’’امی جان! کھانا لگا دیں، بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ سیف نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا! ابھی لگاتی ہوں، آپ ہاتھ منہ دھو کر فریش ہو جائیں۔‘‘
سیف بستہ صوفے پر پھینکتے ہوئے فوراً ٹیبل پر آگیا۔
’’بیٹا ہاتھ تو دھو لو۔‘‘ امی نے ٹیبل پر کھانا رکھتے ہوئے کہا۔
’’امی جان!شیر کبھی ہاتھ نہیں دھوتے۔‘‘ سیف کی بات پر اس کی بڑی بہن خالدہ کمرے سے نکلتے ہوئے ہنس پڑی۔
’’اچھا ، مذاق تو نہ بنائو، دھو رہا ہوں۔‘‘ سیف نے منہ بسورتے ہوئے کہا ۔
’’ امی دیکھیں بستہ صوفے پر پڑا ہے، ٹائی کرسی پر اور موزے دروازے پر لٹکے ہیں۔ گھر آتےہی سب کچھ بے تریب ہوچکا ہے۔‘‘ خالدہ نے کہا۔
سب نے مل کر کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد سیف حسب معمول سونے کے لیے کمرے کی طرف جا رہا تھا کہ امی اسے مخاطب کرکے بولیں، ’’سیف بیٹا اپنا سامان سمیٹو، ہر چیز اس کی جگہ رکھو تاکہ گھر صاف ستھرا نظر آئے۔‘‘
’’ امی جان! باجی سے کہیں کہ وہ صاف کردیں۔ میں سکول سے تھک کر آیا ہوں جبکہ وہ مزے سے سو رہی تھیں۔‘‘ سیف نے اصرار کیا۔
’’صبح جب آپ سکول گئےتھے، میں تب سے جاگ رہی ہوں۔ میں امی کے ساتھ کام کررہی تھی۔‘‘ خالدہ باجی سیف کی بات سن کر ناراض ہوئیں ۔
’’امی... لیکن میں لڑکا ہوں اور لڑکے گھر کے کام نہیں کرتے۔‘‘سیف جلدی سےبولا۔
سیف کی بات پر امی حیران ہوئیں۔ انہوں نے اسے اپنے سامنے بٹھایا اورپیار سے بولیں، ’’دیکھو بیٹا! ہر شخص کو اپنا کام خود کرناہے۔ اپنا بیگ اور کتابیں سنبھالنا،اپنا یونیفارم اور جوتوں کو ان کی جگہ رکھنا آپ کی ذمہ داری ہے۔اس سے آپ کو اپنا کام خود کرنے کی عادت بھی پڑے گی اور نظم و ضبط کی پابندی بھی ہوجائے گی جو آپ کے مستقبل میں بہت کام آنے والی ہے۔‘‘
سیف امی کی باتیں توجہ سے سن رہا تھا۔امی نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور بولیں، ’’ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ اپنے کام خود کیا کرتے اور دوسروں کاہاتھ بٹاتےتھے؟ آپ کو بھی اپنے کام خود کرنے چاہئیں۔‘‘
امی کی باتوں کا سیف پر اثر ہوا۔ وہ بولا، ’’امی جان !میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج سے نہ صرف اپنا کام خود کروں گا بلکہ سکول سے آکر آپ کا ہاتھ بھی بٹایا کروں گا۔‘‘
سیف واقعی بدل چکا تھا۔اب وہ اپنے سارے کام خودکرتا۔اس کے اسکول سے گھر آنے کے بعد اب ہر چیز اپنی جگہ پر ہوتی جس سے اس کے گھر والے بہت خوش تھے۔
بچو! اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ آپ سے بھی سب خوش ہوں تو اپنے کام خود کرنے کی عادت ڈال لیجیے۔
تبصرے