وطن عزیز میں پھولوں کا شہرکون سا ہے؟ کسے باغوں کا شہر کہا جاتاہے ؟ نئی نسل میں شاید ہی کسی کو ان سوالوں کا جواب معلوم ہو لیکن کبھی پشاور کو پھولوں اور لاہور کو باغوں کا شہر کہا جاتا تھا ۔ نوجوانوں کے نزدیک ان شہروں کی نئی شناخت کچھ یوں ہے کہ 58برس قدیم جرمن ادارے، IQAirکے مطابق فضائی آلودگی سے متاثرہ شہروں میں فیصل آباد ، بہاولپور ، راولپنڈی کے بعد لاہور چوتھے جبکہ اسلام آباد ، ساہیوال ، کراچی ، مریدکے، کے بعد پشاور9ویں نمبر پر ہے ۔ لاہور سموگ کی نذر ہو چکا تو عروس العباد کراچی کے حسن کو صنعتوں اور گاڑیوں کے دھوئیں نے گہنا دیا ۔ کورونا جہاں معاشی مشکلات اور ذہنی تنائو لے کر آیا وہیں اس تخریب سے کم از کم ایک تعمیر تو اجاگر ہو ئی وہ یہ کہ نئی نسل نے یہ تو دیکھا کہ ہم انسانوں نے اﷲکی بنائی اس خوبصورت دنیا کو دھوئیں کی آلودگی سے کتنا بد صورت بنا ڈالاہے ۔یونائیٹڈسٹیٹس انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے مطابق انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی گرمی کی پیدا وار کی ذمہ دار گرین ہائوس گیسوں کی فضاء میں موجودگی 8لاکھ برسوں کی نسبت بلند ترین ہے ۔
یوں تو بہارہر سال آتی ہے لیکن دہائیوں سے پاکستان میں جیسے اس کے رنگ پھیکے پڑ گئے تھے لیکن کووڈ کی بدولت مارچ19ء میں لگے لاک ڈائون نے گویا آلودگی کا لاک ڈائون کیا تو یوں لگا کہ دہائیوں بعد پھولو ں کو نئی تازگی میسر ہوئی ۔ دُنیا کا جائزہ لیں تو صنعتی انقلاب سے قبل ( 1750ئ) کی نسبت کرہ ارض کی فضاء میں آج ماحول دشمن کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی میں 46فیصد اضافہ ہوچکا ہے جس سے دنیا ایک ڈگری زائد گرم ہو چکی ۔1950ء کی دہائی سے ہوائی میں قائم Mauna Loa Observatoryکے مطابق دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح انسانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔2019ء امریکی سان فرانسسکو اور بھارتی دہلی میں جون کا مہینہ گرم ترین گزرا ۔ 2018ء میں لندن میں 12سال بعد گرم ترین موسم گرما گزرا ۔ سمندر گرم ، برفانی تودے پگھل رہے ہیں ۔ دنیا بھر میں سطح سمندر بلند ہو نے کی موجودہ شرح گزشتہ 3ہزا ر برس میں تیز ترین ہے۔ سمندر کی سطح ہر سال اوسطاً 3ملی میٹر بلند ہو رہی ہے۔یوایس گلوبل چینج ریسرچ پروگرام کے مطابق رواں صدی کے نصف تک عالمی حدت میں اضافے سے سطح سمندر ایک سے 2.3فٹ تک بلند ہونے کا خدشہ ہے ۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی 40فیصد آبادی سمندروں کے 100کلو میٹر کے دائرے میں رہائش پذیر ہے ،یوں اگر سمندروں کی سطح بلندہوتی ہے توساحلوں پرقائم کراچی ،ممبئی ، دبئی ، ٹوکیو،سنگا پور، نیو یارک ، وینس ، بنکاک ، ہانگ کانگ ، استنبول اورپرتھ سمیت دیگر بڑے شہروں کو شدید خطرات کا سامنا ہوگا ۔ 2019ء میں انڈونیشیا نے ایک کروڑ سے زائد آبادی والے اپنے دارلحکومت ، جکارتہ کو منتقل کر نے کا اعلان کیا کیونکہ شہر کے کچھ حصے سالانہ 25سینٹی میٹر کی شرح سے سمندر برد ہو رہے ہیں۔ جیولوجیکل سوسائٹی آف لندن کی لیونگ پلینٹ (Living Planet) رپورٹ کے مطابق گزشتہ 4دہائیوں میں اوسط حجم کے دودھ پلانے والے جانور ، مچھلیاں ، پرندے اور رینگنے والے جانوروں کی تعدا د میں 60فیصد کمی آئی ہے ۔ فضائی آلودگی میں توازن برقرار رکھنے کا ایک قدرتی نظام موجود ہے لیکن اگر آلودگی اس حد سے بڑھ جائے تو قدرتی نظام کی صلاحیت ختم ہونے کے بعد انسانی صحت اور عالمی حدت کے حوالے سے نقصان دہ ہو جاتا ہے ۔2019ء میں قدرتی نظام کی یہ صلاحیت کم ہو کر 7ماہ تک آ چکی ہے جبکہ1999ء میں 9ماہ تھی ۔ گزشتہ 2دہائیوں میں سیلاب اور شدید بارشوں جیسے 2تہائی موسمی واقعات کی وجہ انسان ہیں اور ان میں 2004ء کی نسبت دگنا اضافہ ہوچکا ہے۔ 3دہائیوں سے ماحولیات پر تحقیق کرنے والے بون جرمنی میں قائم ادارے تھنک ٹینک''جرمن واچ ''کے ''گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس '' کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں سے ممکنہ متاثرہ ممالک میں پورٹو ریکو ، میانمار ، ہیٹی اور فلپائن کے بعدپاکستان 5ویں نمبر پر ہے ۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان جنوبی ایشیا کے خطے میں اس حوالے سے پہلے نمبر پر ہے ۔ 2020ء کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2دہائیوں (1999-2018ء ) میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے 9ہزار 989پاکستانی موت کے منہ میں چلے گئے اور 3ارب 80کروڑ کا معاشی نقصان ہوا جبکہ 152شدید موسمی واقعات رونما ہوئے ۔ پاکستان میں ماحولیاتی مطلع آلودہ ہے لیکن امید کی ایک کرن بھی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے دسمبر میںکلائمیٹ ایمبیشن سمٹ (Climate Ambition Summit 2020) سے خطاب کرتے ہوئے اپنی ماحول دوست پالیسی کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ 2030ء تک ملک 60فیصد توانائی ماحول دوست اور قابل تجدید ذرائع سے پید اکی جائے گی جبکہ 30فیصد گاڑیاں فضا دشمن ایندھن کے بجائے بجلی سے سڑکوں پر رواں دواں ہوںگی ۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں جنگلی حیات کے لئے محفوظ علاقوں ، نیشنل پارکس کی تعداد میں اضافہ ہوا اور ان کے رقبے میں 50فیصد اضافہ کیا گیا ۔ حکومت نے بجلی کی پیدا وار کا سب سے زیادہ ماحول دشمن ذرائع ، کوئلے کے پلانٹس پر پابندی لگا دی ہے بلکہ کوئلے پر چلنے والے 2پلانٹس کی پیدا وار معطل کر دی ہے۔ وزیر اعظم کی ماحول دوست پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا کے مقبول ترین ہفت روزہ ''ٹائم میگزین ''کے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے موقع پر جرمن چانسلر اینجلا مرکل ، مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس ، یورپی سنٹرل بنک کی صدرکرسٹینا لگارڈ اور ورلڈ اکنامک فورم کے چیئر مین کلاوس شواب کے ساتھ سر ورق پر جگہ دی جو دراصل ان کی ماحول دوست پالیسیوں کا عالمی سطح پر اعتراف تھا۔ آج دنیا کو فضائی آلودگی سمیت ہر طرح کے ماحول دشمن حالات سے نمٹنے کے لئے نہ صرف تیاری کر نا ہو گی بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے ایسی فضا چھوڑنی ہو گی جس میںنہ صرف انسان بلکہ چرند پرند ، شجر وحجر سبھی سکون سے سانس لے سکیں ۔ پھول کھلتے رہیں ، فضائیں مہکتی رہیں ، آسمان ستاروں سے چمکتا رہے ، چمن شور طائر سے گونجتا رہے ، سمندر ی حیات فروغ پاتی رہے اور یوں دنیا سدا آباد رہے ۔ پاکستان نے شجر کاری مہم کے زریعے بھی ملک میں ماحول کو صاف بنانے اور آلودگی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ شجر کاری مہم کے اس سلسلے کو نہ صرف جاری رکھا جائے بلکہ لاتعداد لگائے گئے ان درختوں کی حفاظت کر کے ملک کو سرسبز اور شاداب بنایا جائے ۔ ||
مضمون نگار ایک قومی اخبار کے ساتھ وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے