یوں تو ہر نیا سال اپنے اندر نئے امکانات اور نئے چیلنجز لے کر شروع ہوتا ہے لیکن سال 2020پاکستان کی معیشت کے لئے منفرد ہے۔ پیچھے مڑ کر سال 2019پر نظر دوڑائیں تو یوں لگتا ہے ایک سال میں کئی سالوں کے برابر معاشی اتار چڑھائو رہا۔ سال کے آغاز میں بے یقینی کی گہری دھند تھی، حدّ ِ نگاہ چند ماہ بھی نہ تھی لیکن سال ختم ہونے پر چند بنیادی اشاریئے ضرور مثبت ہیں جن کی وجہ سے مطلع قدرے صاف دکھائی دینے لگا ہے ۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ یہ مالیاتی استحکام بہت واجبی اور نازک ہے ، اس سے وقتی طور پر سانس تو درست ہوئی ہے لیکن معیشت کی مجموعی صحت اب بھی بہت احتیاط اور مسلسل بہتری کی متقاضی ہے۔
گزشتہ سال شروع ہوا تو نئی حکومت کو توشے میں ملے زرِ مبادلہ کے بحران کے طوفانی جھکڑ نے ہر طرف بے یقینی اور بے چینی کی ریت اڑا رکھی تھی۔ روپے اور ڈالر کی شرح مبادلہ میں تیزی سے کمی تھمنے کا نام نہ لے رہی تھی۔ شرح مبادلہ میں اس کمی کی وجہ سے مہنگائی کے مزید بگولے اٹھنے لگے۔ قرضوں کا بوجھ اور ان کی ادائیگی پہلے کیا کم تھی جو مسلسل گرتی شرح مبادلہ نے ان کا وزن گیلے کمبل کی مانند اسی تناسب سے بڑھا دیا۔ بجلی اور گیس کے ٹیرف ایڈجسٹ ہوئے تو یہ بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ بڑھتی ہوئی شرح سود اور چھلانگیں لگاتے افراطِ زر نے کاروباری لاگت اور مہنگائی کو مزید بڑھادیا۔
سال2019 کی بیلنس شیٹ میں اہم ترین نکتہ یہ رہا کہ نئی حکومت نے خاصے ادھیڑ بن کے بعد بالآخر آئی ایم ایف کے ساتھ سوا تین سالہ مالیاتی استحکام پروگرام طے کیا۔ اس پروگرام کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ اس میں کچھ کڑی شرائط پر قبل از پروگرام عملدرآمد لازم ٹھہرا جن میں روپے ڈالر کی شرح مبادلہ کو مارکیٹ کی صوابدید پر چھوڑنا، درآمدات کو کنٹرول میں لاتے ہوئے تجارتی اور جاری خسارے کو کم کرنا، حکومتی محاصل کا ٹارگٹ ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے، ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لئے غیر معمولی حساسیت اور ذمہ داری، بجلی اور گیس کی قیمتوں میںاضافے اور حکومتی اخراجات پر کنٹرول سمیت کئی دور رس اقدامات شامل تھے۔
سال 2020 کا سب سے بڑا اقتصادی چیلنج اس نوزائیدہ مالی استحکام کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھانا ہے ۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کے سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی بھاری قیمت اقتصادی شرح نمو میں کمی کی صورت میں چکانی پڑ رہی ہے۔ شرح نمو کسی بھی معیشت کا بیرومیٹرہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت پانچ فی صد سالانہ کے لگ بھگ نمو پانے کے بعد تین ساڑھے تین فی صد کی رینج میں آ گئی ہے۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا تخمینہ ہے کہ پاکستان کی اقتصادی شرح نمو سال 2020 اور 2021 میں بمشکل پونے تین سے ساڑھے تین فی صد تک رہ پائے گی۔ معروف عالمی ریٹنگ کمپنی موڈیز نے حال ہی میں پاکستان کی معیشت کی'' آئوٹ لک'' منفی سے مثبت کی ہے لیکن ان چیلنجز کی نشاندہی کے ساتھ جو معیشت کو بدستور درپیش ہیں۔ سٹیٹ بنک کی سالانہ رپورٹ میں بھی ان چیلنجز کی نشاندہی کی گئی ہے ۔
معیشت مالیاتی اور تجارتی خسارے کا شکار ہے۔ درآمدات کا حجم برآمدات کے اڑھائی گنا سے بھی زائدہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ بے قابو رہا۔ برآمدات بڑھانے کی تمام کوششیں اب تک بے سود رہیں۔ گزشتہ چھ سالوں میں برآمدات بیس سے پچیس ارب ڈالرز کے درمیان رہی ہیں۔ ہماری برآمدات کی فہرست زیادہ تر ان اشیاء پر مشتمل ہے جو کم ویلیو ہیں۔ دو تہائی برآمدات بقول ایک معروف معیشت دان کے چادر، چاول اور چمڑے پر مشتمل ہیں۔بد قسمتی سے پاکستان کی برآمدی اشیاء کی باسکٹ میں گزشتہ دو تین دہائیوں سے کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ اس دوران ٹیکسٹائلز ہی لے دے کر برآمدات کا 55- 60% حصہ رہی ہیں۔ ٹیکسٹائلز میں بھی گارمنٹس کا تناسب 40% سے بھی کم رہا اور باقی خام مال و نیم تیار اشیاء ، جبکہ عالمی تجارت میں یہ تناسب الٹ ہے یعنی گارمنٹس کا تناسب 60 % اور ٹیکسٹائلز خام مال اور نیم تیار شدہ کا 40% ۔
ایک اور اہم بات کہ عالمی تجارتی حجم میں گارمنٹس کی سالانہ شرح نمو ٹیکسٹائلز سے دوگنا رہی ہے۔ پاکستانی معیشت اس غیر متوازن ایکسپورٹ باسکٹ کو درست کرکے اور کچھ نئی مگر بہتر ویلیو ایڈڈ اشیاء میں مہارت کے ساتھ ہی آگے بڑھ سکتی ہے۔ سال 2020 میں اس سمت کچھ ایسے بنیادی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کہ اس روایتی رجحان میں تبدیلی کا عمل شروع ہو سکے۔
پاکستان کی معیشت کا ایک بہت بڑا تضاد درآمدات کی حوصلہ افزائی ہے۔ گزشتہ پندرہ اٹھارہ سالوں کے دوران درآمدات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ چین کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ اور اس پر طرفہ تماشہ انڈر انوائسنگ نے گزشتہ بارہ سالوں میں درآمدات کا فلڈ گیٹ کھول دیا۔ روپے کی قیمت کو مصنوعی طور پر غیر حقیقی شرح مبادلہ پر رکھ کر بالواسطہ درآمدات کے لئے آسانی رہی جبکہ دوسری طرف برآمدات کی مسابقت مشکلات کا شکار رہی ۔ ماضی کی مختلف حکومتوں کے دور میں ایسی پالیسیوں کے تسلسل کی وجہ سے صنعتی پیداواری شعبے یعنی Manufacturing Sector کا تناسب مجموعی قومی پیداوار میں مسلسل کم ہوتا گیا ۔ صنعتی شعبے میںسکڑائو اور دیگر وجوہات کے سبب برآمدات کا جی ڈی پی میں تناسب پندرہ سالوں کے دوران 13% سے کم ہو کر فقط سات فی صد رہ گیا ہے جبکہ ہم پلہ دیگر ممالک میں یہ تناسب اس دوران خاصا بڑھا ہے۔
صنعتی پیداواری کا تناسب سال 2003 میں مجموعی ملکی پیداوار کا 22% تھا جو سال 2018 میں کم ہو کر 18% رہ گیا ۔ سال2020کا ایک بہت بڑا چیلنج صنعتی پیداوار میں گراوٹ کے اس رجحان کو بدلنا ہوگا۔ اعداد و شمار کے مطابق بڑ ی صنعتوں کی پیداوار میں رواں مالی سال کے پہلے چار مہینوں میں 6.50% کمی ہوئی۔ درمیانے اور چھوٹے درجے کی صنعتوں کا دار و مدار بڑی صنعتوں پر ہوتا ہے۔ اس سے صنعتی شعبوں میں جاری صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
زراعت کی پیداوار میں بھی ایک جمود سا طاری ہے۔ رواں سال بھی کپاس کی فصل تباہی کا شکار ہوئی۔ ڈیڑھ کروڑ گانٹھوں کی ملکی ضرورت کے بر عکس کپاس کی فصل بمشکل نوے لاکھ ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق 1990-2015کے درمیانی پچیس سالوں کے دوران بڑی فصلوں یعنی Major crops میں اوسط سالانہ اضافہ صرف 2.8% فی صد رہا ، دیگر چھوٹی فصلوں یعنی Minor crops کی سالانہ شرح نمو فقط 1.9% رہی۔ وجوہات بہت سی ہیں لیکن حاصلِ کلام یہ ہے کہ پچیس سالوں کی اوسط کارگزاری دنیا کی پیداواری ترقی کے مقابلے میں انتہائی مایوس کن رہی۔ سال 2020 کا ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ روایتی اعلانات اور پیکیجز سے باہر نکل کر ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ فی ایکڑ پیداوار بھی بڑھے اور فرسودہ طریقوں کے بجائے زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔
لائیو اسٹاک کا تناسب زراعت میں نصف سے بھی زائد ہے لیکن ڈیری کی بہت سی مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں۔ حلال گوشت کی بہت بڑی عالمی ٹریڈ میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ملک کے اندر غذائی سکیورٹی وقت کے ساتھ ساتھ ایک اہم مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ اشیائے خور و نوش میں مہنگائی کے ساتھ ساتھ کوالٹی بھی ایک اہم چیلنج ہے۔ سال 2020میں روایتی بے عملی تج کر عالمی معیارات کو اپنانے کی ضرورت ہے، فصلوں اور لائیو اسٹاک کی پیداوار، کوالٹی، کم لاگت کے ساتھ پیداوار ، اندرون ملک اوربیرون ملک مارکیٹنگ میں انقلاب لانے کی ضرورت ہے ۔
ملک کو تجارتی خسارے کے ساتھ ساتھ مالیاتی خسارے کا بھی سامنا ہے یعنی دوہرے خسارے کا سامنا ہے۔ حکومتی محاصل سے جمع شدہ آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں جس کی وجہ سے ہر سال بجٹ خسارے کا بوجھ آنے والے سال کے دامن میں پہلے سے زیادہ چھید چھوڑ جاتا ہے۔ نتیجہ ہر سال اندرونی اور بیرونی قرضوں سے خسارہ پورا کرنے کا ڈنگ ٹپائو کام کئی دِہائیوں سے جاری ہے۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ قرضوں اور سود کی ادائیگی بجٹ کی سب سے بڑی مد ہے۔ اس کے بعد دفاع، حکومت کے انتظامی اخراجات کی باری آتی ہے، ڈویلپمنٹ کی باری آتے آتے ملکی وسائل ختم ہو جاتے ہیں اور یوں قرضوں کا بار اور مجبوری پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
بلیک اکانومی کا پوری معیشت میں حصہ ساٹھ فی صد سے بھی زیادہ بتایا جاتا ہے ۔ بلیک اکانومی ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایف بی آر کے پاس بالواسطہ ٹیکسوں اورٹیکس نیٹ میں شامل لوگوں پر مزید ٹیکس لگائے بغیر محاصل بڑھانا مشکل ہے۔ اس پر مستزاد کرپشن نے وسائل کو دیمک کی طرح کھا یا ہے۔ موجودہ حکومت نے ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے غیر معمولی اقدامات اٹھائے ہیں جن کی مخالفت سے کاروباری حالات پر بے یقینی کے سائے بھی ہیں۔ اس کے باوجود یہ حقیقت بہت واضح ہے کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے، بالواسطہ ٹیکسوں کے بجائے براہ راست Consumptionاور آمدن پر ٹیکس لگانے، ٹیکسوں کے بوجھ کو منصفانہ انداز میں نافذ کرنے ، ٹیکس استثنیات یعنیExemptions کو صرف پسے طبقات تک محدود رکھنے اور ٹیکس جمع کرنے والے نظام کو شفاف اور ٹیکنالوجی سے لیس کئے بغیر معیشت مستحکم بنیادوں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ سال2020 میں ٹیکس نظام اور انداز میں تبدیلی لانا ایک دور رس معرکہ ہو گا۔
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور ان سیکٹرز میں ماضی کی بداعمالیوں کا بوجھ پوری معیشت پر بھاری پڑ رہا ہے۔ سرکلر ڈیٹ کا بوجھ سترہ سو ارب روپے تک پہنچنے کو ہے۔ اسی طرح پبلک سیکٹرز اداروں کا سالانہ نقصان بھی سیکڑوں ارب روپے سالانہ ہے۔ معیشت کو درپیش چیلنجز اور بھی ہیں لیکن چند بنیادی اور دور رس اہمیت کے حامل ان چیلنجز کی نشاندہی کی گئی ہے جن سے نمٹے بغیر معیشت مستحکم بنیاوں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ سال2020 بھی پچھلے سالوں جیسا ہو گا یا ان سے مختلف، اس کا فیصلہ اس سال کا ہر گزرتا مہینہ خود کر دے گا۔
مضمون نگار ایک قومی اخبارمیں سیاسی ' سماجی اور معاشی موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے