کشمیرکو دنیا کے سب سے بڑے متنازع خطوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازع پر تین جنگیں ہوچکی ہیں اور دونوں ممالک کی آزادی کے پہلے ہی سال اسی تنازع پر جنگ چھڑ گئی تھی۔ اقوام متحدہ نے کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام کی رائے کے مطابق کرانے کی قرارداد منظور کی لیکن قرارداد ناقابل عمل ہی رہی۔مقبوضہ کشمیر بھارت کے شدید ظلم و ستم کے سائے میں رہا لیکن کشمیریوں کا جذبہ آزادی کبھی ماند نہ پڑا۔انسانی حقوق سے متعلق عالمی غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق بھارتی افواج نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں، 11245سے زائد خواتین پر حملہ کیا۔کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ علاقے میں بھارتی افواج کی جارحیت نے جنوری 1989سے اب تک ،23000 خواتین کو بیوہ کیا ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 23فروری 1991 کوکنان اور پوش پورہ گائوں میں تقریباً 100خواتین پر سفاک بھارتی فوجیوں نے حملہ کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ بھارت کشمیری خواتین کو جان بوجھ کر نشانہ بنا رہا ہے تاکہ وہ کشمیریوں کی تذلیل اور حوصلہ شکنی کرسکے ۔ علاقے میں خوف پیدا کرنے کے لیے وہ ان حملوں کو جنگی حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
حال ہی میں پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں، جنگی جرائم، نسل کشی سے متعلق ٹھوس ثبوتوں پر مبنی ایک جامع و مفصل رپورٹ قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے سامنے پیش کی۔ اس دستاویز میں مقبوضہ وادی میں جعلی مقابلوں، خواتین کی آبرو ریزی، زیادتی اور گمنام قبروں کے ٹھوس شواہد شامل ہیں۔
اس رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ بھارت کس طرح کھلے عام انسانی حقوق سے متعلق قوانین کی پامالی کر رہا ہے۔ دستاویز میں جوثبوت پیش کئے گئے ہیں وہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ ،اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس پر مشتمل ہیں۔اس رپورٹ میں بین الااقوامی میڈیا، بھارتی میڈیا اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے حوالہ جات شامل کئے گئے ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جنگی جرائم کا تذکرہ ہے، اس رپورٹ میں تقریباً ایک ہزار سے زائد ان لوگوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جو ان جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث رہے، جس میں بھارتی فوج اور پولیس کے اعلیٰ سطح پر فائز افسر بھی شامل ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق بھارتی مظالم کی وجہ سے تقریباً ایک لاکھ بچے یتیم جبکہ ایک لاکھ املاک کو نقصان پہنچایا گیا، اور اسلحہ کی نوک پر مظلوم کشمیریوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔
دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے 6 اضلاع کے 89 گائوں میں 8 ہزار 652 اجتماعی قبریں دریافت ہونے کا انکشاف بھی کیا گیا۔ جس میں سے 154 قبروں میں 2، 2 افراد جبکہ 23 قبروں میں 17 سے زائد افراد کی لاشیں تھیں۔اس کے علاوہ بھارتی فوج 2017 سے مقبوضہ کشمیر میں کیمیکل ہتھیار استعمال کر رہی ہے جس سے 37 کشمیری جاں بحق ہوئے جبکہ 2014 سے اب تک بھارتی فورسز کے ہاتھوں 3 ہزار 850عصمت دری کے واقعات بھی پیش آئے اور 650خواتین کو قتل کردیا گیا۔
برطانوی اخبار دی گارڈین(The Guardian) کے مطابق10 ہزار کشمیریوں کو لاپتہ کیا گیا ہے جبکہ بھارتی فورسز نے2014 کے بعد سے اب تک 120 کشمیری بچوں کو فائرنگ کرکے قتل کیا۔ بھارتی فورسز کی جانب سے پیلٹ گن کے استعمال سے ایک ہزار 253 نوعمر لڑکے نابینا اور 15 ہزار 438 بری طرح زخمی ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز نے سرچ آپریشن کے نام پر ہزاروں املاک کو تباہ کیا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حریت کانفرنس کے قائد سید علی گیلانی کا یکم ستمبر کی رات سری نگر میں اپنی رہائش گاہ پر دوران حراست انتقال ہوا اور ان کے لواحقین کی اجازت کے بغیر انہیں زبردستی ایک قریبی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔ اس اقدام کا مقصد ان کے جنازے میں لاکھوں کشمیریوں کی شرکت کو روکنا تھا۔ سید علی گیلانی طویل عرصہ تک حریت کانفرنس کے چیئرمین رہے اور انہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں سری نگر کے مرکزی مزار شہداء میں سپردخاک کیا جائے۔ بھارتی حکومت ان کے انتقال کے بعد بھی ان کی میت سے خوفزدہ دکھائی دیتی ہے ۔
بھارتی قابض افواج نے مقبوضہ کشمیر میں 1989 سے 2021 تک نوے ہزار سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جبکہ 1990 کے بعد بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں 7190 افراد دوران حراست شہید کئے گئے۔"
کشمیر میڈیا سروس کی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ غیرقانونی طور پربھارت کے زیر تسلط جموں وکشمیر میں ایک لاکھ سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ ایک لاکھ دس ہزار سے زائد گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔
قابض بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی آبروریزی و عصمت دری کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔
مقبوضہ علاقہ میں اب تک تقریباً گیارہ ہزار سے زائد خواتین کی عصمتوں کو پامال کیا جاچکا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حریت کانفرنس کے قائد سید علی گیلانی کا یکم ستمبر کی رات سری نگر میں اپنی رہائش گاہ پر دوران حراست انتقال ہوا اور ان کے لواحقین کی اجازت کے بغیر انہیں زبردستی ایک قریبی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔ اس اقدام کا مقصد ان کے جنازے میں لاکھوں کشمیریوں کی شرکت کو روکنا تھا۔ سید علی گیلانی طویل عرصہ تک حریت کانفرنس کے چیئرمین رہے اور انہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں سری نگر کے مرکزی مزار شہداء میں سپردخاک کیا جائے۔ بھارتی حکومت ان کے انتقال کے بعد بھی ان کی میت سے خوفزدہ دکھائی دیتی ہے ۔
سید علی گیلانی انتقال سے قبل کم وبیش 12 سال اپنی رہائش گاہ پر نظربند رہے۔
قابض افواج اور مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ نے 2017 میں بھارتی حکومت کے احکامات پر حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند قائدین کو بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کے ذریعے مختلف مقدمات کے تحت گرفتار کیا اور وہ اس وقت نئی دہلی سمیت بھارت اور کشمیر کی مختلف جیلوں میں غیر قانونی طور پر نظر بند ہیں۔
دوسری طرف دور جدید میں ڈیجیٹل رائٹس بھی انسانی حقوق کا حصہ ہیں لیکن مقبوضہ وادی میں بھارتی ریاست کی طرف سے آئے روز انٹرنیٹ پر کریک ڈاؤن رہتا ہے جسکی وجہ سے کشمیریوں کی سوشل میڈیا یا ڈیجیٹل لائف کافی حد تک متاثر ہوتی ہے اور وہ اپنی بات دنیا تک نہیں پہنچا سکتے۔ انٹرنیٹ نہ ہونے یا سست روی کی وجہ سے کرونا ویکسینیشن بھی تاخیر کا شکار ہے اور صحیح طرح سے ویکسینیشن کا عمل نہیں ہو پارہا۔ ان تمام مسائل کے ساتھ نہ صرف کشمیر کی معیشت بدحالی کا شکار ہے بلکہ تعلیمی لحاظ سے بھی طلبہ سمیت وہاں کی نوجوان نسل کا مستقبل تاریک کیا جارہا ہے جسکی ذمہ دار مودی کی ظالم سرکار ہے اور بھارت ایک سازش کے تحت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں اور نوجوانوں کی نسل کشی کررہا ہے۔
بھارت کشمیر میں غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل جاری کرکے آبادی کا تناسب تبدیل کرنا چاہتا ہے جبکہ یہ اقدام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ بھارتی حکومت کے اس حربے کا مقصد مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم کرنا اور بھارتی باشندوں کو مقبوضہ علاقہ میں آباد کرنا ہے۔کشمیری عوام نے حق خودارادیت کے حصول کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور وہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ جدوجہد آزادی کشمیر کے حصول تک جاری رہی گی۔ ||
مضمون نگار تجزیہ کار ہیں ا ور سیاسیات و بین الاقوامی اُمور پر دسترس رکھتے ہیں۔
تبصرے