میرا تعلق کوئٹہ کے ایک نواحی گاؤں سے ہے۔ اﷲ نے مجھے چار بچوں سے نوازا ہے۔ فوج میں شمولیت فوج سے محبت کی وجہ سے ہوئی۔ عام تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ ہمارے صوبے کے لوگ سرکاری ملازمت کرنے کے بجائے کاروبار کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے بلوچستان کے جوانوں میں فوج میں شمولیت اور وطن کے محافظ بننے کا جذبہ دیگر صوبوں سے کم نہیں ہے اور یہی جذبہ میری قربانی کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ میرے بعد اب دنوں چھوٹے بھائی بھی اس بات کے خواہاں ہیں کہ وہ بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خود کو فوج میں خدمات کے لئے پیش کریں۔
ہوا کے سرد جھونکے نے میرے جسم کو ٹھنڈک اور فرحت کا احساس دیا۔ نجانے کب سے ایک چڑیوں کا غول درخت پر بیٹھا میرے وطن کی آزاد فضاؤں کے نغمے گارہا تھا۔ میرے کانوں کو پانی کے جھرنے کی چھم چھم کرتی آوازنے چونکا دیا‘میں تو سرحد کے پار دشمن کو دیکھ رہا تھا کہ کہیں کوئی گھات لگائے نہ بیٹھا ہو‘ میں محافظِ وطن ہوں اور سرحد پر کھڑا اس کی حفاظت کررہا ہوں۔ میری نظر تو دشمن پر ہے جب تک میں موجود ہوں کوئی میرے اس پیارے وطن کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا اور یہ تمام مناظرِ وطن میری موجودگی میں بڑے فخر سے یہاں جلوہ افروز ہیں۔ یہ دلفریب نظارے جانتے ہیں کہ میں پاک فوج کا وہ مردِ مجاہد ہوں جس کی موجودگی سرحد کی حفاظت کی دلیل ہے۔ پاک فوج کے جوان اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر شہادتوں کی کئی داستانیں رقم کر چکے ہیں اور ہزاروں اپنے جسم کے کسی نہ کسی حصے کی قربانی دے کر وطن سے وفاؤں کا عہد نبھاچکے ہیں۔ یہ غازی آج بھی اس وطن کے لئے نئے ولولوں کے ساتھ اپنے عہد پر پختہ ہیں۔ اِن کے جذبوں کی بدولت دشمن کو ہمیشہ نہ صرف منہ کی کھانی پڑی بلکہُ اس نے وہ سبق سیکھا کہ پھر کبھی اُس نے آنکھ اُٹھاکردیکھنے کی جُرأت نہ کی۔ وہ جوان جن کے اعضا وطن کے دفاع پر قربان ہوجاتے ہیں‘ ان کے علاج اور بحالی صحت کے لئے آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلی ٹیشن اینڈ میڈیسن (AFIRM) جیسا ادارہ قائم کیا گیا ہے جو اِن غازیاں وطن کو زندگی کی دوڑ میں دوبارہ شامل کرنے میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔یہ ادارہ اِن میں معذوری کے احساس کوجنم ہی نہیں لینے دیتا۔ آج ایسے بہت سے سپاہی اے ایف آئی آر ایم میں زیرِ علاج ہیں۔ یہ ادارہ علاج کے ساتھ ساتھ مختلف ہنر بھی سکھاتا ہے تاکہ کل یہ افراد معاشرے کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں۔ سپاہی عزیزاﷲ بھی پاک فوج کے اُنہی غازیان میں سے ایک ہیں جن کو یہاں علاج کے لئے لایا گیا۔ سپاہی عزیز اﷲ کی ہلال ٹیم کے ساتھ جو گفتگو ہوئی ہے وہ نذرِ قارئین ہے۔ سوال : آپ کس طرح زخمی ہوئے‘ ہمارے قارئین کو کچھ تفصیلات سے آگاہ کردیں؟ سپاہی عزیز اﷲ : میرا تعلق 68 بلوچ رجمنٹ سے ہے میںیونٹ کے ساتھ ڈیرہ غازی خان میں تھا جب ہمیں47 بلوچ رجمنٹ کے ساتھ جنوبی وزیرستان میں آپریشن کے لئے بھیجا گیا۔ ہمارا ہدف ایک علاقے کو دشمن سے خالی کرنا تھا۔ جب ہم یونٹ سے جنوبی وزیرستان روانہ ہوئے تو میں ہر پل گِن کر گزار رہا تھا کیونکہ مجھے آج وہ موقع مل رہا تھاجس کی آرزو ہر سپاہی کے دل میں ہوتی ہے۔جب ہم وہاں پہنچے تو ہمارا حملہ دشمن کے لئے سرپرائز (Surprise) ثابت ہوا اور وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا۔ اس شدید لڑائی نے دشمن کو نہ صرف وہ علاقہ خالی کرنے پر مجبور کردیا بلکہ اُس کو بھاری جانی اور مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ صبح 6 بجے کے قریب ہم نے اِس علاقے کا کنٹروِل حاصل کرلیا۔ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سب سے اہم مرحلہ علاقے کو کلیئر قرار دینے کا ہوتا ہے۔ کیونکہ دشمن چاہے پسپا ہی کیوں نہ ہو جائے وہ اپنے پیچھے اس طرح کے خطرات ضرور چھوڑ جاتا ہے جس سے اُس کے مذموم مقاصد کسی حد تک پورے ہو سکیں‘ ہم اس بات سے اچھی طرح باخبر تھے کہ علاقے کو کلیئر کئے بغیر بے خطر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس مرحلے کے دوران تقریباً7 بجے میرا ایک پاؤں ایک IED پر پڑا اور وہ بلاسٹ ہو گئی جس کی وجہ سے مجھے آدھی ٹانگ سے محروم ہونا پڑا۔ ہلال : آپ کوAFIRM کب اور کیسے لایا گیا؟ سپاہی عزیز اﷲ : اس حادثے کے کچھ دیر بعد مجھے سی ایم ایچ کوہاٹ لایا گیا جہاں میرا علاج شروع کیا گیامگر زخم کی نوعیت کو دیکھ کر ڈاکٹروں کے پاس میری آدھی ٹانگ کاٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ پھر میڈیکل بورڈ نے مجھے منصوعی اعضا کی فراہمی کے لئےAFIRM میں منتقل کردیا۔ ہلال : کیا آپ کا علاج تسلی بخش ہورہا ہے؟ سپاہی عزیز اﷲ : جی ہاں میں یہاں اپنے علاج سے پوری طرح مطمئن ہوں۔ یہاں آکر میری ساری مایوسی حوصلے میں بدل گئی میں نے دیکھا ہے کہ یہ ادارہ معذوروں کو دوبارہ زندگی کی شاہراہ پر چلنے کے قابل بناتا ہے۔ یہاں کے ڈاکٹروں اور سٹاف کی محنت نے میرے اندر امید کی روشنی بھر دی ہے۔ شروع میں معذوری کے باعث جس مایوسی نے مجھ میں جنم لیا تھا وہ اب تک تازہ اُجالا بن کرمجھے بہتر مستقبل کی نوید سنا رہی ہے۔ ہلال : واقعے کے بعد آپ کیا محسوس کرتے ہیں۔ سپاہی عزیزاﷲ : میری فوجی زندگی نے مجھے حوصلہ مند رکھا ہے۔ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ مجھے بھی وطن کی آبیاری میں حصہ ڈالنے کا موقع ملا۔ میرے حوصلے آج بھی بلند ہیں۔ مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میں پاک فوج کا حصہ بنا اور دفاعِ وطن پر مامور ہوا۔ ہلال : اپنے گھر اور بچوں کے بارے میں کچھ بتائیں۔ سپاہی عزیز اﷲ : میرا تعلق کوئٹہ کے ایک نواحی گاؤں سے ہے۔ اﷲ نے مجھے چار بچوں سے نوازا ہے۔ فوج میں شمولیت فوج سے محبت کی وجہ سے ہوئی۔ عام تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ ہمارے صوبے کے لوگ سرکاری ملازمت کرنے کی بجائے کاروبار کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے یہاں کے جوانوں میں جتنا جذبہ ہے کہ وہ فوج میں شمولیت اختیار کرکے وطن کے محافظ بنیں وہ دیگر علاقوں سے کم نہیں ہوگا اور یہ جذبہ میری قربانی کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ میرے بعد اب دنوں چھوٹے بھائی بھی اس بات کے خواہاں ہیں کہ وہ بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خود کو فوج کی خدمات کے لئے پیش کریں۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ میرے بھائی بھی مستقبل قریب میں دفاعِ وطن کے فرائض انجام دیں گے۔ ہلال: علاج مکمل ہونے بعد آپ کے کیا ارادے ہیں؟ سپاہی عزیزاﷲ : AFIRM میں میرا علاج جاری ہے اور میری جسمانی کمزوری اور معذوری کافی حد تک کنٹرول ہو چکی ہے۔میں یہاں کے تمام ڈاکٹروں اور دیگر سٹاف کا بہت شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرا بہت خیال رکھا اورمیں آج اﷲ کے فضل سے اس قابل ہوگیا کہ خود سے چل پھر سکتا ہوں۔ اس کے علاوہ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے یہاں پرمجھ جیسے لوگوں کاجہاں کامیاب علاج کیا جاتا ہے وہاں اس دوران انہیں کوئی نہ کوئی ہنر بھی سکھادیاجاتا ہے۔ مجھے یہاں کمپیوٹر کی تربیت دے کر دورِ حاضرکی ایک اہم ضرورت سے روشناس کرادیا گیا ہے۔ اب یہاں سے فارغ ہونے کے بعد اگر سرحدوں پر اپنی خدمات انجام پیش نہ کرسکا تو فوج کے کسی دوسرے شعبے میں اپنی خدمات پیش کرتا رہوں گا۔
تبصرے