وادی لیپا آزادکشمیر میں واقع ہے جو مظفر آباد سے تقریباً 70کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہاں پہنچنے کے لئے دریائے جہلم کی نیلی (Naili) تحصیل ہٹیاں کے مقام سے عبور کر کے جایا جاتا ہے۔ وادی لیپا لمبائی میں تقریباً 13/14کلومیٹر اور چوڑائی میں ایک کلو میٹر ہے۔ اس کے مشرق اور شمال میں کافر خان اور شمسا بری کے پہاڑ ہیں جن کی اونچائی 11ہزار سے 14 ہزار فٹ ہے۔ وادی کے جنوب میں بھی کافر خان پہاڑ کا سلسلہ ہے جس کو عبور کر کے وادی میں پہنچا جاتا ہے۔ اس کی اوسط اونچائی 11ہزار فٹ اور وادی کی اوسط اونچائی ساڑھے چھہ ہزار فٹ ہے۔ معرکۂ لیپا اُس یادگار حملے کی یاد دلاتا ہے جب مئی 1972 میں آزادکشمیر فوسز کے جوانوں نے لیپا کے محاذ پر9ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ایسے پہاڑ' جس کی ڈھلان تقریباً عمودی تھی' پر چڑھ کر دشمن کی دو کمپنیوں پر حملہ کیا تھا اور پورا پہاڑ اُن سے چھینا جو پہاڑ کی بلندی پر بنکروں میں مورچہ بند تھے۔
فن حرب و ضرب کے ماہرین اور جنگی مبصروں کی نگاہ میں یہ کامیابی ایک معجزہ تھا۔ پاکستانی عوام کے لئے یہ معرکہ اور اس میں کامیابی اس لئے بھی بہت اہم تھی کہ پوری قوم کے دلوں میں سقوط مشرقی پاکستان اور فائربندی نے شکست خوردگی کا انتہائی تلخ احساس اور افسردگی پیدا کر دی تھی۔ فوج نے عوام پر یہ ثابت کر دیا کہ شکست کی وجہ کچھ اور ہو سکتی ہے۔ ابھی بھی ہماری فوج ایک اور دس کے مقابلے میں پورا اتر سکتی ہے۔ لیپا کے معرکے نے قوم کے ضمیر سے بہت سا بوجھ اتار دیا اور قوم فخر سے سربلند کر کے کہہ سکتی ہے کہ ہماری فوج زندہ و پائندہ ہے۔
3 دسمبر 1971کی شام لیپا وادی کے مغربی حصے پر ہماری ایک پوسٹ شیشہ لدی پر ٹیٹوال کی سمت سے تقریباً ایک بٹالین سے حملہ کیا گیا تھا۔ جسے صرف ایک کمپنی نے روکا۔ کمپنی کمانڈر میجر عزیز شہید ہو گئے اور اسی معرکے میں آرٹلری کے دیدبان لیفٹیننٹ طارق محمود کو ستارہ جرأت ملا۔ جس نے کمپنی کمانڈر کی شہادت کے بعد معرکے کو آگے بڑھایا اور پوسٹ کو دشمن کے ہاتھ نہ لگنے دیا۔ دشمن نے دوسرا حملہ وادی کے مشرق میں توت مارگلی کے راستے کیاجہاں ہمارے سکائوٹس تھے جن کی نفری بھی کم تھی اور سامان حرب و ضرب اس سے بھی کم۔ چنانچہ دشمن حملے میں کامیاب رہا اور وادی کے کچھ حصے پر قبضہ کر لیا۔ 7دسمبر کو آزادکشمیر کی ایک رجمنٹ نے جوابی کارروائی شروع کی اور دشمن کو مزید آگے بڑھنے سے روک دیا۔ جب 16 دسمبر 71کو فائربندی ہوئی تو ہماری ایک کمپنی بیرووالی ناڑ پر دشمن کے گھیرے میںرہ گئی۔ جس کے تین طرف دشمن تھا اور صرف ایک نالے کے راستے اس کا رابطہ اپنی فوج کے ساتھ تھا اور یہ راستہ بھی دو طرف سے دشمن کے فائر کی زد میں تھا۔ فائربندی کی رات وادی کے شمال مغرب میں ہمارے دستوں نے آگے بڑھ کر بھارتی مقبوضہ علاقے کے دو پہاڑوں گٹی پترا اور گرسی ڈنہ پر قبضہ کر لیا جسے جموہابلج کہتے ہیں۔ اس بلج پر قبضے سے دشمن کا یہ نقصان ہوا کہ اس کا جو بریگیڈلیپا وادی میں تھا دوسرے بریگیڈوں سے کٹ گیا اور خود وادی میں اس کی اپنی یونٹس بھی ایک دوسرے سے کٹ گئیں اور اس کی سپلائی کا مختصر راستہ اور ٹیلی فون کا مواصلاتی رابطہ بھی کٹ گیا۔
اپریل1972کے اوائل میں دشمن نے ہمارے کمانڈروں سے کہا کہ انہیں جمہوہا بلج سے ایمونیشن اور ٹیلی فون تار گزارنے کی اجازت دی جائے ظاہر ہے یہ اجازت اسے نہ دی گئی۔ دشمن اپنی ذہنیت کے مطابق اوچھی حرکت پر اتر آیا اور 27اپریل کو بھارتیوں نے جموہا بلج پر توپ خانے کی شدید گولہ باری کی اور پوری قوت سے گرسی ڈنہ اور گٹی پترا پر حملہ کر دیا۔ ہماری صرف دو پلاٹونوں نے نہ صرف دشمن کی گولہ باری کا سامنا کیا بلکہ اس کا یہ حملہ پسپا کر دیا۔ دشمن اپنی ایک سو بیس لاشیں چھوڑ کر بھاگ گیا ان میں سے زیادہ تر لاشیں کافی عرصہ برف میں دبی رہیں۔ دشمن نے اس حملے سے بڑھ کر ایک اور کم ظرفی کی کہ ہماری جو پوسٹ بیرووالی ناڑ پر دشمن کے گھیرے میں تھی 27اپریل کی شکست کے بعد اس کی سپلائی کا راستہ بند کر دیا۔ 29اپریل 72کو دونوں اطراف کے مقامی کمانڈروں کی میٹنگ ہوئی۔ بھارتی کرنل چنگیاپا نے اپنا پرانا مطالبہ دہرایا کہ جموہا بلج سے سپلائی گزارنے کا راستہ دیا جائے اور دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ دوسری صورت میں وہ بیرووالی ناڑ کی سپلائی لائن بالکل بند کر دے گا۔ حالانکہ 17دسمبر 71سے یہ سپلائی جاری تھی۔ کرنل حق نواز کیانی نے کہا کہ وہ اپنے سینئر کمانڈر سے بات کریں گے۔ کرنل کیانی کے کہنے پر دشمن نے یہ رعایت دی کہ راشن بھجوایا جا سکتا ہے۔ لیکن ایمونیشن نہیں جا سکتا۔ راشن تو جانے لگا لیکن دشمن نے اوپر جانے والے راستے پر اپنی چیک پوسٹ بنا لی اور خچروں پر لدے ہوئے سامان کی تلاشی کے بہانے بہت زیادہ تنگ کرنے لگے۔ دو دن بعد دیکھا گیا کہ دشمن کے علاقے میں آنے والے واحد راستے توت مارگلی سے دشمن کی ایک بٹالین اتر کر نیچے وادی میں آ رہی ہے۔ اس سے دشمن کے عزائم کا اندازہ ہو گیا کہ وہ وادی میںیقینا جنگی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے۔
3 مئی 72کو مقامی کمانڈروں کی ایک اور میٹنگ ہوئی کرنل چنگیاپا نے کہا کہ اس کے بریگیڈ کمانڈر نے کہا ہے کہ آزادکشمیر فورس بیرووالی ناڑ والی پوسٹ خالی کر دے یا جموہا بلج والی پوزیشن چھوڑ دے۔ ورنہ بیرووالی ناڑ کی سپلائی کا راستہ نہیں کھولا جائے گا۔ کرنل حق نواز کیانی دشمن کی نیت کو بھانپ گئے کہ دشمن انہیں چیلنج کر رہا ہے۔ انہوں نے کرنل چنگیاپا سے کہا کہ ہم خود راستہ کھول لیں گے۔کرنل چنگیاپا نے کہا میری طرف سے فائر میں پہل نہیں ہو گی۔ اس ہندو کرنل کی یقین دہانی ایک فریب تھا۔ اسی رات دشمن نے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے لیپا وادی میں تمام اگلی پوسٹوں پر توپ خانے کی شدید گولہ باری شروع کر دی۔ اگلی صبح 4بجے دشمن نے 4مہار رجمنٹ سے بیرووالی ناڑ پر حملہ کر دیا۔ حملے کی رات وہاں کیپٹن جاوید انور کمپنی کمانڈر تھے۔ کیپٹن جاوید کی قیادت اور حاضر دماغی اور جوانوں کی حوصلہ مندی نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد دشمن کا حملہ پسپا کر دیا۔ دشمن کا کمپنی کمانڈر میجر گنگولی مارا گیا۔ اپنے پانچ جوان شہید تین زخمی اور ایک قیدی ہوا۔ دوسرے دن بھی دشمن نے گولہ باری جاری رکھی۔ اس پوسٹ کو دشمن نے پوری طرح سربمہر کر رکھا تھا۔ نہ زخمیوں کو پیچھے لایا جا سکتا تھا نہ لاشوں کو۔ ایمونیشن بھی خطرناک حد تک کم ہو گیا تھا۔ خطرہ تھا کہ دشمن کی ایک بٹالین جو توت مارگلی سے وادی میں آتے ہوئے دیکھی گئی تھی رات کو بیرووالی ناڑ پر حملہ کرے گی۔
کرنل کیانی نے اس ساری صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے جوابی کارروائی کا پلان تیار کر لیا اور بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیئر ملک عطا محمد کو رپورٹ دی۔ کارروائی کے لئے 4-5مئی 1972کی درمیانی شب ڈھائی بجے کا وقت مقرر کیا گیا۔ پلان کی رسمی منظوری جی او سی جنرل عبدالمجید ملک نے دی' جنہوں نے ہیلی کاپٹر سے جنگ والی جگہ کا مشاہدہ کیا اور کرنل کیانی کو کارروائی کا حکم دیا۔ وہاں کوئی ریزرو نفری نہیں تھی۔ حملے کے لئے سپاہ ڈیپلائیڈ کمپنیوں سے ہی لینی تھی۔ مختلف کمپنیوں سے ایک ایک پلاٹون لے کر حملے کے لئے کمپنی بنائی گئی۔ جس کے کمانڈر میجر یار افضل آفریدی تھے۔ حملہ آور فورس کے کمانڈر میجر محمد صابر تھے۔ اس وقت وادی میں اپنا توپ خانہ بہت کم تعداد میں تھا۔ صرف 4عدد مائونٹین گنز تھیں اور 3مارٹر گنیں(120ملی میٹر دہانے والی) چک پترا نامی پہاڑ' جس پر حملہ کرنا تھا' کی اونچی چوٹی اور ڈھلان پر 9سکھ رجمنٹ کی دو کمپنیاں مورچہ بند تھیں۔ دشمن کی نفری بھی زیادہ تھی اور توپ خانہ بھی بہت مضبوط تھا۔ اس پر مستزاد پہاڑ کی بلندی اور عمودی ساخت تھی۔ نیچے نالے کے کنارے سے (جہاں سے اپنے دستوں نے چڑھنا تھا) چوٹی تک بلندی ساڑھے چار ہزار فٹ تھی۔ یہ دشمن سے لینے کے بعد ہماری گھیرے میں آئی ہوئی بیرووالی ناڑوالی پوسٹ محفوظ ہو سکتی تھی اور اس کے ساتھ براہ راست ملاپ ہو سکتا تھا۔ شام 6بجے کرنل کیانی نے مہم کے سربراہ اور معرکے میں حصہ لینے والے کمانڈروں اور جوانوں سے خطاب کیا۔ خطاب کیا تھا بس معرکے میں حصہ لینے والوں کے خون کو گرمایا گیا اور وہ فتح یا شہادت کے لئے ہر لمحہ تیار ہو گئے۔
دشمن آس پاس کے پہاڑوں پرمورچہ بند تھا۔ کرنل کیانی نے دشمن کو تعداد اور حملے کی جگہ کے بارے میں دھوکہ دینے کے لئے مختصر سے دستوں کی نمائش اس طرح کی کہ دشمن بلندی سے انہیں دیکھ سکے اور تعداد کو زیادہ سمجھے اور انہیں ایک خاص سمت میں حرکت کروائی کہ دشمن اس سمت کو حملے کی سمت سمجھے۔ (معرکے کے کچھ عرصے بعد ایک بھارتی کمپنی کمانڈر نے اس بات کی تصدیق بھی کی تھی)
رات آٹھ بجے چک پترا پر حملہ کرنے والے دستے نے پیش قدمی شروع کر دی۔ چک پترا کے دامن سے چوٹی ساڑھے چار ہزار فٹ بلند ہے۔ چڑھائی تقریباً عمودی ہے۔ چٹانیں تقریباً سیدھی کھڑی ہیں اور اس سمت درخت بھی بہت کم ہیںـ چند ایک جھاڑیاں ہیں اور وہ بھی دور دور۔ کرنل کیانی اور آرٹلری کے بیٹری کمانڈر میجر غلام احمد چک پترا پہاڑ سے پیچھے ایک الگ کھڑی پہاڑی چانیاں رج Chanian Ridge پر چلے گئے تھے جہاں اُن کی کمانڈ پوسٹ تھی۔
معرکہ: ہدف پر حملہ خاموشی سے کرنا تھا تاکہ دشمن کو بے خبری میں جا لیا جائے۔ جوان بکھر کر پہاڑ پر جھاڑیوں کو پکڑ پکڑ کر رینگتے ہوئے چڑھنے لگے۔پہاڑ پر تیز چڑھنا تھا اور خاموشی کو بھی برقرار رکھنا تھا۔ جوان رائفلوں' اسٹین گنوں اور مشین گنوں کو اس احتیاط سے اپنے جسموں سے لگائے ہوئے تھے کہ وہ پتھروں سے ٹکرا کر آواز پیدا نہ کریں۔ جوان قریباً ایک ہزار فٹ کی بلندی پر چڑھے ہوںگے کہ اطلاع ملی کہ سکائوٹس کے 80جوان جو پہاڑ کے بائیں طرف سے اوپر چڑھ رہے تھے (اس طرف گھنا جنگل تھا) راستہ بھول کر لاپتہ ہو گئے ہیں۔ صرف 15/20سکائوٹس میجر آفریدی کے ساتھ رہ گئے ہیں۔ اُن کے بھٹک جانے کی وجہ سے حملے کے پلان میں کچھ تبدیلی کرنا پڑی اور کچھ وقت بھی ضائع ہو گیا۔ حملے کا وقت ایک گھنٹہ آگے کر دیا گیا اور لاپتہ سکائوٹس کی جگہ لینے کے لئے چک پترا پہاڑ کی شمال مغربی ڈھلان پر متعین میجر جمشید گلزار کو حکم دیا گیا کہ وہ باقی دو پلاٹونوں کو بھی نیچے اتار دیں اور حملہ آور سپاہ میں شامل ہو جائیں اور اسی یعنی مغربی سمت سے چک پترا پہاڑ پر دشمن کی پوزیشن پر حملہ کریں۔ میجر جمشید گلزار نے نہایت مہارت سے اپنے جوانوں کو وہاں سے نیچے اتارا اور دوسرے حملہ آور دستوں کے ساتھ ہی حملے میں حصہ لیا۔
اب فوجی جوان چک پترا پر چڑھ نہیں رہے تھے بلکہ رینگ رہے تھے۔ رات کا پچھلا پہر شروع ہوچکا تھا۔ صبح ہونے سے پہلے پہلے ہی چوٹی پر چڑھنا تھا۔ آکسیجن کی کمی چٹانی زمین اور تقریباً عمودی ڈھلان نے اوپر چڑھنا بے حد مشکل بنا دیا تھا مگر مادر وطن کے فرزند ع
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
کے عملی نمونے بنے ہوئے' اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ ابھی تک کوئی بارودی سرنگ نہیں پھٹی تھی۔ آخر صبح کاذب میں چوٹی نظر آنے لگی۔ جوان رات آٹھ بجے روانہ ہوئے تھے۔ سحر کے ساڑھے تین بجے اپنے نشانے کے قریب ہوئے۔ ابھی تقریباً دو سو گز اور اوپر جانا تھا۔ ان کے جسم شل ہو چکے تھے۔ وہ صرف اپنے جذبے اور حوصلے سے آگے بڑھ رہے تھے۔ کہ اچانک ایک جوان کے پھسلنے سے ہتھیار پتھروں سے ٹکرائے۔ آواز پیدا ہوئی رات کی خاموشی میں ارتعاش ہوا۔ دشمن کے مورچے سے مشین گن فائر ہوئی تو آس پاس کے مورچوں کی گنوں نے بھی اپنافائر کھول دیا۔ ہمارے جوان دشمن کو ابھی نظر نہیں آئے تھے۔ اس لئے دشمن کے گنرز ہمارے مجاہدوں کی متوقع موجودگی کی طرف اپنی گنوں کی نالیاں گھما گھما کر فائر کر رہے تھے۔ ساتھ ہی دشمن کا توپ خانہ بھی جاگ گیا اور پورے علاقے میں آگ کی بارش برسا دی۔ اسی اثنا میں میجر صابر نے' جو حملے کی قیادت کر رہے تھے' چارج کا حکم دے دیا۔ پاکستانی مجاہدوں نے دشمن کے بنکروں پر ہلہ بول دیا۔ وہاں درختوں کی آڑ میسر تھی اور ابھی سحر کی تاریکی بھی تھی۔ جب جوان ذرا اور آگے بڑھے تو دشمن نے ہمارے جوانوں پر گرینیڈ پھینکنے شروع کر دیئے۔ ہمارے جوانوں نے درختوں کی آڑ لے کر راکٹ لانچر کا فائر کھول دیا اور گرینیڈ بھی پھینکے یہ مرحلہ ذاتی شجاعت کا معرکہ تھا۔ ہر ایک جوان اپنی اپنی جنگ لڑ رہا تھا۔ لیکن یہ جنگ وطن کی آبرو اور عزت کی جنگ تھی۔ مجاہد شہید اور زخمی ہو رہے تھے۔ لیکن حملے کی شدت میں کمی نہیں آئی تھی۔ ہمارے جوان بنکروںکے قریب جا کر اندر گرینیڈ پھینک رہے تھے۔ پاکستانی جوانوں کی بے جگری نے دشمن پر دہشت طاری کر دی اور 9سکھ رجمنٹ کے سورما میدان چھوڑ کر پسپا ہونے لگے۔ ساڑھے 4بجے تک چک پترا کی ڈھائی کلومیٹر لمبی چوٹی کا پہلا حصہ لے لیا گیا تھا۔ یہ پلان کا پہلا مرحلہ تھا۔
معرکے کے دوسرے مرحلے میں'جو پہلے سے زیادہ دشوار اور پُرخطر تھا' ہمیں چک پترا کے بلندی والے حصے کی طرف بڑھنا تھا۔ اپنی سپاہ کی تعدادجو شہیدوں اور زخمیوں کی وجہ سے کم ہو گئی تھی اورجو تھے وہ تھکن سے چور تھے۔ مگر اس کے باوجود وہ عقابوں کی طرح جھپٹ رہے تھے اور شیروں کی طرح حملہ کر رہے تھے۔ آگے پہاڑ کی چوٹی اور بلندی تھی جہاں بنکر بنے ہوئے تھے۔ ان کے سامنے بارودی سرنگیں بچھی ہوئی تھیں اور خاردار تاریں بھی لگی ہوئی تھیں اور ساتھ ہی زمین میں نوکیلے ڈنڈے گڑے ہوئے تھے۔ ان رکاوٹوں کو عبور کرنا بہت مشکل تھا اوپر سے دشمن بے تحاشا فائر کر رہا تھا اور آرٹلری کی گولہ باری بھی بہت ہی تیز اور شدید تھی۔ اب دن کی روشنی پھیلنے لگی تھی۔ پہاڑ کی مغربی سمت سے میجر جمشید گلزار کی کمان میں دو پلاٹونیں ایک پہاڑی ڈھلان سے اتر کر چک پترا کی شمالی مغربی ڈھلان پر چڑھ رہی تھی۔ اس مرحلے میں ارض پاک کے مجاہدوں اور شاہینوں نے غیرمعمولی شجاعت کا ثبوت دیا۔
