دور کہیں ایک جنگل خوب ہرا بھرا تھا۔وہ پرندوں اور جانوروں کی مسحور کن آوازوں سے بھرا رہتا تھا ۔ کچھ بڑے اور مضبوط درختوں پر بہت سارے پرندوں کا بسیرا تھا ۔ انہوں نے وہاں اپنے آشیانے بنا رکھےتھے ۔ وہ سب ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتےتھے۔اس طرح وہ سب پر سکون زندگی بسر کر رہے تھے کہ ایک دن ان پر اچانک ایک مصیبت آن پڑی ۔
سردی کا موسم تھا اور کچھ لکڑہاروں نے اس جنگل کا رخ کر لیا تھا کیونکہ ایندھن کے لیے لکڑی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو اب وہ اسی جنگل سے پورا کر نا چاہتے تھے۔ ایک صبح وہ وہاں آ گئے۔ ان کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں اور درخت کاٹنے کے اوزار تھے۔ وہ ایک بڑے درخت کے نیچے کھڑے ہو کر کہنے لگے، ”ارے واہ! یہاں تو بڑے گھنے درخت ہیں ۔لگتا ہے ہماری خوب کمائی ہو نے والی ہے ۔“
یہ سن کر درخت پر بیٹھی چڑیا کو تو جیسے سانپ ہی سونگ گیا ۔وہ پریشانی سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ایک شخص کے کندھے پر بیٹھا پالتو طوطااسے دھمکانے لگا:’’اس درخت پر جتنے دن گزارانے تھے ، گزارلیے ، کل میرا مالک یہ درخت کاٹنا شروع کر دے گا۔ اب تم اپنا بندوبست کرلو۔ “
ان کی بات سن کر چڑیا غصے میں آ گئی اور کہنے لگی،”بھلادیکھو تو،یہ بھی کوئی انصاف ہے کہ ہمیں ہمارے ہی گھر سے نکلنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔اب تم بھی غور سے سن لو، میں اپنا گھر چھوڑ کے کہیں نہیں جائوں گی ۔ “
”مجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا۔تمہارے پاس کل تک کی مہلت ہے ،اپنا بندوبست کرلو ورنہ یہ گھر تو کیا ، تمہارا سر بھی نہیں بچے گا ۔“ طوطے نے اسے حتمی بات بتائی اور اپنے مالک کے ساتھ وہاں سے چل دیا۔
دن کٹ گیا اور شام سے رات ہوگئی۔چڑیا نے یہ خبر آگ کی طرح پورے جنگل میں پھیلا دی تھی جسے سن کر پرندے اور جانور پریشانی کے عالم میں اس کے آشیانے میں جمع ہو گئے تھے۔ وہ سب اس مصیبت سے نکلنے کا کوئی حل سوچ رہے تھے۔
”بتاؤ! اب کیا کرنا ہے ؟ ہمارے پاس تو کوئی اور ٹھکانہ بھی نہیں ہے۔ “ چڑیا نے خاموشی توڑتے ہوئے سب سے ایک سوال کیا ۔
”یہاں رُکے تو مارے جائیں گے ۔لگتا ہے اب یہاں سے ہجرت کرنی پڑے گی ۔“اب کی بار مینا بولی۔
”ہم کہیں نہیں جائیں گے بلکہ ہم یہاں رہ کر ان لوگوں کا مقابلہ کریں گے اور انہیں سمجھائیں گے کہ درخت کاٹنے سے صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ ا ن کا بھی نقصان ہو گا۔ ہم انہیں قائل کرنے کی کوشش کریں گے ۔اگر وہ پھر بھی نہ سمجھے تو ہم اپنے آشیانے بچانے کےلیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے ۔ “ اب کی بار کبوتری بولی تو سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور اسی کشمکش میں ساری رات گزر گئی۔ اگلی صبح پانچ لوگ بڑے بڑے اوزار اور مشینیں لے کر وہاں پہنچ گئے۔ان میں وہ طوطا بھی موجود تھا۔
” لگتا ہے تم نے ہماری کل والی بات پر غور نہیں کیا۔ “ طوطے نے چڑیا کو مخاطب کر کے کہا تو وہ اس سے کہنے لگی ، ”ہم مریں گے اور نہ یہاں سے کہیں اور جائیں گے۔ تم ہماری باتیں اپنے مالک تک پہنچا دو ۔ اس کے بعد فیصلہ ہو گا کہ کیا کرنا ہے۔“ چڑیا نے دو ٹوک الفاظ میں طوطے کو پیغام دیا جسے وہ اپنے مالک کو بتانےلگا، ”بھلا یہ کیا حماقت ہے۔ اگر تم نے سارے درخت کاٹ دیے تو ہمارے ساتھ تم بھی بے گھر ہو جائو گے کیونکہ جنگل کاٹ دینے سے دنیا کے ماحول پر بہت برا اثر پڑے گا۔ یہ ہرے بھرے درخت انسان کو سانس لینے میں مدد کرتے ہیں ۔کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج اورآکسیجن پیدا کرتےہیںجو لوگوں کے لیے فائدہ مندہوتی ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ درختوں کی چھائوں سے لوگ اور جانور خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔لوگ انہی درختوں کا پھل کھاتے اور یہی درخت ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں ۔“
طوطے نے چڑیا کی بات اپنے مالک تک پہنچائی تو وہ ایک گہری سوچ میں پڑ گیا۔ اس سے پہلے کے وہ کچھ کہتا ، تمام جانور جن میں ہاتھی، چیتے ، شیر ، عقاب اور شاہین بھی شامل تھے ، وہاں اکٹھے ہو گئے۔ انہیں دیکھ کر لکڑہارے خوفزدہ ہوگئے ۔ انہوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں دیکھا تو وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھی۔ انہیں جاتا دیکھ کر جنگل سے سبھی پرندے اور جانور خوش تھے کیونکہ انہوں نے اپنے آشیانوں کے ساتھ ساتھ درخت بچا کر دنیا کے قدرتی ماحول کی حفاظت بھی کی تھی۔
تبصرے