پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے ہوئے پون صدی کا طویل عرصہ ہونے والاہے۔ اسلام کے نام پر بننے والی پہلی اور بڑی مملکت آج بھی اپنے دشمنوں کی مسلسل ریشہ دوانیوں ، سازشوں ، منفی پروپیگنڈے اور تخریب کاریوں کے باوجود پوری شان سے ، ہر لحاظ سے سربلند کھڑی ہے۔ ملک عزیز کو پہلے دن سے ہی ایک انتہائی عیار، ریاکار اور بغض سے بھرے ہوئے دشمن سے واسطہ پڑگیا جس سے ہم آج تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ان جنگوں میں ہمارے فوجی جوانوں نے جاں نثاری ، بہادری اور سرفروشانہ جذبوں کی ایسی ایسی محیرالعقول مثالیں پیش کی ہیں جو خال خال ہی ملتی ہیں۔ ہم آج بھی دشمن کی مسلسل ریشہ دوانیوں کا شکار اور اُن سے نبرد آزما ہیں۔
جنگ دسمبر1971 کے بے شمار معرکوں میں وادیٔ لیپا کا معرکہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وادی مظفر آباد سے تقریباً 115 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ اس وادی کی لمبائی شرقاً غرباً تقریباًدس بارہ کلو میٹر ہے اور چوڑائی600 سے 1500 میٹر تک ہے۔ شرقی حصہ زیادہ اور غربی کم چوڑا ہے۔
وادی تین بلند پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں واقع ہے۔ شمال مشرق میں شمسابری اور قاضی ناگ سلسلہ ہے جن کی بلندی 13 اور 14 ہزار فٹ کے درمیان ہے اور جنوب مغرب میں کافر کھنڈ پہاڑی سلسلہ ہے جس کی اوسطاً بلندی11 ہزار فٹ ہے۔
اس سلسلے کے اوپر سے دو راستے وادی کو مظفر آباد سے ملاتے ہیں۔ 1971ء کی جنگ کے دوران یہ راستے کچے اور چھوٹی اوردرمیانی قسم کی گاڑیوں کے لئے تھے جبکہ آج کل یہ پکے ہیں۔ وادی کی اوسط بلندی ساڑھے چھ ہزار فٹ ہے۔ قاضی ناگ نالہ اس وادی کا سب سے بڑا نالہ ہے جو پورا سال بہتا ہے اور مغربی سمت ٹیٹوال کے نزدیک دریائے نیلم میں مل جاتا ہے۔
معرکۂ شیشہ لدی
شیشہ لدی وادی لیپا کے جنوب مغربی حصے جہاں وادی تنگ ہو جاتی ہے، پر شمال کی طرف واقع ہے اس جگہ وادی بمشکل چھ سو میٹر چوڑی ہے اور جنگی نقطہ نظر اور تدبیراتی پوزیشن کے لحاظ سے اہم جگہ پر ہے۔ 3 دسمبر1971 کو جنگ کے آغاز پر وادی لیپا میںہماری مندرجہ ذیل عسکری موجودگی تھی۔
(١) ایک کمپنی2 ایف ایف (اکلوتی ریگولر کمپنی)
(ب) ایک کمپنی ۔ ٹوچی سکائوٹس
(ج) ایک کمپنی۔ مجاہد فورس
(د) ایک مؤنٹین بیٹری ۔ آرٹلری
شیشہ لدی فیچر ایک بیضوی شکل کا ہے جو شمالاً جنوباً پھیلا ہوا اور تقریباً 7500 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ یہ آس پاس کی زمین سے اٹھا ہوا ایک قطعہ زمین ہے جس کی لمبائی شمالاً ، جنوباً تقریباً7سو سے9سو میٹر اور چوڑائی شرقاً غرباً 200 سے300میٹر ہے۔ اس فیچر کے ڈھلانی جنوبی حصے پر سوائے چند ایک چیڑ کے درختوں کے کوئی درخت نہیں ہے اور اوپر سے چٹیل میدان کی طرح ہے جس پر چھوٹی چھوٹی خود رَوجھاڑیاں اور گھاس ہے۔ دشمن اس کے شمال میں سری فیچر جو قدرے بلندی پر واقع ہے، پر قابض تھا جو شیشہ لدی سے100سے 150 فٹ بلند ہے۔ یہ وادی کے مشرقی اور مغربی حصے کو کمانڈ کرتا ہے۔ اگر یہ دشمن کے قبضے میں چلا جائے تو وادی میں ہماری پوزیشن بہت نازک ہو جائے اور وادی کا جنوب مغربی حصہ ہمارے کنٹرول سے باہر ہو جائے۔
ان خطرات اور جنگی پوزیشن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میجر آفریدی2ایف ایف جو اس وقت لیپا فورس کمانڈر تھے، نے2 ایف ایف کمپنی کی دو پلاٹون شیشہ لدی اور ایک پلاٹون وانجل پر تعینات کردی حالانکہ شیشہ لدی کے دفاع کے لئے دو پلاٹونز کم تھیں لیکن مجموعی طور پر اس وقت لیپا میں ہمارے پاس سپاہ کی کمی تھی اس لئے مجبوراً اسی کم نفری سے کام چلانا پڑا۔ اس فیچر کی جنگی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے دشمن نے شیشہ لدی پر روزانہ کی بنیاد پر توپ خانے کا فائر کرنا شروع کردیا جس سے اس پر کھدی ہوئی کرال ٹرینچ(Crawl Trench)جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ گئی اور ہر روز ہمارے دو تین جوان شہید یا زخمی ہو جاتے لیکن باہمت جوان ساتھ ساتھ کرال ٹرنیچ کی مرمت بھی جاری رکھتے ۔ یہ امر ذہن میں رہے کہ ہماری سپاہ مضبوط نقطۂ دفا ع یا دوسرے لفظوں میں ''شیل پروف'' بنکروں میں نہیں تھی کہ دشمن کی گولہ باری سے مؤثر طور پر محفوظ رہتی۔ اس گولہ باری کے آغاز سے ہی ہماری سپاہ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ دشمن اس پوسٹ پر کسی بھی وقت بڑا حملہ کرسکتا ہے جس کے لئے ہمارے جری جوان اپنی کم تعداد اور وسائل حرب و ضرب کی کمی کے باوجود ہمہ وقت ایسی کسی بھی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے تیار تھے۔7دسمبرکو اس پوسٹ پر 2 آفیسرز اور 40 جوان (بشمول توپ خانے کی او پی پارٹی) رہ گئے تھے۔ زیادہ تر بنکرز تباہ ہو گئے تھے اور مواصلاتی ذریعہ بھی تقریباً غیر فعال ہو کر رہ گیا تھا۔ وائرلیس کے ذریعے کام چلایاجاتا تھا وہ بھی دشمن کے فائر کی وجہ سے ہمہ وقت کام نہیں کرتا تھا جس سے آرٹلری فائر کروانا مشکل ہوجاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس پوسٹ پر پانی کی فراہمی کا کوئی انتظام نہیں تھا اور نہ ہی پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی خاطر خواہ بندوبست تھا۔ پانی نیچے وادی سے روزانہ کی بنیاد پر لایاجاتا تھا۔ لگاتار گولہ باری سے کئی دفعہ دو تین تین دن تک پانی کے بغیر گزارہ کرنا پڑتا تھا اور پانی کی راشن بندی کرنی پڑتی تھی۔ آخر کار 7 دسمبر1971ء کا اندھیرا پڑتے ہی دشمن نے بڑے ہی تباہ کن طریقے پر توپ خانے اور مارٹرز سے شیشہ لدی پر گولہ باری شروع کردی جو کہ ایک بڑے حملے کا پیش خیمہ تھی۔ یہ گولہ باری صبح کے تقریباً 4بجے تک جاری رہی۔ اس کے فوراً بعد دشمن نے دو جانب یعنی شمال سے سِری فیچر اور جنوب مغربی ڈھلان جو قاضی ناگ نالے کی طرف ہے ،سے حملہ کردیا۔ دشمن مشین گنوں، راکٹ لانچرز ، گرینیڈ لانچرز اور آگ برسانے والے ہتھیاروں سے فائر کررہا تھا۔دشمن کی گولہ باری اور آگ برسانے والے ہتھیاروں کی فائرنگ کی وجہ سے پوسٹ کے باہر میدان میں خشک گھاس اور جھاڑیوں کو آگ لگ گئی اور تمام علاقہ روشن ہوگیا۔ اس آگ کی وجہ سے دونوں اطراف کی سپاہ کو فائدہ ہوا۔ دشمن نے اپنے آٹومیٹک ہتھیاروں سے ہمارے مورچوں کو نشانہ بنایا لیکن چونکہ ہماری سپاہ مورچوں میں ہونے کی وجہ سے نسبتاً محفوظ تھی اور دشمن کھلی جگہ سے حملہ آور تھا، ہمارے شیردل مجاہدوں نے دشمن کے تاک تاک کے نشانے لئے اور سامنے وسیع علاقے میں پھیلی ہوئی حملہ آور فوج کو نشانہ بنایا۔ دشمن کی فوج چیونٹیوں کی طرح پھیلی ہوئی تھی اور بہت بڑی تعداد میں حملہ آور تھی۔ دشمن رات کے اندھیرے میں پوسٹ کے کافی قریب پہنچ گیا تھا اور ایک لحاظ سے سرپرائز حاصل کرلی تھی۔ اسی اثناء میں دشمن نے جنوب مغرب کی طرف لگی ہوئی ہماری اکلوتی مشین گن کو بھی تباہ کردیا اور اس کے مشین گنر کو شہید کردیا۔ لیکن آفریں ہو ہمارے رائفل بردار جوانوں پر جنہوں نے لگاتار فائر سے دشمن کو آگے بڑھنے سے روک دیا اور ان کابھاری جانی نقصان کیا۔ کچھ دشمن توقریباً پچاس گز کے فاصلے تک آگئے تھے۔ کمپنی کمانڈر میجر عزیز اور آرٹلری دیدبان سیکنڈ لیفٹیننٹ طارق محمود عباسی بھی اسی سمت سپاہ کے ساتھ تھے۔ دشمن نے اس طرف سے کئی بار حملہ کیاوہ چاہتا تھاکہ ہمارے مورچوں کو روند ڈالے لیکن ہماری بہادر سپاہ جو صرف رائفلوں سے مسلح تھی اور کچھ کے پاس دستی بم بھی تھے، نے اُن کی ایک نہ چلنے دی اور تمام حملے پسپا کر دیئے۔ اسی اثناء میں دشمن کی ایک گولی میجر عزیز کے سرپر لگی اور وہ شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز اور وطنِ عزیز کی آن اور حُرمت پر قربان ہوگئے۔اس پر سیکنڈ لیفٹیننٹ طارق محمود نے معرکے کی کمانڈ سنبھال لی اور اُسے جاری رکھا۔ شمال کی طرف سے بھی دشمن نے ایک کمپنی سے جو حملہ کیاتھا اُسے ہمارے صرف پندرہ جوانوں نے ناکام بنایاتھا جن کے پاس صرف رائفلز اور دستی بم تھے۔ ہمارے مورچوں کے سامنے چونکہ گریڈینٹ(Gradient) تقربیاً 60سے70 ڈگری تھا اس لئے ادھر دشمن کی زیادہ تر اموات دستی بموں سے ہوئی تھیں۔ صرف دشمن کا ایک پلاٹون کمانڈر ہمارے مورچے کے اندر تک آگیا تھا جس کو ادھر ہی ہلاک کردیاتھا۔ اس نے اپنی چھاتی سے علاقے کا ایک نقشہ بھی باندھ رکھا تھا۔ دونوں اطراف سے دشمن اصل میں اتنا نزدیک آگیا تھا کہ اب اُس کے لئے واپس جانا مشکل ہوگیا تھا۔