اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے نشانے پر
بھارت میں ذات پات کی جڑیں آج بھی مضبوط ہیں۔ صدیوں سے چل رہے اس فرسودہ نظام کو نہ غریبی ہٹاؤ کے نعرے نے بدلا نہ سپورنا کرانتی نہ شائننگ انڈیا (Shining India)برینڈنگ نے بدلا نہ تعلیم اور معاشی ترقی کے مواقعوں نے۔ مودی سرکار نے توہندوتوا کی سوچ کو اتنا پروان چڑھایا کہ اقلیتیں دیوار سے جا لگیں۔ بی جے پی نے سرکاری چھتری تلے اپرکاسٹ کے ہاتھ مزید مضبوط کردیئے- ذات پات کی خلیج کو پچھلے سات سالوں میں اتنا گہرا کردیا گیا ہے کہ نچلی ذاتوں سے ہونے والا ناروا سلوک اب اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔
بھارت میں نچلی ذات کا لڑکااونچی ذات کی لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا لیکن اگر کوئی رسم و رواج کے باغی جوڑے ایسا کر بیٹھیں تو لڑکی کے گھر والے اس نچلی ذات کے لڑکے کو غیرت کے نام پر قتل کردیتے ہیں۔ اس کی مثال تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے پراننے اور امریتا کا کیس ہے۔ اونچی ذات کی امریتا کے باپ نے دلت ہونے کے باعث پراننے کو اس کی بیوی امریتا کے سامنے مروادیا۔ یہ واقعہ 2018 میں پیش آیا جس کے لئے کرائے کے قاتل کودس لاکھ روپے دئیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ جس کیس نے انسانی حقوق اور ذات برادری کے خلاف کام کرنے والے حلقوں میں بہت شہرت پائی وہ سدھاکار کیس ہے- سدھاکارانڈین اسٹیٹ تامل ناڈو کا رہائشی تھا۔ اس نے وہیں کی رہائشی لڑکی سے شادی کی۔ لڑکی چونکہ سدھاکار سے اوپر کی ذات کی تھی چنانچہ لڑکی کے خاندان کی مخالفت کے باعث چھپ کر یہ شادی انجام پائی۔ علم ہونے پر معاملات بگڑے اور لڑکی کے گھروالوں نے پنچائیت بلالی جس نے شادی ختم کرتے ہوئے سدھاکار کو گاوں چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ سدھاکار کے غریب محنت کش ماں باپ نے اسے چنائی بھیج دیا۔ چھ مہینے بعد جب کرونا لاک ڈائون لگا تو سدھاکار بھی واپس آگیا اور اپنی بیوی سے ملنے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے کے طور پر 27 مارچ 2020 کو لڑکی کے باپ نے اپنے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ مل کر سدھاکار کا قتل کردیا۔ اس قتل کے پیچھے غیرت کا عنصر کارفرما تھا۔ قاتلوں نے پولیس کے سامنے پیش ہو کر اقبال جرم بھی کیا۔ ایف آئی آر کٹی۔کیس عدالت میں گیا لیکن سدھاکار کے ماں باپ ابھی تک انصاف سے محروم ہیں۔
یوں تو پورے بھارت میں ہی ایسے قتل کئے جاتے ہیں لیکن پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش میں صورتحال زیادہ سنگین ہے۔ بھارتی دارلحکومت دہلی کے علاوہ جھاڑ کھنڈ، ہماچل پردیش، آسام، کیرالہ، راجستھان، تامل ناڈو، تلنگانہ، مہارشٹرا، گجرات وغیرہ میں بھی غیرت کے نام پر قتل کی شرح بلند ہے۔ ان علاقوں میں بھی لڑکی یا لڑکے کو غیرت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال راجستھان کا مشہور کیس ہے جس میں سولہ سال کی لڑکی کو اس کی ماں نے رشتے دار کے ساتھ مل کر قتل کردیا۔ مذکورہ لڑکی کے اغوا کی ایف آئی آر خاندان کی طرف سے کٹوائی گئی تھی۔ لڑکی اپنے گھر والوں کے خوف سے ممبئی میں جا چھپی۔ جب ممبئی پولیس نے لڑکی کو برآمد کرکے خاندان کے حوالے کردیا تو19 مارچ 2020 کو راجھستان لے جا کر لڑکی قتل کردی گئی۔
ایسے کیسز کے پیچھے اکثر کھاپ پنچائت متحرک نظرآتی ہے۔ کھاپ 84 گاؤں کی مشترکہ پنچائت کو کہتے ہیں۔ اس پنچائت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں لیکن پھر بھی یہ خالصتاً قانونی نوعیت کے معاملات میں اپنے تئیں ظالم اور مظلوم کا فیصلہ کرتے ہوئے قانون کی دھجیاں اڑاتی رہتی ہے۔ حالانکہ بھارتی سپریم کورٹ نے 2018 میں شکتی واہنی آرگنائزیشن کی جانب سے دائر پٹیشن کے فیصلے میں واضح طور پر کہا تھا کہ کھاپ پنچائت یااس جیسی اور کوئی پنچائت نہ قانون اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے نہ ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے کا کردار ادا کرسکتی ہے (حوالہ: شکتی واہنی ورسز یونین آف انڈیا 2018 پیرا 47) سپریم کورٹ نے مزید کہا تھا کہ اگر پولیس کو کھاپ پنچائت کے انعقاد اور پنچائتی فیصلے کا پتہ چلے تو وہ انڈین پینل کوڈ کے سیکشن 141, 143,503,506 کے تحت فوراً ایف آئی آر درج کریں اور پنچائتی فیصلے کی زد میں آنے والے جوڑے کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس ضمن میں ہر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر میں سیف ہاوس بنائے جائیں (حوالہ: شکتی واہنی ورسز یونین آف انڈیا 27 مارچ 2018 پیرا:53)عدالت ایسی نوعیت کے کیس روزانہ کی بنیاد پر سنے اور زیادہ سے زیادہ چھ مہینے میں فیصلہ سنادیا جائے۔
کھاپ پنچائت کی نظر میں ایک گوترے یعنی ایک ہی آباؤاجداد کی نسلوں سے تعلق رکھنے والے سب مرد اور عورتیں بہن بھائی ہیں، اس لئے ان کی آپس میں شادی نہیں ہوسکتی۔ اگر کوئی اس پنچائتی قانون کو توڑے تو نہ صرف ان کی شادی ختم کردی جاتی ہے بلکہ لڑکا اور لڑکی کو قتل کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح ذات برادری سے باہر یا غیر مذہب میں شادی بھی پنچائت کی رو سے ناقابل معافی جرم ہے جس کی سزا لڑکا لڑکی کی موت ہے۔اس سزا پر عملدرآمد خاندان والے خوشی خوشی کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ انڈین میرج ایکٹ 1955کی کھلی خلاف ورزی ہے جو دو بالغ لوگوں کو اپنی مرضی سے جیون ساتھی چننے کا حق دیتا ہے۔
حکومتی مشینری اور انتظامیہ غیرت کے نام پر دن بہ دن بڑھتے قتل کو روکنے میں ناکام ہے۔ بھارتی سماج میں تو ویسے بھی عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ انہیں قانونی طور پر بہت کم حقوق حاصل ہیں۔ اس لئے بھارت میں خواتین کا استحصال اور ان کے خلاف جرائم کی شرح بہت بلند ہے۔ پولیس میں بھی ان کی شنوائی آسانی سے نہیں ہوتی۔2021 میں بھارت میں عورتوں کے خلاف جرائم میں 60 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ ساتھ ہی غیرت کے نام پر قتل میں بھی اضافہ ہوا- بھارتی پولیس کی نااہلی یا ملی بھگت ملاحظہ کریں کہ جولائی 2021 میں بریلی کے پولیس سٹیشن کے باہر بیس سالہ ارچنا کو اس کے بھائیوں نے گلا کاٹ کر غیرت کے نام پر قتل اور اس کے شوہردویندرا کو شدید زخمی کردیا ۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب ارچنا اور دویندرا الہ آباد ہائی کورٹ سے پولیس کی حفاظت حاصل کرنے کی پیٹشن جیت کر داتا گنج پولیس سٹیشن پہنچے تھے تاکہ تحفظ حاصل کرسکیں لیکن محافظوں نے گھات لگائے بیٹھے قاتلوں کو اپنی غیرت دکھانے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔
بھارت میں غیرت کے نام پر قتل کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف کرناٹک میں ایک سال میں یہ شرح 54 فیصد بڑھی ہے اور تقریباً تمام کیسز میں لڑکا یا لڑکی میں کوئی ایک دلت تھا۔ مارچ 2021 میں اتر پردیش میں ایک آدمی نے اپنی سترہ سالہ بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کیا اور پھر اس کا کٹا ہوا سر لے کر اقبال جرم کی غرض سے فخریہ تھانے پہنچ گیا۔ جولائی2021 کے مہینے میں ایک اور جوڑے کو ان کی شادی کے 28 سال بعد بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہاں بھی اپر کاسٹ سے تعلق رکھنے والے شوہر کے رشتہ داروں نے نچلی ذات کی عورت سے شادی کرنے پر دونوں کو مارا پیٹا جس سے عورت شدید زخمی ہوئی۔ اس سے پہلے ایک دلت لڑکے اور مسلمان لڑکی کو سر کچل کر مارا گیا تھا۔ حیدرآباد میں اٹھائیس سالہ ہیمنت کمار کو اس کی اونچی ذات کی بیوی آونتھی کے ماں باپ نے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ مل کر قتل کردیا۔ اسی طرح ہریانہ کے مکین پور گاؤں میں ایک آدمی نے پسند کی شادی کرنے پر اپنی اٹھارہ سالہ بیٹی کانیکا کو دھوکے سے گھر بلا کر گلا دبا کر قتل کردیا۔ دوارکا میں چوبیس سالہ ونے کو اس کی بیوی کرن کے بھائی اور رشتہ داروں نے جون2021میں گھر میں گھس کر فائرنگ کرکے مارڈالا جبکہ کرن شدید زخمی ہوگئی جس نے اپنے بھائی اور کزن کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کرن اور ونے نے پولیس سے تحفظ فراہم کرنے کی درخواست بھی کی تھی جو ان سنی کردی گئی۔ مزید یہ کہ کرن کے بھائی کے پیچھے انتہائی بااثر شخصیت کا ہاتھ ہے اس لئے پولیس اسے گرفتار نہیں کر پارہی۔ یہ وہ چند واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے۔ جو قتل رپورٹ ہی نہیں ہوئے وہ الگ ہیں۔
غیرت کے نام پر کئے گئے قتل کی سزا انڈین پینل کوڈ کے آرٹیکل 304، 307، 308 کے تحت دی جاتی ہیں۔ یہ تمام آرٹیکل قتل اور اقدام سے متعلق ہیں۔ اکثر ان میں سیکشن 107 اور201 یعنی جرم اور سازش میں معاونت کی دفعات بھی شامل کرلی جاتی ہیں۔ 2011 میں بھارتی لا کمیشن نے انڈنجرمنٹ آف لائف اینڈ لبرٹی ایکٹ 2011 لاگو کرنے کی تجویز دی تھی تاکہ کھاپ پنچائت کا اثر رسوخ ختم کیا جاسکے۔ لیکن یہ معاملہ بھی لٹک گیا۔ قانونی ماہرین کا مانناہے کہ اگر بھارت میں غیرت کے نام پر قتل کو روکنا ہے تو انڈین پینل کوڈ کے سیکشن 300 میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ ساتھ ہی انڈین ایویڈنس ایکٹ 1872 میں بھی ترمیم کرکے بار ثبوت مدعی سے ہٹا کر نامزدگان پر ڈالا جائے۔ اسی طرح انڈین میرج ایکٹ 1954 کے تحت شادی کی رجسٹریشن کا دورانیہ ایک مہینے سے کم کرکے ایک ہفتہ کیا جائے۔
لتا سنگھ کیس میں بھارت کی سپریم کورٹ نے واضح طور پر لکھا کہ غیرت کے نام پر ہونے والا قتل درندگی اورسفاکی کے علاوہ کچھ نہیں۔ عدالت نے لتا سنگھ کے مقتول شوہر کو تمام الزامات سے بری بھی کردیا اور لکھا کہ ذات برادری سے ہٹ کر شادی کرنے سے معاشرہ مضبوط ہوگا۔ غیرت کے نام پر ہونے والے جرائم بھارتی آئین کے آرٹیکل3، 14، 15، 21 کی خلاف ورزی ہے، جو بنیادی حقوق، شخصی آزادی، ذات برادری اور مذہب سے بالاتر ہوکرانصاف کی یکساں فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔ (حوالہ: لتا سنگھ ورسز اسٹیٹ آف یوپی ودیگر)
مدراس میں ہائی کورٹ نے2016 میں مدراس کی حکومت کو غیرت کے نام پر قتل روکنے کے لئے اقدامات کرنے کی ہدایت دی تھی ۔ تب یہ ہدایت بھی کی گئی تھی کہ پولیس اپنی پسند سے شادی کرنے والے نوجوانوں کو سمجھانے اور ان کی رہنمائی کے بجائے ماں باپ کو سمجھائے اور ان کی رہنمائی کرے اور اگر ایسا کوئی قتل ہو تو پولیس انڈین پینل کوڈ کی دفعات 141، 143، 503، 506 کے تحت فوراً کارروائی کرے۔ لیکن عدالت کے حکم کے باوجودمدراس کی حکومت نے آنر کلنگ (Honour Killing) کو روکنے کے لئے تاحال کوئی بندوبست نہیں کیا۔ یہی حال ہر سٹیٹ میں ہے اور رہ گیا مرکز تو مودی سرکار تو ذات پات مذہب کی بنیادوں پر معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس نے غنڈہ گردی کے ذریعے سماج کے پسے ہوئے طبقوں کے استحصال کا جو بیج بویا تھا وہ اب تناور درخت بن چکا ہے۔ مسلمان ہوں یا دلت، سب خوف اورعدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ریاست کی جانب سے تعاون ، آسرا اور تحفظ نام کی کوئی چیز ان کو میسر نہیں۔ ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت کی جاتی ہے۔ ان پر روزگار کے دروازے بند کئے جاتے ہیں۔ شادی بیاہ کے معاملے میں بھی ان کی سوچ، پسند اور جیون ساتھی چننے کی آزادی پر قدغن لگا ئی جاتی ہے۔ ہر سطح پر برتے جانے والے ناروا سلوک کے باعث بھارت میں اقلیتیں بہت پیچھے ہیں۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔
اگرچہ انڈین سپریم کورٹ ان جرائم کو روکنے کے لئے قانون سازی کا کہہ چکی ہے لیکن سرکار اس میں دلچسپی نہیں لیتی۔ بی جے پی نام نہاد لو جہاد کو روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ لیکن غیرت کے نام پر قتل کو روکنے کے لئے جس قانون سازی کی ضرورت ہے وہ سردخانے میں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو لو جہاد (بھارت میں بی جے پی کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف ایک تحریک ہے جس میں کہا جارہا ہے کہ اگر کوئی مسلمان مرد ہندو عورت سے شادی کرے گا تو اس کی شادی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی) کے نام پر ریاستی سرپرستی میں جن جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے وہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل سے مختلف تو نہیں۔ دونوں میں آزاد خودمختار بالغ لوگوں کی شادی ختم کرکے انڈین میرج ایکٹ اور بھارتی آئین کے آرٹیکل3، 14، 15، 21کی کھلے عام خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ پھر دونوں کی ٹریٹمنٹ الگ الگ کیوں؟ صرف اس لئے کہ غیرت کے نام پر قتل کرتے ہوئے دونوں فریق اکثر و بیشتر ہم مذہب یعنی ہندو یا کبھی سکھ ہوتے ہیں، فرق صرف ذات کا ہے۔ جبکہ لو جہاد میں ایک فریق مسلمان ہوتا ہے۔ اس لئے بھارت کے انتہا پسند حکمران اپنے تعصب کے الاؤ کو لو جہاد کی سخت گیر قانون سازی سے مزید بھڑکا کر اس میں انڈیا میں بسنے والی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کو جھونک رہے ہیں تاکہ مسلمان نوجوانوں کو جب دل چاہے جھوٹے مقدموں میں پھنسا دیا جائے ۔ حالانکہ صدیوں سے جلتی ذات پات کی چتا میں اکیسویں صدی کے بھارت کی اپنی نسلیں جل رہی ہیں۔ لیکن ہر وقت جھوٹ کی راگنی الاپنے والا بھارتی میڈیا بھی چپ ہے اور سیاست دان بھی رام رام کی مالا جپ رہے ہیں۔ ||
مضمون نگار سماجی و سیا سی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے