اسلام، زندگی گزارنے کے اس طریقہ کا نام ہے جو خاتم النبیین ۖسے پہلے بھی انبیاء کرام علیہم السلام کا تھا،اور بعدمیں آنے والی تمام انسانیت کا رہے گا،اسی طریقہ کی تبلیغ و اشاعت کے لیے دنیا میں نبیوں کا طویل سلسلہ قائم کیا گیا جس طرح کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
ترجمہ: اللہ تعالی نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا حکم نوح کو دیا گیا،اور جس کی وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کی گئی،اور جس کا حکم موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ دین کو قائم کرو اور اس میں اختلاف برپا مت کرو۔(شوریٰ:31)
ایسا دین جو ہمیشہ سے سارے انبیائے کرام کا ہے اور جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے،اسی کا نام اسلام ہے:
ترجمہ: اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔(آل عمران : 19)
ایسے عالمگیر دین میں زور زبر دستی کی گنجائش نہیں، ہر پسند اور کامیاب طریقہ کے انتخاب میں لوگوں کو اختیار دیا جاتا ہے؛ تاکہ اندازہ ہو کہ کون صحیح راستہ اختیار کرتا ہے اور کون غلط۔
ترجمہ: اے نبی آپ کہہ دیجیے یہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے،اب جس کا جی چا ہے مان لے جس کا جی چاہے انکار کر دے،ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے۔ (الکہف:92)
اوپر درج کی گئی آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو کسی بھی دوسرے مذہب کو بری نگاہ سے نہیں دیکھتا، بلکہ تمام آسمانی مذاہب اور کتب کی تصدیق کرتا اور ان کے پیروکاروں کو مکمل آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہیں اور اپنے مذہبی عقائد کے متعلق عبادت کریں۔ اسلام،یہودیت اور عیسائیت کی طرح اپنا دروازہ طالب ہدایت کے لیے بند نہیں کرتا، بلکہ ہر وقت کھلا رکھتا ہے، مگر کسی بھی غیر مسلم کو جو مسلم حکومت کے زیرنگیں زندگی گزار رہا ہو، مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ اسلام قبول کرلے،قرآن کریم میں واضح حکم ہے:دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔سورة النحل میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے''اپنے رب کے راستے کی طرف اچھی باتوں کے ذریعے بلائو اور بہت پسندیدہ طریقے سے بحث کرو''۔ اسلام اس حد تک رواداری اور برداشت کا قائل ہے کہ مسلمانوں کو اس بات کی تلقین کی گئی:مسلمانو! جو لوگ اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں،انہیں برا نہ کہو، یہ لوگ نادانی سے خدا کو برا کہنے لگیں گے۔ (سورة الانعام)نیزفرمایا گیا:''جس نے اس کے رسولۖ کی ہدایت کے مطابق سیدھی راہ اختیار کی، وہ تو اپنے ہی لیے اختیار کرتا ہے اور جو بھٹکا،وہ بھٹک کر اپنا ہی راستہ کھوٹا کرتا ہے۔''سورة بنی اسرائیل میں موجود آیات طیبات کا مفہوم ہے: ''جو شخص سیدھی راہ پر چلتا ہے وہ اپنے نفع کے لیے راہ پر چلتا ہے اور جو شخص بے راہی اختیار کرتاہے سو وہ بھی اپنے نقصان کے لیے بے راہ ہوتا ہے''۔ ان آیتوں سے واضح ہوا کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ روگردانی کرنے والوں سے کوئی تعرض نہ کیا جائے،ان پر کوئی زور، جبر اور زبردستی نہ کی جائے۔اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے جنگ کے بھی باقاعدہ اصول مقرر کئے۔اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے،اس کی تعلیمات تمام بنی نوع انسان کے لیے ہیں،اسلام صرف کسی خاص طبقے،تہذیب اور رنگ و نسل کے لوگوں کو مخاطب نہیں بناتا، بلکہ تمام انسانوں سے خطاب کرتا ہے،وہ دین رحمت ہے۔چنانچہ لفظ اسلام کے معنی ہی سلامتی ہیں پھر اسلام جس وحدہ لاشریک رب کومعبود قرار دیتا ہے، وہ رحمٰن و رحیم بلکہ ارحم الراحمین ہے،اسلام جس ذات کو پیغمبر مانتا ہے، وہ رحمة للعالمین ہے،اسلام کا قبلہ امن کا گہوارہ ہے، لہٰذا اسلام کے معنی،اس کے مقاصد وتعلیمات،اس کا آغاز و ارتقاء اور اس کی اشاعت تمام امن و سلامتی کے ضامن ہیں، تو اس مذہب سے زیادہ امن وسلامتی کہاں ہوسکتی ہے؟ ایسا دین جو ہمیشہ سے سارے انبیائے کرام علیہم السلام کا رہاہے اور جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے،اسی کا نام اسلام ہے۔ اس دین میں زور زبر دستی کی گنجائش نہیں، ہر پسند اور کامیاب طریقے کے انتخاب میں لوگوں کو اختیار دیا جاتا ہے، تاکہ اندازہ ہو کہ کون صحیح راستہ اختیار کرتا ہے اور کون غلط۔اسلام عالمی اور آفاقی مذہب ہے، اس کی تعلیمات تمام افرادِ بشر کے لیے ہیں، یہ کسی خاص طبقے، علاقے،تہذیب یا رنگ و نسل کے لوگوں کو مخاطب نہیں کرتا، بلکہ یہ تمام انسانوں سے خطاب کرتا ہے،یہ سب کے لیے دین رحمت ہے۔اس مفہوم کو مزید احسن انداز میں قرآن کریم کی ایک آیت میں بیان کیا گیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ دنیا میں میری رحمت ہر مومن و کافر، نیک اور بد، سب پرچھائی ہوئی ہے،جس کے نتیجے میں انہیں رزق اور صحت و عافیت کی نعمتیں ملتی رہتی ہیں۔ اللہ کریم نے جس طرح اپنی رحمت کو محدود نہیں کیا اسی طرح اپنے پاک نبی اکرمۖ کی رحمت کو بھی تمام جہانوں تک وسعت عطا فرما دی۔ قرآن کریم نے خاتم الانبیاء حضرت محمد ۖ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے، ارشادِ ربّانی ہے:
''اور(اے پیغمبر!)ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا۔'' (سورةالانبیائ)
قرآنِ کریم کی سورہ احزاب میں ارشاد ہوا ''حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ ۖکی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔'' یعنی صرف رسول اکرم ۖ کی ذات ہی عقائدو افکار، عبادات، معاملات، اخلاق، معاشرت، سیاست، معاشیات،غرض ہر شعبہ زندگی میں کامل اسوہ اور مکمل نمونہ ہے۔ سرکارِ دو عالمۖ کا ارشاد گرامی ہے:میں سراپا رحمت ہوں، اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔(جامع صغیر)
مساوات اور رواداری کا قرآنی اصول۔
اسلام نے تمام انسانوں کو برابر قرار دیا۔ان کے لیے عظمت کا الگ معیار قائم کردیا۔اسلام کی نگاہ میں بڑائی اور عظمت کے معیار الگ بیان فرمائے ۔ارشادِ باری تعالی ہے''اے لوگو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا، تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو، اللہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز سے باخبر ہے۔''(سورة الحجرات)
اس آیت کریمہ نے مساوات کا یہ عظیم اصول بیان فرمایا ہے کہ کسی کی عزت اور شرافت کا معیار اس کی قوم، اس کا قبیلہ یا وطن نہیں ہے، بلکہ تقویٰ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مختلف قبیلے یا قومیں اس لیے نہیں بنائیں کہ وہ ایک دوسرے پر اپنی بڑائی جتائیں، بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ بے شمار انسانوں میں باہمی پہچان کے لیے کچھ تقسیم قائم ہوجائے۔ حجة الوداع کے موقع پر آپ ۖ نے ارشاد فرمایا،تمہارا خون،تمہارا مال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں، جیسا کہ آج کا یہ دن تم پر حرام ہے۔یعنی جس طرح ''حجة الوداع''کا دن مسلمانوں کے لیے بڑا مقدس ہے اور اس کے تقدس کو پامال کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔اسی طرح کسی مسلمان کا ناحق خون نہیں بہایا جا سکتا،اس کا مال نہیں چھینا جا سکتا اور اس کی آبروریزی نہیں کی جا سکتی۔ شریعت نے ہمیشہ رواداری اور حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ سورة المائدہ میں ارشادِ رب العزّت ہے:ترجمہ:''کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ناانصافی کرو، انصاف سے کام لو، یہی طریقہ تقویٰ سے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے تمام کام سے پوری طرح باخبر ہے''۔رواداری کے سلسلے میں یہ آیت بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے کہ رواداری کو عدل کا مترادف قرار دیا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ مذہب، تہذیب، ثقافت، زبان یا رنگ و نسل میں اختلاف رکھنے والے ہر شخص کے ساتھ خواہ وہ دوست ہو یا دشمن ،اس کے ساتھ آپ عدل و انصاف کا معاملہ کریں، اس کے مذہب وغیرہ کی وجہ سے اس کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ کیا جائے، نہ کسی طرح کی زیادتی یا ظلم روا رکھا جائے۔ آیت کریمہ کا مطلب یہی ہے کہ کسی قوم سے تمہاری عداوت اور دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف کو چھوڑ دو، بلکہ تمہیں تو ہر حال میں انصاف ہی کرنا ہے۔
اس لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جائے اور دوسروں کے مذہب، عقائد و نظریات وغیرہ کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے اور ان کے ساتھ مذہبی، سیاسی، فکری اور علمی رواداری کا معاملہ کیا جائے۔''اسلام'' سلامتی اور ''ایمان'' امن سے عبارت ہے،یہ دین انسانیت اور امن و سلامتی کا علم بردار ہے،دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی اساس اور بنیاد امن و سلامتی اور مذہبی رواداری پر قائم ہے۔
نبی کریم ۖ اور خلفائے راشدین نے مختلف اقوام سے جو معاہدے کیے اور ان کے ساتھ جو صلح نامے کیے،ان میں اسلام کی وسعت نظری اور دریادلی کا ثبوت ملتا ہے۔اسلام نے غیرمسلموں کے ساتھ عزت واحترام کا معاملہ کیا اور اپنی تعلیمات میں واضح کیا کہ غیر مسلموں کے حقوق کا مکمل خیال رکھا جاے اور ان معاہدوں میں جو وعدے کیے گئے ان کا ہر طرح پاس ولحاظ رکھا، اگر انہوں نے اسلامی ریاست میں رہنا قبول کرلیا اور ان سے عہد وپیمان ہوچکا تو اب ان کی حفاظت مسلمانوں کی ذمے داری قرار پائی۔ کسی طرح کی ظلم وزیادتی کا ان کو شکار نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کا اندازہ نبی کریمۖ کے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے۔''خبردار جس کسی نے معاہد (غیرمسلم) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کی استطاعت سے زیادہ اس سے کام لیا۔ اس کی رضا کے بغیر اس کی کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جھگڑوں گا۔ (قرطبی)اسلامی تاریخ میں رواداری کی سب سے بڑی مثال تب قائم کی گئی جب پہلی اسلامی ریاست قائم کی گئی۔ میثاق مدینہ ایک ایسا معاہدہ تھا جو ایک قبائلی معاشرے میں رواداری کی سب سے عمدہ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔میثاق مدینہ کے مطابق تمام قبائل یعنی اوس وخزرج وغیرہ اسلامی حکومت سے معاہدہ کر کے اس میں برابر کے شریک تھے۔ نبی کریم ۖ کو ایک ایسے سربراہ کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی جنہیں سیاسی اثر و رسوخ کے بجائے شخصی کردار کی بنیاد پر قائد اور سربراہ تسلیم کر لیا گیا تھا اور آپ کو معاملات کے فیصلوں میں قاضی تسلیم کر لیا گیا تھا۔ اسلام کو جب خیبر سمیت کئی غیر مسلم علاقوں پر غلبہ حاصل ہوا تو غیر مسلم رعایا کا مسئلہ پیدا ہوا۔مسلم ریاست کے سامنے دنیا کی تاریخ موجود تھی جس میں فاتح قوم نے کبھی بھی مفتوح اقوام کو اپنے برابر کے حقوق نہیں دیئے اور نہ ہی اپنے برابر سمجھا۔،جدید و قدیم تاریخ میں ایسے متعدد واقعات موجود ہیں کہ فاتح قوم نے نہ صرف یہ کہ مفتوح قوم کو غلام بنایا، بلکہ ان کے مذہب، ثقافت اور معیشت تک کو برباد کیا۔فطری طورپر مسلمانوں سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ مسلمان جب فاتح ہوگئے اور خطے میں آباد دیگر مذاہب کے پیرو کار جو رسول اللہ ۖ کو نبی اور اسلام کو دین کو نہیں مان رہے تھے اور ہمیشہ سے ان سے برسرپیکار رہے تھے، ایسے میں مسلمان ان سے کم از کم بہت نرم برتائو بھی کرتے تو ان کو اپنا آبائی دین چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کرسکتے تھے،اس لیے کہ وہ غالب تھے۔ یہاں پر بھی قرآن حکیم نے صاف صاف بتا دیا کہ مسلمان غالب ہوں یا مغلوب، ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مذہب کے پیروکار کوجبراً مسلمان بنائیں،ارشاد ہوا''دین میں کوئی جبر نہیں ہے''۔
یہ ایک بنیادی اصول بتا دیا گیا ہے کہ دین کے قبول کرنے میں یا کسی دین کو رد کرنے میں کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن حکیم میں مذہبی عبادت گاہوں کے احترام میں ایک ایسا اشارہ بھی ملتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبادت گاہیں خواہ مسلمانوں کی ہوں یا غیر مسلموں کی سب کی سب قابل ِ احترام ہیں۔
رسول اللہ ۖ کی سیرتِ طیبہ اور عہد خلافتِ راشدہ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی، جس سے یہ ثابت ہو کہ اسلام کی تبلیغ میں زور، جبر، زبردستی یا تشدد کا استعمال ہوا ہو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے کہ دین کے بارے میں کسی قسم کا جبر نہیں،اس کی وضاحت اس طرح بھی کی گئی ہے:(ترجمہ)اگر تیرا پروردگار چاہتا کہ لوگوں کو مومن بنا دے تو زمین کے سب لوگ ایمان لے آتے،تو کیا اے پیغمبرۖ،آپ لوگوں پر زبردستی کریں گے کہ وہ ایمان لے آئیں''۔(سورہ یونس:10)
خلاصہ کلام
پاکستان قائد اعظم کے ویژن کے مطابق رواداری کے اصول پر قائم ہے۔قائد اعظم کے پاکستان میں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کی اجازت نہیں۔بلکہ تمام شہریوں کو بطور شہری برابر حقوق حاصل ہیں۔ایسا کیوں نہ ہو۔یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔اس امر میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں کہ اسلام رواداری،امن و سلامتی اور احترام ِ انسانیت کا داعی ہے۔۔قرآن و سنت میں واضح کیے گئے اصولوں کے مطابق اسلامی معاشرے کا ہر فرد بلاتفریق مذہب و ملّت عزت ومساوات اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے یکساں حیثیت کا حامل ہے۔اسلامی ریاست میں مملکت کے تمام باشندے خواہ وہ کسی بھی مذہب کے پیروکار ہوں،عقیدہ اور مذہب کی تفریق کے بغیر پوری طرح آزاد ہیں۔ان پر مذہبی معاملات میں کسی قسم کا کوئی جبر و زبردستی نہیں ہوگا۔کسی کے ساتھ صنف کی بنیاد پر بھی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاے گا۔یہی رواداری کی بہترین مثال ہے۔اور یہ نظریہ رواداری اسوۂ رسولۖ کے عین مطابق ہے۔ ||
مضمون نگار مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں
[email protected]
تبصرے