک امن مشن میں حصہ لیا۔ کمبوڈیا میں بھی مارچ 1992 سے لے کر نومبر 1993 تک پاک فوج کے 1 ہزار 106 جوان امن مشن میں شریک ہوئے ،جن میں عام فوجی، افسران اور سٹاف کے علاوہ بارودی سرنگوں کو صاف کرنے والا عملہ بھی شامل تھا۔
مارچ 1992 سے لے کر فروری 1996 تک بوسنیا ہرزیگووینا میں پاک فوج کے 300 سپاہی شریک ہوئے جن میں سے 6 شہید بھی ہوگئے۔اگلا امن مشن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوا جہاں مارچ 1992 سے لے کر فروری 1996 تک صومالیہ میں پاک فوج کے 7 ہزار 200 اہلکار شریک ہوئے جن میں سے 39 شہید ہوگئے۔
روانڈہ میں اکتوبر 1993 سے لے کر مارچ 1996 تک پاک فوج نے 7 عسکری مشاہدین کو بھیج کر امن مشن میں اہم کردار ادا کیا۔اسی طرح انگولا میں فروری 1995 سے لے کر جون 1997 تک 14 عسکری مشاہدین بھیجے گئے۔
مشرقی سلوانیہ میں مئی 1996 سے لے کر اگست 1997 تک 1 ہزار 14 فوجی اہلکار اور سٹاف کو اقوامِ متحدہ کے امن مشن پر روانہ کیا گیا۔ سیرالیون میں اکتوبر 1999 سے لے کر دسمبر 2005 تک پاک فوج کے 5 ہزار فوجی بھیجے گئے جن میں سے 6 شہید ہو گئے۔
(اقوام متحدہ کے31 دسمبر 2021 کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے 168 افراد نے اقوام متحدہ امن مشن پر شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔)
موجودہ صورتحال
(اقوام متحدہ کے 31 دسمبر 2021 کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے 4000 افراد اقوام متحدہ امن مشن پر تعینات ہیں۔)
آج بھی پاک فوج کانگو،سنٹرل افریقہ، سوڈان،مالی ، دارفور،ویسٹرن سحارا،قبرص اور صومالیہ جیسے افریقی ممالک میں امن مشنز میں حصہ لے رہی ہے جہاں سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں پاک فوج کے سپاہی وطن سے دور خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔ اقوام متحدہ کے امن مشن میں 160 سے زائد افسران اور جوانوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ||
تبصرے