کم وبیش گیارہ صدیاں قبل شہرۂ آفاق مؤرخ البیرونی نے اپنی مشہور و معروف کتاب ''کتاب الہند'' میں لکھا تھا کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان صدیوں تک ایک ساتھ رہنے کے باوجود دو الگ الگ دھاروں کی صورت اپنی اپنی راہ چل رہے ہیں جوکبھی کبھی ایک دوسرے کو چھو تو لیتے ہیں لیکن ایک دوسرے میں مدغم نہیں ہوتے۔ عظیم مؤرخ کے یہ قیمتی الفاظ تاریخ میں رقم ہوگئے۔ صدیاں گزر گئیں لیکن اس حقیقت پر مبنی صورت حال تبدیل نہ ہوسکی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ معاملہ دو مذاہب کے بیچ تھا یعنی ہندومت اور اسلام جس کی بدولت ہندو اور مسلمان اپنی الگ الگ شناخت کو ہمیشہ برقرار رکھتے آئے ہیں۔ یہی دو قومی نظریہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں دیگر بے شمار اقوام کے ساتھ ساتھ دو بڑی قومیں یعنی ہندو اور مسلمان موجود تھے جو قوم کی ہر ہر تعریف کے مطابق الگ الگ قوم قرار پائے۔ یہ نظریہ آج بھی زندہ ہے۔ اس کے اثبات میں دلائل کا انبار موجود ہے۔آئیے اجمالاً جائزہ لیتے ہیں۔
سرسید احمد خان عرصہ دراز تک ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک ہندوستانی قوم کے افراد خیال کرتے رہے لیکن تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب ہندوؤں نے اردو زبان کی مخالفت کی،اردو ہندی تنازعہ نے جنم لیا۔ اس تنازعہ نے سرسید احمد خان کے دل و دماغ پر صدمہ کی سی صورت حال برپا کی جس کے سبب سرسید نے نہ صرف اپنے خیالات مکمل طور پر تبدیل کر لیے بلکہ وہ اولین تاریخی شخصیت ہیں جنہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو الگ الگ قومیں قرار دیا اور اس حوالے سے باقاعدہ انہوں نے انگریز حکمرانوں کے سامنے اس پر اصرار بھی کیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک قوم نہیں بن سکتے کیونکہ ان کے مذاہب اور زندگی گزارنے کے طور طریقے یکسر ایک دوسرے سے مختلف اور جدا جدا ہیں۔ بعد میں رونما ہونے والے واقعات نے سر سید احمد خان کی اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔
سر سید احمد خان کے بعد سید امیر علی اور دیگر اکابرین نے اس نظریے کی بڑی مدلل اور منطقی انداز میں تشریح بھی کی اور وکالت بھی کی۔ اسی لئے 1906ء میں آل انڈیا کانگریس کے مقابل ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا اور یہ نعرہ دیا گیا کہ'مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ' ۔ تاہم ابھی بھی کانگریس نے جو سیاسی لبادہ اوڑھا ہوا تھا اس کا پردہ چاک نہ ہوا تھا۔شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے جب یہ فرمایا کہ 'قوم مذہب سے ہے' تو برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے سیاسی شعور کو نئی جہت بھی ملی اور جِلا بھی۔ خطبۂ الہٰ آباد 1930ء نے مسلمانوں کے لئے واضح نشانِ منزل کا تعین کر دیا۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے 1937ء میں 'یومِ نجات' منا کر مسلمانوں کو واشگاف الفاظ میں سمجھا دیا کہ اب برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کا ہندو اکثریت کے ساتھ رہنا ممکن نہیں رہا۔ یہی بات 1940ء کے منٹو پارک لاہور میں قراردادِ پاکستان پر منتج ہوئی اور پھر بالآخر 14اگست 1947ء کو برصغیر کی تقسیم کے تحت پاکستان اورہندوستان دو الگ الگ مملکتوں کی صورت نقشۂ عالم پر نمودار ہوئے۔ قائدِ اعظم نے کہا کہ ہندوستان کبھی ایک ملک نہیں رہا اور نہ ہی اس کے رہنے والے ایک قوم۔ یہ برصغیر ہے جس میں بہت ساری قومیں بستی ہیں جن میں مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں اور جب کسی نے قائد اعظم سے پاکستان کے قیام کے امکان کے بارے میں سوال کیا تو قائد نے نہایت بلیغ الفاظ میں ایک تاریخی جواب دیا کہ پاکستان تو اسی دن بن گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا شخص اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوا تھا۔
آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم سب ایک آزاد مملکت کے باسی ہیں اور اپنی آزاد زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہماری اپنی حکومت اوراپنی معاشرت ہے۔ تاہم چند عاقبت نا اندیش اور کوتاہ عقل لوگوں کی طرف سے گاہے بہ گاہے یہ تنقید اٹھائی جاتی ہے کہ کیا دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ جی ہاں دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ تاریخ سے نابلد ان لوگوں کی عقلوں پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ جب بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا تو در اصل دو قومی نظریہ دفن ہوگیا۔ وہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی زبان بول رہے ہوتے ہیں۔ اندرا گاندھی نے سقوطِ ڈھاکہ پر جب یہ کہا کہ آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے تو کیا اب بھی دو قومی نظریہ کے زندہ ہونے پر کوئی سوال اٹھایا جا سکتاتھا؟ ہندوؤں کے ملک بھارت نے ایک مسلمان ملک کے وجود کو برداشت نہ کیا اور بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ سازش رچا کر بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموار کی۔
سرسید احمد خان عرصہ دراز تک ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک ہندوستانی قوم کے افراد خیال کرتے رہے لیکن تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب ہندوؤں نے اردو زبان کی مخالفت کی،اردو ہندی تنازعہ نے جنم لیا۔ اس تنازعہ نے سرسید احمد خان کے دل و دماغ پر صدمہ کی سی صورت حال برپا کی جس کے سبب سرسید نے نہ صرف اپنے خیالات مکمل طور پر تبدیل کر لیے بلکہ وہ اولین تاریخی شخصیت ہیں جنہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو الگ الگ قومیں قرار دیا اور اس حوالے سے باقاعدہ انہوں نے انگریز حکمرانوں کے سامنے اس پر اصرار بھی کیا۔
دراصل اسلام اور ہندومت دو مختلف سمتوں میں زندگی گزارنے والی دو قوموں کی صورت میں موجود رہے ہیں۔ مسلمانوں نے 1193ء میں قائم ہونے والی محمد غوری کی غوری سلطنت ، پھر خلجی سلطنت ، تغلق سلطنت ، سعید خان حکومت ، لودھی سلطنت، مغلیہ سلطنت، سوری سلطنت پھر دوبارہ مغلیہ سلطنت یعنی صدیوں تک حکمرانی کرنے کے باوجود کبھی ہندو مذہب یا اس کے ماننے والوں پر جبر کے پہرے نہیں لگائے بلکہ ہمیشہ اسلام کے زریں اصولِ مساوات کا عملی مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد قریباً 90 سال تک برطانوی راج قائم رہا۔ اس کے بعد 1947ء میں تقسیم برصغیر کے تحت پاکستان اور ہندوستان بن گئے۔