کہا جاتا ہے کہ ترقی سڑک پر چل کر آتی ہے اور سڑک پاکستان اور چین جیسے دو برادر پڑوسی ممالک کے درمیان ہوتو ترقی کی رفتار اور معیار کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔حکومت نے گزشتہ دو سال کے دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے دوسرے مرحلے کو اولین ترجیحات میں رکھا، پاک چین اقتصادی راہداری اربوں ڈالر کا ایک میگا منصوبہ ہے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات نئی بلندی تک پہنچ جائیں گے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے ملک کے تمام صوبے بھی مساوی مستفید ہوں گے جبکہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اورقبائلی اضلاع کو خصوصی فائدہ ہوگا۔ اس کلیدی منصوبے کی تکمیل سے پاکستانی معیشت کی تقدیر بدل جائے گی۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت اہم منصوبوں میں گوادر پورٹ کی اپ گریڈیشن، گوادر پورٹ ایکسپریس وے کی تعمیر،گوادر انٹرنیشل ائیر پورٹ اور کراچی سکھر موٹروے کی تعمیر شامل ہے ۔ جس کی تکمیل سے ملک کی اقتصادی اور معاشی ترقی اور خوشحالی کے اہداف کے حصول میں مدد حاصل ہو گی اور پاکستان بین الاقوامی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن کر ابھرے گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے فیز ٹو میں سیاحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور زراعت کو سی پیک میں شامل کیا گیا ہے، حکومت سستی بجلی بنانے کی طرف جا رہی ہے، بڑے ڈیمز نہ صرف زراعت کے لئے فائدہ مند ہوں گے بلکہ ہائیڈرل پاور جنریشن کے فروغ میں بھی معاون ثابت ہوں گے دوسری جانب چین کی بڑی کمپنیاں کارپوریٹ فارمنگ میں دلچسپی لے رہی ہیں۔سی پیک اتھارٹی کے قیام کا مقصد بھی ون ونڈوآپریشن کے تحت ایک ہی جگہ پر تمام وزارتوں، صوبوں اور اداروں کے ساتھ مل کر سی پیک کے منصوبوں کو بہتر انداز میں آگے بڑھانا ہے تاکہ تمام تر سہولیات کی ایک ہی جگہ فراہمی سے کمپنیوں کو آسانی ہو۔اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی ہدایات ہیں کہ اس وقت چین اکنامک سپر پاور ہے اور ہمیں اس کے تجربات سے ہر صورت فائدہ اٹھانا ہے، اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ سی پیک کے کسی بھی پروجیکٹ پر کام رکنا نہیں چاہئے بلکہ ان کو اور تیز کرنا ہے، وزیراعظم ان منصوبوں کی خود مانیٹرنگ بھی کر رہے ہیں، کرونا وائرس کے باوجود سی پیک کے تمام پروجیکٹس پر کام پورے زوروشور سے جاری ہے،سی پیک انرجی کے 17 میں سے 9 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ 8 منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے، 4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے پروجیکٹ پر بھی دستخط ہو چکے ہیں۔ ڈی آئی خان موٹروے پر کام جاری ہے جس کو ژوب تک لے کر جائیں گے، اس کے علاوہ ہوشاب سے آواران کی سڑک پر کام شروع کیا جا رہا ہے۔ 9 میں سے 3 سپیشل اکنامک زونز ابتدائی ترجیحات میں شامل ہیں، رشکئی اکنامک زون کے لئے ایک ہزار ایکڑ زمین حاصل کی جا چکی ہے، رشکئی پر ترقیاتی معاہدے کی رسمی کارروائی بھی مکمل ہو گئی ہے، فیصل آباد میںسپیشل اکنامک زون کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے، کراچی کے قریب دھابیجی اکنامک زون کا ٹینڈر ہو گیا ہے، دھابیجی اکنامک زون کے لئے کمپنیاں گہری دلچسپی ظاہر کر رہی ہیں،سی پیک کے تحت دھابیجی سپیشل اکنامک زون پر عملدرآمد کو تیزی سے یقینی بنایا جارہا ہے۔ دھابیجی اسپیشل اکنامک زون کی وجہ سے پاکستان میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ (ایف ڈی آئی)کو فروغ ملے گا۔ دھابیجی سپیشل اکنامک زون کو صنعتی اور تجارتی مرکز بنانے کے لئے تمام ترکوششوں کو یقینی بنایا جارہاہے۔
زراعت کا شعبہ
سی پیک کے ذریعے زراعت کے شعبہ کی ترقی اور بہتری پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی، زراعت کا شعبہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، چینی سٹڈی گروپ کے ساتھ مل کر زرعی تحقیق پر کام کر رہے ہیں، چینی کمپنیاں کارپوریٹ فارمنگ میں دلچسپی لے رہی ہیں، ہمارے بزنس ہاؤسز اور چائنیز کمپنیاں مل کر کام کر رہی ہیں۔حکومتِ پاکستان سی پیک کے تحت زراعت کے شعبے کو جدید رجحانات سے روشناس کرانے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے،کاشتکاروں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے اور قومی معیشت میں اس کے مثبت اثرات کو بڑھانے کے لئے خاص توجہ دے رہی ہے کیونکہ زراعت قومی معیشت پر اثرانداز ہونے والاسب سے بڑا شعبہ ہے۔ زراعت میں پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لئے تکنیکی ترقی بہت ضروری ہے۔ چین نے سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت زراعت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی منتقلی پر اتفاقِ رائے کیا ہے۔ سی پیک کے تحت دوطرفہ زرعی تعاون سے کپاس کی پیداوار سے متعلق امور کو حل کیا جائے گا اور پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔
توانائی کے منصوبے
ملک میں توانائی کی ضروریات کوپورا کرنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات شروع کئے گئے ہیں تاکہ ملک کے ہر شہری کو سستی اور گرین انرجی مہیا کی جاسکے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت 7.603 ارب ڈالر کی لاگت سے پاکستان میں ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے ذریعے 3415 میگاواٹ گرین انرجی پر تیزی سے کام جاری ہے ۔ سی پیک منصوبہ کے تحت کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے 720 میگا واٹ بجلی حاصل کی جائے گی، جو 1.42 ارب ڈالر سے تعمیر کیا جارہاہے ،جس کے کام کی پیش رفت جاری ہے، تکمیل ہونے پر 5 ملین کی آبادی کو کلین اینڈ گرین انرجی کی فراہمی یقینی ہوجائے گی، اس منصوبے سے تقریباً 4500 لوگوں کو روزگار کے موقع ملے ہیں۔ 70 فی صد تعمیراتی کام مکمل ہوچکاہے۔پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت آزاد جموں و کشمیر میں 1124میگاواٹ کے کوہالہ پن بجلی سہ فریقی منصوبے پر دستخط ہوگئے ہیں۔وزیر اعظم کے تعمیراتی شعبے اور اس سے متعلقہ صنعت کی بحالی کے لئے مدد گار ثابت ہو گا۔ اس منصوبے سے 5ہزار لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ 2 ارب 40 کروڑ ڈالرز کی یہ سرمایہ کاری پاکستان اور آزاد کشمیر میں آئی پی پیز کے کسی بھی منصوبے میں سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان اور آزاد کشمیر میں صارفین کو سالانہ 5 ارب یونٹ صاف اور سستی بجلی مہیا ہو گی۔کوہالہ اور آزاد پتن میں توانائی کے منصوبوں کے تحت جہاں ملک بھر میں 4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لئے راہ ہموار ہوئی ہے وہیں ملک بھر میں روزگار کے نئے مواقع بھی میسر آئیں گے۔ مذکورہ توانائی منصوبوں کے ذریعے 1800 میگا واٹ بجلی پید ا ہونے کاامکان ہے جبکہ ملک بھر میں 8ہزار روزگار کے نئے مواقع میسرآئیں گے ۔آزاد پتن پن بجلی منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا حصہ ہے جس پر ڈیڑھ ارب ڈالر کی لاگت آئے گی اور اس سے 7سو میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا ہوگی اس منصوبے کے لئے ایندھن درآمد کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور یہ ملک کو سستی اور آلودگی سے پاک بجلی فراہم کرنے میں مدد دے گا۔ یہ منصوبہ دریائے جہلم پر واقع اور 2026میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔خیبرپختونخوا میں 870 میگاواٹ کے سکھی کناری پن بجلی منصوبے کا 50 فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے۔1.963 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے دریائے کنہار پر تعمیر کئے جانے والے اس منصوبے سے چار ہزار250 ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ بجلی کی قیمت میں کمی لانا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔سی پیک کے منصوبے سکھی کناری پن بجلی گھر کی تعمیر کا کام دن رات جاری ہے ۔ منصوبے کی بطریق احسن تکمیل کے لئے چینی معمار بھر پور محنت کر رہے ہیں ۔ شیڈول کے مطابق سکھی کناری پن بجلی گھر کی تعمیر کو 2022 کے اختتام تک پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔اس منصوبے اور عملے کی بروقت ترتیب نو کی وجہ سے 700 سے زائد چینی ملازمین نے موجودہ نازک وقت میں مشکلات پر قابو پالیا ہے اور اس منصوبے کی مدت زیادہ متاثر نہیں ہوگی۔ اس پن بجلی گھر کی تکمیل پاکستان کی صنعتی ترقی اور معاشی بحالی کے فروغ میں اہم کردار اداکرے گی ۔
گوادر انٹرنیشنل ائیر پورٹ
230ملین ڈالرکی لاگت سے گوادر میں بین الاقوامی طرز کے ائیرپورٹ کی تعمیر تیزی سے جاری ہے،گوادر ائیر پورٹ کی تعمیر سے شہر ترقی کے نئے دور میں شامل ہوگا۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت گوادر شہر کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ گوادر میں بین الاقوامی طرز کا ائیرپورٹ ہونا بھی انتہائی ضروری تھا۔ گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی تعمیر کا آغاز گزشتہ سال ہوا تھا اور منصوبے پر کام زور و شور سے جاری ہے۔ گوادر کے جدید ترین ائیرپورٹ کے رن وے پر دنیا کے سب سے بڑے مسافر بردار طیارے A380 کو بھی لینڈنگ اور اڑان بھرنے کی سہولت موجود ہوگی۔حکومت گوادر میں جاری تمام ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ ائیرپورٹ کی تعمیر سے جہاں گوادر بین الاقوامی شہر کا درجہ حاصل کرلے گا وہیںیہ منصوبہ روزگار کے مواقع اور شہر کی ترقی میں انتہائی معاون بھی ثابت ہوگا۔
ریلوے ۔ایم ایل ون
سی پیک کے تحت 5.4ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والا مین لائن۔ریلوے ایم ایل ون سے 90فی صد سے زائد پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے ۔ مین لائن ون ٹریک سے ریلوے حادثات پر قابو پانے اور ہزاروں نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ کراسنگ فری ٹریک ہوگا جس سے کراچی سے لاہور تک کے سفری دورانیے میں سات گھنٹے کی کمی آئے گی جبکہ راولپنڈی سے لاہور کا سفر صرف دو گھنٹے میں طے ہوگا۔ پشاور سے کراچی تک منصوبے میں 1872 کلو میٹر طویل ریلوے ٹریک کی اپ گریڈیشن شامل ہے اور پشاور سے کراچی تک ریلوے ٹریک دو رویہ کرنا بھی منصوبے کا حصہ ہے۔ ایم ایل ون سے ریل گاڑیاں160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلیں گی جنہیں مزید بڑھا کر200 کلومیٹر فی گھنٹہ کیا جاسکتاہے۔ایم ایل ون ایک انقلابی منصوبہ ہے جس سے پاکستان ریلوے کا پورا ڈھانچہ بہتر ہوگا، اربوں ڈالر مالیت کا یہ منصوبہ چین کی مدد سے پانچ سے آٹھ سال کی مدت میں مکمل ہوگا۔ ||
تبصرے