حکومت کی جانب سے معیشت کے مستحکم ہونے اور اسے مزید تقویت ملنے کے دعوے کئے جارہے ہیں اور اس کی عملی اور اچھی مثال یہ بھی ہے کہ پاکستان کی درجہ بندی منفی سے بی تھری پر آئی ہے جو کہ معیشت کو مستحکم بنانے اور طویل المدتی نمو کے لئے ایک پختہ بنیاد رکھنے میں حکومت کی کامیابی کی تصدیق ہے۔عالمی معاشی ادارے بہتری کے اشارے دے رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے بین الاقوامی ادائیگیوں کی صورتحال بہتر کی ہے۔ مثبت اقدامات کی بدولت معاشی صورتحال میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔تاہم آئی ایم ایف نے افراط زر میں مزید اضافے کا اشارہ بھی دیا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر حکومت مناسب اقدامات کرے تو اس پر قابو بھی پایا جاسکتا ہے۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ اقدامات کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے سال 2020 ء کو عوام کے لئے ریلیف کا سال بھی قراد دیا ہے۔ پاکستان ایک بڑی معیشت ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی پالیسیوں سے محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کی ادائیگیوں کی صورتحال میں مزید بہتری آئے گی۔ حکومت کے اقدامات کی وجہ سے بیرونی اقتصادی خطرات میں کمی آئے گی۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی، پالیسی فریم ورک اور دیگر اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں معاشی صورتحال کے لئے بیرونی خطرات میں کمی رہے گی تاہم غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھنے میں کچھ وقت لگے گا۔ رواں اور آئندہ مالی سال کے دوران بھی کرنٹ اکائونٹ خسارے میں جی ڈی پی کے تقریباً 2.2 فیصد تک کمی جاری رہنے کا امکان ہے جو کہ مالی سال 2017-18ء میں 6 فیصد سے زائد اور مالی سال 2018-19ء میں تقریباً 5 فیصد تھاجبکہ پالیسی اقدامات اور دیگر وجوہات کی بناء پر ادائیگیوں کے توازن میں بہتری کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے۔
حکومت پاکستان نے بین الاقوامی ادائیگیوں کی صورتحال بہتر کی ہے۔ مثبت اقدامات کی بدولت معاشی صورتحال میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔تاہم آئی ایم ایف نے افراط زر میں مزید اضافے کا اشارہ بھی دیا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر حکومت مناسب اقدامات کرے تو اس پر قابو بھی پایا جاسکتا ہے۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ اقدامات کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے سال 2020 ء کو عوام کے لئے ریلیف کا سال بھی قراد دیا ہے۔
پاکستان کی بی اے تھری لوکل کرنسی بانڈ اور ڈیپازٹ سیلنگ میں تبدیلی نہیں کی گئی۔ بی ٹو فارن کرنسی بانڈ سیلنگ اور سی اے اے ون فارن کرنسی ڈیپازٹ سیلنگ بھی وہی رہے گی۔ درآمدات میں کمی کرنٹ اکائونٹ خسارے کو کم رکھنے میں اہم کردار ادا کرے گی جبکہ بجلی کے جاری منصوبوں کی تکمیل سے بھی درآمدات میں کمی آئے گی اور بجلی کی پیداوار میں ڈیزل کے بجائے کوئلہ، قدرتی گیس کے استعمال اور پن بجلی کی پیداوار کی وجہ سے بتدریج تیل کی درآمدات بھی کم ہوں گی۔تاہم ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بجلی کے نرخ بھی کم یا اپنی جگہ پر قائم رہیں گے یا بڑھتے ہی رہیں گے۔ پچھلے 18 ماہ کے دوران ایکسچینج ریٹ میں ردوبدل کی وجہ سے برآمدات میں بتدریج اضافے کی وجہ سے بھی کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی ہوئی ہے۔ حکومت ملک کی تجارتی مسابقت بڑھانے کے لئے اقدامات کر رہی ہے اور حال ہی میں نیشنل ٹیرف پالیسی تیار کی گئی ہے جس کا مقصد برآمدات کے لئے سہولیات مہیا کرنا ہے۔ اگر تجارت کے تناظر میں بہتری کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں تو اس سے برآمدات میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ سٹیٹ بینک کو مضبوط بنانے اور کرنسی میں لچک پیدا کرنے سمیت پالیسی اقدامات سے بیرونی معاشی خطرات میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔ حکومت نیا سٹیٹ بینک ایکٹ متعارف کرانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تاکہ حکومتی قرضوں کے لئے مرکزی بینک کی فنانسنگ روکی جا سکے اور سٹیٹ بینک کے قیمت کے استحکام کے بنیادی مقصد کی وضاحت کی جا سکے۔توقع کی جاسکتی ہے کہ مالی سال 2019-20ء میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 8.6 فیصد کے لگ بھگ رہے گا جو کہ 2018-19ء میں 8.9 فیصد تھا اور اسے 2021-23ء تک تقریباً 7 فیصد تک لایا جائے گا۔ جی ڈی پی کے تناسب سے حکومت کا ریونیو بڑھنے کا امکان ہے اور ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے لئے مالیاتی حکام نے کئی ٹیکس استثنیٰ اور رعایتیں ختم کی ہیں اور انکم ٹیکس کے لئے کم از کم تھریش ہولڈ میں کمی لائی ہے۔ ٹیکس چوری روکنے اور سیلز ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے لئے آٹو میٹک انکم ٹیکس فائلنگ کا نظام بھی متعارف کرا یا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی حمایت سے ریونیو اقدامات مؤثر بنائے جا سکتے ہیں تاہم موڈیز نے یہ تخمینہ لگایا کہ اقتصادی نمو کے ماحول میں آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مقرر کیا جانے والا ریونیو کا ہدف مکمل طور پر حاصل کرنا ایک چیلنج ہوگا۔ مالی سال 2019-20ء میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو پچھلے مالی سال کے 3.3 فیصد کے مقابلے میں 2.9 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ اخراجات کے شعبے میں حکومت نے نیا پبلک فنانشل مینجمنٹ ایکٹ متعارف کرایا ہے جس کی جون 2019ء میں منظوری دی گئی اور اس کا مقصد بجٹ کے شعبے میں نظم و ضبط پیدا کرنا ہے۔2023ء تک حکومتی قرضے آئندہ چند سال کے زیادہ عرصے میں تقریباً 75 سے 76 فیصد کی شرح تک کم ہوں گے جو کہ اس وقت جی ڈی پی کے 82 سے 83 فیصد کے لگ بھگ ہیں۔حکومت نے ملک میں کاروبار اور سرمایہ کاری دوست ماحول کے قیام کے لئے بھی اقدامات کئے ہیں ،جس کا عالمی سطح پراعتراف کیا گیاہے ، کاروبارمیں سہولیات اورآسانیوں کے لحاظ سے عالمی بنک کی بین الاقوامی درجہ بندی میں پاکستان نے 28 پوائنٹس کی بہتری دکھائی ہے۔ رواں سال ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں کی تعداد میں گزشتہ سال کی نسبت 50 فیصد اضافہ ہواہے۔ ٹیکس وصولیوں میں بہتری آئی ہے، جولائی سے لے کر نومبرتک ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولیوں کی شرح میں گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں 17 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں کو کم کرنے پربھرپورتوجہ دی گئی جس کے نتیجے میں 2017-18ء کے مقابلے میں جب گردشی قرضوں کا حجم ماہانہ 38ارب روپے تھا اب اس میں 68 فیصد کی نمایاں کمی آئی ہے اوراس وقت اس کا حجم 12 ارب ماہانہ کے قریب ہے۔ ملک میں عوامی بہبود اورتعمیروترقی کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لئے سرکاری شعبے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں نمایاں بہتری لائی گئی،پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام( پی ایس ڈی پی )کے 50 فیصد مختص فنڈز کی منظوری دی گئی اوراس کا اجراء ممکن بنایا گیا۔ ٹیکس ریونیو میں 16 فیصد اضافہ خوش آئند ہے، اس کے ساتھ حکومتی اخراجات پر مؤثر طریقے سے قابو پایا گیا، کوئی ضمنی گرانٹ نہیں دی جا رہی ہے، یہی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے پرائمری بیلنس سرپلس میں ہے۔ چیلنجز موجود ہیں لیکن حکومت پرعزم ہے، درآمدی شعبے میں 5 ارب کے پریشر کے باوجود ایف بی آر نے ریونیو میں 17 فیصد بڑھوتری دکھائی ہے، یہ معیاری لحاظ سے بہترین شرح ہے۔ سب سے اچھی بات پورٹ فولیو سرمایہ کاری میں اضافہ ہے۔ اگر ایکویٹی کی مد میں ایک ارب ڈالر نہ آتے تواندرونی طور پر قرضہ لینا پڑتا جس سے مقامی سطح پر قرض حاصل کرنے والوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ ان سارے اقدامات کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک میں مہنگائی ریکارڈ سطح پر پہنچی ہے۔ عوام کو تو نہ ان اقدامات کی سمجھ ہے اور نہ ہی ان کا اس سے کوئی سروکار ہے۔ ایک عام آدمی کو تو چھت اور دو وقت روٹی کی فکر ہوتی ہے اور اس حکومت کو 500دن مکمل ہوئے ہیں تا ہم لوگ اب بھی ریلیف کے منتظر ہی ہیں۔ اب تک ریلیف ملا نہیں۔
مضمون نگار ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان(اے پی پی) کے ساتھ وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے