انسانی حقوق ، حریت ، فکری آزادی اورقوموں کاحق خود ارادیت کے موجودہ دور میں دنیا میں فلسطینی اور کشمیری ایسی بد قسمت قومیں ہیں جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں ۔ خصوصاً فلسطینی خطہ نما عرب میں عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے 7دہائیوں سے بھی زائد عرصہ سے اپنی ہی سر زمین میں اجنبی بنا دیے گئے ہیں ۔ ان سے ان کی ریاست ہی نہیں بلکہ باعزت اور پروقار زندگی کا حق بھی چھین لیا گیاہے ۔
فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ کے طویل ترین امن مشن میں شامل ہے ۔ 24اکتوبر 1945کو جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا اس وقت سے آج تک مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود حل نہ ہو سکے اور دونوں خطوں میں اتنے برسوں سے امن کا قیام بھی عمل میں نہ لایا جا سکا۔ دونوں خطوں میں نہ صرف انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی جاری ہے بلکہ ان خطوں میں نام نہاد عالمی طاقتوں اور لیڈروں کی مسائل کے حل میں کسی قسم کی دلچسپی نظر نہیں آئی۔ اقوام متحدہ جو عالمی سطح پر قیام امن کے حوالے سے ایک ذمہ دار ادارہ تصور کیا جاتاہے، بھی دونوں خطوں میں امن قائم کرنے میں ناکام رہا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دونوں خطوں کے حکمرانوں کی ایک ہی سوچ ہے اور یہ سوچ اگر ایک طرف اسلام دشمنی پر مبنی ہے تو دوسری جانب اس کے پیچھے مسلمانوں کو کچل کر رکھ دینے کا مشن بھی شامل ہے۔
فلسطین میں اسرائیلی فوج کی درندگی کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ، اس سے قبل بھی اسرائیلی فوج نہتے فلسطینیوں کو کچلنے کے لیے سرگرم رہی ہے۔ پوری دنیا سے یہودی اکٹھے کر کے فلسطین میں بسانے اور فلسطینیوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے جرم میں امریکہ کے برابر کے شریک ، یورپی ممالک میں جانوروں کے حقوق پر توبہت بات ہوتی ہے لیکن فلسطینیوں کی داد رسی کر نے والا کوئی نہیں۔ اسرائیل چاہے بم برسائے ، ناکہ بندی کر ے ، فلسطینیوں کی نسل کشی کرے ، ان کا معاشی قتل کر ے ، دیوار کی تعمیر کرے ، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرے ، اسے کوئی روکنے والا ہے نہ باز پرس کر نے والا بلکہ اسرائیل کو خطے کا پولیس مین بنانا اور پھر اس کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کا حصول عالمی قوتوں کا پسندیدہ فارمولہ بن چکا ہے ۔ اسی لیے ہزاروں جانیں گنوانے اور باعزت و پر سکون زندگی کے لیے ترستے فلسطینی دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ہیں ۔
دنیاکے کسی ملک میں زلزلہ آجائے یا سیلاب یا پھر کوئی اور قدرتی آفت، عالمی برادری مل کر اس کا مقابلہ کرتی نظر آتی ہے۔ پولیو سمیت 5خطر ناک بیماریوں کا خاتمہ ہو یا دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ،ہر جگہ تعاون قابل دید ہے لیکن مظلوم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپیئن ممالک کی اکثریت نے اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کو تسلیم کر رکھا ہے ۔ آج حالات یہ ہیں کہ 195آزاد ممالک میں سے صرف 22 ممالک یعنی پاکستان ، سعودی عرب، قطر ،ایران،ملائیشیا ،بنگلہ دیش، لیبیا، لبنان، کویت ،افغانستان ،عراق ، انڈونیشیا ،الجیریا،جبوتی، عمان ، یمن ، تیونس، برونائی ، شام ، صومالیہ ، شمالی کوریا اور کوموروس نے اسرائیل کوتسلیم نہیں کیا جبکہ 6 ممالک کیوبا ،مالدیپ، مالی،موریطانیہ ،نائجیریا اور وینز ویلا نے اسرائیل کو تسلیم کر نے کے بعد اپنی حمایت واپس لے لی اور تعلقات ختم یا معطل کر دیے۔ اسرائیل کو تسلیم نہ کر نے والے ممالک کی واضح اکثریت مسلم ممالک کی ہے ۔ یوں اگر دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین انسانی نہیں صرف عالم اسلام کا ہی مسئلہ ہے ۔
مشرقی تیمورمیں آزادی کے مطالبے کی عالمی برادر ی نے جس سرعت کے ساتھ حمایت کی کاش ایسی پھرتی فلسطین کے نہتے عوام پر اسرائیلی مظالم کے جواب میں بھی نظر آتی ۔ کیا غزہ میں بہنے والا بچوں کا لہو کسی دوسرے رنگ کا ہے؟ کیا فلسطینی مظلوموں کی چیخیں عالمی برادری کے دل دہلانے کے لیے ناکافی ہیں ؟ کیا بے گھر فلسطینیوں کی تکالیف سے عالمی ضمیر پر کوئی اثر نہیں پڑا ؟ سوالات تو اوربھی بہت سے ہیں لیکن جن سوالات کا پہلے سے ہی علم ہو ان کا کیا پوچھنا۔آج کا اسرائیل صرف فلسطینی سر زمین پر ہی قابض نہیں بلکہ اس کی ریشہ دوانیوں اور عالمی طاقتوں کی ہلا شیری کی وجہ سے ہمسایہ ممالک شام ، اردن ، لبنان سمیت پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے۔
1947ء کی فلسطین جنگ اور1967ء کی 6روزہ جنگ سے لے کر 1993ء کے اوسلومعاہدے تک ذرا ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی مظالم کم ہو ئے نہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی جاسکی ۔ ہاں یہ ضرور ہواکہ مزید ممالک جن میں کچھ اسلامی ممالک بھی شامل ہیں، نے ناجائز ریاست کو جائز تسلیم کر لیا بلکہ اب تو امریکہ سمیت کئی ممالک بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت بھی تسلیم کر چکے ہیں ۔ حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ اسرائیل ہر چند برس کے وقفے کے بعد کبھی حماس تو کبھی نام نہاد فلسطینی شورش کا بہانہ بنا کر بچے کھچے فلسطین کوبھی تہس نہس کر دیتا ہے۔ مئی 2021ء کے حملے میں تو اسرائیلی دیدہ دلیری کا اندازہ اس امر سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ صرف 10 منٹ کی پیشگی اطلاع پر اس عمارت پر بھی حملہ کر ڈالا جہاں بین الاقوامی میڈیا ہائوسز کے دفاتر قائم تھے ۔
ان تمام حالات کے باوجود سرنگ کے آخری کنارے پر کچھ روشنی بھی معلوم ہوتی ہے ، اسی لیے تو اسرائیل اپنی تمام توپوں، گولوں ، فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے باوجود جارحیت کو طول نہیں دے سکا ۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ریاستوں کے دبائو سے زیادہ عالمی رائے عامہ کا فلسطینیوں کے حق میں جھکائو ہے جس کا واضح ثبوت امریکہ اور مغربی ممالک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہیں۔ اس مسئلے کے حوالے سے پہلی مرتبہ ریاستی مفادات اور عوامی جذبات میں واضح فرق نظر آرہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے واضح اہداف کے عدم حصول کے با وجوداسے جنگ بندی پر رضا مند ہو نا پڑا جسے دفاعی تجزیہ نگارایک طرح کی شکست بھی قرار دے رہے ہیں ۔ ہر عروج کو زوال ہے اور غرور کا سربالآخر نیچا ہو تا ہے۔
اگر پاکستان کا ذکر کیا جائے تواسرائیل پر پاکستانی موقف بڑا واضح ہے جس کے مطابق فلسطین مسلمانوں کی ریاست ہے اور اس پر نام نہاد اسرائیل کی کوئی حیثیت نہیں۔ پاکستان میں سول سوسائٹی اور دیگر تمام اداروں اور تنظیموں کی جا نب سے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی پرزور انداز میں مذمت کی گئی اور اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی برادری پر واضح کیا گیا کہ اسرائیلی اقدام کے نتائج انتہائی خطرناک اور بے نتیجہ ثابت ہوں گے اور نہ صرف مسلم امہ بلکہ عالمی برادری بھی فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے عالم اسلام کو واضح مؤقف اپنانے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جارحیت کو دنیا کے کونے کونے تک اس انداز سے پیش کرنا ہوگا کہ اسرائیل آئندہ ایسا قدم اٹھانے کی جرأت نہ کر سکے ۔ ||
مضمون نگار ایک معروف اخبار کے ساتھ وابستہ ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے