1965کی جنگ حق و باطل کے درمیان ایک ایسا معرکہ تھا کہ جس پر اہلیان پاکستان بلا شبہ فخر کر سکتے ہیں ۔اس جنگ میں تمام مسلح افواج نے قوم کے جذبوں کی ترجمانی کرتے ہوئے جرأت اور بہادری کی اعلیٰ داستانیں رقم کیں۔قوم نے دل و جان سے حمایت کی اور کئی محاذوں پر پاک فوج کے شانہ بشانہ حصہ لیا۔اس جنگ میں بہت سے جوان سپاہی شہید ہوئے تو کچھ غازی بن کر لوٹے۔کچھ نشانِ حیدر کے حقدار ٹھہرے تو کچھ نے سینوں پر ستارہ جرأت لہرایا۔کچھ کی قبریں ان کے آبائی علاقوں میں عظیم الشان طریقے سے بنیں تو کچھ زمیں کی چادر اوڑے گمنام شہید کہلائے اور میدانِ جنگ میں ہی آسودۂ خاک ہوئے اور آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ
ہمار ا بھی خون شامل ہے تزئینِ گلستاں میں
اس جنگ میں لاہور اور چونڈہ کے محاذوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔اسی بنیاد پر لاہور اور سیالکوٹ ''ہلال استقلال ''کے حقدار بھی ٹھہرے۔
چونڈہ میں یادگا ر شہداء پارک ہے، جس میں ٹینک اور جہاز بھی نصب ہیں۔وچھوکے میں لیفٹیننٹ کرنل عبد الرحمن شہید ستارہ جرأت اور ان کے ساتھیوں کی یادگار موجود ہے۔جسے راقم کو جولائی 2011 میں دیکھنے کا موقع ملا اور جذبات کو تقویت ملی۔ لیفٹیننٹ کرنل عبد الرحمن فرسٹ ایس پی رجمنٹ آرٹلری کے کمانڈنگ آفیسر تھے اور 11 کیولری کے شانہ بشانہ لڑائی کر رہے تھے کہ دشمن کی گولہ باری سے شہید ہو گئے۔اسی طرح برکی ہڈیارہ کا سرحدی علاقہ دیکھنے کا بھی موقع ملا۔جہاں میجر عزیز بھٹی شہید کی یاد گار بھی موجود ہے۔آپ کبھی لاہور یا سیالکوٹ کے سرحدی علاقے کو دیکھیں تو وہاں جابجا شہداء کی یادگاریں نظر آتی ہیں اور یہ نیلا آسما ن ، سر سبز زمین ،بہتی نہریں اور معطر فضا یہ پیغام دیتی ہیں کہ چشم فلک نے کئی عظیم سپوت دفاع وطن کے لئے قربان ہوتے دیکھے ہیں تاکہ دشمن کے جارحانہ اقدام کو روکا جاسکے۔اور دشمن کی لاہور جم خانہ میں چائے کی خواہش اس کے سینے میں ہی دفن ہو جائے۔لاہور کے پاکستان آرمی میوزیم میں پاکستا ن کی تمام جنگوں کے بارے میں اہم معلومات، مجسماتی ، تصویروں اور مختلف طریقوں سے محفوظ ہیں۔جس میں ایسی کمانڈ پوسٹ بھی موجود ہے جس میں کھڑے ہوں تو فائر کی آواز بھی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ قومی امنگوں کو اجاگر کرنے اور قوم میں جذبۂ حریت پیداکرنے کی غرض سے ستمبر 1965 میں شعرا ء نے ملی اور رزمیہ گیتوں، نظموں اور خصوصا غزلوں اور غزل نما ترانوں کے ذریعے اپنے جذبہ حب الوطنی کایادگار ثبوت فراہم کیا ہے۔ اس جنگ میں پاکستانی افواج نے جس بے مثال جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ افواج پاکستان سے یکجہتی کا تصور گویا روح کو سرشار کردیتا ہے، دل جذبے سے بھر جاتا ہے اور فوجی جوانوں کی لازوال قربانیوں کی داستانیں آنکھیں نم کردیتی ہیں۔ جنگ ستمبر کا تذکرہ دلوں کو گرماتا ، جوش وجذبے کو ابھارتا اور ایمان ویقین کو تازہ کردیتا ہے۔ دوسری جانب ملکی دفاع کے لئے پاک فضائیہ کا جذبہ بھی کسی طور کم نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ پاک فضائیہ نے اس جنگ میں لازوال کردار ادا کیا ۔ پاک فضائیہ نے6ستمبرکو بھارت کے فضائی اڈوں پٹھانکوٹ، ادھم پور اور ہلواڑہ پر بھر پور انداز میں حملے کئے۔ پٹھان کوٹ میں پاک فضائیہ نے بھارت کے دس طیارے تباہ کئے اور متعدد کو نقصان پہنچایا۔ ۔ محمد محمود عالم المعروف ایم ایم عالم نے7ستمبر کو ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے 5لڑاکا طیارے مار گرائے جو آج بھی ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ اسی طرح پاکستان نیوی کی کارکردگی بھی قابل ستائش ہے۔پاکستان رینجرز نے بھی بہادری سے ملک کا دفاع کیا۔ اس جنگ میں غیر جانبدارتبصرہ نگاروں کے مطابق پاکستا ن کا پلہ بھاری رہا۔تقریبا 17 دن کی لڑائی کے بعد سیز فائر کا اعلان ہو ا اور اس کے بعد معاہدہ تاشقند عمل میں آیا۔لاہور اور چونڈہ کے محاذوں پر ہونے والے واقعات زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔
لاہور سیکٹر
6ستمبر 1965 کے روز بھارت نے رات کی تاریکی میںکئی انفنٹری ڈویژن ،ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے لاہور پر تین اطراف سے حملہ کردیا۔ دشمن یہ سوچ کر پاکستان پر حملہ آور ہوا تھا کہ لاہور پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملانے کے لئے پہلے پہل اس کے لاہور کی جانب بڑھتے قدم روکنے تھے، جس کے لئے ستلج رینجرز کے نوجوانوں نے نہ صرف جان کے نذرانے پیش کئے بلکہ بی آر بی نہر کا پل تباہ کرکے دشمن کا لاہور میں پہنچنا ناممکن بنادیا گیا، اس تمام تر صورتحال کو یقینی بنانا کسی طور معجزے سے کم نہ تھا ۔103 بریگیڈ کے ایریا میں 7ڈویژن حملہ آور تھا۔خوش قسمتی سے 7 ڈویژن نے یہ حملہ کافی تاخیر سے کیا جس کی وجہ سے بریگیڈ کو دفاع تیار کرنے کا موقع مل گیا۔جس نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔باہمی امداد اور سرنگی رابطے نے اہم کردار ادا کیا۔انجینئرز کی مائن فیلڈز نے بھی دشمن کا خاصا نقصان کیا اورآرٹلری نے بھی خوب گولہ باری کی اور دشمن کے حملے کو پسپا کرنے میں خوب فرض ادا کیا۔
6 ستمبر 1965 کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمانڈ کر رہے تھے۔میجر عزیز بھٹی کی یونٹ 17 پنجاب103 بریگیڈ کا حصہ تھی جو کہ 10 ڈویژن کا دفاعی بریگیڈ تھا۔اس کمپنی کی دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھیں۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ان حالات میں جب کہ دشمن تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی پوری پوری امداد حاصل تھی۔ میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔ 10 اور 11 ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھرپور حملے کے لئے اپنی ایک پوری بٹالین (4 سکھ بٹالین)جھونک دی۔ میجر عزیز بھٹی کو اس صورت حال میں نہر کے اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا انہوں نے اس دفاعی پوزیشن سے بھی دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیااور پھر اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔ انہوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع کے لئے منظم کیا۔ دشمن اپنے چھوٹے ہتھیاروں ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہا تھا مگر راجہ عزیز بھٹی نہ صرف اس کے شدید دبائو کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔12 ستمبر کو اسی دوران دشمن کے ایک ٹینک کا گولہ ان کو آ لگا جس سے وہ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ انڈیا کے لیفٹیننٹ ہربخش سنگھ کے مطابق پاکستانی افواج بہادری سے لڑی اور زمین کے ہر انچ کا خوب دفاع کیا انہوں نے اپنی کتاب میں میجر عزیز بھٹی کا بھی ذکر کیا ہے ۔میجر عزیز بھٹی شہید کی جرأت اور بہادری آنے والی نسلوں کے لئے قابل تقلید ہے۔
جنگ ستمبر میں دشمن کے مقابلے میں چھوٹے مگر غیور اور متحد ملک نے دشمن کے جنگی حملوں کا اس پامردی اور جانثاری سے مقابلہ کیا کہ اس کے سارے عزائم خاک میں مل گئے۔ اس جنگ میں جنگی سازو سامان کی کم تعداد کے باوجود پاکستانی افواج اور قوم نے اپنے جوش، ولولے اور جذبۂ شہادت سے ثابت کیا کہ وہ اپنی مقدس سرزمین کے چپے چپے کا دفاع کرنے کی ہر ممکن صلاحیت رکھتی ہیں اور اِن شااللہ آئندہ بھی ہمیشہ رکھیں گی
چونڈہ سیکٹر
تاریخ نویس ستمبر 1965 کی چونڈہ کے محاذ پر پاک بھارت جنگ کو دوسری جنگ عظیم (جنگ کرسک) کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ قرار دیتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چُور بھارت نے پاک فوج کی توجہ لاہور محاذ سے ہٹانے کے لئے600 ٹینکوں اور ایک لاکھ فوج کے ساتھ سیالکوٹ میں چارواہ،باجرہ گڑھی اورنخنال کے مقام پر حملہ کردیا۔ ۔ عددی برتری کے لحاظ سے بھارت کے پاس بہت اسلحہ تھا اور ان ٹینکوں کو ناکام بنانے کے لئے پاکستان کے عظیم سپاہیوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کے لئے اپنے سینوں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر انہیں تباہ کرکے ناکارہ بنادیا۔ بھارت میں چونڈہ کا مقام اب بھی ٹینکوں کے قبرستان کے نام سے مشہور ہے ۔کیونکہ پاکستانی سپاہیوں نے بھارتی صفوں میں گھس کر ان کی سازشی تدابیر کو ناکام بنایا تھا۔ ہندوستان کا سب سے بڑا اور خطرناک حملہ سیالکوٹ کے محاذ پر ہوا تھا۔ جس کا مقصد لاہور، گوجرانوالہ شاہراہ کو کاٹنا تھا۔ یہ حملہ ہندوستان کے چار ڈویژن فوج نے کیا جن میں ان کا مایہ ناز فرسٹ بکتر بند ڈویژن بھی شامل تھا جو تین سو سے زائد ٹینکوں سے لیس تھا۔ 7ستمبر1965کو عین سرحدوں پر مختصر سی لڑائی کے بعد ہندوستان کے بکتر بند ڈویژن نے بھرپور کوشش کی کہ آگے بڑھ کر پاکستانی فوج کو شکست دے اور اپنا ہدف حاصل کرے۔میجر جنرل صاحبزادہ یعقوب خان کو 1 کور میں آرمر اڈوائز رلگایا گیا تھا تاکہ ٹینکوں کے بارے میں ان کی مہارت سے فائدہ اٹھا یا جا سکے۔یہ مہارت انہوں نے جنگ عظیم دوم میں سیکھی تھی۔ 24 انفنٹری بریگیڈ کو حکم ملا کہ دشمن کی پیش قدمی کو روکے۔ ہماری فوج کی ایک مایہ ناز رجمنٹ 25کیولری (جس کے کمانڈنگ آفیسر کرنل نثار تھے) نے ہر اول دستے کا کام کرتے ہوئے بے پناہ دلیری اور مہارت کے ساتھ دشمن کو نہ صرف روکا بلکہ پیچھے دھکیل دیا۔ چند روزہ ٹینکوں کی لڑائی کے بعد پاکستان نے 11 ستمبر 1965 کے دن چونڈہ شہر کا چنائو کیا جو اس وقت کے جنگی حالات کے لحاظ سے نہایت موزوں جگہ پر واقع تھا۔ وہاں 24 انفنٹری بریگیڈ نے ایک مضبوط قلعے کے طور پر دفاع کی حکمت عملی اختیار کی اور 6 آرمرڈ ڈویژن کو چونڈہ کے اطراف میں ٹینکوں کی جنگ کرنے پر مامور کیا۔ ہندوستان نے 12 ستمبر 1965سے لے کر 18 ستمبر 1965تک چونڈہ کے اردگرد لگا تار حملے کئے تاکہ چونڈہ کو چھوڑ کر آگے اردگرد کا علاقہ قبضہ کر لے اور چونڈہ کو بعد میں نمٹ لے لیکن پاکستان کے 6 آرمڈ ڈویژن نے نفری اور ٹینکوں کی کمی کے باوجود بھرپور مقابلہ کیا اور ہندوستانی فرسٹ آرمڈ ڈویژن کو چونڈہ سے آگے پیش قدمی سے روکے رکھا۔ یہی جنگ دنیا میں مشہور اور منفرد ٹینکوں کی جنگوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس میں بے شمار مجاہدوں نے اعلیٰ کارکردگی کے نمونے پیش کئے۔ ہندوستان کے آرمڈ ڈویژن کا اتنا نقصان ہوا کہ ہندوستانی کور کمانڈر نے مجبوراً فیصلہ کیا کہ ٹینکوں کی بجائے (انفنٹری)کو آگے لایا جائے اور چونڈہ پر حملہ کر کے قبضہ کیا جائے کیونکہ چونڈہ کو نہ تو ٹینکوں سے مسمار کیا جا سکا تھا اور نہ ہی اس کو چھوڑ کر آگے بڑھا جا سکتا تھا۔ پس ہندوستانی 6 مائونٹین ڈویژن کو ہدف ملا کہ وہ چونڈہ پر حملہ کر کے قبضہ کرے تاکہ آگے پیش قدمی ممکن ہو سکے۔ ہندوستانی 6 مائونٹین ڈویژن امریکن سازوسامان سے لیس تھا۔ ان کے جنرل آفیسر کمانڈنگ نے اپنا حملہ 58 بریگیڈ ،35بریگیڈ اور 40بریگیڈکے ساتھ اہداف پر پلان کیا ۔ اس آپریشن کی متوقع کامیابی کے بعد ہندوستانی فرسٹ آرمرڈ ڈویژن کو حکم دیا گیا تھا کہ ان کے لئے چونڈہ کا کانٹا نکال دیا گیا ہے اور ابھی وہ گوجرانوالہ کی طرف سے پیش قدمی کر سکتے ہیں۔ جس کے لئے وہ تیار بیٹھے تھے۔
پاکستانی 24بریگیڈ جو چونڈہ کا دفاع کررہا تھا۔یہ دفاع 4،پلٹنوں پر مشتمل تھا۔ جو 25کیولری، 2پنجاب رجمنٹ، 14بلوچ رجمنٹ(چونڈہ بٹالین)اور 3ایف ایف رجمنٹ پر مشتمل تھا۔ اس بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر عبدالعلی ملک تھے۔ اب وقت آ گیا تھا کہ بریگیڈ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائے اور اپنے سے تین گناکثیر دشمن کا سامنا کرے۔تمام یونٹوں نے اعلیٰ کارکردگی دکھائی اور دشمن کو منہ کی کھانا پڑی۔ہمارے کمانڈرز کی اعلیٰ حکمت عملی اور ٹروپس کے جذبہ ٔجہاد اور جانفشانی کے باعث دشمن کو ہزیمت اور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
جنگ ستمبر میں دشمن کے مقابلے میں چھوٹے مگر غیور اور متحد ملک نے دشمن کے جنگی حملوں کا اس پامردی اور جانثاری سے مقابلہ کیا کہ اس کے سارے عزائم خاک میں مل گئے۔ اس جنگ میں جنگی سازو سامان کی کم تعداد کے باوجود پاکستانی افواج اور قوم نے اپنے جوش، ولولے اور جذبۂ شہادت سے ثابت کیا کہ وہ اپنی مقدس سرزمین کے چپے چپے کا دفاع کرنے کی ہر ممکن صلاحیت رکھتی ہیں اور اِن شااللہ آئندہ بھی ہمیشہ رکھیں گی۔کیوں کہ یہ وطن عظیم قربانیوں سے حاصل کیا گیا ہے۔ ||
تبصرے