ہماری آزادی اور ترقی ان مخلص اور بے لوث سپاہیوں کی مرہون منت ہے جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کر کے ہمارے مستقبل کو محفوظ اور تابناک بنایا۔ وطنِ عزیز کی سرحدوں کے دفاع کی خاطر ہر خطرے میں کود جانے والے ہمارے یہ مجاہد وطن کا سرمایہ ہیں۔ یہ اندھیری راہ اور روشن منزلوں کے نشان ہیں۔ جرأتوں کے کوہ گراں ہیں۔ ان کے دم سے ترقی کے کارواں رواں دواں ہیں۔ انہی مجاہدوں میں ایک مجاہد حوالدار غلام اصغر تھے جو سانحہ آر اے بازار میں شہید ہو گئے۔
حوالدار غلام اصغر شہید دہشت گردی کی کارروائی کا نشانہ بنے اور اپنے گھر والوں کو ہمیشہ کی جدائی کا پیغام دے گئے۔ پروین اختر کو جہاں اپنے شوہر کی اچانک جدائی کا دکھ ہے وہاں ان کی نم آلود آنکھیں قوم کے سامنے سرخرو ہیں۔ حوالدار غلام اصغر شہادت سے پانچ روز قبل بخوشی اپنے آبائی گاؤں سے واپس آئے تھے۔ وہ اپنے خاندان کے ہر فردسے ملے۔ وہ ہر ایک سے یوں رخصت ہو رہے تھے جیسے یہ ان کی آخری ملاقات ہو‘ اور حقیقتاً یہ ان کی آخری ملاقات ہی ثابت ہوئی اس ملاقات کا مقصدیہ تھا کہ ان کو یقین ہو کہ کوئی ان سے ناراض تو نہیں۔ حوالدار غلام اصغر ضلع خوشاب کے ایک گاؤں دائیوال میں پیدا ہوئے۔ میٹرک تک تعلیم وہیں حاصل کی۔1992میں فوج میں شمولیت اختیار کی۔ اپنی عسکری زندگی میں گلگت سے کراچی تک فرائض انجام دینے کا موقع ملا۔ کسی بھی جگہ ڈیوٹی دینے میں عذر پیش نہیں کیا۔ شہید کی بیوہ کی نمناک آنکھیں آج بھی اس کی یادوں میں کھوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہید بہت شائستہ طبیعت کے مالک تھے۔ مجھے 16سال تک ان کی رفاقت حاصل رہی۔ انہوں نے میرا ہر طرح سے خیال رکھا کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ وہ میری ہر ضرورت کو خود ہی پورا کر دیتے تھے کبھی کہنے کی نوبت نہیں آئی۔ حوالدار غلام اصغر شہید دہشت گردی کے حوالے سے بہت حساس طبیعت کے مالک تھے اور جب کسی شدت پسندانہ کارروائی کے بارے میں سنتے تو ان کا خون کھول اٹھتا تھا ان کی آرزو تھی کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا موقع ملے مگر وقت نے مہلت نہ دی۔ مادرِوطن کے جوانوں کی شہادت اور اپنی سرزمین پریہ فساد ان کو غم و غصے کا پیکر بنا دیتااور وہ اپنے رفقائے کار کو ہمیشہ اس معاملے پر پرعزم رہنے کا کہتے ۔ ان میں دفاع وطن کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ اپنے بچوں کو بھی پڑھا لکھا کر کامیاب انسان بنانا چاہتے تھے۔ وہ وطن کا سپاہی بننے کو بڑا اعزاز سمجھتے تھے کہ سپاہ گری سے بہتر کوئی اور پیشہ نہیں۔ حوالدار اصغر شہید اپنی بڑی بیٹی عنبرین کو ڈاکٹر ‘ چھوٹی بیٹی ثمرین کو پولیس آفیسر اور بیٹے ذیشان کو فوجی افسر دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے یہ جذبات اس بات کے عکاس ہیں کہ وہ سپہ گری سے کس قدر والہانہ لگاؤ رکھتے تھے۔ وہ اپنے بچوں کو بھی شدت پسندی کے خلاف نبردآزما دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے نہ صرف اپنے حوصلے بلند تھے بلکہ وہی حوصلہ اپنے بچوں میں بھی پیدا کرنا چاہتے تھے۔ آج وہ معصوم چہرے اپنی تمنائیں لئے ہوئے قوم سے یہ سوال کر رہے ہیں یہ آگ اور خون کی ہولی کھیلنے والے کیوں معصوم جذبوں کاخون کرتے ہیں۔ ان ننھی آنکھوں کے سپنے آنسو بن کر اپنے عزم کو مضبوط کر رہے ہیں کہ دشمن کے مقاصد کچھ بھی ہوں قوم کا یہ مستقبل کبھی مایوس ہو کر نہیں بھٹکے گا۔
حوالدار اصغر شہید کی والدہ کو اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے اس کے ساتھ ماں کا دل اپنے جوان بیٹے کی جدائی کے غم میں نڈھال بھی ہے لیکن ان کا عزم جوان ہے۔ حوالدار غلام اصغر شہید کی ماں بھی نہ صرف اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر محسوس کرتی ہیں بلکہ وہ پروین اختر کے ساتھ اس عزم کا اعادہ کئے ہوئے ہے کہ وہ ان کے بچوں کے اُن دیکھے سپنوں کو حقیقت میں بدلیں۔
تبصرے