اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہترین محل وقوع ، بے بہا نعمتوں، صلاحیتوں اور وسائل سے مالا مال کیا ہے، ایک طرف آسمان کو چھوتی بلند و بالا چوٹیاں ہیں تو دوسری طرف وسیع سمندر اور ساحلی علاقہ، ہمارے پاس سیکڑوں میل پر پھیلے ،ہرے بھرے، وسیع و عریض سونا اگلتے سبزہ زار بھی ہیں تو صحراؤں کا حسن بھی اپنی مثال آپ ہے، جہاں چاندنی راتوں میں مور ناچتے اور زندگی کے رنگ بکھیرتے ہیں، سات لاکھ 96 ہزارسے زائدمربع میل پر سیکڑوں چھوٹے بڑے دریا بہتے ہیں جن کے دامن میں وقت کی مختلف تہذیبوں نے جنم لیا اور پروان چڑھیں، ہمارے دہقانوں ، ہنرمندوں اور جوانوں کو ان کی محنت ، لگن اور شجاعت سے دنیا پہچانتی ہے۔
بلوچستان، رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی سرحدیں افغانستان اور ایران کے ساتھ ملتی ہیں بلکہ گوادر کی بندرگاہ کی ترقی نے نہ صرف اس صوبے بلکہ پاکستان اور خطے کے ممالک کے لئے ایک روشن اور تابناک مستقبل کا دروازہ کھول دیا ہے۔ یہ سنگ میل کبھی عبور نہ ہو پاتا اگر ہمارے جوانوں نے اپنے لہو سے امن قائم کرکے تاریخ رقم نہ کی ہوتی۔ انہی قربانیوں کے طفیل آج بلوچستان میں بھی ملک کے دیگر علاقوں کی طرح جشن آزادی بھرپور جوش و جذبے اور عزم و یقین سے منایا جارہا ہے اور بلوچستان کے بچے، جوان اور تمام مرد و زن بھی ملک کے دیگر علاقوں کے شہریوں کی طرح قومی جذبے سے سر شار ہیں اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے ایک ایسی جنگ لڑی ہے جس کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی، آج پاکستان کے طول و عرض میں امن قائم ہوا ہے اور بلوچستان سمیت ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے تو اس کا سہرا پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ان جوانوں کے سر ہے جنہوں نے امن کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ آج سی پیک کے تحت ملک کے ہر صوبے اور علاقے میں مختلف ترقیاتی منصوبے تیزی سے جاری ہیں ، بلوچستان کی تقدیر بھی سی پیک کی بدولت بدل رہی ہے اور عشروں سے نظر انداز یہ صوبہ اب خطے کی توجہ کا مرکز بننے جارہا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ محض سمندر کا ایک کنارہ نہیں، یہ اس خطے کے کروڑوں انسانوں کے مقدر کا استعارہ ہے۔
گوادر خطے میں اقتصادی اور ترقیاتی سرگرمیوں کا محور بن رہاہے جس سے نہ صرف پاکستان اوربالخصوص بلوچستان کو فائدہ ہوگا بلکہ وسطی ایشیاء سمیت علاقائی ممالک کے لئے بھی وسیع تر تجارتی مواقع پیدا ہوں گے، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ون ونڈو آپریشن کے تحت سہولیات فراہم کی جائیں گی، حکومت کی کوشش ہے کہ ترقی کے عمل میں ملک کے تمام علاقوں کو ساتھ لے کر چلیں، ملک کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کے لئے برآمدات میں اضافے پر توجہ دینا ہوگی، گوادرماسٹر پلان پر ترجیحی بنیادوں پر کام ہورہاہے، ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی براہ راست وزیراعظم آفس سے کی جارہی ہے، اس سلسلہ میں وزیراعظم آفس اور وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے درمیان مؤثر رابطے کو بھی یقینی بنایا جارہاہے۔
ماضی میں بلوچستان کی ترقیکو نظرانداز کیا گیا، بدقسمتی سے ترقی میں کئی علاقے بہت پیچھے رہ گئے اور ان میں بلوچستان بھی شامل ہے۔ بجلی اور پانی جیسے بنیادی مسائل حل نہ کئے گئے، صنعتی سرگرمیوں کے لئے گیس بھی ضروری ہوتی ہے، اس کے علاوہ گوادر کو دیگر علاقوں سے ملانے کے لئے سڑکوں کی تعمیر پر بھی توجہ نہ دی گئی، خاص طور پر سی پیک کے مغربی روٹ پر بھی دھیان نہ دیا گیا لیکن اب تمام منصوبوں پر کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ توانائی اور پانی کے منصوبے اور گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر ہو رہی ہے، یہ گوادر کو دنیا سے ملائے گا، ان منصوبوں پر کام تیزی سے ہو رہا ہے۔چینی اور دیگر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یہاں پر بہتر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جارہاہے ، اس سلسلہ میں ویتنام، کمبوڈیا اور بنگلہ دیش میں سرمایہ کاروں کو بہت سہولیات مل رہی ہیں۔ موجودہ حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے ون ونڈو آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات میں ماضی میں اضافہ نہیں ہوا اور برآمدات بڑھانے پر توجہ نہیں دی گئی، جب برآمدات نہیں بڑھیں گی تو روپے پر دبائو بڑھنے سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ کی صورت میں مسائل پیدا ہوں گے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سرمایہ کاروں کو خصوصی اقتصادی زونز اور نارتھ فری زون جیسے مقامات پر سرمایہ کاری کے لئے راغب کریں تاکہ ملک کی آمدنی بڑھے اور میکرو اقتصادی عدم توازن ختم ہو۔
بلوچستان حکومت کے ساتھ وفاقی حکومت کا بہت اچھا رابطہ ہے، یہ رہنا چاہئے اور اس میں مزید اضافہ ہونا چاہئے کیونکہ جس ملک میں سرمایہ کاروں کو فائدہ ہو رہا ہوتا ہے اور بہتر منافع مل رہا ہوتا ہے تو وہ وہاں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں اور دوسرے سرمایہ کار بھی اس ملک کا رخ کرتے ہیں۔چین کے ساتھ دوستی اور تعلقات کا ہمیں بڑا فائدہ ہے، چین معاشی لحاظ سے تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، ہم اپنے محل وقوع اور چین کی دوستی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، گوادر میں ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کے قیام سے گوادر اور بلوچستان کے نوجوانوں کو فائدہ ہوگا، جیسے جیسے یہاں سرمایہ کاری بڑھے گی اور صنعتیں لگیں گی، یہاں پر پیشہ ورانہ مہارت کی حامل افرادی قوت کی ضرورت ہوگی۔گوادر میں 500 بستروں کا ہسپتال تعمیر کیا جا رہا ہے، وفاقی حکومت فاٹا، بلوچستان، پنجاب کے جنوبی اضلاع اور شمالی علاقہ جات پر توجہ دے رہی ہے اور پہلی مرتبہ پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے کثیر فنڈز فراہم کئے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان کے لئے اگلے چار سال کے لئے 730 ارب روپے کا بڑا پیکج دیا ہے اور اتنا بڑا ترقیاتی پیکج پہلے کسی صوبے کو نہیں دیا گیا، بلوچستان بہت بڑا علاقہ ہے جب تک یہاں پر سڑکیں نہیں بنیں گی یہاں ترقی نہیں ہو سکتی، ترقیاتی پیکج کے ذریعے دوردراز علاقوں کو آپس میں ملایا جا رہا ہے، سی پیک کے مغربی روٹ پر پیش رفت بہت آگے بڑھ چکی ہے، کالجز بنائے جارہے ہیں، گوادر میں یونیورسٹی بن رہی ہے، کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت غریب گھرانوں کو آسان شرائط پر قرضہ فراہم کیا جائے گا، کسانوں کو سہولیات دی جارہی ہیں اور علاج کے لئے ہیلتھ انشورنس فراہم کی جائے گی۔ گوادر میں کامیاب جوان پروگرام کے تحت وزارت بحری امور نے ماہی گیروں کی کشتیوں اور مچھلیاں پکڑنے کے جال بہتر بنانے کے لئے پروگرام بنایا ہے، گوادر وسطی ایشیاء تک کے خطے کو آپس میں ملا رہا ہے، تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ ہمارے معاہدے ہوئے ہیں، وہ گوادر کے راستے تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ وزارت منصوبہ بندی نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے ساتھ بیٹھ کر صوبے کے لئے بہت اچھا پیکج تیار کیا ہے۔1960ء کی دہائی میں خطے کے ان چار ممالک میں پاکستان شامل تھا جو تیزی سے ترقی کر رہے تھے۔ گوادر پاکستان کا فوکل پوائنٹ بنے گا جس سے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان کو فائدہ ہوگا۔ وزیر اعظم کے دورہ گوادر کے دو مقاصد تھے، ایک تو گوادر فری زون کا افتتاح اوردوسرا فری زون فیز ٹو کا سنگ بنیاد۔
گوادرپورٹ فیز ون کی تکمیل کے بعد گوادر فری زون فیز ٹو کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ یہ ایک بہت بڑا قدم ہے۔ فری زون کا فیز ون صرف 60 ایکڑ پر مشتمل تھا جبکہ فیز ٹو دوہزار ایکڑ سے زائد پر مشتمل ہے۔ پانچ فیکٹریوں کی تعمیر کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا۔گوادر بلکہ پورے پاکستان میں سرمایہ کاری کے منصوبوں کا اعلان کردیاگیاہے۔ 7 علاقائی ممالک کے سفر اء نے وزیراعظم کی موجودگی میں اپنے اپنے ممالک کی طرف سے سرمایہ کاری میں شرکت کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ چائنہ بزنس سنٹر فری زون ون میں واقع ہے اسے سائوتھ زون بھی کہتے ہیں۔ اس میں 46 انٹرپرائزز رجسٹرڈ ہو چکی ہیں جن میں 12 فیکٹریاں شامل ہیں ،جن میں سے تین مکمل ہو چکی ہیں اور ان کی پیداوار جاری ہے۔یہاں ٹریفک دن بدن بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ سال پہلے کے مقابلہ میں سامان کی سیکڑوں گنا زیادہ ترسیل ہوئی ہے اور اس سال ہم 60 ہزار میٹرک ٹن تک پہنچ چکے ہیں۔ 5 ایل پی جی کے جہاز گوادر میں آئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ٹریفک میں مزید اضافہ ہو گا۔ فری زون میں صنعت سازی کے لئے دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹرانس شپمنٹ میں بھی دلچسپی بڑھتی جارہی ہے۔ ایران کے ساتھ گبد کا کراسنگ پوائنٹ چل پڑا ہے۔ گوادر کے ذریعے ایرانی سامان کی نقل و حمل پر کام ہو رہا ہے۔ ایرانی سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ بارڈر مارکیٹس بھی بن رہی ہیں جس سے تجارتی حجم میں مزید اضافہ ہو گا اور سمگلنگ میں بھی کمی آ رہی ہے۔ 1.2 ملین گیلن کا صاف پانی کا پلانٹ چین نے تخفے میں دیاہے۔ یہ 12 سے 13 ماہ کے دوران مکمل ہو گا۔ اس کے علاوہ جنوبی بلوچستان پیکج میں گوادر کیلئے پانی و بجلی کے منصوبے شامل ہیں۔ 5 ملین گیلن صاف پانی کی روازانہ فراہمی کا پلانٹ بھی اس پیکج میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے بجلی کے ایک منصوبے کی منظوری دی ہے جس پر کام شروع ہو گیا ہے۔ جس کے تحت جنوبی بلوچستان بالخصوص گوادر کو مین گرڈ سے منسلک کیا جائے گا۔اس کے علاوہ تین سو میگاواٹ کے ایک پلانٹ پر بھی کام ہو رہا ہے۔ بجلی، پانی اور شہر کے لئے دیگر سہولیات پر وزیراعظم کی خصوصی توجہ ہے۔سی پیک کے تحت گوادر میں قائم کی جانے والی صنعتوں سے ملکی برآمدات کے حجم میں اضافہ ہوگا، ان منصوبوں کی تکمیل سے گوادر ایک جدید شہر کی طرف گامزن ہوگا بلکہ اس شہر کی ترقی سے پورے ملک کو معاشی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا ۔ ||
مضمون نگار ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان(اے پی پی) کے ساتھ وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے