”یہ دیکھو دبئی کتنا خوب صورت ہے!“، حمزہ کے فیس بک اکاؤنٹ پر اس کے نئے دوست کا میسج آیا جس کے ساتھ دبئی کی خوبصورت تصاویر اٹیچ کی گئی تھیں۔
”واقعی! یہ تو بہت ہی خوبصورت ہے اور ایک ہمارا ملک ہے...“، حمزہ طنزیہ انداز میں یہ کہتے ہوئے وہ تصویریں دیکھنے میں مگن ہوگیا۔ جیسے جیسے وہ دبئی کی خوبصورتی دیکھتا ،ویسے ویسے اس کے ذہن میںاپنے گھراورملک کے خلاف نفرت بڑھتی جارہی تھی۔
حمزہ ایک ذہین مگر جذباتی نوعمر لڑکا تھا۔ اس کا بیشتر وقت موبائل فون اور لیپ ٹاپ پر گزرتا۔ اسے سوشل میڈیا کی رنگینیوں نے ایسا جکڑ رکھا تھا کہ وہ دنیا کے دوسرے ممالک میں رہنے والے بچوں کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر متاثر ہونے لگا۔ امریکہ، یورپ، دبئی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے بچے اسے خوشحال، خوش لباس اور کامیاب نظر آتے۔ان کے شاندار اسکول، کھیل کے میدان، پارک اور طرزِ زندگی نے اسے اپنا دیوانہ بنا لیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ جب بھی اس کے والدین اسے پاکستان کے بارے میں کوئی اچھی بات بتاتے، وہ فوراً بحث پر اتر آتا۔
” یہاں کچھ بھی اچھا نہیںہے“، وہ اکثرکہتا۔اس کے والدین اسے سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے لیکن اس پر سوشل میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ وہ ہر اس خبر کو سچ ماننے لگا جو پاکستان کے خلاف ہوتی ،چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔
ایک دن اسکول انتظامیہ نے طلبا کوپکنک پر لے جانے کا اعلان کیا۔ تمام بچے بے حد خوش تھے۔ حمزہ بھی پرجوش تھا۔پکنک کے دن بس میں بیٹھ کر وہ اپنے دوستوں سے مختلف موضوعات پر گفتگو کر رہا تھا۔ اس کی گفتگو زیادہ تر اپنے سوشل میڈیا کے دوستوں کے حوالے سے ہی ہوا کرتی تھی کہ باہر کے ممالک کس قدر ترقی یافتہ ہیں۔پارک پہنچ کر سب بچے کھیلنے میں مصروف ہوگئے۔ حمزہ بھی تفریح میں مگن تھا لیکن ایک وقت ایساآیا جب وہ کھیلتے کھیلتے اپنے گروپ سے الگ ہوگیا۔جب اس نے ارد گرد نظر دوڑائی تو کوئی شناسا چہرہ دکھائی نہ دیا۔ ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد اسے گھبراہٹ ہوئی ۔اسی لمحے پارک کے سکیورٹی گارڈز نے اسے روکا اور پوچھ گچھ کرنے لگے۔
”بیٹا، تم کون ہو اوریہاں کس کے ساتھ آئے ہو؟ تمہاری شناخت کیا ہے؟“ ”میں... میں الحمرا اسکول سے ہوں۔“ حمزہ نے جیب میں ہاتھ ڈالا تاکہ اپنا آئی ڈی کارڈ دکھا کر اپنی شناخت کرواسکے لیکن جیب خالی دیکھ کر وہ سخت گھبراگیا کیوں کہ اسے احساس ہوا کہ اس کا اسکول آئی ڈی کارڈ کہیں کھو گیا ہے۔
”لگتا ہے میرا کارڈ کھو گیا ہے۔“حمزہ نے پریشان ہوتے ہوئے بتایا۔ ”کوئی ثبوت ہے؟ تم کیسے ثابت کرو گے کہ تم اس اسکول کے ہو؟“ گارڈز کو اس پر یقین نہ آیا۔ وہ اسے اپنے آفس لے آئے۔اس ساری صورت حال سے وہ سخت پریشان اور خوف زدہ ہوگیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اسے پہلی بار احساس ہوا کہ جب شناخت نہ ہو تو انسان کس قدر بے بس ہوجاتا ہے۔کچھ ہی دیر بعد اسکول انتظامیہ نے پارک کے عملے سے رابطہ کیا اور تصدیق کے بعد اسے واپس لے لیا۔ لیکن وہ لمحے جو اس نے خوف کے عالم میں گزارے تھے، اس کے دل و دماغ پر گہرے اثرات چھوڑ گئے۔
گھر پہنچتے ہی وہ اپنے والدکے گلے جا لگا۔ انہوںنے اسے پریشان دیکھا تو پوچھنے لگے،”بیٹا، کیا تم ٹھیک ہو؟“”ابو، میں بہت ڈر گیا تھا۔ میرے پاس اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔“ حمزہ کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔آج مجھے احساس ہوا کہ انسان کی شناخت اس کے لیے کیا معنی رکھتی ہے۔“ اس کے والد نے اسے شفقت سے اپنے پاس بٹھایا اور کہنے لگے، ”کوئی بات نہیں بیٹا! ایسا ہوجاتا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ آئندہ محتاط رہیںگے اور اپنے سامان کی حفاظت بھی کریں گے۔“ بابا کی بات سن کر اس نے ہاں میں سر ہلایا۔جب انہوں نے دیکھا کہ حمزہ ان کی بات سمجھ رہا ہے تووہ کہنے لگے،”یقیناًآج آپ کو اپنے آئی ڈی کارڈ اور اپنی منفرد شناخت کی اہمیت سمجھ آئی ہو گی۔ جیسے اسکول کا آئی ڈی کارڈ آپ کے اسکول کی پہچان ہے،ویسے ہی دنیا میں ہمارا ملک ہماری پہچان ہے۔ہمارے لیے ہر وہ چیز اہم ہے جس سے ہم پہچانے جاتے ہیں،چاہے وہ اسکول ہو یا ہمارا ملک۔“انہوں نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی بدگمانی کی پٹی کو اتارنے لگے۔ حمزہ خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔اب وہ اس سے سوال کرنےلگے،”بیٹا! اگر ہم باہر کے ممالک کے اصولوں کو اتنا پسند کرتے ہیں تو کیا بہتر نہیں کہ ہم اپنے ملک میں بھی انہی اصولوں کو اپنائیں؟ہم بھی قوانین کی پاسداری کریں،اپنے ملک کو صاف ستھرا رکھیں،اپنے لوگوں کی مدد کریں اور جھوٹی خبروں کا شکار نہ ہوں؟ سوشل میڈیا پر ہر خبر کو بغیر تحقیق کے سچ مان لینا ٹھیک نہیں۔ ہمیں اپنے ملک کی خوبصورتی،اس کے مثبت پہلوؤں کو دنیا کے سامنے لانا چاہیے،نہ کہ صرف شکایات کرتے رہنا چاہیے۔“ حمزہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
وہ سمجھ چکا تھا کہ جس طرح شناخت کے بغیر وہ چند لمحے خوف زدہ تھا، اسی طرح اگر اس کا ملک نہ ہوتا تو وہ اپنی پہچان ہی کھو بیٹھتا۔اس دن کے بعد حمزہ کی سوچ بدل گئی۔ وہ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کا شکار ہونے کے بجائے خود تحقیق کرنے لگا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان کے مثبت پہلوؤں کو دنیا کے سامنے لانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ اس نے اپنے دوستوں کو بھی سمجھایا کہ شکایتیں کرنے کے بجائےاگر وہ خودتبدیلی لائیں تو اپنے ملک کو خوشحال دیکھ سکتے ہیں۔ حمزہ کو اب اپنے ملک سے محبت ہونے لگی تھی۔ اس کے ساتھ ہوئے واقعےکی بدولت وہ جان چکا تھا کہ پاکستان صرف ایک ملک ہی نہیں، یہ ہماری منفرد پہچان بھی ہے۔
تبصرے