پاکستان دنیا کے ان 11 بڑے ممالک میں سے ایک ہے جو وسیع و عریض اور زرخیز زرعی رقبے کے مالک ہیں۔ وطن عزیز کی تقریباً40 فیصد افرادی قوت کا پیشہ زراعت ہے ۔ یہاں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام موجود ہے۔ ملک کے طول و عرض میں قدرت کی طرف سے ہمیں ایسی گرم، سرد اور معتدل آب و ہوا نصیب ہوئی ہے جس میں ہر طرح کی فصلیں کامیابی سے کاشت کی جا سکتی ہیں۔ اتنے بڑے زرعی وسائل ہونے کے باوجود پاکستان کو زرعی اجناس درآمد کرنا پڑ رہی ہیں جو کہ لمحہِ فکریہ ہے۔ پاکستان کی زرعی درآمدات سالانہ 8 ارب ڈالر سے تجاوز کر رہی ہیں۔ان درآمدات میں زیادہ تر خوردنی تیل، کپاس، گندم ، چینی ، چائے اور دالیں وغیرہ شامل ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری زرعی درآمدات، پٹرولیم درآمدات کے برابر ہونے کو ہیں تو ان حالات میں زرعی شعبے کی پیداواری صلاحیت پر نظر ڈالنا بالکل فطری بات ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا زرعی شعبہ بانجھ ہو چکا ہے یا پھر زرعی وسائل کے نامناسب استعمال کی وجہ سے ہم زرعی پسماندگی کا شکار ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم قدرت کے دئیے ہوئے بے پناہ زرعی وسائل کو بروئے کار لا کر نہ صرف یہ کہ خود کفیل ہو سکتے ہیں بلکہ زرعی اجناس برآمد بھی کر سکتے ہیں۔
آئیے سب سے پہلے پاکستان کی اہم روائتی فصلوں کا ذکر کرتے ہیں۔ پاکستان میں گندم، کپاس ، گنا اور چاول وغیرہ کی منظور شدہ اقسام کی پیداواری صلاحیت پر بڑی بحث ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں تحقیقی اداروں سے جاری ہونے والی اقسام کم پیداواری صلاحیت کی حامل ہیں۔ ایک آدھ فصل کی حد تک تو یہ بات درست ہو سکتی ہیں لیکن زیادہ تر فصلوں کی اقسام ہمارے ہاں بہترین پیداواری صلاحیت رکھتی ہیں۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ کیا ہمارے کاشتکار ان اقسام کی صلاحیت کو بروئے کار لا رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب نہایت ہوش ربا ہے جس کا مشاہدہ نیچے دئیے گئے جدول میں کیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ آپ ٹیبل میں دیکھ رہے ہیں کہ کپاس کی منظور شدہ اقسام کی پیداواری صلاحیت 40 من فی ایکڑ سے زائد ہے۔ جبکہ ملک کی فی ایکڑ اوسط پیداوار ساڑھے چھ من سے بھی کم ہے۔ایسا نہیں ہے کہ فیلڈ میں یہ قسمیں اچھے نتائج نہیں دے رہیں۔ کاشتکار جانتے ہیں کہ زیادہ تر دیہاتوں کے ترقی پسند کسان ، انہیقسموں کی مدد سے کم و بیش 30 من فی ایکڑ پیداوار حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ سال کپاس کی تقریباً 5 ملین بیلیں درآمد کی ہیں۔ اگر ہماری فی ایکڑ اوسط پیداوار محض 4 من بڑھ جائے تو درآمد صفر ہو جائے گی۔ کپاس کی4 من فی ایکڑ پیداوار بڑھانا ہرگز مشکل نہیں ہے۔ اگر کاشتکار کو جدید پیداواری ٹیکنالوجی کی سمجھ بوجھ ہو ، مارکیٹ میں تصدیق شدہ اور خالص زرعی مداخلات موجود ہوں اور ان زرعی مداخلات کے حصول کے لئے کسان کے پاس مناسب مالی وسائل ہوں تو فی ایکڑ پیداوار اس سے بھی زیادہ بڑھائی جا سکتی ہے۔ یہی صورت حال دیگر اجناس کی بھی ہے۔ تقریباً ساڑھے چار من فی ایکڑ گندم کی پیداوار بڑھنے سے ہم 4 ملین ٹن اضافی گندم حاصل کر سکتے ہیں جس کی قدر کم و بیش 2 ارب ڈالر ہے ۔ چاول ہم پہلے ہی برآمد کر رہے ہیں۔ فی ایکڑ پیداوار بڑھنے سے اضافی زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
تیلدار اجناس (سرسوں، سورج مکھی، سویا بین) کے حوالے سے بات کرنا اس لئے ضروری ہے کہ کم و بیش 4 ارب ڈالر کا قیمتی زر مبادلہ تیلدار اجناس کی سالانہ درآمدات پر خرچ ہو رہا ہے۔ان درآمدات کو تیلدار اجناس کے زیر کاشت رقبے اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کر کے کم کیا جا سکتا ہے۔ زیر کاشت رقبہ بڑھانے کے لئے مخلوط کاشت ایک کامیاب راستہ ہے۔ خصوصاً موسمی مکئی میں سویا بین کی مخلوط کاشت کر کے 8 سے 10 من فی ایکڑ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔پنجاب میں 12 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر موسمی مکئی کاشت ہو رہی ہے۔مخلوط کاشت سے 10 ملین ٹن سویابین حاصل کیا جا سکتا ہے۔سویا بین پاکستان میں نئی متعارف ہونے والی فصل ہے جس پر تحقیق جاری ہے۔ اگر ہم کوئی ایسی ورائٹی تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جسے بہاریہ مکئی میں بھی کاشت کیا جا سکے تو یہ ایک انقلابی قدم ہو گا۔
دالوں کی مخلوط کاشت کے بھی وسیع امکانات موجود ہیں۔ خاص طور پر گنے میں دالوں کی مخلوط کاشت سے دالوں کے زیر کاشت رقبے میں اضافہ کیا جا سکتا ہے جس سے دالوں کی درآمدات میں کمی کی جا سکتی ہے۔موسمی کماد میں مونگ اور ماش جبکہ ستمبر کماد میں چنے اور مسور کی دالیں کامیابی سے کاشت کی جا سکتی ہیں۔
پاکستان میں تقریباً20 ملین ایکڑ قابل کاشت رقبہ غیر آباد ہے جس کی آباد کاری کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ غیر آباد رقبے کو آباد کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ پانی کی عدم دستیابی ہے۔ پانی کا مسئلہ ڈیموں کی تعمیر سے حل کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا راستہ ، آباد رقبے کی ہموار کاری ہے۔ زرعی زمینوں کو ہموار کر کے اوسطاً 50 فیصد تک پانی بچایا جا سکتا ہے۔ ہموار زمینوں سے نہ صرف یہ کہ پانی کی بچت ہو گی بلکہ غیر ہموار زمینوں کی نسبت پیداوار بھی 10 فیصد تک بڑھے گی۔ زمین کی ملچنگ اور بیڈ کاشت سے بھی60 فیصد تک پانی کی بچت کی جا سکتی ہے۔ ڈرپ آبپاشی ایک مہنگا متبادل ہے لیکن اس سے بھی 60 فی صد تک پانی کی بچت کی جا سکتی ہے۔ اگر ہم نئے ڈیم بنا لیں یا کاشت کاری کے ان طریقوں کو اپنا لیں جن سے پانی کی نمایاں بچت ہوتی ہے تو پھر غیر آباد رقبوں کو آباد کرنا آسان ہو جائے گا۔
خیبر پختون خوا میں70 ملین سے زائد زیتون کے جنگلی درخت موجود ہیں جن پر زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کو پیوند کیا جا سکتا ہے۔ اگر مقامی لوگوں کی شمولیت سے ہم پیوند کاری میں کامیاب ہو جائیں تو پاکستان زیتون کا تیل برآمد کرنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔ اس جنگلی زیتون کے علاوہ خیبر پختون خوا ، بلوچستان اور پنجاب میں زیتون کے باغات بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ پنجاب میں خصوصاً پوٹھو ہار کا علاقہ زیتون کی کاشت کے لئے نہائت موزوں قرار دیا جا چکا ہے ۔ پوٹھوہار میں تقریباً ڈیڑھ ملین پودے لگائے جا چکے ہیں اور مزید پودے بھی لگائے جا سکتے ہیں۔
چولستان کا علاقہ انگور کی کاشت کے لئے نہائت موزوں قرار دیا جا چکا ہے، جہاں انگور کی کاشت کی حوصلہ افزائی کر کے ویلیو ایڈیشن کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ صنعتی پیداوار میں اضافہ ہو گا بلکہ جنوبی پنجاب کے مقامی لوگوں کی سالانہ آمدن میں بھی اضافہ ہو گا۔
پاکستان میں زرعی زمینیں اسلامی وراثتی قانون کے تحت نسل در نسل تقسیم ہوتی جا رہی ہیں جس سے فی کس ملکیتی رقبہ کم سے کم تر ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ چھوٹے زرعی یونٹ کو زرعی پیداواریت کے منافی سمجھا جاتا ہے لیکن اس فکر مند صورت حال کو حکمت عملی کے ذریعے سنہری موقعے میں بدلا جا سکتا ہے۔ دیہاتوں میں ویلیو ایڈیشن کو فروغ دے کر چھوٹے کاشت کاروں کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔چین میں فی کس ملکیتی رقبہ دنیامیں سب سے کم ، محض اڑھائی ایکڑ ہے لیکن وہاں ویلیو ایڈیشن کی مدد سے کاشت کاروں کی سالانہ آمدن بڑھائی گئی ہے۔پاکستان میں بھی اس کے وسیع تر امکانات موجود ہیں کیونکہ یہاں دیہی افرادی قوت کی کمی نہیں ہے۔ زراعت میں ویلیو ایڈیشن کو فروغ دے کر کاشت کاروں کو نہ صرف خسارے سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ بے روزگاری پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
کچھ اسی طرح کی صورت حال لائیو سٹاک کے شعبے کی ہے۔پاکستان میں دودھ کی کل پیداوار میں بھینس کے دودھ کا حصہ 62 فیصد ہے۔ نیلی راوی بھینس کی ملکی اوسط پیداوار 2300 لیٹر فی کس فی سووا ہے جبکہ اس کی پیداواری صلاحیت 5000 لیٹر کے لگ بھگ ہے۔ خالص اور اعلیٰ نسل کے جانوروں کی مناسب دیکھ بھال سے دودھ کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ساہیوال گائے کی اوسط پیداوار اور اس کی پیداواری صلاحیت کا فرق بھی بہت زیادہ ہے لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ نیلی راوی اور ساہیوال گائے سمیت تمام دیسی نسلوں کا دودھ A2 کیٹیگری کا ہے جسے A1 کیٹیگری کے مقابلے میں صحت بخش مانا جا رہا ہے۔ یورپ میں A2 دودھ کی طلب میں روز بروز اضافہ ہو نے کی وجہ سے اس کی قیمتوں میں نمایا ں اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ درآمد شدہ نسلوں (ہولسٹن فریژین ، جرسی وغیرہ) کا دودھ A1 کیٹیگری کا ہے جسے مضر صحت قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں نیلی راوی اور ساہیوال گائے کی پیداوار بڑھا کر یورپی ملکوں میں دودھ کی برآمد کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان میں آرگینک گوشت کی سرپلس پیداوار کا ذکر کریں تو شتر مرغ اور خرگوش کا ذکر آنا لازمی ہے۔شتر مرغ ، گائے بھینس کی طرح عام چارے پر پلنے والا ایک ایسا پرندہ ہے جو گائے بھینس کی نسبت تیزی سے افزائش کرتا ہے اور کم چارہ کھا کر کٹوں بچھڑوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ گوشت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا گوشت آرگینک ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کے لئے نہائت موزوں ہے۔ اسے عام جانوروں کی طرح دیہاتوں میں پالا جا سکتا ہے ۔ شتر مرغ کی فارمنگ سے دیہی لوگوں کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔اسی طرح خرگوش بھی انتہائی کم لاگت میں بھیڑ بکریوں کی طرح سبز چارے پر پلنے والا جانور ہے ۔ یہ انتہائی تیزی سے افزائش کرتا ہے اور اس کا گوشت آرگینک ہونے کے ساتھ ساتھ صحت بخش بھی ہے۔ پاکستان میں ایک بڑا طبقہ خرگوش کا گوشت استعمال کر سکتا ہے۔ گوشت کے علاوہ خرگوش کی کھال سے کئی طرح کی مصنوعات تیار ہوتی ہیں جو بین الاقوامی منڈی میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ لہذا خرگوش فارمنگ سے صنعتی خام مال بھی پیدا ہو گا جس کی ویلیو ایڈیشن کر کے صنعتی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح خرگوش فارمنگ سے دیہی علاقوں میں روزگار کے اچھے مواقع تلاش کئے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح فش فارمنگ میں بھی غیر روائتی طریقوں کی مدد سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔خاص طور پر ایسے زرعی علاقے جہاں نہری پانی دستیاب نہیں ہے اور زیر زمین پانی کڑوا ہے، وہاں پر شرمپ فارمنگ کی جا سکتی ہے۔ شرمپ کی بین الاقوامی منڈی میں بہت مانگ ہے جسے درآمد کر کے قیمتی زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔پاکستان میں زیادہ تر رہو مچھلی کی فارمنگ ہو رہی ہے جس کی پیداواری لاگت کافی زیادہ ہے۔ لیکن مچھلیوں کی دو اقسام ،چڑا مچھلی اور گراس کارپ ایسی بھی ہیں جو محض ڈک ویڈ پر پالی جا سکتی ہیں۔ ڈک ویڈ پانی میں نشوونما پانی والی ایک ایسی بوٹی ہے جس کی افزائش تیزی سے ہوتی ہے اور یہ دونوں مچھلیاں اسے نہائت شوق سے کھاتی ہیں۔ ڈک ویڈ پر پلنے والی مچھلیوں کی پیداواری لاگت انتہائی کم ہو گی اور دوسرا ان کا گوشت بھی آرگینک ہو گا لیکن ابتدائی طور پر اس کے لئے تحقیق کی ضرورت ہو گی۔
اس طرح زرعی شعبے میں پاکستان کے پاس بے پناہ صلاحیت ہے جسے چیدہ چیدہ بیان کرنے کی یہاں کوشش کی گئی ہے۔ اس صلاحیت کو بروئے کار لا کر نہ صرف یہ کہ ہم ملکی ضروریات پورا کر سکتے ہیں بلکہ اضافی پیداوار برآمد کر کے خطیر زر مبادلہ بھی کما سکتے ہیں۔ ||
مضمون نگار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔
تبصرے