صبح کی ملگجی روشنی جب پھیلنا شروع ہوئی تو پوسٹ کے نزدیک دشمن کے جوانوں نے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی جس پر انہیں ہمارے جوانوں کے سیدھے فائر کا سامنا کرنا پڑا اس سے اُن کا بہت نقصان ہوا اور زیادہ تر اموات اسی موقع پر ہوئیں۔ رات کو مرنے والوں کی لاشیں بھی پوری ڈھلوان پر بکھری ہوئی تھیں۔ صبح کے تقریباً ساڑھے سات بجے تک شیشہ لدی پوسٹ دشمن کے حملے سے محفوظ کر لی گئی تھی۔ اس لڑائی کا انجام دشمن کی پسپائی پر ہوا اور ہمارے جوانوں نے دشمن کو ایک انچ زمین بھی نہ لینے دی۔ دشمن کے تقریباً 150 فوجی مارے گئے اور اتنے ہی زخمی ہوئے۔ ان کی ایک ٹینک شکن گن ، پانچ مشین گنیں، سات لائٹ مشین گنیں، بہت سی رائفلیں اور بے تحاشا ایمونیشن ہمارے ہاتھ لگا۔ جنگ کے اختتام تک ہم یہی ہتھیار اور ایمونیشن استعمال کرتے رہے۔ چار جنگی قیدی بھی بنائے گئے تھے جن میں دو مسلمان تھے۔ بعد میں تفتیش سے معلوم ہوا کہ یہ حملہ ایک انفنٹری بٹالین 8 راجپوت نے کیا تھا۔ دو کمپنیوں نے جنوب مغرب سے اور ایک کمپنی نے شمال کی طرف سے حملہ کیاتھا۔جنوب مغرب سے حملہ کرنے والی دو کمپنیوں میں سے ایک مسلم کمپنی تھی جس کا کمپنی کمانڈر میجر جی ایس ملک حملے میں مارا گیا تھا۔ 8دسمبر سے جنگ کے خاتمے تک دشمن کو اس پوسٹ پر دوبارہ حملے کی جرأت نہ ہوئی باوجود اس حقیقت کے کہ یہ فیچر تدبیراتی لحاظ سے بہت ہی اہمیت کا حامل تھا۔ 15دسمبر کو دشمن نے ایک دفعہ پھر اپنی خفت مٹانے کے لئے توپ خانے کے بے تحاشا فائر سے اس پوسٹ کو نشانہ بنایا جس سے ہمارا کچھ جانی نقصان ہوا اور چند جوان شہید اور کچھ زخمی ہوئے، لیکن ہمارے بہادر جوان اپنے مورچوں میں ڈٹے رہے۔
شیشہ لدی آپریشن پاکستانی فوج کے ان چند ایک معرکوں میں شامل ہے جہاں ہماری صرف دو پلاٹونوں نے ایک پوری انفنٹری یونٹ کے حملے کو روکا اور اسے ناکام بنایا۔ دشمن کو جہاں کثرت تعداد ، وافرسامانِ جنگ اور توپ خانے کی بے تحاشا شیلنگ اورطاقت کا زعم تھا تو اس طرف اﷲ پاک پر مکمل یقین اور بھروسہ، جذبہ شوق شہادت اور وطن کی مٹی سے محبت کار فرما تھی۔ اسی وجہ سے جانی اور مادی وسائل کی ناقابلِ یقین حد تک کمی کے باوجود دشمن کوشکست فاش سے دوچار کیا اور دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا۔ آج بھی شیشہ لدی پر پاکستان کا ہلالی پرچم لہرا رہا ہے۔
اس معرکے میں 2 ایف ایف کے میجر عزیز شہید کو ستارئہ جرأت سے نوازا گیا جو ان کی ثابت قدمی، حوصلہ جرأت اور قائدانہ صلاحیت کا بجا طور پر اعتراف تھا۔ توپ خانے کے سیکنڈ لیفٹیننٹ طارق محمود، جن کی سروس صرف ایک سال تھی اور جنہوں نے میجر عزیز کی شہادت کے بعد سپاہ کی کمانڈ سنبھالی اور آپریشن کو کامیابی سے ہم کنار کیا، کو بھی ستارئہ جرأت سے نوازا گیا تھا۔ شیسہ لدی فیچر کو میجرعزیز کی شہادت میں عزیز رج(Aziz Ridge) کے نام سے موسوم کردیا گیا تھا جو آج بھی اسی نام سے پہچانی جاتی ہے۔ ||
تبصرے