”یہ چوکانہیں،چھکا ہے !گیند چھت سے ٹکرا کر زمین پر آئی ہے۔ بھائی!آپ میچ ہار رہے ہیں تو چیٹنگ کر رہے ہیں۔“
”اچھا امی سے پوچھ لیتے ہیں، وہ جو فیصلہ کریں گی ہمیں قبول ہوگا۔“ انس نے اپنے چھوٹے بھائی عبید کو تجویز پیش کی جسے اس نے بلا چوں و چرا ں مان لیا۔
”امی امی کہاں ہیں آپ ؟“
”کیا ہوا بچو! کیوں گھر سر پر اٹھایا ہوا ہے؟ “
”امی میں نے چھکا مارا ہے اور بھائی کہہ رہے ہیں کہ وہ چوکا تھا جبکہ آپ نے کچن سےدیکھا ہوگا کہ گیند چھت سے ٹکرائی تھی۔ “عبید نے اپنا مدّعا بیان کیا۔
امی کچھ دیر سوچنے کے بعد بولیں، ” عبید بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ گیند واقعی چھت سے ٹکرائی تھی۔‘‘
”یس...میں جیت گیا !“عبید خوشی سے جھومنے لگا
”یہ کیا تماشہ ہے بھئی،یہ گھر ہے یا کوئی اسٹیڈیم ...“انس اور عبید اپنے بابا کی آواز سن کرپریشان ہوگئے اور جلدی سے گیند اور بلے کو ایک طرف رکھ کر اپنے کمرے میںچلےگئے ۔
احتشام صاحب کو کھیلوں سے بالکل دلچسپی نہیں تھی ۔وہ ہر کھیل کو وقت کا زیاں سمجھتے تھے ۔اسی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو کسی بھی قسم کے کھیل میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتے تھے جبکہ ان کے دونوں بیٹے کرکٹ اور ہاکی کے دیوانے تھے۔ وہ پاکستانی ٹیم کا ہر میچ بڑے شوق سے دیکھتے تھے اور جب بھی پاکستانی ٹیم کھیل رہی ہوتی ،وہ پاکستانی ٹیم کی جیت کی دعائیں کرتے۔
ایک دن احتشام صاحب شام کو آفس سے گھر کی طرف جارہے تھے کہ انہیں گھٹن محسوس ہوئی۔ وہ تازہ ہوا لینے کی غرض سے گھر کے قریب پارک میں چلے گئے۔وہاں گہما گہمی تھی۔ بچے کھیل کود میں مصروف تھے ۔نوجوان جاگنگ جبکہ ادھیڑ عمر لوگ چہل قدمی کررہے تھے ۔ ابھی احتشام صاحب ایک کونے میں بنے بینچ پر بیٹھ کر گہری سانسیں لے رہے تھے کہ گیند ان کے پاس آ گری۔
”سوری انکل آپ کو لگی تو نہیں...؟“ ایک معصوم بچہ اپنی گیند احتشام صاحب سے مانگنے آیا اور ساتھ ہی معذرت بھی کرنے لگا۔
وہ کچھ نہ بولے توبچہ بولا، ” انکل لگتا ہے آپ کو کھیلوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔“
احتشام صاحب بچے کی بات سن کر چونکے، ”تمہیں کیسے پتا چلا؟ “
” آپ یہاںکافی دیر سے بیٹھے ہیں۔ بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور نہ چہل قدمی کر رہے ہیں؟اگرچاق چوبند رہنا ہے تو کھیلنا یا پھر چہل قدمی کرنا ہوگی۔اس سے ہم خوش بھی رہتے ہیں اور صحت مند بھی۔ بچے کی بات پر وہ ہنس دیے لیکن اپنے بڑھےہوئے پیٹ کی طرف دیکھ کر سوچنے لگے ، ’’یہ بچہ سچ ہی کہہ رہا ہے۔ میں ورزش کرتا ہوں اور نہ چہل قدمی!‘‘
”کیا آپ میرے ساتھ کرکٹ کھیلیں گے ؟“ بچے کے سوال پر احتشام صاحب چونکے ۔انہیں بچے کی باتیں دلچسپ لگ رہی تھیں۔اسی لیے وہ بھی اس سے باتیںکرنےلگے ۔
” آپ کی ساری باتیں ٹھیک ہیں ۔میں آپ کے ساتھ کھیلنے کوبھی تیار ہوں لیکن پہلےآپ اپنا تعارف تو کروا ئیں۔‘‘احتشام صاحب کے پوچھنے پر بچہ بولا، ’’میرا نام زین ہے اور میں قریب ہی رہتا ہوں۔ میں روزانہ شام کو اپنے دادا جان کے ساتھ اس پارک میں کھیلنے کے لیے آتا ہوں۔میرے دوست بھی یہاں آجاتے ہیں اور پھر ہم سب مل کر کھیلتے ہیں۔وہ دیکھیے ،میرے دادا جان چہل قدمی کررہے ہیں۔کل ہمارے اسکول میں کرکٹ میچ کا ایک مقابلہ ہے۔اگر آپ بائولنگ کروائیں تو میری پریکٹس ہوجائے گی۔‘‘زین نے ایک ہی سانس میں اپنی بات مکمل کی۔
”مجھے بھی کرکٹ کا بڑا شوق تھا اورمیں اسکول کی ٹیم کا کپتان ہوا کرتا تھا لیکن ایک مرتبہ میں بائولنگ کراتے ہوئے ایسا گرا کہ میرے کندھے میں درد نکل آیا جس کی وجہ سے میں کرکٹ سے ایسا دور ہوا کہ آج تک اسے ہی قصور وار سمجھتا ہوں۔ تم نے میرے کرکٹ کے شوق کو پھر سے زندہ کردیا ہے۔‘‘ احتشام صاحب مسکرائے۔
”انکل! میرے بابا کہتے ہیں کبھی ہار نہیں ماننی چاہیے۔جو گرتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔‘‘
برسوں بعد آج احتشام صاحب نے گیند اپنے ہاتھ میں لی تو انہیں عجیب سی خوشی ہوئی ۔احتشام صاحب نے گیند اس کی طرف پھینکی تو زین آئوٹ ہو گیا ۔
”واقعی انکل آپ تو بہترین کھلاڑی ہیں۔ آپ نے تو مجھے پہلی گیند پر ہی آئوٹ کردیا۔ آپ کو تو کوچ ہونا چاہیے۔‘‘زین کی بات پر احتشام صاحب ایک بارپھر مسکرا دیے۔ آج زین نے ان کے سوئے ہوئے کھلاڑی کو جگا دیا تھا۔اس پر وہ زین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولے، ’’تم ایک باکمال بچے ہو۔پہلی ملاقات میں ہی میری کرکٹ مجھے لوٹا دی۔اب میں چلتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل دیے اور تھوڑی دیر میں گھر پہنچے تو ان کےکان میں یہ آواز پڑی۔
”امی جان! ہماری اسکول ٹیم کے کوچ کہتے ہیں کہ اگر میں کرکٹ پر توجہ دوں توایک اچھا کھلاڑی بن سکتا ہوں۔‘‘ عبید نے کوچ کی بات امی کو بتائی اور کہنے لگا،
’’آپ ابو سے بات کریں۔وہ ہمیں صرف ایک باراسکول کی ٹیم میں کھیلنے کی اجازت دے دیں۔‘‘
”آپ لوگ ضد نہ کرو ۔آپ کے ابو نہیں مانیںگے اور پھر آپ دونوں موبائل پربھی تو کرکٹ گیم کھیلتے ہو نا ۔‘‘
”لیکن جو مزا میدان میں آتا ہے وہ موبائل پر کہاں۔‘‘ایک آواز ان کےکانوں میں پڑی تو وہ چونک اٹھے۔ وہ آواز ان کے ابو کی تھی ۔ دونوں حیرانی سے گھر میں داخل ہوتے اپنے ابو جان کو دیکھنے لگے۔
”کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟‘‘وہ مسکرا کر ان سے پوچھنے لگے۔
’’جی ابوجان۔‘‘ انہوں نے زور سے کہا۔
’’اور ہاں...اب کی بار گرائونڈ جاتے ہوئے مجھے بھی ساتھ لے جانا۔ اچھی کرکٹ کھیلنے کے لیے اچھا کوچ بھی تو ضروری ہے۔‘‘ اپنے ابو کی اس بات پر عبیداورانس خوشی سے جھوم اُٹھے۔
تبصرے