ہندوستان پر ہندوؤں کی حکومت قائم ہوئی ۔ ابھی اس حکومت کو قائم ہوئے پون صدی کا عرصہ بمشکل گزرا ہے لیکن ہندو مسلمانوں کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے محمود غزنوی اور قطب الدین ایبک سے لے کرتا وقت اپنا علیحدہ تشخص ہمیشہ برقرار رکھا ہے۔ مسلمان ایک مکمل ضابطہ حیات پر مبنی دین، مذہب اور اصول کے حامل تھے اور ہیں۔ اس کے برعکس ہندو مت مذہب محض رسوم و رواج کا ایک مجموعہ ہی ہے۔ وہ ہر اس چیز کو معبود بنا دیتے ہیں جو ان کے نفع و نقصان کا سبب بنے۔ اسلام مسلمانوں کو ایک معبود حقیقی کے سوا کسی کے سامنے جھکنے نہیں دیتا۔ اسلام مساوات کا داعی ہے جس میں کالے کو گورے پر اور عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔ اسلام عزت و بزرگی کا معیار صرف اور صرف تقویٰ اور پرہیز گاری کو قرار دیتا ہے۔
یہاں ہر انسان اپنے اعمال کی بنا ء پر عزت یا ذلت کا حقدار ہے جبکہ ہندو مت میں عزت و ذلت خاندان اور ذات پات کی بڑائی پر ہے۔ چند لوگ جو دو قومی نظریے پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں، وہ بد نصیب گمراہ لوگ ہیں جو تاریخ سے قطعاً ناواقف اور بے بہرہ ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ چو ہدری محمد علی نے پاکستان کے ساتھ ساتھ بنگال میں بانگِ اسلام کے نام سے مسلم مملکت کا منصوبہ پیش کیا تھا اور ابھی بھی ان کا ایک منصوبہ تشنۂ تکمیل ہے یعنی حیدر آباد دکن میں عثمانستان کا قیام ۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں پاکستان سے زیادہ مسلمان رہ گئے تو وہ اپنی غلطی درست کر لیں کہ جب پاکستان بنا تھا تو پاکستان کے مشرقی اور مغربی بازوؤں کی کل آبادی ہندوستان میں رہ جانے مسلمانوں کی تعداد کا دوگنا تھی۔ اب جو لوگ مجبوراً ہجرت نہ کرسکے وہ آج بھی کوئی وہاں اچھی زندگی نہیں گزار رہے۔ وہ لوگ اب بھی ہندوستان میں دو قومی نظریے کے زندہ ہونے کا بین ثبوت ہیں کہ وہ اپنے مذہب اور طرزِ زندگی پر قائم ہیں۔ وہ آج بھی عید میلاد النبی ۖ اور عاشورہ محرم مناتے ہیں۔ دیوالی اور ہولی آج بھی ان کے تہوار نہیں بلکہ ہندوؤں کے تہوار کے طور پر منائے جاتے ہیں۔ ان کے مہینے آج بھی محرم، صفر اور ربیع الاوّل ہیں۔ پوہ، ماگھ اور جیٹ نہیں۔ وہ ان ناموں کو استعمال کرتے تو ہیں لیکن ان کا کیلنڈر ہجری ہے ہندی نہیں۔ مسلمان آج بھی اپنے ملبوسات کی وضع قطع میں ہندوؤں سے مکمل طور پر علیحدہ دکھائی دیں گے۔ ان کی معاشرت ان کے الگ قوم ہونے کا ثبوت فراہم کرے گی۔ مسلمان اپنے مُردوں کو دفناتے ہیں، ہندو جلاتے ہیں۔ مسلمانوں کے روایتی برتن اور ان کے رسم و رواج آج بھی یکسر مختلف ہیں۔ پیدائش ، شادی ، خوشی، غم اور موت ، یعنی ہر ہر طریقہ آج بھی ایک دوسرے سے جدا ہے۔
ماڈرن ازم کے نام پر رسم و رواج کے ملغوبے کو اگرچہ جدید میڈیا سے دیکھ دیکھ کر ہم میں سے کچھ لوگ اسے اپنانے پر تلے ہیں تاہم سنجیدہ حلقوں میں یہ سب کچھ آج بھی ناپسندیدہ ہے۔ جو لوگ قوم کو مذہب سے الگ کر کے اس نظریے کو باطل ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ قوموں کے وجود کی اساس مذہب ہے۔ ورنہ آج اکیسویں صدی میں امریکی صدر مسیحی نہ ہوتا اور اسرائیل میں کبھی کوئی مسلمان صدر بھی ممکن ہوتا۔ محض یہ دلیل کہ بھارت میں کبھی کبھارکوئی مسلمان صدر بن گیا تو اب وہاں دو قومیں نہیں رہتیں، یہ صر ف خیالِ خام ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا مقبوضہ جموں و کشمیر میں پچھلے 75 سال سے جبر و استبداد اور طاغوتی ہتھکنڈوں سے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جاتے؟ کیا پچھلے 900 دن سے زیادہ عرصے سے مسلسل کرفیو کا نفاذ کیا جاتا؟ کیا گجرات، بہار اور احمد آباد جیسے بھارتی شہروں میں مسلمانوں کے خون کی کوئی قیمت نہ ہوتی؟ وہاں مسلمانوں کو ان کے مذہب کی بنا پر شدید سزا دی جاتی ہے۔ گائے کی تقدیس کے لئے اب بھی انہیں مجبور کیا جاتا ہے۔ کیا حال ہی میں بھارت میں حجاب پہننے والی مسلمان طالبات پر پابندیوں کا نفاذ نہیں کیا گیا؟ کرناٹک ریاست میں مسلمان طالبہ مسکان پر جس طرح غنڈی گردی کرکے حجاب سے روکنے کی کوشش کی گئی اور پھر جس طرح عدالتوں پر دبائو ڈالا گیا وہ سب دنیا سے کب پوشیدہ ہے۔اب یہ مکروہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور دیگر متعدد تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی لگا دی گئی ہے جس کے سبب مسلمان طالبات کی تعلیم میں رکاوٹ ڈال کر انہیں ان کے تعلیم تک رسائی کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔یہ سب کچھ ہندو انتہا پسندوں کی دیدہ دلیری کے باعث ہے۔ یہ انتہا پسند ہندو بھارتی برسرِ حکومتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے منشور کے مطابق کام کر رہے ہیں۔
حجاب کسی پکے سچے مسلمان کے لئے انتخاب نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف سے حکم ہے۔ جسے سچے مسلمان صدقِ دل سے بجا لاتے ہیں۔ اگرچہ سکھوں کی پگڑی اور ہندوؤں کے ملبوسات وہاں کی تعلیمی درسگاہوں کے لئے مسئلہ کا سبب نہیں تو محض مسلمان طالبات کا حجاب کرنا کس طرح رکاوٹ بن سکتا ہے۔ بات وہی ہے کہ آج بھی ہندوؤں کے دل میں مسلمانوں کے لیے نفرت موجود ہے ۔ وہ آج بھی مسلمانو ں کے وجود کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ انہیں خوف ہے کہ اسلام کے سنہری اصول کہیں پورے ہندوستان کے نقشے کو تبدیل کرکے نہ رکھ دیں۔ انہیں اسلام کی حقانیت پر مبنی تعلیم و تربیت سے اپنے مکرو سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے ادھورے رہ جانے سے ڈر لگتا ہے۔ اس لئے وہ مسلمانوں کے خلاف کبھی کوئی وار خالی نہیں جانے دیتے۔ وہ انہیں آج بھی زندگی کے ہر میدان میں پیچھے کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے ترقی کی تمام راہیں مسدود کرنے کے درپے ہیں۔ مسلمان ہر طرف سے مایوس ہو کر جب وہاں کی عدالتوں سے انصاف کی توقع لے کر جاتے ہیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہاں کی عدالتیں بھی ہندوتوا نظریے کی پرچارک دکھائی دے رہی ہوتی ہیں۔ لہٰذا دو قومی نظریے کو کوئی فرسودہ ذہن ہی فرسودہ نظریہ قرار دے سکتا ہے۔ کوئی صاحب عقل ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ دو قومی نظریہ آج بھی اتنا ہی جواز رکھتا ہے جتنا سات دہائیوں پہلے رکھتا تھا۔ بنا بریں یہ امر ببانگِ دہل قرار دیا جاسکتا ہے کہ دو قومی نظریہ آج بھی پوری شد ومد کے ساتھ زندہ ہے اور اس میں کوئی دوسری رائے نہیں۔ ||
تبصرے