میجر صابر کا جوش و خروش اور ان کی للکار جوانوں میں نئی روح پھونک رہی تھی۔ اور ان کا حوصلہ میجر صابر کی جانباز قیادت کی بدولت زندہ و پائندہ تھا۔ جن لوگوں نے ان کو لڑتے ہوئے دیکھا وہ کہتے ہیں کہ پاک وطن کے سپاہی انسان نہیں جن نظر آتے تھے۔ ساڑھے چھہ بجے یہ دوسرا مرحلہ بھی سر ہو گیا۔ چک پترا کی پوسٹیں اب پاک فوج کے جوانوں کے قبضے میں تھیں۔ 9 سکھ رجمنٹ نیست و نابود ہو چکی تھی۔ دشمن کی لاشیں چاروں طرف بکھری پڑی تھیں۔ چوٹی کے اوپر دشمن کی ایک سو بیس لاشیں گنی گئی تھیں۔ دوسری طرف کی ڈھلان درختوں سے ڈھکی ہوئی تھی اُس طرف جو لاشیں تھیں وہ گنی نہیں جا سکتی تھیں۔ چک پترا کی چوٹی سے کرنل کیانی کو وائرلیس پر خوشخبری سنائی گئی کہ مشن مکمل ہو گیا ہے ۔ فتح کی خوشخبری سن کر وہ کمانڈ پوسٹ سے باہر نکل آئے جوکہ چانیاں رج پر اس آپریشن کی رہنمائی کے لئے بنائی گئی تھی۔ ان کے ساتھ توپ خانے کے میجر غلام احمد بھی تھے۔ کرنل کیانی مشن کامیابی سے مکمل ہونے پر سجدہ شکر بجا لائے اور باہر کھلی جگہ آ کر صورت حال کا جائزہ لینے لگے۔ اسی اثنا میں آرٹلری کا ایک گولہ ان کے پاس آ کر پھٹا جس سے کرنل کیانی میجر غلام احمد اوران کے دو اور ساتھی شہید ہوئے اور دو زخمی ہوئے۔ یہ پانچ مئی صبح ساڑھے سات بجے کا واقعہ ہے 5اور 6مئی کو دشمن نے کم از کم تین بار جوابی حملے کئے جو مختلف سمت سے چک پترا پر کئے گئے ان حملوں سے پہلے توپ خانے کی شدید گولہ باری کی جاتی۔ ہماری فوج نے یہ تینوں حملے دشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچانے کے بعد نہایت کامیابی سے پسپا کر دیئے۔اسی دوران میجر صابر بھی سر میں گولی لگنے سے شہید ہو چکے تھے۔ ان کی جگہ کمانڈ میجر جمشید گلزار نے سنبھال لی تھی۔ کیپٹن جاوید انور' جن کی کمپنی گھیرے میں تھی' نے اپنے جوانوں کو نہایت مہارت سے لڑایا اور دشمن کو اپنے قریب نہ آنے دیا۔ 6مئی کی صبح طلوع ہوئی اور آخری مرحلہ شروع ہو گیا۔ ایک اور چوٹی جو دس ہزار فٹ تھی دشمن نے از خود خالی کر دی۔ کیونکہ اس کی سپاہ وہاں اب نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ اُس کے گھیرے میں آنے کا خطرہ تھا۔ اسی چوٹی بیرووالی ناڑسے ملاپ کرنا تھا جومیجر جمشید گلزار نے کامیابی سے کر لیا اور اس پورے علاقے کو دشمن کے بچے کھچے جوانوں سے صاف کروا لیا گیا۔ 6مئی شام کو جنگ بندی ہو گئی اور معرکہ ختم ہو گیا۔ اس معرکے میں ہمارے تین آفیسر ایک جے سی او اور 21جوان شہید ہوئے۔ ||
تبصرے