کورنا وائرس کی نئی قسمCOVID19 اس قدر اچانک رونما ہوئی اور اس قدر تیزی سے دنیا بھر میں پھیلی کہ حکومتوں اور عوام کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا۔ اس پر مزید ستم یہ کہ اپنی پیشتر اقسام سے بہت زیادہ مہلک ثابت ہوا۔ اوّلین ایک لاکھ متاثرین کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچنے میں 67 روز لگے مگر دوسرا لاکھ مکمل ہونے میں فقط گیارہ روز لگے۔ اور اس کے بعد تو چل سو چل، دنیا بھر میں پھیلائو اور ہر جگہ خوف و دہشت کے گھائو ہیں۔ پاکستان میں بھی پہلا کیس 26 فروری کو سامنے آیا مگر پھر متاثرین کی تعداد بڑھنے لگی۔
کورونا وائرس کی یہ قسم نومبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں دریافت ہوئی۔ چند ہفتے اس وباء کو سمجھنے اور اس کی ہلاکت خیزی کا ادراک کرنے میں لگے مگر جب اس کی حقیقت آشکار ہوئی تو چین کی حکومت نے دن رات ایک کرکے اپنے تمام وسائل اس میں جھونک دیئے۔دنیا اس وقت ایک دوسرے پر کچھ یوں انحصار کرتی ہے کہ بڑے انٹرنیشنل ائیرپورٹس پر چند فلائٹس کینسل ہو جائیں تو سینکڑوں پروازوں کا شیڈول درہم بر ہم ہو جاتا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی سطح پر فضائی، زمینی اور بحری سفر اس قدر عام اور روزمرہ کی زندگی کا معمول ہے کہ اس کے بغیر کاروباری ، تجارتی، صنعتی اور عوامی زندگی مکمل ہی نہیں ہوتی۔
چین نے کورونا وائرس کی اس نئی قسم کے پھیلائو کو روکنے کے لئے علاقوں سے روابط کو وقتی طور پر معطل کرنے اور لوگوں کے درمیان سماجی فاصلے یا وقتی طور پر میل ملاپ کی ممانعت کو موثر جانا اور اپنایا۔ دنیا کے دیگر ممالک نے بھی اس اقدام کو ہی سب سے بہتر حفاظتی انتظام جانا اور یوں ایک کے بعد ایک ملک اور شہر لاک ڈائون پر مجبور ہوئے۔ یوں دھڑا دھڑ سفر کے سب راستے اور روزمرہ کے کاروباری، تجارتی، صنعتی اور سماجی معمولات منجمد ہوئے تو گلوبلائزیشن کا چلتا پہیہ رک سا گیا۔ اشیاء کی ترسیل اور فراہمی کے نظام میں خلل آگیا ۔
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کا کیا پسِ منظر ہے؟ یہ کتنا خطرناک اور مہلک ہے؟ حقائق بھی سامنے آئے مگر سوشل میڈیا پر اناپ شناپ بھی بہت کچھ گردش کرنے لگا جس سے عام انسان کو غلط فہمیوں نے بھی گھیرنا شروع کر دیا۔ میڈیا پر اس کی کوریج اور بار بار دنیا بھر میں اس کے مریضوں اور مرنے والوں کی تعداد کی تکرار نے ناظرین کی گھبراہٹ اور خوف میں مسلسل اضافہ کیا۔
یورپ میں متاثرین کی تعداد اور ہلاکتوں کی تعداد ہوشربا تھی جس پر دنیا بھر میں مزید خوف پھیلا اور گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ یورپ کا امیج کہ ترقی یافتہ ترین ممالک ہیں، دنوں میں کرچی کرچی ہو گیا۔ ہیلتھ کئیر نظام کی چولیں ہل گئیں۔ اٹلی، سپین، برطانیہ، فرانس سمیت بہت سے ممالک میں ہیلتھ کئیر نظام میں میڈیکل سٹاف کے لئے حفاظتی اشیاء کی کمی ، ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز ، بیڈز کی قلت اور ٹیسٹنگ سامان کی دشواریوں نے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ امریکہ نے پہلے پہل تو اپنے ہاں اس کے اثرات اور پھیلائو کے بارے میں خوش فہمی پالے رکھی، مگر جب اس بیماری نے وہاں بھی قدم رکھا تو اس کا انداز ہو بہو وہی تھا جو چین ، یورپ اور دیگر ممالک میں رہا۔ یورپ کی طرح امریکہ میں بھی ہیلتھ کئیر نظام اس اچانک افتاد کے سامنے شدید مشکلات کا شکار ہوا۔ ہم ایسے تیسری دنیا کے ممالک یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ اگر ان ترقی یافتہ ممالک کے ہاں ہیلتھ کئیر نظام کا یہ حال ہے تو خدا نخواستہ ہمارے ہاں اس کے متاثرین کی تعداد بڑھی تو کیا ہوگا؟ مگراس دوران کورونا وائرس کے بارے میں کافی معلومات سامنے آ گئیں جن کی وجہ سے پاکستان اور دنیا کے تمام ممالک اس کا سامنا کرنے کے لئے قدرے بہتر پوزیشن میں ہیں۔
کورونا وائرس پہلی بار 1960 میں سامنے آیا۔ انفلوئنزا کی عمومی علامتوں والے اس وائرس پر جلد ہی قابو پانے کی تدبیریں ہونے لگیں اور بہت حد تک کامیاب رہیں۔ حالیہ دو دِہائیوں میں 2003 میں کرونا وائرس کی ایک نئی قسم SARS نے چھبیس ممالک میں آٹھ ہزار افراد کو متاثر کیا اور 800 اموات ہوئیں۔2012 میں اس کی ایک اور قسم MERS سامنے آئی جس نے ستائیس ممالک کے اڑھائی ہزار افراد کو متاثر کیا اور 860 افراد ہلاک ہوئے۔ کووِڈ 19 کی یہ نئی قسم اپنے خانوادے کی پہلی اقسام سے بہت زیادہ مہلک ثابت ہوئی ہے۔ اب تک لاکھوں متاثر ہو چکے ہیں اور ہزاروں اموات ہو چکی ہیں۔
اس قدر خطرناک وائرس کی دہشت اور خوف اپنی جگہ مگر گھبراہٹ سے اس کا مقابلہ ممکن نہیں۔ مناسب پیش بندی ، حفا ظتی اقدامات اور مناسب طبی انتظامات سے اس کا مقابلہ کئے بغیر چارہ کار نہیں۔ جنوبی کوریا، تائیوان اور سنگاپور نے ان ہی اقدامات اور بروقت سخت فیصلوں سے اس وائرس کا پھیلائو اپنے اپنے ممالک میں بہت حد تک کنٹرول میں رکھا۔ متاثرین کی طبی دیکھ بھال اور روزمرہ کے معمولات میں احتیاطی تدابیر پر من حیث القوم عمل درآمد نے ان ممالک میں اس وائرس سے ہلاکتیں اور متاثرین کی تعداد کم ہوئی اور صحت مند ہونے والوں کا تناسب بھی حوصلہ افزا رہا۔
پاکستان بائیس کروڑ آبادی کا ملک ہے، صحت کی سہولیات پہلے ہی ناکافی ہیں اور کوالٹی کے اعتبار سے بھی کئی خامیاں ہیں، ایسے میں کووِڈ 19 کے پھیلائو اور اس وباء سے نبردآزماء ہونے کے وسائل اور انتظامات پر معاشرے میں بجا طور پر تشویش ہے۔ تاہم اس بیماری کے پھیلائو اور اس کا سامنا کرنے کے لئے معلومات اور دیگر ممالک کا تجربہ پاکستان کے کام آیا۔ احتیاطی تدابیر کی آگہی کے لئے میڈیا اور سوشل میڈیا نے حکومت کا بھرپور ہاتھ بٹایا۔ اس بیماری کے پھیلنے کے عمل، بار بار ہاتھ دھونے، سینی ٹائزر استعمال کرنے، سماجی فاصلے کا دھیان رکھنا جیسے بنیادی پیغام نے لوگوں کی اس وائرس کے بارے میں فکرمندی کو اجاگر اور تیاری کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ حکومت کے بر وقت شٹ ڈائون، کئی علاقوں میں لاک ڈائون ، سفری پابندیوں اور گھروں میں محدود ہونے جیسے اقدامات نے اس وائرس کے پھیلائو کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان اقدامات اور انتظامات کو اس وقت تک جاری اور ضرورت کے مطابق ان میں مناسب تبدیلیوں کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے جب تک اس وائرس کا پھیلائو مکمل طور پر نہیں رک جاتا اور اسکا شافی علاج دریافت نہیں ہوجاتا ۔
ہمارے ہیلتھ کئیر نظام میں اتنی سکت اور گنجائش نہیں ہے کہ متاثرین کے ممکنہ بہت بڑے ہجوم کو سنبھال سکے۔ اس کے لئے ہنگامی بنیادوں پر آئسولیشن وارڈز اور فیلڈ ہسپتالوں کا اہتمام کرنے سے ہیلتھ کئیر میں طبی صلاحیت اور گنجائش بہت بہتر ہو ئی ہے۔ مزید برآں موجودہ ہسپتالوں میں بھی ترتیب نو کرکے کورونا وائرس کے متاثرین کے لئے گنجائش بڑھائی گئی ہے۔ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل عملے کے حفاظتی سامان کی فراہمی بڑھا کر تمام عملے کو محفوظ بنانے سے فرنٹ لائن پر اس بیماری سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت میں اضافہ حوصلہ افزاء ہے۔ مزید وینٹی لیٹرز کے ہنگامی انتظامات سے اس صلاحیت میں مزید وسعت ہوئی ہے۔ حکومت نے فوری طور پر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل عملے کے لئے تربیتی کریش پروگرام کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ چین کی حکومت سے ضروری طبی سازوسامان کی فراہمی کے ساتھ ساتھ میڈیکل سٹاف کی تربیت سے مجموعی طور پر پاکستان اس وائرس کا سامنا کرنے کی بہتر پوزیشن میں آ چکا ہے جو کہ ایک قابل اطمینان امر ہے۔
دنیا پھر میں کورونا وائرس کی وباء کے توڑ کے لئے ویکسین اور دوائیوں کی تیاری پر ہنگامی بنیاوں پر کام ہو رہا ہے۔ امریکہ، یورپ اور چین میں دوائیوں کی جلد دستیابی کے لئے کئی ریگولیٹری مراحل کو وقتی طور پر فاسٹ ٹریک کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ امید ہے کہ جلد اس وباء کا شافی علاج دریافت ہو جائے گا۔ ا س دوران پاکستان میں کورونا وائرس کے فوری اور آسان ٹیسٹنگ کی دستیابی ، وینٹی لیٹرز اور ہسپتال بیڈز میں اضافے سے اس بیماری سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ وائرس کنٹرول کرتے کرتے وقت لگے گا، اسکا علاج دریافت ہونے میں بھی وقت لگے گا، دنیا کو ذہنی طورپر ایک طویل جدو جہد کے لئے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اب تک کے اعدادوشمار کے مطابق صحت یاب ہونے کا تناسب بہت حوصلہ افزا ہے۔ ہیلتھ کئیر کی صلاحیت اور گنجائش میں اضافے اور عوامی اور حکومتی سطح پر احتیاطی تدابیر کے تسلسل سے ہی اس وائرس کا سامنا ممکن ہے۔ گھبراہٹ اور افواہوں سے گریز بھی اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے۔
معاشی اور معاشرتی محاذ پر بھی اسکے اثرات بہت شدید اور وسیع ہیں جو آگے چل کر مزید کچھ عرصے کے لئے جاری رہ سکتے ہیں۔ ماضی میں ایسی وبائوں کا تجربہ یہی ہے کہ گھبراہٹ کے بجائے ہمت، تدبر اور وسائل سے سامنا کرنے والے ملک اور عوام جلد ہی مشکلات سے نکلنے کے قابل ہو ئے۔ پاکستان کا اپنا تجربہ بھی یہی ہے کہ اتحاد اور مشکلات کو زیر کرنے کے عزم سے سیلابوں اور زلزلے کی کئی قدرتی آفات پر قابو پایا۔ افواجِ پاکستان سمیت تمام ادارے اور عوام کا جذبہ ایک بار پھر پاکستان کو اس وباء کے سامنے سرخرو کرنے میں معاون ہوں گے۔ انشاء اللہ! گھبراہٹ سے گریز ، احتیاط پر عمل اور میدان عمل میں استقامت ہی بہترین ہتھیارہیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
مضمون نگار ایک قومی اخبارمیں سیاسی ' سماجی اور معاشی موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے