شاعر مشرق مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال کی خدمات کا اعتراف دُنیا جہاں میں برملا کیا جاتا ہے اور ان کی شاعری اور پیغام کو عام کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ اقبال اور اقبال سے ڈاکٹر محمد اقبال بننے کے سفر میں ان کے اساتذہ کرام کابہت ذکر ملتاہے۔ کہیں کہیں ان کے والدین کے کردار پر بھی بات ہوجاتی ہے۔ والدین اقبال ویسے تو کسی تعلیمی ادارے سے بہت اعلیٰ سطح پر اکتساب فیض حاصل نہیں کرسکے لیکن ان میں اللہ تبارک تعالیٰ نے جو بے شمار خوبیاں پیدا کر دی تھیں ان کی بدولت انہوں نے اقبال کی تربیت اس انداز سے کرنی شروع کی جس نے حیرت انگیز طور پرنتیجہ ظاہر کردیا۔ زیر نظر مضمون میں والدین اقبال پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عظیم والدین جو خواندہ نہ ہونے کے باوجود فہم و فراست اور حکمت و دانش کی دولت سے مالا مال تھے۔
آپ تصور کریں ایک ایسا طالب علم جس کے والدین کسی سکول ، کالج اور یونیورسٹی میں نہ تو پڑھے ہوں اور نہ ہی وہ کسی ایسے ادارے کے اندر گئے ہوں جبکہ نہ ہی ان کی اولاد منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئی ہو اور سفید پوشی میں زندگی بسر ہو رہی ہو اسی دوران ان کا بیٹا اپنے ملک میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے لیے مقابلے کے امتخان میں پاس ہونے کے باوجود ایک آنکھ میں معمولی سے فرق کی وجہ سے فیل کردیا جائے جبکہ قانون کے امتحان میں بھی ناکامی کا سامنا کر نا پڑا ہواور اپنے دیس میں اس کے لیے آگے بڑھنے کے تمام راستے محدود کر دئیے جائیں اس کے باوجود وہ سات سمندر پار کسی ملک جا کرفلسفہ و تصوف کے موضوع پرڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کا عزم رکھتا ہو ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پرعزم طالب علم کی اس خواہش کو پوراکرنے میں ان کے ہردلعزیز استاد پروفیسرآرنلڈ کا کردار اوران کے مشورے سے اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان جانے کا سبب بنا۔ علاوہ ازیں دوراندیش اور بے پناہ صلاحیتوں کے مالک والد محترم شیخ نور محمد اور والدہ ماجدہ امام بی بی ناخواندہ ہونے کے باوجود اپنے ہونہار سپوت کے بہتر مستقبل کی خاطر فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقبال کی یورپ جا کر اپنی علمی پیاس بجھانے کی خواہش پوری کرنے کی اجازت دے کر انہیں جو سنہری موقع فراہم کیا اس نے ایک طرف تو اقبال کے اقبال کو بلند کردیا جبکہ برصغیر کے ساتھ ساتھ پوری مسلم امہ کو ایک نامور مفکر عطا کر نے کی راہ ہموار کردی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقبال کی پیدائش سے کچھ دن پہلے ان کے والد محترم نے خواب میں دیکھا کہ ایک سفید کبوتر اڑ رہا ہے، ہر ایک کی خواہش ہے کہ وہ اس کبوتر کو قابو کرلے لیکن وہ کبوتر خود ہی شیخ نور محمد کی جھولی میں آکر بیٹھ جاتا ہے جس پر انہوں نے یہ تعبیر نکالی کہ ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا جو اسلام کی خدمت کرے گا۔ یہ کتنی خوش بختی کی بات ہے کہ ایک صوفی و رویش جو خواب دیکھتا ہے اللہ تبارک تعالیٰ اس خواب کو پورا کردیتا ہے ۔
شیخ نور محمد نے جمعتہ المبارک ذیقعد1294بمطابق9 نومبر 1877ء کو پیدا ہونے والے بیٹے کانام خواب کی نسبت سے ہی محمد اقبال رکھا۔ شیخ نور محمد دینی ذوق رکھنے والے انسان تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلوائیں۔ سیالکوٹ کے علماء کے ساتھ خصوصاً مولانا ابو عبداللہ غلام حسن کے ساتھ ان کا گہرا تعلق تھا ۔جب اقبال کی عمر چار سال چار ماہ ہوئی تو شیخ نور محمد انہیں حسن محلہ شوالہ کی مسجد میں مولانا ابو عبداللہ غلام حسن کے پاس لے گئے جہاں اقبال نے ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا اور یہیں سے قرآن مجید پڑھا۔ایک دن مولانا سید امیر حسن نے اقبال کو جب درس گاہ میں پڑھتے دیکھا تو مولانا غلام حسن سے پوچھا کہ یہ بچہ کس کا ہے ؟ جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ یہ بچہ شیخ نور محمد کا ہے تو انہوں نے شیخ نور محمد سے ملاقات کرکے انہیں سمجھایا کہ اس ہونہار بچے کو صرف دینی تعلیم دلوانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اسے جدید تعلیم سے بھی آراستہ کیا جائے۔جس پر شیخ نور محمد نے اقبال کو سید میر حسن کے سپرد کر دیا۔
شیخ نور محمد کے گھر کا ماحول انتہائی سادہ اور پاکیزہ تھا۔ گھر کے اخراجات شیخ نور محمدکی دکان سے ہونے والی آمد ن سے پورے ہوتے یا پھر ان کے بھائی شیخ غلام محمد تنخواہ میں سے کچھ حصہ دے دیتے تھے۔گھر کا سارا انتظام امام بی بی کے ہاتھوں میں تھا۔ دکان کی آمدن کم ہونے کے سبب کچھ وقت کے لیے سابق ڈپٹی کمشنر وزیر علی بلگرامی کے ہاں پارچہ دوزی کی ملازمت بھی کرنا پڑی۔ یہ ملازمت شیخ نور محمد اور ان کی اہلیہ امام بی بی کے مابین ایک تنازع کا باعث بھی بنی اور امام بی بی ڈپٹی کمشنر وزیر علی بلگرامی کو انگریز سرکار کی طرف سے ملنے والی پینشن اور دیگر ذرائع کو جائز نہیں سمجھتی تھیں اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک ان کے شوہر یہ ملازمت ترک نہیں کریں گے اس وقت تک اقبال کو اپنا دودھ نہیں پلائیں گی۔ امام بی بی نے اپنی جمع پونجی میں سے ایک بکری خرید لی اور اقبال کو اس کا دودھ پلانا شروع کردیا اور اس وقت تک اقبال کو اپنا دودھ نہیں پلایا جب تک شیخ نور محمد نے ڈپٹی کمشنر وزیر علی کی ملازمت ترک نہ کردی۔ملازمت چھوڑنے کے بعد شیخ نور محمد نے برقعوں کی ٹوپیاں بنانا شروع کیں تو دنوں میں ان کا کاروبار چمک اٹھا اور اس میں اتنی برکت پڑ گئی کہ انہیں دو خیاط ملازم رکھنے پڑ گئے۔
1837 میں پیدا ہونے والے شیخ نور محمد93سال کی عمر میں 17 اگست 1930 کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔اقبال تجہیزوتکفین کے لیے سیالکوٹ آئے اور فراغت کے بعد لاہور واپس چلے گئے۔اقبال والد محترم کی بیماری کے دوران تیمار داری کے لئے سیالکوٹ آتے اور دکھ سکھ زیر گفتگو لاتے۔ شیخ نور محمد نہایت پرہیز گار اور صوفی آدمی تھے اور بعض اوقات اپنے قوائے روحانی کی نشوونما کے لیے چلّہ کشی کی ریاضت بھی کر چکے تھے۔ اقبال نے اپنے والد کے متعلق اپنے احباب کو بعض واقعات سنائے تھے جن میں سے ایک واقعہ بعض کتابوں میں شائع بھی ہو چکا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اقبال نے بتایا کہ جب میری عمر کوئی گیارہ برس تھی ایک رات میں اپنے گھر میں کسی آہٹ کے باعث سوتے سے بیدار ہو گیا۔میں نے دیکھا کہ میری والدہ کمرے کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہی ہیں۔ میں فوراً بستر سے اٹھا اور اپنی والدہ کے پیچھے چلتے چلتے سامنے دروازے کے پاس پہنچا جو آدھا کھلا تھا۔ اس میں روشنی اندر آرہی تھی۔ والدہ اس دروازے میں سے باہر جھانک رہی تھیں۔میں نے آگے بڑھ کر دیکھا کہ والد کھلے صحن میں بیٹھے ہیں اور ایک نور کا حلقہ ان کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔میں نے والد کے پاس جانا چاہا لیکن والدہ نے مجھے روک دیا اور مجھے سمجھا بجھا کر سلا دیا۔ صبح ہوئی تو میں سب سے پہلے والد کے پاس پہنچا تاکہ ان سے رات کا ماجرہ دریافت کروں ۔ والدہ پہلے ہی وہاں موجود تھیں اور والد انہیں اپنا ایک خواب سنا رہے تھے جو رات انہوں نے بحالت بیداری دیکھا تھا۔والد نے بتایا کابل سے ایک قافلہ آیا ہے جو مجبوراً ہمارے شہر سے کوئی پچیس میل پر مقیم ہوا ہے۔اس قافلے میں ایک شخص بے حد بیمار ہے اور اس کی نازک حالت ہی کی وجہ سے یہ قافلہ یہاں ٹھہر گیا ہے،لہٰذا مجھے ان لوگوں کی مدد کے لیے فوراً پہنچنا چاہیے۔والد نے کچھ ضروری چیزیں فراہم کرکے تانگہ منگایا اور مجھے بھی ساتھ بٹھا لیا اور چل دیئے۔ چند گھنٹوں میں تانگہ اس مقام پر پہنچ گیا جہاں کارواں کا ڈیرہ تھا۔ ہم نے دیکھا کہ وہ قافلہ ایک دولت مند اور ذی اثر خاندان پر مشتمل ہے جس کے افراد اپنے ایک فرد کا علاج کرانے کے لیے پنجاب آئے ہیں۔والد نے تانگے سے اترتے ہی دریافت کیا کہ اس قافلے کا سالار کون ہے۔ جو وہ صاحب آئے تو والد نے کہا کہ مجھے فوراً مریض کے پاس لے چلو۔ سالار بے حد متعجب ہوا کہ یہ کون شخص ہے جو ہمارے مریض کی بیماری سے مطلع ہے اور فوراً اس کے پاس بھی پہنچنا چاہتا ہے لیکن وہ مرعوبیت کے عالم میں والد کو اپنے ساتھ لے گیا۔جب والد مریض کے بستر کے پاس پہنچے تو کیا دیکھا کہ مریض کی حالت بے حد خراب ہے اور اس کے بعض عضاء اس مرض کی وجہ سے ہولناک طور پر متاثر ہو چکے ہیں۔والد نے ایک چیز نکالی جو بظاہر راکھ نظر آتی تھی۔ وہ راکھ مریض کے گلے سڑے اعضاء پر مل دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مریض کو شفاء حاصل ہو گی۔اس وقت تو نہ مجھے یقین آیا نہ مریض کے لواحقین ہی نے اس پیشگوئی کو اہمیت دی لیکن چوبیس گھنٹے ہی گزرے تھے کہ مریض کو نمایاں افاقہ ہو گیا اور لواحقین کو یقین ہونے لگا کہ مریض صحت یاب ہو جائے گا۔ان لوگوں نے والد کی خدمت میں ایک اچھی خاصی رقم فیس کے طور پر پیش کی جس کو والد نے قبول نہ کیا اور ہم لوگ واپس سیالکوٹ پہنچ گئے۔چند روز بعد وہ قافلہ سیالکوٹ میں وارد ہو گیا اور معلوم ہوا کہ وہ مایوس و لاعلاج مریض شفاء یاب ہو چکا ہے۔ عطیہ فیضی نے اپنی انگریزی تصنیف 'اقبال' میں اس واقعہ کو بیان کیا۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ اقبال کے والد نے کسی ولی کی رہنمائی میں کئی ماہ تنہائی میں گزارے تھے اور انہیں جو کچھ حاصل ہوا وہ انہوں نے اپنے بیٹے اقبال کو منتقل کردیا۔
تاہم شیخ نور محمد باقاعدہ بیعت لے کر کسی کو باقاعدہ مرید نہ بناتے تھے۔ان کی لوح پر اقبال کی تحریر کردہ تاریخ وفات میں انہیں اقبال کا پیرو مرشد کہا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے اقبال نے باقاعدہ کسی کی بیعت تو نہیں کی تھی لیکن وہ اپنے والد محترم کو اپنا پیرو مرشد مانتے تھے۔عبدالمجید سالک کے مطابق شیخ نورمحمد کی انہی کیفیات کا اثر تھا کہ اقبال کا ذہن وجدانی کیفیات کے لیے ساز گار ہوا اور اقبال نے علمی تحقیق کے لیے مابعد الطبیعیات کا موضوع چنا۔ خلیفہ عبدالحکیم نے اپنی کتاب میں اقبال کی شخصیت پر شیخ نور محمد کے غیر معمولی مشاہدات کے اثر کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اقبال اپنی آخری عمر میں کہا کرتے تھے کہ میں نے اپنا زاویہ ء حیات فلسفیانہ جستجو سے ہی نہیں بلکہ ورثے میں حاصل کیا۔ تاہم بعد میں میں نے عقل و استدلال کے ذریعے اس کا ثبوت فراہم کیا۔
شیخ نور محمد کا معمول تھا کہ جب اقبال کو کوئی بات سمجھاتے تو قرآن مجید کی آیت مبارکہ یا اسوۂ رسول ۖ کی سند کے ساتھ سمجھاتے۔ نتیجتاً اقبال بغیر کسی ناگواری کے اسے قبول کر لیتے ۔ خود اقبال بیان کرتے ہیں کہ جب وہ سیالکوٹ میں پڑھتے تھے تو روزانہ صبح تلاوت کیا کرتے تھے۔ان کے والد گرامی اور اد وظائف سے فراغت کے بعد انہیں دیکھ کر خاموشی سے گزر جاتے۔
اقبال مزید بیان کرتے ہیں ایک دن والد مرحوم نے مجھ سے کہا کہ میں تمھاری تربیت کا تم سے معاوضہ چاہتا ہوں۔ میں نے بڑے شوق سے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ والد مرحوم نے کہا کہ کسی موقع پر بتائوں گا۔چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ بیٹا میری محنت کا معاوضہ یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کرنا۔ اس کے بعد میں نے امتحان وغیرہ دے کر اور کامیاب ہو کر لاہور کام شروع کر دیا۔ساتھ ہی میری شاعری کا چرچا پھیلا۔ نوجوانوں کے لیے اسلام کا ترانہ بنایا اور دوسری نظمیں لکھیں۔انہی دنوں میرے والد مرض الموت میں بیمار ہوئے میں انہیں دیکھنے لاہور سے آیا کرتا تھا۔ایک دن میں نے پوچھا کہ آپ سے میں نے اسلام کی خدمت کا جو عہد کیا تھا وہ پورا کیا یا نہیں؟ انہوں نے بستر مرگ پر شہادت دی کہ تم نے میری محنت کا معاوضہ ادا کر دیا۔
والدہ اقبال حضرت امام بی بی بھی ایک درویش صفت خاتون تھیں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا کہ ان کا تعلق سمبڑیال کے نواحی گائوں جیٹھی کے سے تھا ۔ امام بی بی لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھیں لیکن انہیں نماز ازبر تھی جسے وہ باقاعدگی سے پڑھا کرتی تھیں۔ تاہم رسمی تعلیم حاصل نہ کر سکنے کے باوجود وہ بڑی سمجھ دار، معاملہ فہم اور مدبر خاتون تھیں۔برادری اور محلہ داری کے جھگڑوں کا نہایت خوش اسلوبی سے تصفیہ کرادیتی تھیں اور اپنے حسن سلوک کی وجہ سے محلے کی عورتوں میں بے حد مقبول تھیں۔ اکثر مستورات اپنے زیور یا نقدی ان کے پاس بطور امانت رکھواتیں جنہیں وہ علیحدہ علیحدہ سرخ کپڑے کی پوٹلیوں میں باندھ کر اختیاط سے رکھتیں۔ان کی سب سے نمایاں خصوصیت غرباء پروری تھی۔کئی حاجت مند خواتین کو خفیہ طور پر نقدی دیتی تھیں۔امداد کرنے کا ایک اور طریقہ ان کا یہ تھا کہ محلے کے غریب گھرانوں کی دس بارہ سال کی تین چار بچیاں اپنے ہاں لے آتیں اور ان کی کفالت کرتیں۔بچیاں گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتیں اور بے جی کی بہو بیٹیوں سے قرآن مجید، نماز ، ضروری دینی تعلیم، اردو لکھنا پڑھنا، کھانا پکانا اور سینا پرونا سیکھتیں۔ کچھ مدت بعد مناسب رشتہ تلاش کر کے ان کے والدین کی مرضی سے بیاہ کر دیتیں۔جتنا عرصہ وہ ان کے پاس رہتیں ان کی دیکھ بھال ایسے ہی کرتیں جیسے اپنی بیٹیوں کی اور شادی کے وقت بھی انہیں بیٹیوں کی طرح رخصت کرتیں۔شادی کے بعد وہ لڑکیاں ان کے ہاں اس طرح آتیں جس طرح بیٹیاں میکے آتی ہیں۔ان کے جذبہ ایثار کا ایک واقعہ شیخ اعجاز احمد کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ میاں جی کے چھوٹے بھائی شیخ غلام محمد کے ہاں لڑکیاں ہی پیدا ہوتی تھیں اور ان کی بیوی کو بیٹے کی خواہش تھی۔دونوں بھائی اکٹھے رہتے تھے۔ ایک بار دونوں کی بیویاں امید سے ہوئیں۔ اس مرتبہ بے جی کو اللہ نے لڑکا دیا اور دیور کی بیوی کے ہاں پھر لڑکی پیدا ہوئی۔ان کی افسردگی کو محسوس کرتے ہوئے بے جی نے ان سے کہا کہ لڑکا تم لے لو اور لڑکی مجھے دے دو۔ چنانچہ بچوں کا تبادلہ ہو گیا۔ بے جی نے لڑکی کو پالنا شروع کردیا اور ان کی دیورانی نے لڑکے کو۔ چند ماہ بعد ایک دن صبح کے وقت دو نوں گھر کے کام کاج میں مصروف تھیں کہ بے جی نے لڑکے سے متعلق پوچھا تو ان کی دیورانی نے کہا کہ ابھی دودھ پی کر سو گیا ہے جب خاصی دیر ہو گئی اور بچہ بیدار نہ ہوا تو جاکر دکھنے پر معلوم ہوا کہ مر چکا ہے۔اس کے ہونٹوں پر دودھ لگا ہوا تھا۔اس کے بعد بے جی نے لڑکی دیورانی کو لوٹا دی۔
اقبال بتیسویں سالگرہ کے دن یعنی 9 نومبر1914 والدہ محترمہ امام بی بی کی رحلت کے صدمے سے دوچار ہوئے اور انہوں نے ان کی موت کو ایک بچے کی طرح محسوس کیا۔ جب تعزیت کے لیے سیالکوٹ آئے تو دیر تک والدہ کی خوبیاں بیان کرتے رہے اور آبدیدہ ہوتے رہے۔کہتے جب بھی سیالکوٹ آتا والدہ خوشی سے کھل اٹھتیں اور شگفتہ ہو کر فرماتیں میرا بالی آگیا۔ اقبال کہتے میں والدہ سے جب بھی ملتا ان کے سامنے میں اپنے آپ کو ننھا سا بچہ سمجھنے لگتا۔ اقبال منزل میں والدہ کے پاس محفل سجتی جہاں اپنی ماں اور خاندان سے متعلق اچھی اچھی باتیں کرکے یادوں کو تازہ کرتے۔ اقبال مہاراجہ کشن پرشاد کو والدہ کی وفات کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں۔ اس حادثے نے میرے دل و دماغ میں ایک شدید تغیّر پیدا کردیا ہے۔ میرے لیے دنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دنیا میں بڑھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا۔اب یہ حالات ہیں کہ موت کا انتظار ہے۔دنیا میں موت سب انسانوں تک پہنچتی ہے اور کبھی کبھی انسان بھی موت تک جا پہنچتا ہے۔میرے قلب کی موجودہ کیفیت یہ ہے کہ وہ تو مجھ تک پہنچتی نہیں کسی طرح میں اس تک پہنچ جائوں۔ اقبال نے خود اپنا معروف مرثیہ والدہ مرحومہ کی یاد میں تحریر کیا اور اس کی ایک نقل کسی خوش نویس سے لکھوا کر والد محترم شیخ نور محمد کی خدمت میں بھجوائی۔ ||
مضمون نگار کراچی سے شائع ہونے والے ملکی سطح کے ہفت روزہ میں کالم لکھتے ہیں۔
تبصرے