رسول اللہ ﷺ کی زندگی اسوہ حسنہ کا بہترین نمونہ ہے۔ امہات المومنین کی تعریف اور توصیف میں بہت سی آیات اور احادیث موجود ہیں جن سے ان کے اعلیٰ وارفع مقام کا اندازہ ہوتاہے۔ازواج مطہرات کا احترام کر نا تمام مومنین پر واجب ہے۔ اہل بیت میں آپﷺ کی تما م ازواج شامل ہیں ۔آپ ﷺ کی تما م ازواج مطہرات روئے زمین کے سب مسلمانو ں کی روحانی مائیںبھی ہیں۔ ان میں حضرت خدیجہ ؓ کا درجہ اول ہے۔
آپؓکا نام خدیجہ، کنیت اُم ہند اور لقب طاہرہ تھا۔ حضرت خدیجہ ؓ بنت خو یلد عام الفیل سے پندرہ برس قبل مکّہ مکرمہ میں پیداہوئیں۔حضرت خدیجہ ؓکی والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ اور والد کا نا م خویلد تھا۔
حضرت خدیجہؓ ابتدائی عمر سے ہی پاکیزہ اطوار کی ما لک تھیں۔اپنی نفاست ،کلا م میں شائستگی اور بیان میں صداقت کی بدولت ـ’’طاہرہ ‘‘جیسے لقب سے مشہور ہوئیں۔ آپؓ کا ذریعہ معاش تجارت تھا ،کاروبا ر کی نگرانی خود کرتیں لیکن ان کے لیے سامان تجار ت لے کر دور دراز شہروں کا طویل سفر کرنا بہت مشکل تھا۔ وقت کا دستورتھا کہ سرمایہ دار سرمایہ لگاتے اور تاجر محنت کرتے۔ وہ ان کا مال دور دراز ملکوں میں لے جا کر فروخت کر دیتے اور اس طرح جو منافع ہوتا وہ آدھا آدھا بانٹ لیا جا تا تھا۔ انہی دنوں رسول اللہﷺ اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ سامان تجارت لے کر شام و مصر جاتے اور وہاں کچھ دن رہ کر وہ مال فروخت کر دیتے اور پھر واپس آجاتے تھے۔ تھوڑے ہی عرصے میں آپؐ کی ایمانداری اورسچائی کی شہرت پھیلی توحضرت خدیجہؓ کو آپ ﷺ کے بارے میں معلوم ہوا۔ انہوں نےاپنے غلام میسرہ کو خدمت اقدس میں بھیجا اور مشترکہ کاروبار کی پیشکش کی جسے آپﷺ نے قبول کرلیا۔
حضرت محمدﷺ حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ کے ساتھ سامان تجارت لے کر بصرہ کی طرف روانہ ہوئے۔ سفرتجارت سے واپس آئے تو معلوم ہواکہ منافع پہلے سے بہت زیاد ہ ہے۔ حضرت خدیجہؓ اپنے غلام کی زبانی حضرت محمدﷺ کی عادات اور اطواراور ایمانداری و دیانتداری کے بارے میں سن کر بہت متاثر ہوئیں اور آپؐ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ آپؐ نے اپنے چچا حضرت ابو طالبؓ کی مشاورت سے اس رشتے کو قبول کر لیا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ کی عمر پچیس اور حضرت خدیجہ ؓکی عمرچالیس برس تھی۔
حضرت خدیجہؓ رسول اللہ ﷺ کے لیے بہترین مددگار اور اسلام کے لیے ایک بھر پور طاقت ثابت ہو ئیں۔آپؓ کاگھر درس گاہ اور دارالعمل بن گیا جہاں سے بھلائی اور خیر کا فیض عام تھا۔وہاں امیر غریب کے درمیان کوئی فرق نہ تھا۔ حضر ت خدیجہ ؓ آنحضرت ؐ سے بے پناہ محبت اور ان کی عزت و خدمت کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا ،’’وہ (خدیجہ )مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب دنیا مجھے جھٹلاتی تھی۔ انہوں نے اس وقت میر ی تصدیق کی جب سب نے مجھے جھٹلایا ،انہوں نے اس وقت مجھ پر اپنا مال قربان کیاجب دوسروں نے مجھے اس سے محروم رکھا۔‘‘
جب حضرت محمد ﷺ کی عمرچالیس سال ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نبوت کا شر ف بخشا۔ ایک دن آپؐ غارحرا میں عبا دت میں مصروف تھے کہ حضرت جبرائیل اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر آئے اور بشارت دی کہ اللہ نے آپ کو اپنا نبی اور رسول چنا ہے۔ آپﷺ لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچائیں ۔اس حیرت انگیز واقعہ کے بعد حضرت محمد ﷺ گھر آگئے اورسارا واقعہ حضرت خدیجہؓ کے گوش گزار کیا ۔ انہوں نے آپ کو تسلی دی اور کہا کہ آپ سچ بولتے ہیں، غریبوں کے دستگیر ہیں، مہمان نوازاور صلہ رحمی کرتے ہیں۔ امانتدار اور دیانتدار بھی ہیں۔ غریبوں کے والی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا ۔ان کے ڈھارس بندھانے سے آپ کو تشفی ہوئی ۔
حضر ت خدیجہؓ خواتین میں وہ پہلی عظیم خاتون تھیں جنہیں کامل یقین ہو گیاکہ اب آپ ﷺ منصب نبوت پر فائز ہو چکے ہیں چنانچہ وہ بلاتعطل حضوراکرم ﷺپر ایمان لے آئیں۔جب مشرکین مکہ نے آپﷺ پر ظلم کی انتہا کر دی تو آپﷺ مجبو ر ہو کراپنے چچا ابوطالب کی سر براہی میں اپنے خاندان سمیت مکہ کے قریب ایک گھاٹی شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے۔ مشکل کی اس گھڑی میں حضرت خدیجہ ؓ نے آپ ﷺ کا ساتھ دیا اور تمام آسائشوں کو قربان کرکے آپؐ کے ساتھ گھاٹی میں رہنے لگیں۔یہ محصوری تین سال تک جاری رہی مگر آپ ثابت قدم رہیں۔
تین سال کے بعدیہ محاصرہ ختم ہوا تو اس کے بعد حضر ت خدیجہؓ زیادہ دن زندہ نہ رہ سکیںاور 65 سال کی عمر میں 11 رمضان المبارک 10 نبوی کو اس دار فانی سے کو چ کر گئیں۔حضر ت خدیجہؓ نے رسول کریمؐ کے ساتھ کم و بیش 25 سال گزارے۔ ان کی وفات کے کچھ عرصہ بعدآپؐ کےشفیق چچا ابو طالب کا بھی انتقال ہو گیا۔اس سال کو ’’عام الحزن ‘‘ یعنی غم کا سال قرار دیا گیا۔
تبصرے