میجر ایاز حسین شہیدکے بارے میں اُن کے والد گرامی صوبیدار ممتازحسین(ر) سے گفتگو
اسے برف میں جانے کا بہت شوق تھا، کم سنی میں بار بار کوئٹہ کے برفیلے موسم میں برف کے ڈھیر پر جا کر لیٹ جاتا تھا۔ میں ہر بار اٹھا کر لاتی تھی لاکھ منع کرتی تھی مگر وہ مانتا نہیں تھا، کبھی کبھی سوچتی ہوں کاش سکردو کی برفیلی چٹانوں پر دم توڑتے لخت جگر کے پاس میں ہوتی تو شاید آج میں اپنے ایاز کی تصویر نہ دیکھ رہی ہوتی مگر پھر سوچتی ہوں میں کوئی انوکھی ماں تو نہیں، مادر وطن پر تو بہت سی مائوں نے اپنے لختِ جگر قربان کئے ہیں، مجھے فخر ہے میں شہید کی ماں ہوں۔یہ الفاظ تھے میجر ایازشہید کی والدہ کے جو صوبہ سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز سے تعلق رکھتی ہیں۔میجر ایاز کی والدہ شہید کی ماں ہی نہیں بلکہ شہید کی بہن بھی ہیں۔ ان کے ایک بھائی میجر محمد خان 29 ستمبر 2005 کو وانا آپریشن میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ان کے شوہر یعنی میجر ایاز کے والد ممتاز حسین ایس ایس جی میں صوبیدار تھے۔60 سالہ ممتاز حسین کو دیکھ کر ان کے خاندان کے تقریباً 40 افراد پاک فوج میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں جن کا تعلق نوشہرو فیروز سے ہی ہے۔ ممتاز حسین نے بتایا کہ ہمارے خاندان میں تین شہید ہیں، ایک سپاہی عبد الغفار جو میرے ہم زلف تھے، وہ بارہ سال قبل دوران ڈیوٹی ایکسیڈنٹ میں شہید ہوگئے تھے، پھر میری زوجہ کے بھائی جو میرے رشتے دار بھی تھے، جن کا نام میجر محمد خان تھا، وہ شہید ہوئے اور تیسرا میرا 33 سال کا بیٹا میجر ایاز ہے۔
ممتاز حسین نے بتایاکہ ایاز 12دسمبر1987کو سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز کی تحصیل مورو میں پیدا ہوا۔ جب وہ دو سال کا تھا تو میری پوسٹنگ کوئٹہ ہوگئی تھی لہٰذا اس نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی۔ شہید کے والد نے بتایا کہ میجر ایازاپنے ماموں سے بہت متاثر تھے۔ انٹر کے بعد جب انہوں نے آرمی جوائن کرنے کی خواہش ظاہرکی تو میں نے کہا یہ اتنی آسان فیلڈ نہیں ہے، تمہارا رجحان تو انجینئرنگ کی جانب ہے بہتر ہے اس کی طرف ہی دھیان دو۔ کہنے لگا میں آن لا ئن اپلائی کر چکا ہوں اور میرا انٹری ٹیسٹ میں نام بھی آگیا ہے، انٹری ٹیسٹ میں اس کا نام آجانا میرے لئے حیران کن اس لئے نہیں تھا کیونکہ وہ بہت ہونہار طالب علم تھااس کی انٹر میں85پرسنٹیج بنی تھی جو یقینا آرمی انٹری ٹیسٹ میں سلیکٹ ہونے کے لئے اس کی معاون ثابت ہوئی تھی۔ اس کا جواب سن کر میںنے کہا ٹھیک ہے اب تم نے ٹھان ہی لی ہے تو کر گزرو مگر میں تمہاری مدد صرف انٹری ٹیسٹ کی تیاری میں کرسکتا ہوں اس سے زیادہ مجھ سے توقع نہ کرنا کیونکہ بیٹا یاد رکھو یہ پاکستان آرمی ہے جہاں جنرل کے بچوں سے بھی رعایت نہیں برتی جاتی جبکہ تمہارا باپ تو سابق صوبیدار ہے۔ اس نے مسکرا کر کہا بابا آپ میری بس انٹری ٹیسٹ کی تیاری میں مدد کر دیں، اللہ کے حکم سے آپ کا بیٹا آپ کی لاج رکھے گا۔
ممتاز حسین کا کہنا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد میں ڈی ایچ اے میں سکیورٹی آفیسر کی ڈیوٹی پر مامور ہوگیا تھا، میری چونکہ نائٹ ڈیوٹی ہوتی تھی لہٰذا ان دنوں میں نے وہیں رہائش اختیار کرلی تھی اس لئے ایاز کو بھی وہاں بلا لیا تھا۔اس طرح ایاز نے پاکستان آرمی کے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کی اور پھر 2005میں وہ وقت آیا جب اسے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں جانا تھا۔2007میں سکینڈ لیفٹیننٹ کی یونیفارم پہنے جب اس نے میرے اور اپنی ماں کے ساتھ تصویر بنوائی وہ وقت ہمارے لئے بہت قابل رشک تھا۔اس کا 54بلوچ رجمنٹ سے تعلق تھا۔ میں نے اسے ایس ایس جی جوائن کرنے کا مشورہ دیا مگر اس کا شوق ائیر کرافٹس میں تھا ۔اس نے پاکستان آرمی ایوی ایشن کے تحت مختلف کورسز کیے تھے، اسی دوران 2013 میں ہم نے اس کی شادی کردی اس کی سسرال کا تعلق بھی پاکستان آرمی کی فیملی سے ہے۔
شہید کے والد نے بتایا کہ ایاز 2018میں میجر کے عہدے پر فائز ہوا، شہادت سے چند ماہ قبل وہ کراچی آیا تھا۔ میں نے اس کی پسند کے مطابق گھر میں باغبانی کی تھی جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا تھا ۔اس نے کہا تھا جب اگلے برس چھٹی پر آؤنگا تو کچھ پھلوں کے بیج ساتھ لائوں گا انہیں لگانے سے اس باغیچیے میں اور رونق آجائے گی۔
یہ کہتے ہی مضبوط اعصاب کے مالک صوبیدار ممتاز حسین ہلکے سے گلوگیر لہجے میں بولے کہ مگر وہ تو نہ آسکا البتہ اس کے جسد خاکی نے ہماری رونقیں چھین لیں۔ بعد ازاں جلد ہی اپنے آپ کو سنبھال کر بولے: میرا 33 برس کا شہید، میرا حوصلہ اور فخر ہے، جو رتبہ میں نہ لے سکا وہ مقام میرے جوان کے پاس ہے، میں وطن پر شہید تو نہ ہوسکا مگر اللہ نے مجھے شہید کے باپ کے رتبے پر فائز کیا، میں اس پر اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے۔
شہید میجر ایازکی والدہ بتاتی ہیں کہ پوتی کی پیدائش کے بعد ہم اسے دیکھنے اسلام آباد گئے تھے۔ جب ہم تقریباً ایک ماہ اس کے گھر رہے تھے، دو بیٹوں کے بعد بیٹی کی آمد پر وہ بہت خوش تھا۔وہ بیٹی والے گھر کو اللہ کی رحمت والا گھر کہا کرتا تھا۔ اسی لئے بہنوں میں اس کی جان تھی، اس کی بھائیوں سے زیادہ بہنوں سے بنا کرتی تھی۔شہید میجر کی دو بہنیں اور تین بھائی ہیں، وہ ایک بہن اور تین بھائیوں سے چھوٹے جبکہ ایک بہن سے بڑے تھے، ان کا اپنی چھو ٹی بہن کے ساتھ بہت زیا دہ لاڈ پیار تھا۔
انہوں نے میجر ایاز کی شہادت کے دن کو یاد کرکے بتایا کہ 25اکتوبر 2020 کو میری بہو کی کال آئی، وہ پریشانی کے عالم میں بولی: بابا! ایاز کا کچھ پتہ نہیں ہے، وہ کل سکردو گئے تھے۔ اب تک کچھ اتا پتہ نہیں کہاں اور کیسے ہیں، آپ بھی کچھ پتہ کریں۔ یہ سن کر میں فکر مند ہوا اور فوری اس کے یونٹ کمانڈر سے رابطہ کیا مگر کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا سوائے اس کے کہ تلاش جاری ہے، آپ دعا کریں۔ اگلے دن پتہ چلا اس کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوگیا، زخموں اور برفیلے موسم کی تاب نہ لاتے ہوئے اس نے ساتھی پائلٹ میجر حسین ارشاد اور ٹیکنیشن نائک انضمام کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔ دراصل انہیں سکردو کے علاقے منی مرگ کے قریب ایک فوجی جوان، جس کی شہادت برفانی تودا گرنے سے ہوئی تھی ، کے جسد خاکی کو لانا تھا۔ یہ تینوں جوان شہید کا جسد خاکی لے کر واپس اپنی منزل کو روانہ ہوئے ہی تھے کہ اچانک موسم خراب ہو گیا جو ہیلی کاپٹر پر اثرانداز ہوا۔ بعد ازاں ہیلی کاپٹر فنی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہو گیا۔ شہید کے والد کا کہنا تھا ہیلی کاپٹر کا تباہ ہونا ہماری خوشیوں کو برباد کر گیا، ہیلی کاپٹر کی تباہی کے سبب میجر ایاز حسین اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوگئے۔
اگرچہ ان کی جانب سے کوئی سگنل نہ ملنے کی وجہ سے ان کے سینئرز نے ان کی تلاش شروع کروا دی تھی مگر موسم کی خرابی کے باعث ان تک پہنچنا ممکن نہیں ہو رہا تھا۔ دوسرے دن آرمی ریلیف ٹیم کا ایک اور ہیلی کاپٹر انہیں تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا اور ان تینوں کے جسد خاکی کو برفانی تودے سے نکالا گیا۔ شہید میجر ایاز اور شہید میجر حسین نے اپنی شہادت سے چند روز قبل ایک سیلفی بنائی تھی جو ان کی شہادت کے بعد سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی تھی۔
شہید میجر ایاز حسین کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ بڑا بیٹا محمد ابراہیم پانچ سال کا ہے، سلمان تین جبکہ بیٹی آئمہ صرف ایک سال کی ہے۔ پاک فوج میں ایسے بھی بہت سے شہید ہیں جن کے بچے ایک ایک ماہ کی عمر میں ہی یتیم ہوگئے۔ اللہ تمام شہیدوں کی مغفرت فرمائے اورپاکستان کو اپنی امان میں رکھے۔آمین! ||
مضمون نگار صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے