جنگِ کشمیر1948 میں درپیش ایک اہم جنگی معرکے کے حوالے سے لیفٹیننٹ کرنل رب نواز ستی (ر)کی تحریر
27اکتوبر 1947 کو جب بھارتی فوج ڈکوٹا جہازوں کے ذریعے سری نگر ایئر پورٹ پر اُتار دی گئی اور اس نے کشمیر میں آزاد مجاہدین اور قبائلی لشکر کے خلاف جنگی آپریشن شروع کیا تھا تو قائداعظم نے پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو اپنی فوج کشمیربھیجنے کا حکم دیا تو تو اُس نے لیت و لعل سے کام لیا اور کہا کہ وہ اپنے سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل ، آکنلیک جو اُس وقت بھارت میں رہائش پذیر تھا سے اجازت لے کر یہ کام کرے گا مگر جب قائد نے اُسے دوبارہ سختی سے آخری حکم دیا تو اُس نے بادل نخواستہ فوج کو کشمیرکے محاذپر روانہ تو کردیا لیکن درپردہ سازشوں میں شامل رہا اور پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرتا رہا۔
کشمیر کے محاذ پر جنگ کے دوران معرکۂ تِل پترا بہت مشہور ہوا جہاں کیپٹن سرور شہید ہوئے اور نشانِ حیدر سے نوازے گئے۔ تِل پتراکشمیر میں ایک پہاڑی کا نام ہے جو چکوٹھی اوڑی سیکٹر میں دریائے جہلم کے جنوبی کنارے پرواقع ہے۔ یہ تقریباً 9000فٹ بلند ہے۔ اس سیکٹر میں1948 میں ہمارا ایک ہی بریگیڈ تھا جس کی ذمہ داری کا علاقہ قریباً100 میل کا وسیع محاذ تھا۔ چکوٹھی اور اس کے شمال اورجنوب میںہماری صرف دو انفنٹری بٹالین دشمن کے دو بریگیڈز اور ایک آرمر سکواڈرن کے مدِ مقابل تھیں۔ تل پترا پہاڑی کی پچھلی طرف بھارت نے اُوڑی عروسہ سے پیر کنٹھی( بلندی10924فٹ) تک ایک سڑک بنائی ہوئی تھی۔ پیر کنٹھی اس سیکٹر میں دریائے جہلم کے جنوب میں سب سے بلند مقام تھا جس پر ہوتے ہوئے دشمن کو تدبیراتی لحاظ سے برتری حاصل تھی اور اُس کی ہماری نیچے والی پوزیشنوں پر ہر وقت نظر تھی۔ اس لئے تل پترا کی چوٹی پر قبضہ پاکستان کے لئے بہت ضروری تھا۔ اس سے پہلے 17 جولائی1948 کو اس چوٹی کو حاصل کرنے کے لئے حملہ کیاگیا تھاجو کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکا۔ لیکن جولائی کے تیسرے ہفتے میں پانڈو(بلندی9178فٹ) کی چوٹی پر پاکستان نے قبضہ کرلیا تھا جو دریائے جہلم کے شمال میں چکوٹھی کے بالکل سامنے واقع ہے۔ یہ تدبیراتی لحاظ سے ہماری ایک بڑی کامیابی تھی اور اس کی وجہ سے اوڑی ( جو اب بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہے) سے چنار ی اور ہٹیاں (جو آزاد کشمیر میں ہیں) تک کے علاقے براہِ راست ہماری اَبزرویشن میں آگئے تھے۔
پانڈو چوٹی کی فتح کی وجہ سے اوڑی سے چکوٹھی تک دشمن کی تمام پوزیشن ہماری فوج کی براہِ راست نگاہ میں آگئیں اور دشمن نے 24اور25 جولائی1948 کی رات کو اس علاقے سے اپنی تمام سپاہ اور توپ خانے کی ایک گن پوزیشن جو اوڑی سے دو میل ہماری طرف تھی،سب خالی کردیں۔ بریگیڈیئر اکبر خان جو101 بریگیڈ کے کمانڈر تھے، نے حکم دیا کہ 2/1 پنجاب تل پترا پر حملہ کرے اور دشمن کی لائن آف کمیونیکیشن کو کاٹ دے جو اوڑی سے پیر کنٹھی کو ملاتی ہے۔
2/1پنجاب کو اس حملے کے لئے کچھ لشکری (قبائلی) 3 باغ بٹالین ( آزاد کشمیر کی اُس وقت کی نیم فوجی فورس) اور2/13 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی ایک کمپنی دی گئی تھی۔4 مائنٹین بیٹری کی ایک سیکشن اور2/13ایف ایف کی مارٹریں بھی فائر سپورٹ کے لئے انہیں دی گئی تھیں۔انڈین آرمی نے تل پترا کی بلند چوٹی کو ایک مضبوط دفاعی پوزیشن میں تبدیل کردیا تھا جس میں مشین گنیں نصب کی گئی تھیںاور اس کے لئے تین اطراف میں خاردار تار یں اور بارودی سرنگیں بھی بچھا دی گئی تھیں۔ اس حملے کے لئے کیپٹن محمدسرور نے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کیا جو اُس وقت بٹالین کی ڈیفنس پلاٹون کے کمانڈر تھے (بطور یونٹ سگنل آفیسر) حملے کے لئے ڈیفنس پلاٹون کے علاوہ آزاد کشمیر باغ بٹالین کی ایک کمپنی دی گئی تھی اور 2/1 پنجاب کی ایک کمپنی ریزرو رکھی گئی تھی۔ حملہ26/27 جولائی رات کے ساڑھے تین بجے شروع ہوا۔ آگے والے جانباز دستے کیپٹن سرور کی قیادت میں دشمن سے تقریباً 50/60 گز تک پہنچ گئے۔ یہ سب نیچے سے اوپر کی طرف تقریباً عمودی چڑھائی چڑھ رہے تھے۔ جب یہ دشمن کی خاردار تاروں کے نزدیک پہنچے اور اُن کو کاٹنا شروع کیا تودشمن کی طرف سے زبردست آٹومیٹک فائر اور گرینیڈز کا جوابی فائر شروع ہوگیا جو ایک بوچھاڑکی صورت میں تھا۔ ساتھ ہی دشمن نے توپ خانے کا فائر بھی شروع کردیا جس سے ہمارے مجاہد شہید اور زخمی ہونا شروع ہوگئے۔ اس صورت حال میں کیپٹن سرور نے ریزرو کمپنی کو بھی آگے بلالیا اور دشمن پر ایک سائیڈ (Flank) سے حملہ بھی جاری رکھا۔جب وہ دشمن سے صرف20/25 گز دور رہ گئے تو اُن پر انکشاف ہوا کہ دشمن کے مورچوں کے بالکل ساتھ اور سامنے خار دار تاروں کی ایک اور لائن موجود ہے۔ بوچھاڑ جیسی فائرنگ اور خاردار تاروں کی موجود گی سے بے نیاز انہوں نے حملہ پورے زور و شور سے جاری رکھا اور اپنے سامنے موجود مشین گن کے مورچے کو گرینیڈ کے حملے سے تباہ کردیا۔اسی اثناء میں اُن کے ساتھ موجود برین گنر فرمان علی پر اُن کی نظر پڑی جو شہید ہوچکا تھا۔ کیپٹن سرور نے فوراً اس کی برین گن سنبھالی اور دشمن کے بنکرز پر فائرنگ شروع کردی۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں ایک گولی اُن کے دائیں کندھے پر لگی جس سے وہ زخمی ہوگئے۔ اپنے 6 آدمیوں کو انہوں نے بلالیا تاکہ وہ دشمن پر فائر جاری رکھیں اور ساتھ ہی انہیں کوردیں جس کی آڑ میں انہوں نے تاروں کی آخری باڑ کاٹی اور آگے بڑھنے کا راستہ بنایا۔ اسی اثنا میں دشمن کی ایک مشین گن کا برسٹ اُن کے سینے میں لگا اور اﷲ اکبر کے الفاظ ادا کرتے ہوئے رب کے حضور لبیک کہہ دیا اور وہیں شہادت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوگئے۔ یہ معرکہ کیپٹن سرور شہید کی بہادری، حوصلے ، جرأت ثابت قدمی اور قائدانہ صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت تھا جو انہوں نے اپنی ذات سے بلند ہو کر سرانجام دیا۔
صلۂ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ
اپنے کمانڈر کو شہید ہوتے دیکھ کر جوانوں پر دیوانگی سی طاری ہوگئی اور اس سے ان کو ایک نیا حوصلہ ملا اور وہ جسم و جاں سیبے پروا ہوکر نعرئہ تکبیر بلند کرتے ہوئے آگے بڑھے اور دشمن پر ٹوٹ پڑے ۔ انہوں نے انتہائی کوشش اور جذبۂ سرفروشی سے دشمن کی دفاعی پوزیشن میں گھسنے کی جدوجہد کی جس کے سامنے خاردار تاریں اور بارودی سرنگیں لگی ہوئی تھیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے دشمن پر ہینڈ گرینیڈ پھینکنے شروع کیے مگر دشمن نقصان کے باوجود طلوعِ سحر سے کچھ دیر پہلے تک اپنے دفاعی مورچوں میں رہا۔ ہمارے جو سپاہی شہید اور زخمی ہوگئے تھے وہ دشمن کے سامنے 25,30 گز کے فاصلے پر پڑے ہوئے تھے۔ خدشہ تھا کہ اگر انہیں ادھر ہی چھوڑ دیا گیا تو صبح ہوتے ہی دشمن یا توزخمیوں کو شہید کردے گا یا جنگی قیدی بنالے گا۔اس صورت حال کے پیش نظر جمعدارچوہدری خان اپنے طور پراپنی پلاٹون، جو کیپٹن سرور شہید کو کورنگ فائر دے رہی تھی،کو استعمال کرتے ہوئے اپنے زخمیوں اور باقی شہداء کو اٹھا کر پیچھے محفوظ جگہ پر لے گئے۔ اس تمام کارروائی کے دوران وہ خود اور اُن کی پلاٹون کے دو جوان بھی شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے۔ ہماری انٹیلی جنس کی رپورٹ کے مطابق دشمن کے40 فوجی مارے گئے لیکن بعد میں مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس معرکے میں دشمن کے105 فوجی مارے گئے تھے۔ زخمی اس کے علاوہ ہیں۔
معرکہ تل پترا نے2/1 پنجاب رجمنٹ کی شاندار تاریخ میں ایک اور سنہرے باب کا اضافہ کیا اور کیپٹن محمد سرور شہید نے نہایت مشکل اور خطرناک حالات میں دشمن کاسامنا کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ اپنی جان قربان کردی اور مملکت کے سب سے بڑے اعزاز نشانِ حیدر کو حاصل کیا۔اس اعزاز کو پانے والے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس نے اپنا کارنامہ Beyond the Call of Duty یعنی فرائض منصبی کے تقاضوں سے کہیں بڑھ کر سرانجام دیا ہو۔ یہاں تک کہ ایسا کرتے ہوئے اپنی زندگی تک کو دائو پر لگادیا۔کسی انسان کی یہ قربانی کی انتہا ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کردے۔ زندگی کسے پیاری نہیں ہوتی۔ یہ کہنا تو آسان ہے کہ ہم اپنی جان تک قربان کردیں گے لیکن جو جان قربان کرتے ہیں انہیں یہ بخوبی علم ہوتا ہے کہ یہ سودا تو صرف ایک بار چکایا جاتا ہے۔ زندگی دوبارہ نہیں ملتی لیکن یہ تو ایک انسانی سوچ ہے ورنہ قرآن ِ کریم تو کہتا ہے، ''تم انہیں مردہ نہ کہو یہ تو زندہ ہیں۔۔۔۔ مگر اس طرح کہ تمہیں معلوم نہیں۔''
کیپٹن سرور شہید اگرچہ26/27جولائی1948 کی رات کو اپنا مشن مکمل کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے لیکن اُن کو سرکاری طور پر نشانِ حیدر کا اعزاز 23 مارچ1956کو پاکستان کے جمہوریہ بننے پر ایک خاص قومی اعلان کے تحت دیاگیا تھا۔ اُن کی بیوہ نے27 اکتوبر1957 کو فیلڈ مارشل محمدایوب خان صدرِ پاکستان سے ایک تقریب میں نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ اس موقع پر صدرِ پاکستان نے ان الفاظ میں مرحوم شہید کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔
'' ہماری بہادر افواج نے ہمیشہ بے مثال کارنامے سرانجام دیئے ہیں اور کیپٹن سرور شہید نے اس روایت کے عین مطابق اپنے فرائض کی ادائیگی میں وطنِ عزیز کے لئے جان قربان کرکے قربانی کی عظیم مثال پیش کی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم شہید کی اس قربانی سے وطن کی محبت اور وطن کی خدمت کا درس سیکھیں۔''
سرخاک شہید لے برگ ہائے لالہ می پاشم
کہ خونش بانہال ملت ماساز گار آمد ||
تبصرے