جنت نظیر خطے کے باسی بھی بے نظیر ہیں۔ کبھی اس کے نوجوان اپنے سینوں کو قابض فوج کی گولیوں سے سجاتے ہیں تو کبھی اس کے بچے اپنے بزرگوں کی لاشوں پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں، کبھی اس کے جوانوں کو بھارتی فوج کے آگے ڈھال بنایا جاتا ہے تو کبھی اس کی بیٹیاں ان درندوں کے ہاتھوں اپنی عصمت گنوا تی ہیں لیکن حریت کے ترانے نہ ماضی میں کبھی تھمے، نہ اب خاموش ہو ئے۔ دنیا کی تاریخ کے صفحوں پر ایسی قوموں کے نقوش کم ہی ملتے ہیں جنہوں نے یوں جواں مردی سے استعمار کا مقابلہ کیا ہو ۔
رپورٹر کا جر م صرف اتنا ہی تھا کہ اس نے محض ایک ٹویٹ کیا تھاجس میں ایک حریت پسند کی شہادت پر ہونے والے احتجاج کی ویڈیو دکھائی گئی تھی ۔ عبرت کا نشان ایک صحافی ہی نہیں بلکہ پوری کشمیری صحافتی برادری کی تنظیم ''کشمیر پریس کلب ''کو بھی بنایا گیااورپہلے تو پولیس نے پریس کلب کی عمارت پر دھاوا بولا پھر 17جنوری کو اسے مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
کشمیری مرد ہی نہیں خواتین صحافی بھی بھارتی ظلم کے نشانے پر ہیں اورعالمی ایوارڈ جیتنے والی مسرت زہراپرسوشل میڈیا پر کچھ تصاویر پوسٹ کر نے پر اپریل 2020ء میں ایسے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا جس کی سزا 7سال ہے۔ یوں بھارتی حکومت کی خواتین کے حوالے سے بھی پالیسی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
بھارت نے روز اول سے ہی کشمیری عوام کو اپنے مظالم کا براہ راست نشانہ بنایا اور نہ صرف کشمیریوں کو شہید کیا گیا بلکہ خواتین کو زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیااور بچوں پر بھی مظالم کیے گئے۔ خوفزدہ بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر میں بھارتی مظالم کا اندازہ ان اعداد و شمار سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 33برسوں کے دوران بھارتی مظالم سے 95ہزار 948کشمیری شہید ہوئے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ان میں سے 7ہزار 225کشمیریوں کو دوران حراست شہید کیا گیا۔ کشمیری شہادتوں سے مذکورہ عرصے کے دوران 22ہزار 940خواتین بیوہ اور ایک لاکھ 7ہزار857بچے یتیم ہوئے۔ بھارتی افواج نے نہ صرف کشمیریوں کی جدوجہد کو روکنے کے لیے شہادتوں کا سلسلہ جاری رکھا بلکہ ان کی اخلاقی پستی اورہوس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ 11ہزار 246خواتین بھارتی درندہ صفت فوج کی اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنیں۔ یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ بھارت نے کشمیر کو ہمیشہ ایک دشمن سرزمین سمجھ کر ہی اپنی حکمت عملی وضع کی اور وہاں نہ صرف کشمیریوں کو شہید کیا گیا بلکہ املاک کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا 33برسوں کے دوران ایک لاکھ 10ہزار 451عمارتوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔
کشمیری کبھی بھی بھارتی مظالم سے خوفزدہ نہیں ہوئے اور انہوں نے تمام تر مظالم اور مشکلات کے باوجوداپنی جدوجہد کو جاری رکھا اور یہ واضح کیا کہ کشمیر صرف پاکستان کا ہی حصہ ہے اور بھارت کے مظالم ان کی جدوجہد کو نہیں روک سکتے۔ کشمیری اپنے شہیدوں کو پاکستانی پرچم میں لحد میں اتارتے ہیں اور پاکستان سے اپنی محبت اور وابستگی کا کھلم کھلا اظہار بھی کرتے ہیں۔ بھارت نے کشمیریوں کی جدوجہد اور ان کی پاکستان سے محبت کو دنیا کے سامنے آنے سے روکنے کے لیے اگر ایک طرف براہ راست کشمیریوں کو نشانہ بنایا تو دوسری جانب صحافیوں کو بھی مقبوضہ کشمیر کی حقیقت کو دنیا کے سامنے لانے سے روک دیا۔دراصل بھارت کوئی ایسی حقیقت دنیا کے سامنے نہیں آنے دیتا جو بھارتی مظالم اور تعصب کا پول کھولنے اورمقبوضہ کشمیر کی اصل صورتحال کو سامنے لانے کے لیے کارگر ہوں۔
کشمیری جہاں ایک جانب دنیا کی سب سے بڑی فوج کا مقابلہ دلوں کو گرما دینے والے نعروںسے کرتے ہیں تودوسری جانب کشمیری صحافیوں کے قلم بھارتی بندوقوں پر بھاری پڑتے نظر آتے ہیں ۔ دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت ، جمہور کے بنیادی ستون، صحافت سے ہی کچھ ایسی خوفزدہ ہوئی کہ بھارتی فوج نے ایک زیر تربیت رپورٹر ساجد کو بھی برداشت نہیں کیا اُسے گرفتار کرکے جیل میں داخل دیاجس پرکشمیری صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ''کشمیر پریس کلب '' نے اس کی مذمت کی ۔ رپورٹر کی گرفتاری پر ابتدا ء میں ہی مقامی عدالت نے ضمانت دے دی لیکن بھارتی حکومت کے دبائو پرپھردوبارہ پابند سلاسل کردیا گیا ۔ پیرس میں قائم صحافیوں کی نمائندہ عالمی تنظیم ''رپورٹرز ودآئوٹ بارڈرز''نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رپورٹرمذکورہ کو 6سال قید کی سزا ہو سکتی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر اس زیر تربیت صحافی سے ایسا کیا جرم سر زد ہو گیا کہ اس کی قسمت میں جیل کی کال کوٹھڑی لکھ دی گئی ۔رپورٹر کا جر م صرف اتنا ہی تھا کہ اس نے محض ایک ٹویٹ کیا تھاجس میں ایک حریت پسند کی شہادت پر ہونے والے احتجاج کی ویڈیو دکھائی گئی تھی ۔ عبرت کا نشان ایک صحافی ہی نہیں بلکہ پوری کشمیری صحافتی برادری کی تنظیم ''کشمیر پریس کلب ''کو بھی بنایا گیااورپہلے تو پولیس نے پریس کلب کی عمارت پر دھاوا بولا پھر 17جنوری کو اسے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ۔یہ سب اس قدر ظالمانہ ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کر نے والی نیو یارک میں قائم ''کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس '' جو برسوں سے کشمیر میں صحافیوں پر جاری جبر کے مختلف واقعات کو سامنے لاتی رہی ہے، نے بھی پریس کلب کی بندش کو افسوسناک قراردے دیا۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر نے کے بعد مودی نے کشمیریوں کو نشانے پر رکھا ہوا ہے اوران میں مظلوموں کی آواز بننے والے صحافی بھی شامل ہیں جن کے خلاف منظم مہم جاری ہے ۔ صحافیوں کو پولیس کی جانب سے طلب کیا جانا اور تفتیش کے نام پر انہیں ہراساں کرنا معمول بن چکا ہے ۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ ان کے گھروں پر دھاوا بھی بولا جانے لگاہے۔ صحافیوں پر تشدد اور اُنہیں ہراساں کیے جانا معمول بن چکا ہے۔ دیگر کئی کشمیری صحافیوں کی طرح 2019ء میں امریکی ایوارڈ جیتنے والے آصف سلطان کو بھی ایک حریت پسند کے بارے میں لکھنے پر حراست میں لیا گیا جن پر دہشت گردوں کی معاونت کا الزام لگایا گیا جسے ثابت کر نے میں پولیس ابھی تک ناکام ہے۔
کشمیری مرد ہی نہیں خواتین صحافی بھی بھارتی ظلم کے نشانے پر ہیں اورعالمی ایوارڈ جیتنے والی مسرت زہراپرسوشل میڈیا پر کچھ تصاویر پوسٹ کر نے پر اپریل 2020ء میں ایسے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا جس کی سزا 7سال ہے۔ یوں بھارتی حکومت کی خواتین کے حوالے سے بھی پالیسی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔بھارتی مظالم کا نشانہ مسلم ہی نہیں بلکہ ہندو صحافی بھی بن رہے ہیں اور کشمیر کے ایک پرانے انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹرانو رادھا بھاسن کو آزاد سوچ رکھنے پر نشانہ بنایا گیااور ریاستی حکام کی جانب سے اس کے اخبار کو دھمکیاں دی گئیں ۔
2020ء میں بھارتی حکام نے 13اخبار ات کے اشتہارات کو صرف اس لیے بند کر دیا کہ وہ بھارتی حکومت کی مرضی کے خلاف مواد شائع کر رہے ہیں ۔ بھارت کے ان اقدامات سے بلاشبہ حق اور سچ لکھنے والے میڈیا ورکرز میں خوف کی فضاء قائم ہے لیکن ان تمام تر پابندیوں اور اقدامات کے باوجود آج بھی صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے سچائی کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیے ہوئے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت جو کشمیر میں صحافت کو دفن کرنے اور اس پر قدغن لگانے کے لیے سرگرم ہے اپنے ہی ملک میں میڈیا کو منفی انداز سے فروغ دینے کے لیے بھاری رقم خرچ کر رہا ہے۔ لہٰذا مختلف ٹی وی چینلز کو خرید کر اُن کے ذریعے بھارت کو دنیا کے سامنے ایک سیکولر ملک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس حوالے سے مذکورہ چینل پرنہ صرف نریندر مودی کی حکومت کے لیے خصوصی حکمت عملی کے تحت سپورٹ جاری رہتی ہے اور خریدے گئے میڈیا چینلز کے ذریعے پاکستان اور چین مخالف پروپیگنڈہ کروایا جاتا ہے اوریہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہاں ذرائع ابلاغ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے کبھی غیرملکی میڈیا کو مقبوضہ کشمیر میں جا کر رپورٹنگ کی اجازت نہیں دی۔ کچھ عرصہ قبل یورپین یونین ڈس انفو لیب کی رپورٹ سے یہ حقائق سامنے آئے کہ کس طرح میڈیا کی من گھڑت اور جعلی خبروں کے ذریعے حقائق کو چھپایا گیا۔ بھارت اپنے منفی اور اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حقوق زیادہ دیر تک سلب نہیں رکھ سکے گا اور نہ ہی وہ سوشل میڈیا کے اس دور میں ذرائع ابلاغ کا منہ ہمیشہ کے لئے بند رکھ سکے گا۔جلد یا بدیر بھارت کا 'مسخ شدہ' سیکولر چہرہ بین الاقوامی سطح پر عیاں ہو کر رہے گا۔ ||
مضمون نگار ایک معروف اخبار کے ساتھ وابستہ ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے