معیشت گزشتہ تین ساڑھے تین سال سے یکے بعد دیگرے مختلف چیلنجز سے نبرد آزما رہی ہے۔الیکشن سال 2018 سے ایک ڈیڑھ سال قبل سے حسبِ روایت معاشی ڈسپلن نظر انداز ہوا، مشکل فیصلے ملتوی ہوتے رہے اور پاپولر معاشی اقدامات کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ جس کا لازمی نتیجہ وہی نکلا جو پچھلے دونوں الیکشن سالوں میں نکلا۔ بجٹ خسارہ ناقابل برداشت، زرِ مبادلہ کے ذخائر دگرگوں، تجارتی خسارہ بھاری بھر کم ، محاصل وصولی کے ٹارگیٹس ادھورے اور معیشت کی سانسیں بے ترتیب۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ پاکستان کو2008 اور 2013 کے انتخابات کے فوری بعد آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا۔ یہی مجبوری2018 کے الیکشن سال کے بعد بھی درپیش آئی۔ مشکل فیصلے کرنے پڑے جن کی وجہ سے وقتی طور پر معیشت کو مزید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا مگر دھیرے دھیرے معاملات میں ٹھہرائو بلکہ بہتری کے آثار نمودار ہونے لگے ۔
اس دوران دنیا کی معیشت اور معاشرت کو ایک غیر متوقع بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ 2019 کے اواخر میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے کووڈ19 وائرس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کی معیشت کو جکڑ لیا۔ شروع ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ گئی۔ تیر بہدف حل یہی سامنے آیا کہ محدود رہیں، محفوظ رہیں۔ محلے اور علاقوں سے شروع ہونے والے لاک ڈائون پورے پورے شہروں اور ممالک تک ناگزیر ہو گئے۔
عالمی معیشت اور گلوبل ٹریڈ کو شدید دھچکا لگا۔ معاشی سرگرمیوں میں تعطل سے بیشتر ممالک کی جی ڈی پی کی شرح نمو منفی ہو گئی۔ بے روزگاری اور پیداواری سرگرمیاں بار بار معطل ، مسدود یا محدود کرنی پڑیں۔ کروڑوں لوگ اس وائرس کی زد میں آئے اور لاکھوں جان سے گئے۔ گلوبل اکانومی کو پہلی بار شدید جھٹکا لگا۔ بیشتر ممالک نے اس وبائی آفت کے معاشی اثرات کی تلافی کے لئے وہ اقتصادی اقدامات اٹھائے جو کلاسیکی اکنامک تھیوریوں کے بالکل اُلٹ تھے۔
اب ویکسین کی دستیابی، حفاطتی اقدمات اور عمومی طور پر عوام کے مسلسل مدافعتی طرز عمل سے اس کے پھیلائو میں کمی آئی ہے۔ توقع ہے کہ شاید رواں سال کے آخر تک معاشی اور سماجی سرگرمیاں اپنے معمول پر لوٹ آئیں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو لیکن اس دوران گلوبل ٹریڈ، گلوبلائزیشن اور عالمی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو بھی لامحالہ ان عالمی اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستانی معیشت کو سال 2018اور 2019 کے دوران جن چیلنجز کا سامنا تھا، کووڈ19 کے عالمی اور مقامی اثرات نے ان چیلنجز کے دورانیے اور اثرات کو مزید وسعت دے دی۔ معیشت کی بحالی اور استحکام کے کسی بھی جائزے کے لئے یہ پس منظرسامنے رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس تناظر میں معیشت کی بہتری کے لئے کئے گئے اقدامات کا اجمالی جائزہ ایک بااعتماد معاشی گورننس کی نشان دہی کرتا ہے۔
الیکشن کے بعد نئی حکومت کو فوری طور پر جن چیلنجز کا سامنا تھا ان میں نمایاں ترین مسائل کچھ یوں تھے۔ شرح مبادلہ کو مصنوعی طور پر اوور ویلیوڈ (Over valued) رکھا گیا جس کے نتیجے میں امپورٹس میں اندھا دھند اضافہ ہوا مگر دوسری طرف برآمدات کو نقصان ہوا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں برآمدات میں جمود طاری رہا، ملکی برآمدات کا حجم بائیس سے چوبیس ارب ڈالرز کے لگ بھگ رہا مگر درآمدات کا حجم 34 ارب ڈالرز سالانہ سے بڑھ کر 60 ارب ڈالرز تک جا پہنچا۔ پہلی بار یہ خوفناک صورت پیدا ہوئی کہ تجارتی خسارہ کل برآمدات کا تقریبا دو گنا ہو گیا۔ اس صورت حال میںسٹیٹ بنک نے شرح مبادلہ کو مارکیٹ سے ہم آہنگ کرنے کا اقدام اٹھایا۔ قلیل مدت میں اس اقدام سے مہنگائی کی تکلیف سب کو اٹھانا پڑی مگر دو سال کے اندر اندر درآمدات میں خاطر خواہ کمی ہوئی اور برآمدات میں اضافہ ہوا۔ ان اقدامات سے تجارتی خسارے کو نکیل ڈالنے میں مدد ملی۔
مناسب شرح مبادلہ کی وجہ سے بیرون ملک ترسیلاتِ زر میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ میں ترسیلات ِزر کا ماہانہ حجم دو ارب ڈالرز سے زائد رہا ہے۔ اس سے ملکی معیشت اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں استحکام پیدا ہوا۔ آئی ایم ایف پروگرام ، معاشی ڈسپلن ، معیشت میں مثبت شرح نمو اور تجارتی خسارے میں کمی کے سبب زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بہتری اور استحکام پیدا ہوا جو معیشت اور شرح مبادلہ کے لئے خوش آئند ہے۔ روپے اور ڈالر کی شرح مبادلہ گزشتہ سال 170 سے کم ہو تے ہوتے اس وقت 160 سے بھی قدرے کم ہے۔ شرح مبادلہ اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں استحکام سے انٹرنیشنل ٹریڈ اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے حال ہی میں شروع کئے گئے ڈیجیٹل روشن اکائونٹس کا رسپانس بھی حوصلہ افزاء رہا ہے۔ وسط فروری تک ان اکائونٹس میں پانچ سو ملین ڈالرز جمع کروائے گئے۔
برآمدی شعبے کو جن چند مشکلات کا ہمیشہ سامنا رہا ہے ان میں ٹیکس ریفنڈز کی وقت پر واپسی نہ ہونا ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ حکومت نے مشکل مالی حالات کے باوجوداربوںروپے کے سال ہا سال سے پھنسے ہوئے ٹیکس ریفنڈز واپس کرکے برآمدی شعبے کے ورکنگ کیپیٹل کو سپورٹ کیا، بلکہ ریفنڈز کے نظام کو بہت حد تک خودکار کرتے ہوئے ان ٹیکس ریفنڈز کی بر وقت ادائیگی کا مستقل بندوبست کرنے کی عمدہ کوشش کی۔
برآمدی شعبے کی مسابقت بحال کرنے کے لئے دوسرا اہم اقدام بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی کا ہے۔ فی یونٹ بجلی پہلے سات سینٹ مگر حال ہی میں 9US Cents فی یونٹ کے حساب سے فراہم کرنے سے صنعتی سرگرمیاں اپنے معمول کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ گیس کے نرخوں میں اس پالیسی کے مطابق 6.50 ڈالرز فی ایم ایم بی ٹی یو تک کمی لائی گئی۔ توانائی کے ٹیرف میں واضح کمی اور مستقبل قریب میں بھی ان قیمتوں کو قائم رکھنے سے پیداواری لاگت میں کمی اور صنعتی سرگرمیوں میں استحکام آیا ہے۔ جنوری میں لارج سکیل پیدواری شعبے میں سات فی صد سے بھی زائد اضافہ ہوا۔
مارک اپ کی شرح معاشی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کے لئے نہایت اہم ہے۔ 2018-19 کے دوران روپے کی شرح مبادلہ کی ایڈجسٹمنٹ اور افراطِ زر یعنی مہنگائی کی وجہ سے مارک اپ کی شرح زیادہ تھی، تیرہ فی صد کے لگ بھگ۔ کووڈ19 کے دوران صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کو شدید جھٹکا لگا ۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان نے بھی روایتی Tight monetary policy کے بجائے اقتصادی سرگرمیوں کی بحالی کے لئے سہولت دینے کی کوشش میں مارک اپ کی شرح میں تقریبا نصف کمی کر دی۔ اس سے صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں میں خاطر خواہ بہتری دیکھنے میں آئی۔ اس اقدام سے مہنگائی کنٹرول کرنے میں بھی مدد ملی، گو اشیائے خورونوش میں مہنگائی بڑھی ہے مگر مجموعی طور پر افراطِ زر پر کنٹرول رہا۔
معیشت کی بہتری کے لئے اٹھائے ان اقدامات سے شرح نمو میں بہتری کے امکانات ہیں مگر معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے ابھی بہت سے مزید مشکل فیصلے کرنے اور پے در پے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت کو کم ویلیو چین سے ہائی ویلیو چین کی طرف لے جانے کے لئے بہت سے پالیسی اقدامات اور انتظامی فیصلوں کی ضرورت ہے۔
کووڈ 19 کے اچانک وارد ہونے اور تباہ کن پھیلائو سے دنیا بھرمیں صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں میں تعطل پیدا ہونے لگا۔ فیکٹریاں ، بازار اور ٹرانسپورٹ بند ہونے سے معیشتیں بدحال ہونے لگیں اور بے روزگاری بے قابو ہونے لگی۔ حکومت اورسٹیٹ بنک نے اس موقع پر مثالی اور تیزی سے اقدامات اٹھائے جس سے صنعتی اور تجارتی شعبوں کو مالیاتی سہارا ملا اور بے روزگاری کی ممکنہ شدت میں واضح کمی ممکن ہو سکی۔ مارک اپ کی شرح میں کمی کے ساتھ ساتھ مرکزی بنک نے بڑے اور درمیانے صنعتی اداروں کو انتہائی کم مارک اپ شرح پر ملازمین کی تنخواہوں کے لئے فوری قرض سکیم لانچ کی۔ اس اقدام سے بے روزگاری کے ممکنہ سیلاب کے آگے بند باندھنے میں مدد ملی۔ مزید برآں سٹیٹ بنک نے صنعتی اور تجارتی اداروں کے واجب الادا قرضوں کو مؤخر کرکے ان اداروں کو مالی سہارا دیا۔ یوں صنعتی اور تجارتی ادارے شدید عالمی کساد بازاری کے باوجود اپنی پیداواری اور تجارتی سرگرمیاں جاری رکھ سکے اور اپنی لیبر کے روزگار کو بھی بہت حد تک بچانے میں کامیاب ہوئے۔ حکومت کی طرف سے احساس پروگرام کے تحت سیکڑوں ارب روپے کی براہ راست مالی امداد اور خصوصی پیکیج بھی رو بہ عمل لایا گیا۔
دنیا میں کووڈ19 کے مقابلے اور اس سے بچائو کے لئے مالیاتی اقدامات کے ساتھ ساتھ لاک ڈائون کی مختلف پالیسیاں اپنائی گئیں، کہیں مکمل لاک ڈائون کہیں جزوی لاک ڈائون، کہیں سمارٹ لاک ڈائون ۔ اپنے اپنے حالات کے مطابق ملکوں نے اپنی پالیسیاں وضع کیں۔ پاکستان نے ابتداء میں مختلف شہروں اور علاقوں میں مکمل لاک ڈائون مگر بعد ازاں سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی کو اپنایا۔ معیشت کے انتہائی اہم شعبوں اور برآمدی شعبوں کو جاری و ساری رکھا۔ دھیرے دھیرے دیگر شعبوں کو بھی کھول دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم رہا کہ پاکستان میں کووڈ 19 کے پھیلائو میں وہ خوفناکی نہیں دیکھی گئی جس نے دیگر کئی ممالک میں کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا۔ سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی سے ملکی معیشت میں دو تین ماہ کے سوا سکڑائو نہ ہوا۔ رواں مالی سال میں ملکی معیشت کی شرح نمو 1.5% متوقع ہے جبکہ دنیا کی بہت سی معیشتیں منفی شرح نمو کا شکار رہیں بلکہ ابھی تک مثبت شرح نمو کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی ہیں۔
پاکستانی معیشت کو عالمی سطح پر ایک اورچیلنج کا بھی سامنا ہے یعنی FATF پاکستان نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے بہت سے اقدامات اٹھائے جس کا اعتراف FATF کے جائزہ اجلاسوں میں بھی کیا گیا۔ گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے درکار قانونی اور انتظامی اقدامات میں سے بیشتر پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی پاکستان گرے لسٹ سے نکل جائے گا۔
کووڈ 19 کی وجہ سے جو غیر معمولی معاشی ، مالیاتی اور تجارتی اقدامات اٹھائے گئے، آئی ایم ایف کے جاری پروگرام کے مطابق ان اقدامات کی گنجائش نہ تھی۔ غیر معمولی اقتصادی حالات کے پیشِ نظر آئی ایم ایف نے دنیا بھر کے ممالک کو قرضوں اور سود کی واپسی مؤخر کی ، پاکستان کو بھی یہ سہولت میسر ہوئی جس سے حکومت اور سٹیٹ بنک وہ اقدامات اٹھا سکا جن کی مدد سے معیشت کا پہیہ رکا نہیں بلکہ جلد ہی بحال ہو گیا۔ اب جب کہ ملکی معیشت بہت حد تک کووڈ 19 سے کامیابی سے نبرد آزما ہو چکی ہے، حکومت نے آئی ایم ایف کو معطل شدہ پروگرام دوبارہ بحال کرنے پر آمادہ کر لیا ہے۔ اس پروگرام کی بحالی سے عالمی سطح پر ملکی معیشت کی ریٹنگ مستحکم ہوگی اور سرمایہ کاری کے لئے سہولت کا باعث بھی ہو گی۔
معیشت کی بہتری کے لئے اٹھائے ان اقدامات سے شرح نمو میں بہتری کے امکانات ہیں مگر معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے ابھی بہت سے مزید مشکل فیصلے کرنے اور پے در پے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت کو کم ویلیو چین سے ہائی ویلیو چین کی طرف لے جانے کے لئے بہت سے پالیسی اقدامات اور انتظامی فیصلوں کی ضرورت ہے۔ بجٹ خسارے سے چھٹکارے کے لئے معیشت کو دستاویزی نظم میں لانے ، ٹیکس نیٹ بڑھانے اور ٹیکس وصولیوں کو بڑھانے کے لئے انقلابی قدامات کی ضرورت ہے۔ برآمدات میں خاطر خواہ اور مسلسل اضافے، درآمدات پر مناسب کنٹرول، تجارتی خسارے پر کنٹرول اور حقیقت پسندانہ شرح مبادلہ سے ہی زرِ مبادلہ کے مناسب ذخائر ممکن ہیں۔ افراطِ زر کو سنگل ہندسے میں رکھنے اور مارک اپ کی شرح کو مناسب اور مسابقتی لیول پر رکھنے سے معیشت میں طویل المدت استحکام ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
ایجنڈا بھاری بھر کم اور طویل ضرور ہے مگر قابل عمل اور عین ممکن ہے۔ ملک کی سلامتی معیشت کے استحکام ہی میں مضمر ہے، اس لئے ہر ممکن کوشش اور توانائی بروئے کار لانے کی جس قدر ضرورت اب ہے ، شاید ماضی میں کبھی نہ تھی۔ ||
مضمون نگار ایک قومی اخبارمیں سیاسی ' سماجی اور معاشی موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے