سیکنڈ لیفٹیننٹ عبدالمعید شہید( ستارہ ٔبسا لت)کے والد گرامی کے اپنے بیٹے کے بارے میں تاثرات پر مبنی حسنین رضو ی کی تحریر
سنا تھا وقت کسی کے لئے نہیں رکتا کو ئی مرے یا جیئے اس کو کو ئی فر ق نہیں پڑتا ۔ گھڑی کی سو ئیا ں اپنی رفتا ر سے چلتی رہتی ہیں ۔ کیلنڈر پر لکھے ما ہ و سا ل بھی اپنے اپنے مقر رہ وقت پر آتے جا تے رہتے ہیں ۔ لیکن جس گھر میں تم رہتے تھے وہا ں 11دسمبر کے بعد سے وقت رک گیا ہے ،وہا ں گھڑی کی سو ئیا ں چلنا بھو ل گئی ہیں ۔ غم اور اداسی کی گھنی چھائو ں اس گھر کی دیو اروں پر بیٹھی ہمیں ڈراتی رہتی ہے ۔ جہاں کبھی صرف خو شی کا اجا لا تھا جہا ں آنگن میں ہنسی اور قہقہے گونجتے تھے اب تمہا ری یادیں ہمیں یہاں جینے نہیں دیتیں یا یو ں کہہ لو کہ ہم اب جینا ہی نہیں چا ہتے ۔ میںبا پ ہو ں اس لئے مجھے ہمت دکھا نا پڑتی ہے مگر تمہاری ما ں ابھی تک ذ ہنی صدمے سے دوچا ر ہے ۔ لو گو ں کا خیال تھا کہ وقت آہستہ آہستہ اس کے دکھو ں کا درما ں بن جا ئے گا اور اس کے رستے ہو ئے زخم بھر جا ئیں گے۔ تمہیں یا دہے جب تم پر چم میں لپٹے گھر آئے تھے تو تمہا ری ما ں نے کسی اخبا ر نو یس کو کہا تھا کہ مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے اس نے چھو ٹی سی عمر میں وہ کر دکھا یا جس کی خواہش لئے لوگ ریٹا ئر ہو کر قبر میں جا سو تے ہیں لیکن شہادت کی خواہش پو ری نہیں ہو تی تم نے تو اس وطن پر قر با ن ہو کر اپنی خواہش صرف تین ما ہ کی سروس میں ہی پو ری کر لی لیکن میں کیا کر وں تمہا ری ما ں کے دکھ کا وہ جسے تمہا ری شہا دت پر بہت فخر ہے جب وہ اس ملک کے آستین کے سانپوں کو پا ک فو ج کو گا لیا ں دیتے ہو ئے ٹی- وی پر دیکھتی ہے تو اپنے آپ میںنہیں رہتی ، وہ جب فو ج کی وردی کی توہین دیکھتی ہے تو تمہا ری خو ن آلو د وردی نکا ل کر بین کر نے لگتی ہے ، وہ جب سبز پر چم کوکبھی کسی ناپاک دشمن کے ہاتھو ں جلتا ہو ا دیکھتی ہے تو تمہا رے تا بو ت پر پڑے پرچم کو الماری سے نکا ل کر چو منے لگتی ہے۔
وقت گزرتے گز رتے 2سا ل کا عر صہ گزر چکامگر تمہا ری ما ں کا حا ل نہیں بدلا ۔ بیٹاگو وہ اب تمہیں بہت کم یا د کر تی ہے کیو نکہ وہ اپنے ہو ش و حواس میں ہی کم کم رہتی ہے ۔ اب وہ ایسی دنیا میں رہتی ہے جہا ں تم اس کے ساتھ رہتے ہو۔ وہ اب تمہا ری زند گی کے 21بر سو ں میں جیتی ہے ۔ اس کی زندگی پہلے بھی تمہا رے گر د ہی گھو متی تھی اور اب بھی تم ہی اس کی زند گی کا محور بنے ہو ئے ہو ۔
تمہا ری زند گی کے 21سا لو ں میں اس کا اپنا وقت تھم گیا ہے میں اس کو کیسے سمجھا ئو ں کہ تمہا ری زند گی کی گا ڑی وقت کی پٹڑی پرچلی ہی تھی کہ شما لی وزیرستا ن کے دہشت گر دو ں نے اس کی زنجیر کھینچ ڈا لی ۔ تمہا ری ما ں کو میں یہ سمجھانے سے قا صر ہو ں کہ تم وہ کلی تھے جس کو پھو ل بننے سے پہلے ہی لہو کا خراج دینا پڑا۔ اس کو بتا تے بتا تے میں تھک گیا ہو ں کہ جس کے کند ھو ں پر افسری کا ابھی صرف ایک ستا رہ ہی چمکا تھا وہ اپنے سینے پر شہا دت کا تمغہ سجا کر اب ابد ی نیند سو گیا ہے ۔ وہ ان تما م با تو ں کو ما ننے سے انکا ر کر تی ہے۔ اس نے وقت کی اس گھڑی کو ما ت دے ڈا لی ہے جس میں تم اس کے ساتھ نہیں ہو ۔ وہ اس با ت کو غلط ثا بت کر نے میں لگی ہے کہ وقت کسی کے لئے نہیں رکتا۔ تمہارے شہید ہو نے کے بعد وہ تمہا را ہر کا م نما ز کی طرح بغیر قضا کئے ادا کر تی ہے ۔ پیا ر و محبت کے جذبا ت کے ساتھ ساتھ وہ کبھی کبھی تم پر غصہ ہو کر وہ جملہ بولتی چلی جا تی ہے جو ناراضگی کی حا لت میں بو لا کر تی تھی کہ کھانا کھا لو، مر جا ئوں گی تو پھرکو ن تمہارے نخر ے اٹھا ئے گا ۔ وہ تو تم سے پہلے مرنے کا پر و گر ام بنائے بیٹھی تھی اور مر نے سے پہلے تمہا رے سب نخرے اٹھانا چا ہتی تھی مگر تمہیں مرنے کی اتنی جلد ی تھی کہ اس کو تمہا ری نا ز برداریو ں کا مو قع ہی نہ مل سکا۔ عا لم جنو ں میں وہ گھر کی چیز وں کو اپنے ہا تھو ں سے اٹھا اٹھا کر چومتی ہے ۔ جن پر کبھی تمہارے ہاتھوں کا لمس رہا ہوگا، اس محبت کے جنون کو دیکھ کر کبھی کبھی مجھے بھی یہی گما ن ہو تا ہے کہ تم واپس آ گئے ہو ۔ وہ اکثر تمہیں بلند آواز میں ڈانٹتی بھی ہے ۔ پھر وہ تم کو منا نے کے لئے اپنی انگلیوں کو جبنش دیتی ہے جیسے وہ تمہا رے با لو ں میں پھیر ا کرتی تھی ۔ تمہا را نا م پکارتے ہو ئے تمہیں وہ اپنے تصور میں گلے لگا لیتی ہے اور پھر میرا چا ند! میرا چا ند! کہتے ہوئے بیٹھی مسکراتی چلی جا تی ہے ۔ اس کی یہ مسکراہٹ میری رو ح تک کو زخمی کر دیتی ہے ۔ سر د راتوں کو با ہر صحن میں جا کر بیٹھ جا تی ہے ۔ آسما ن پر نکلے چا ند کی طر ف اشارہ کرتی ہے اور کہتی ہے'' وہ رہا ہمارا معید '' جب کبھی ہوش میں ہو تی ہے تو اسی چا ند کو دیکھ کر مجھے سے لپٹ کر رو تے ہو ئے کہتی ہے کہ ہما را چاند ہم سے بہت دو ر چلا گیا اور اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا ۔
کبھی کبھی شکر کر تا ہو ں کہ تمہا ری ما ں اپنے خیالوں میں تمہارے ساتھ ہے۔ بھلا ایسے اسے کہا ں تسلی ملتی میں مر د ہو ں اس لئے مجھے رونے کا حق حا صل نہیں تمہاری ما ں کا رویہ کبھی کبھی میر ے لئے بہت سکو ن کا با عث بن جا تا ہے کیونکہ جب دنیا کے سا منے ایک بہا در با پ بن کر میرے اعصا ب جوا ب دے جا تے ہیں تو اس کے سا منے جی بھر کر رو لیتا ہو ں ۔ ۔۔۔
تمہا رے بغیر ہم روز تھوڑا تھوڑا، گُھٹ گُھٹ کر، مر رہے ہیں جی جا ہتا ہے ایک با ر ہی مر جا ئیں یو ں قصہ تو پاک ہوگا ۔ تم سے دوبارہ مل تو پا ئیں گے ۔
بقو ل شا عر ریا ض تبسم ۔۔۔۔
تیری قسمت کا کیا چمکا ستارا اے معید
تجھے خو ش ہو کے رب نے پکا ر ا اے معید
ایما ں کا لے کے جذ بہ سینے میں ایسے نکلا
اور کیا خو ب دشمن کو للکارا اے معید
تو دل میں جو بھی لے کے آیا تھا مقصد
وہ مقصد ہو گیا پورا تمہارا اے معید
کہا رب نے بخش دو ں گا جسے کہہ دے شہید
بنا اپنوں کی بخشش کا سہارا اے معید
تو حق کی راہ پہ مر کے بھی ہے زند ہ معید
شہید ہوتا ہے اللہ کا پیارا اے معید
وطن پہ مر کے تو نے پا لیا اعلیٰ مقام
کیا جنت کا بھی تو نے نظارہ اے معید
لکھا ہے ریا ض نے بھی سو چ کے یہ تیر ے با رے
بنے میر ی بھی بخشش کا سہارا اے معید ||
مضمو ن نگا ر صحا فت کے پیشے سے منسلک ہیں
[email protected]
تبصرے