ایک کسان کے پاس کالا اور چینا نام کے دوبیل اور ڈھینچو نام کا ایک گدھا تھا۔ ایک دن ڈھینچو نے دیکھا کہ کالا کچھ ڈھیلا ڈھیلا سا لگ رہا ہے ۔ ڈھینچو نے اس سے پوچھا، ’’کیوں بھئی !کیا ہوا ؟آج منہ کیوں لٹکایا ہوا ہے ؟‘‘
کالا بولا،’’کیا بتاؤں!کسان نے ناک میں دم کیا ہوا ہے۔کئی دنوں سے ہل کے آگے جوت رہا ہے ۔ میں بہت تھک گیا ہوں ۔ سمجھ نہیں آتی کہ کیا کروں۔‘‘
ڈھینچو مسکرایا اور بولا، ’’میرےپاس اس کا حل ہے۔ بس تمہیں میرے مشورے پر عمل کرنا ہوگا ۔‘‘
چینا ان کی باتیں سن رہا تھا ۔ اس نے ڈھینچو سے کہا،’’ تم اپنا مشورہ اپنے پاس رکھو ورنہ یہ تمہارے گلے پڑ جائے گا ۔‘‘
ڈھینچو جو خود کو بڑا چالاک اور ہوشیار سمجھتا تھا ،اس نے چینا کی بات پر کان نہ دھرے ۔کالے نے بھی چینا کی بات کا برا منایا ۔اس نے ڈھینچو سے کہا،’’ تم چینا کی بات کو چھوڑو، مجھے اپنا مشورہ بتائو ؟‘‘
ڈھینچو نے کہا، ’’ جب کسان تمہیں چارہ ڈالے تو تم اس کے سامنے چارہ نہ کھانا بلکہ جب وہ چلا جائے تب کھانا۔ ‘‘
کسان نے جب چارہ ڈالا تو چینا اسے فوراً کھانے لگا اور کالا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا ۔ کسان نے کالے کے جسم پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور کہا ، ’’چارہ کھالو۔‘‘
کسان کی بیوی نے دیکھا تو کہنے لگی، ’’ لگتا ہے کالے کو بخار ہو گیا ہے ۔‘‘
کسان نے کہا ،’’ ہاں ،مجھے بھی یہی لگ رہا ہے ۔‘‘
کسان کالے کی وجہ سے پریشان تھا کیونکہ گندم کی فصل کاشت کرنے کے لیے اس نے زمین تیار کرنا تھی اور دن تھوڑے رہ گئے تھے ۔ کسان کو پریشان دیکھ کر اس کی بیوی نے کہا ، ’’آپ پریشان نہ ہوں، جتنے دن کالا تندرست نہیں ہوتا اس کی جگہ ڈھینچو کو جوت لیں ۔‘‘
ڈھینچونے یہ سنا تو وہ زور زور سے ڈھینچو ڈھینچو کرنے لگا۔چینا ڈھینچو کی پریشانی سمجھ رہا تھا۔ اس نے کہا، ’’ میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ تمہارا مشورہ تمہارے گلے کا پھندا بن جائے گا ، اب بتاؤ ۔‘‘
اگلے دن چینا کے ساتھ ڈھینچو کو ہل میں جوت دیا گیا ۔ شام کو واپس آ کر ڈھینچو نے کالے سے کہا ، ’’ ایک دن کا آرام کافی ہوتا ہے اس لیے آج کسان کے سامنے چارہ نہ کھانے کا ڈرامہ ہرگز نہ کرنا بلکہ چارہ کھانا شروع کر دینا ۔‘‘
کالے نے دل میں کہا، ’’ گھبراؤ نہیں !ڈھینچو ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ۔‘‘
کسان نے چارہ ڈالا توکالے نے اس کے سامنے اسے منہ تک نہ لگایا ۔ ڈھینچو کالے کو دیکھ رہا تھا ۔ وہ اس پر سیخ پا ہوا اور مشورہ دینے کا پچھتاوا کرنے لگا ۔
اگلے دن پھر ڈھینچو نے کالے کو چارہ کھانے کا مشورہ دیا مگر کالے کو جیسے کام نہ کرنے کا چسکا لگ گیا تھا۔ اس نے کسان کے سامنے چارہ نہ کھایا ۔
ڈھینچو کو مسلسل کھیتوں میں ہل چلاتے چار دن ہو گئے تھے ۔ وہ مشورہ دے کر پچھتا رہا تھا۔اسےایک دم ایک اور خیال آیا۔ وہ کھیتوں سے واپس آیا اور سیدھا کالے کے پاس گیا اور کہنے لگا، ’’ آج کسان اپنی بیوی سے کہہ رہا تھا کہ کالا مسلسل چار روز سے چارہ نہیں کھا رہا ۔ وہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اسے ہڈیوں کا ڈھانچہ بننے سے پہلے کسی قصاب کو فروخت کر دیں ۔‘‘
یہ سن کر کالے کے اوسان خطا ہوگئے۔کسان جونہی چارہ لے کر آیا تو کالے نے فوراً چارہ کھانا شروع کر دیا۔کسان نے خوش ہوکر اسے تھپکی دی اور اپنی بیوی سے کہنے لگا، ’’کالے نے کھانا کھانا شروع کردیا ہے، شکر ہے یہ تندرست ہوگیا۔اس طرح ڈھینچو کی جان چھوٹ گئی۔ اگلے دن ڈھینچو کی جگہ کالا ہل کے آگے جوتا ہوا تھا ۔ ڈھینچو نے آئندہ کسی کو مشورہ دینے سے توبہ کرلی ۔
تبصرے