مسلمان کے ہاں جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کان میں اذان دی جاتی ہے۔ لیکن وہاں شہر میں1971 کی جنگ کے دوران ایک ایسا بچہ پیدا ہوا جس کے کان میں سب سے پہلے اذان کے بجائے ہوائی حملے کے سائرن، طیاروں کی گھن گرج ، گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اور بموں کے پھٹنے کی خوفناک آوازیں کان میں پڑیں۔
یہ1971 کی پاک بھارت جنگ کے ابتدائی دن تھے۔ اس رات وہاڑی شہر پر ہوائی حملہ ہوا ۔ بھارتی طیاروں نے کرنل سہیل عابد کے آبائی گھر کے قریب بمباری کی۔ اسی بمباری کے وقت کرنل سہیل عابد کی پیدائش ہوئی۔ کرنل سہیل عابد نے جس ماحول میںآنکھ کھولی وہ جنگ کا ماحول تھا اوران کا گھرانہ ایک فوجی گھرانہ، جس گھر میں ہر وقت بھاری بوٹوں کی دھمک سنائی دیتی، گھر کی ہر دیوار پر کسی نہ کسی شہید فوجی کی تصویر ، ہر وقت خاندان کے فوجی شہداء کے کارناموں کا تذکرہ، شاید یہی وجہ تھی کہ جب گھر کے قریب سے کوئی فوجی کانوائے گزرتا تو کمسن سہیل عابد بھاگ کر سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر اسے سلیوٹ کرتا اور اس وقت تک اسی پوزیشن میں رہتاجب تک کہ پورا کانوائے گزر نہ جاتا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ کوئی فوجی ڈرائیور گاڑی روک کر ننھے سپاہی کے سلیوٹ کا جواب دیتا، اسے جوابی سلیوٹ کرتا، گود میں اٹھاکر پیار کرتا اور کانوائے گزرجاتا، کمسن سہیل عابد واپس گھر آتا اور اپنی ماں سے کہتا ماں دیکھنا ایک دن میں بھی یہ وردی پہنوں گا اور ماں ہنس کر بات ٹال جاتی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس خاکی وردی کی قیمت کیا ہے اور اسے کیوں معلوم نہ ہوتا کہ اس نے خاندان کے تین شہداء کو اس مٹی پر قربان ہوتے دیکھا تھا۔ سب سے پہلے کرنل سہیل عابد کے دادا جمعدار احمدحسن نے دوسری جنگ عظیم میں شہادت پائی۔ اس کے بعد کیپٹن ظفر اقبال (ہلال جرأت) نے14 اگست1948 کوکشمیر کے محاذ پر شہادت پائی، پھر لیفٹیننٹ سعادت(ستارئہ بسالت) نے 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں ڈھاکہ کے محاذ پر شہادت پائی۔
ہر گھر کی ایک مخصوص فضا ہوتی ہے، ایک مزاج ہوتا ہے، جو فضا جس جگہ کی ہوتی ہے وہ اس کے باسیوں کے لاشعور میں اور ان کے خون میں رچ بس جاتی ہے۔ کرنل سہیل کے گھر کی فضا قدرتی طور پر ایک فوجی ڈسپلن والے گھر کی فضا تھی۔ جس میں آپ کی تربیت ہوئی اور تربیت سکھانے کی چیز نہیں بلکہ جذب کرنے کی چیز ہوتی ہے۔ سہیل عابد نے یہ تربیت کچھ ایسے جذب کی کہ جب ابتدائی سلیکشن کے بعد انہیں آفر دی گئی کہ وہ مجاہد فورس میں ڈائریکٹ کپتان بھرتی ہوجائیں تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ریگولر آرمی میں جانا چاہتے ہیں مجاہد فورس میں نہیں۔ لہٰذا انہیں ایک سال انتظار کرنا پڑا ور 1992 میں PMA لانگ کورس میں کمیشن مل گیا۔
آپ نے ابتدائی تعلیم وہاڑی کے گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول سے حاصل کی۔ ایف اے ، گورنمنٹ کالج وہاڑی سے کرنے کے بعد گریجویشن اسلام آباد کے H-9 کالج سے کی۔ سٹوڈنٹ لائف میں آپ کرکٹ اور والی بال کے اچھے کھلاڑیوں میں شمار ہوتے تھے۔
فوج میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد پہلی پوسٹنگ فرسٹ سندھ رجمنٹ میں ہوئی۔ آپ نے کچھ عرصہ اقوامِ متحدہ کی امن فوج میں بھی گزارا۔ پھر آپ کی ترقی کے ساتھ ہی خدمات ملٹری انٹیلی جنس کے سپرد کردی گئیں۔ انٹیلی جنس آفیسرز کا طرز ِ زندگی روایتی فوجی افسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ ان کی زندگی ایک درویش کی طرح راتوں کو جاگ کراور دن کو کڑی دھوپ میں ڈیوٹی دے کر گزرتی ہے۔ یہ ہر دم دشمن کے ساتھ غیراعلانیہ جنگ میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کا محاذِ جنگ ہر وقت گرم رہتاہے۔ یہ ہروقت حالت جنگ میں پائے جاتے ہیں۔ بظاہر کسی ایکشن میں مصروف نظر نہ آتے ہوئے بھی یہ دوست و دشمن کی ہر حرکت پر نظر رکھتے ہیں۔
کسی انسان کی اس سے بڑھ کر خوش بختی کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی مٹی کے کام آئے اپنی زندگی کا حق ادا کرسکے۔ کرنل سہیل عابد شہید ایسے جری، جیالے اور جواں مرد افسر پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے ایسے باشعور اور جانباز مجاہد ہر روز پیدا نہیں ہوتے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ میں سوچنے، حساب کتاب لگانے ، جنگی اصول پرکھنے کا موقع نہیں ہوتا۔ وہی کچھ باہر آجاتا ہے جو انسان کے اندر ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنگ میں فوجی کے اوپر سے سارے چھلکے اُتر جاتے ہیں اور وہ انسان سامنے آتا ہے جس پر تربیتی اداروں اور اساتذہ نے سالوں جان ماری ہوتی ہے اور یہ مشاہدہ بالکل درست ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فوج نے سہیل عابد کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے بلوچستان میں دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کا جب ٹاسک دیا تو اس وقت آپ بلوچستان میں ایم آئی کے سیکنڈ اِن کمان تھے۔ آپ نے نہایت مہارت سے ایسے دہشت گرد کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کیا جو کہ پاکستان کے علاوہ شام اور عراق کو بھی مطلوب تھا۔ لشکرِ جھنگوی کا سلمان بادینی پاکستان میں بڑی تعداد میں ہزارہ کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث تھا۔
یکم رمضان المبارک2018 افطاری کے وقت اطلاع ملی کہ سلمان بادینی کوئٹہ کے قریب ''الماس کلی'' کے مقام پر ایک کمپائونڈ میں موجود ہے۔ آپ نے فوری طور پر اس کمپائونڈ کا محاصرہ کرنے کے احکامات دیئے اور ماتحت میجر سے کہا کہ اس مشن کی خود کمان کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ان کے عہدے کا تقاضا نہیں تھا کہ وہ اس سطح کے آپریشن کی کمان کریں۔ لیکن انہیں جاننے والے جانتے تھے کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ اس دشمن کو وہ اپنے ہاتھوں جہنم واصل کریں گے۔ لہٰذا فوری طور پر بغیر روزہ افطار کئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ اہلِ خانہ کے بقول ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی غیر مرئی طاقت انہیں اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ شاید انہیں نظر آرہا تھا کہ وہ جلد''جامِ شہادت'' سے روزہ افطار کرنے والے ہیں جب مذکورہ کمپائونڈ کے قریب پہنچے تو رات کے ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ کمپائونڈ کو چاروں طرف سے گھیرے میں لیا جاچکا تھا۔ آپ نے کمپائونڈ کے ایسے حصے کو کنٹرول میں لیا کہ اگر دشمن فرار ہونے کی کوشش کرے تو آسانی سے ٹارگٹ کیا جاسکے۔ کارروائی کا اشارہ ملتے ہی جوانوں نے کمپائونڈ پر دھاوا بول دیا اور پہلے ہلے میں نگرانی پر مامور دو دہشت گرد مارے گئے۔ دونوں طرف سے شدید فائرنگ شروع ہوگئی ۔اسی اثناء میں جس مقام پر کرنل سہیل عابد موجود تھے، کسی نے دیوار پھلانگ کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ کرنل سہیل ایسے ہی کسی فراری کی تاک میں تھے آپ نے فائر کھول دیا اوروہ شخص ڈھیر ہوگیا۔ زخمی فراری کو ساتھی میجر نے دبوچ لیا یہ سلمان بادینی تھا جو شدید زخمی حالت میں تھاجو کہ کچھ دیر بعد ہلاک ہوگیا۔ اس دہشت گرد کے مرتے ہی کمپائونڈ کی چھت سے زبردست فائرنگ شروع ہوگئی شاید دوسرے دہشت گردوں کو سلمان بادینی کے مرنے کا علم ہوچکا تھا اور وہ فائرنگ کی آڑ میں نکلنا چاہتے تھے۔ اسی فائرنگ کے تبادلے میں ایک گولی کرنل سہیل کے سینے میں آلگی اور آپ موقع پر ہی جامِ شہادت نوش فرماگئے۔ اس معرکے میں سلمان بادینی کے علاوہ دو خودکش حملہ آور بھی مارے گئے اور مذکورہ کمپائونڈ سے بڑی تعداد میں نیٹو کا چھینا گیا اسلحہ اور خود کش جیکٹس بنانے والی فیکٹری پکڑی گئی۔
شہادت سے اگلے روز آپ کی میت پاک فوج کے مسلح دستے کی حفاظت میں آبائی شہروہاڑی لے جائی گئی نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد آپ کو مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ آبائی قبرستان ''بوبڑی'' نزد بھارہ کہو اسلام آباد میں دفن کردیا گیا۔ بعد ازشہادت آپ کی بے مثال جرأت، بے خوفی اور قائدانہ صلاحیت کے باعث آپ کو ''ستارئہ بسالت'' کا اعزاز عطا ہوا۔ آبائی شہر وہاڑی کے ''خانیوال چوک'' کا نام کرنل سہیل عابد شہید کے نام سے منسوب کیا گیا اور ان کے آبائی گائوں بوبڑی جانے والی سڑک کو کرنل سہیل عابد شہید کے نام سے منسوب کردیا گیا۔
آپ کی شہادت پر وہاڑی کے مقامی شاعر جناب ریاض تبسم نے شہید کو کیا خوب سلام پیش کیا:
تو قوم کا فخر ہے اعلیٰ تیرا مقام
کرنل سہیل عابد تمہیں سب کا ہو سلام
اپنے وطن کا تونے سر کر دیا بلند
دشمن پے ہر طرف سے تو نے ڈال دی کمند
ہو کے شہید اعلیٰ تونے پالیا مقام
کرنل سہیل عابد تمہیں سب کا ہو سلام
مارا ہے تونے قوم کے غدار دشمنوں کو
تونے ہے مارا وطن کے بدکار دشمنوں کو
جو بچ گئے ہیں ان کا بھی ہوگا بُرا انجام
کرنل سہیل عابد تمہیں سب کا ہو سلام
جتنے بھی ہیں شہید میرے وطن کے جوان
ہیں مائوں کا فخر سب بہنوں کا بھی ہیں مان
زندہ ہے اور رہے گا سدا تمہارا نام
کرنل سہیل عابد تمہیں سب کاہو سلام
اپنے وطن پہ ریاض جو ہوگیا شہید
میجر عزیز بھٹی ہو یا چاہے ہو وہ معید
ملتا ہے ہر شہید کو جنت کا ہی انعام
کرنل سہیل عابد تمہیں سب کا ہو سلام
مضمون نگارصحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے